اردو ادب تحریک آزادی
اردو ادب پر تحریک آزادی اور جمہوری بیداری کے اثرات۔
خارجی تحریکوں اور ساجی اور فکری تبدیلیوں کے زیراثر ادب بھی تبدیلیوں سے دوچار ہوتا ہے۔ معاشرے کے افراد کے فکری رویے ادب کی جہات کا تعین کرتے ہیں۔ برصغیر بھی انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی میں مختلف النوع تبدیلیوں کی زد پر رہا۔ غیرملکی سامراجی قوتوں سے آزادی کی خواہش کی بیداری اور پھر اس سلسلے میں عملی کوششوں کے نتیجے میں بھی ادب متاثر ہوا۔ آزادی کی اس تحر یک اور جمہوری بیداری کے اردو ادب پر اثرات کا " جائزہ لینے سے پہلے مناسب ہو گا اگر ان دونوں کے مفاہیم کا کسی قدرتعین کیا جاۓ ۔ ' تحریک آزادی دراصل جمہوری بیداری کا نتیجہ ہے۔ انسان کے پیدائشی حق آزادی کا شعور اور اس کے حصول کی خواہش جب عملی صورت میں ڈھلتی ہے تو تحریک کی شکل اختیار کرتی ہے۔ جمہوری فکر کی جڑین ہمارے ادب میں بہت گہری ہیں ۔ یہی فکر انیسویں صدی کے نصف آخر میں نئے تناظر میں بیدار ہوتی ہے۔ اس تناظر کے مطالعے سے قبل بہتر ہو گا کہ اردو ادب کے حوالے سے جمہوری فکر کے پس منظر پر ایک سرسری نظر ڈال لی جاۓ ۔ جمہوری فکر ایک وسیع تر فکری رویے کی نمائندگی کرتی ہے جو سیاسی اور ذہنی طور پر آزادی اور وسیع النظری پر دلالت کرتی ہے۔ جبکہ جموریت جدید سیاسی نظریے کے مترادف ہے جس کی رو سے کسی ملک کا سیاسی نظم ونسق چلانے کے لیے مطلق العنانیت یا بادشاہت کے خلاف ، ایک جمہوری نظام حکومت ، جس کی تشکیل راۓ عامہ کے ذریعے منتخبہ عوامی نمائندوں کی جماعت کرتی ہے، وجود میں آتی ہے۔ یہ حکومت ملک کے سیاسی نصب العین کا رخ متعین کرتی ہے ۔ اس طرح سے اجتماعی فلاح و بہبود کے لیے معاشرتی و معاشی لحاظ سے سب کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرتی ہے۔ جمہوری نظام حکومت کا تصور موجودہ دنیا میں خالص سیاسی ہو کر رہ گیا ہے لیکن جمہوری فکر اس سے متعلق ہوتے ہوۓ بھی اس سے ماورا ہے ۔ یعنی یہ سیاسی آزادی سے بلند ہو کر وسیع تر معنوں میں افراد اور اقوام کی ذہنی ، فکری اور تہذیبی اور اخلاقی زندگی میں عظیم انسانی اقدار کی تعمیر وتشکیل پرمحیط ہو جاتی ہے ۔ چنانچہ یہ اولا اس ذہنی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے جس کے بغیر نہ جمہوریت کا استحکام ہی ممکن ہے، نہ ہی انسانی اقدار اور اصولوں کی ترقی و ترویج ہو سکتی ہے۔ حریت فکرانسان کا پیدائشی حق ہے لیکن غلامی ، سیاسی تشدد، معاشی بدحالی ، مذہبی تعصب، علاقائی عصیت اور نسلی امتیاز اس کے پینے میں مزاتم ہو جا تا ہے ۔ انسانی پینی طرح طرح کی سابی اور سیاسی جکڑ بندیوں کا شکار ہو جا تا ہے ۔ وہ تو ہمات میں مبتلا ہو جا تا ہے۔ نتیجے میں وہ جمہوری فکر کو پروان چڑھانے میں نا کام رہتا ہے اور اس کی انفرادی صلاحیتیں منجمد ہو کے رہ جاتی ہیں ۔ قومی سطح پر بھی وہ رنگ نسل ، قومیت اور زبان کی حد بندیوں میں گرفتار ہو کر جذباتی یک جہتی ، مسادات ، رواداری اور متحدہ مچر کی قدروں کی آبیاری نہیں کر سکتا۔ ہمارا ملک صد لوں سے سیاسی انقلابات سے گزرتا رہا ہے ۔ یہ مختلف وقتوں میں مطلق العنانیت، شہنشاہیت، بدی تسلط اور غلامی کا شکار رہا ہے ۔ ان سیاسی حالات میں جبریت، افلاس اور پس ماندگی کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کرنے کے باوجود یہاں کے لوگوں میں آزادی کی روح زندہ رہی ہے اور اس کا مؤثر اظہار ہمارے تخلیق کار، جو معاشرے کے نمیر کا درجہ رکھتے ہیں، کرتے رہے ہیں ۔ اردو ادب اور خاص کر شاعری میں ابتدا ہی سے جمہوری فکر کے محدود سیاسی اتصور کے بجاۓ اس کے عامگیر انسانی تصور کے نشانات لتے ہیں ۔ شعرا نے ہمیشہ حریت کر کے تقدس ، ضرورت اور اہمیت کا محسوس کیا ہے، چنانچہ انہوں نے سیاسی ، ساہی او رند ہی روایات و رسوم کی بالادستی اور جبریت کے خلاف اپنے ربل کا اظہار کیا ہے ۔ مسلمانوں میں تصوف اور ہندوؤں میں بھکتی تحریک نے انسان کو روری ار کی امت سے سے آشنا کرانے کی سعی کی اور انسان دوستی ، رواداری بخل ، محبت اور وع اثر ہی کے جذ بات کی اہمیت کو واضح کیا۔ الیسویں صدی کے وسط کے بعد کے لکھنے والے انگریزی تعلیم کے ذریعے مغربی اوب اور فلسفہ سے متعارف ہوۓ ۔ انہوں نے کئی مغربی مفکرین کے انقلابی اور جمہوری خیالات سے واقفیت پیدا کر لی اور آزادی اور جمہوریت کے نئے مفاہیم سے آشنا ہوۓ ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی تسلط کے خلاف بغاوت اور احتجاج ہونے لگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا اور یہ مختلف تحریکوں کی شکل اختیار کرتا گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک آزادی کی تحریکوں نے بہت زور پکڑ لیا۔ اس کے بعد کا زمانہ ایک مسلسل جد و جہد کا زمانہ ہے جس کی منزل برصغیر کی آزادی تھی ۔ اس سارے سفر میں ادب نے بھی اپنا کر دار مؤثر طور پر ادا کیا، خود خارجی عوامل سے متاثر ہوا اور اپی قوت سے معاشرے پر بھی اپنے اثرات ڈالے ۔ ان اثرات کا مشاہدہ کرنے سے پہلے ہم اس دور کے سیاسی اور ثقافتی پس منظر کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔ سیای تناظر میں دیکھا جاۓ تو برصغیر میں بیسویں صدی کے پہلے ہی عشرے میں ہونے والے مختلف واقعات کے نتیجے میں مسلمانوں پر یہ واضح ہو گیا کہ اب آزادی کے لیے ان کی کوششیں ہندوؤں کے ساتھ مشتر کہ نہیں ہوں گی بلکہ انہیں اپنا راستہ خود چنا ہو گا۔ اسی سوچ کے تحت 1906 ء میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد پے در پے واقعات واقعات نے اس سوچ کو اور بھی متحکام کیا۔ حکومت برطانیہ نے تقسیم بنگال کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔ اس سے ان پر مسلمانوں کا اعتاد کزور پڑ گیا۔ مچھلی بازار کان پور کے واقعے سے یہ نفرت اور بھی بڑھی ۔ دوسری طرف ہندو انتہا پسندوں کی مسلم کش سرگرمیاں، گاؤ کشی کے مسئلے پر فسادات ، اردو اور ہندی کا تنازع اور تقسیم بنگال کے خلاف ہندوؤں کے پر تشدد احتجاج نے صورت حال کو اور بھی بگاڑ دیا۔ اور مسلمانوں کو صاف نظر آنے لگا کہ متحدہ ہندوستان کی آزادی ان کے لیے سیاسی، سماجی ، معاشی ، ثقافت اور مذہی ہرنا پرانا تشخص ختم کر دے گی ۔ اس لیے مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا جو کافی حد تک تسلیم بھی کر لیا گیا ۔ مسلم لیگ کے قیام کے پیچھے یہی سوچ کارفر ماتھی کہ مسلمانوں کو الگ قومیت کا تشخص دیا جاۓ ۔ 1909 ء میں منٹو مارلے اصلاحات سے، کم از کم انگریزوں کی نظر میں، یہ مقصد ایک حد تک پورا ہوتا دکھائی دیا۔ 1915 ء میں دستوری اصلاحات کے نفاذ کی بات ہوئی تو ہندوؤں اور مسلمانوں نے مفاہمت کی راہ اپنائی تا کہ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ اسی سال مسلم لیگ اور کانگریس کا اجلاس بمبئی میں ہوا جس میں دونوں جماعتوں نے اپنی اپنی مجلس تشکیل آئین قائم کی ۔ 1916 ء میں ان دونوں مجالس کا مشتر کہ اجلاس ہوا جس میں قائد اعظم کی مفاہمتی تجاویز بعض ترامیم کے بعد منظور کر لی گئیں ۔ بعد میں لکھنو میں منعقد ہ اجلاس میں ان کی توثیق کر دی گئی اور اسے ’میثاق لکھنو‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس معاہدے سے مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ اب انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں نے بھی ان کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے اس سمجھوتے کے علاوہ ہوم رول تحر یک بھی ایک اہم سیاسی واقعہ تھا۔ اس تحریک کی بانی مسز اینی میٹ تھیں ۔ جلد ہی یہ تحریک بہت مقبول ہوئی اور انگریزوں نے اسے خطرہ بجھتے ہوۓ قائد تحر یک کو نظر بند کر دیا۔لیکن اس کے نتیجے میں سیاسی شعور رکھنے والا طبقہ زیادہ پر جوش ہو گیا۔ اس سے نہ صرف مسز اپنی بیٹ کو رہا کر دیا گیا بلکہ دستوری اصلاحات کے نفاذ کا بھی اعلان ہو گیا۔ گاندھی جی کی جنوبی افریقہ سے واپسی بھی اس دوران ہوئی ۔ شروع میں انہوں نے انگریزوں سے تعاون اور حسن سلوک کی راہ اختیار کی ۔ نینجا ایک ماہ میں ستر ہزار ہندوستانی انگریزوں کے لیے جنگی خدمات کے لیے بھیج دیے گئے تحریک خلافت اور تریک عدم تعاون کی مقبولیت اور جوش کی وجہ سے یہ زمانہ مسلم لیگ کے پس منظر میں چلے ہانے کا ہے ۔ 1924 ء میں قائد اعظم کی صدارت میں لاہور میں ہونے والا اجلاس مسلم یگ کے پر متحرک ہونے کا اعلان تھا۔ اس کے بعد کا جلسہ 1927 ء میں دہلی میں ہوا۔ اسی جلے میں تجاویز دہلی پیش کی گئیں جن میں کہا گیا تھا کہ سندھ اور بمبئی کو الگ الگ صوبوں کا درجہ دیا جاۓ ، صرحد اور بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات نافذ کی جائیں، پنجاب اور بنگال میں آبادی کے تناسب سے نمائندگی دی جائے اور مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کو بھی مناسب نمائندگی دی جاۓ ۔ اسی دوران میں شملہ میں اسمبلی کے اجلاس کے دنوں میں قائداعظم کی صدارت میں ہند وسلم مفاہمت کی ایک اور کوشش ہوئی لیکن ہندوؤں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ کوشش ناکام ہوئی ۔ نومبر 1927 ء میں سائمن کمیشن قائم کیا گیا جس کا مقصد آئینی اصلاحات کے لیے تجاویز پیش کرنا تھا۔ چونکہ کمیشن کے تمام ارکان انگریز تھے اس لیے گانگریس نے اس کمیشن سے تعاون سے انکار کیا۔ قائد اعظم بھی اس سے تعاون کے مخالف تھے لیکن کچھ دوسرے ساتھی اس کے حق میں تھے اس لیے مسلم لیگ میں بھی اس مسئلے پر اختلافات پیدا ہوۓ ۔ اسی زمانے میں انگریزوں نے اہل ہند کو آئین کے متعلق اپنی متفقہ اور معقول تجاویز دینے کی پیش کش کی ۔ کانگریس کی دعوت پر 1928 ء میں تمام جماعتوں کا اجلاس ہوالیکن سندھ کے مسئلے پر اتفاق راۓ نہ ہونے کی وجہ سے ان کمیٹیوں کی رپورٹ تیار نہ ہوسکی ۔ نہرو کی زیر صدارت ایک کمیٹی قائم کر کے اس مسئلے پر نظر ثانی کی گئی اور اس کے بعد نہرو رپورٹ پیش کی گئی ۔ مسلمانوں نے اس میں کچھ ترامیم کا مطالبہ کیا جو ہندوؤں کی ضد کی وجہ سے نہ مانا گیا۔ یہ رپورٹ حکومت کو بیجی گئی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اگر 1929 ء کے اختام تک اس کے مطابق دستور کا نفاذ نہ ہوا تو کانگریس نو آبادیاتی در جے کے مطالبے کو چھوڑ کر مکمل آزادی کا مطالبہ شروع کر دے گی ۔ اس رپورٹ کے نتیجے اور کچھ ہوا یا نہیں کم از کم مسلمانوں کو متحد ہونے کا احساس ضرور ہو گیا۔ 1929 ء میں وائسرائے لارڈ ارون نے گول میز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا۔ کانگریس نے بچھ شرائط پیش کیں جن کے منظور نہ ہونے پر کانگریس نے اس کانفرنس میں شمولیت سے انکار کیا اور 1930 ء میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کی جس کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔ 1931 ء میں مصالحت ہوئی اور یہ تحر یک واپس لے کر دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت پر آمادگی ظاہر کی ۔ مسلمانوں کی نمائندگی سر آغا خان نے کی۔ مسلسل ک اس کے نتیجے میں جداگانہ انتخاب کو تسلیم کیا گیا جس پر ہندوؤں نے پھر احتجاج کیا۔ برطانوی حکومت نے اپنے دستوری فیصلے شائع کیے تو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے اس کی مخالفت کی ۔ نیتا ایک کمیٹی قائم کر کے مختلف طبقوں کے بیانات سنے گئے اور اس کمیٹی کی رپورٹ برطانوی پارلیمنٹ میں منظور ہوئی اور اسے گورنمنٹ ایکٹ آف انڈیا 1935 ء کا نام دیا گیا۔ 1936 - 37 ء کے انتخابات میں جن علاقوں میں کانگریس کو غلبہ حاصل ہوا وہاں مسلمانوں پر تشدد کی وارداتیں ہونے لگیں اور جگہ جگہ فسادات شروع ہو گئے جن میں مسلمانوں کو بہت جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ سرحد اور سندھ میں مسلمانوں، پنجاب اور بنگال میں اتحاد پارٹی اور باقی سات صوبوں میں کانگریس کی حکومت قائم ہوئی ۔ ہندوؤں نے اپنے اقتدار کے صوبوں میں مسلمانوں کے حقوق کو پائمال کیا۔ 1939 ء میں دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ کانگریس کی وزارتیں مستعفی ہوئی اور مسلمانوں نے پورے ملک میں یوم نجات منایا۔ اس سارے پس منظر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے الگ تشخص کو قائم رکھتے ہوۓ ہندوؤں سے مصالحت کی کوششیں کیں جو ہر مرتبہ ہندوؤں کی ہٹ دھری کی وجہ سے نا کام ہوتی رہیں ۔ کانگریس کے اس طرزعمل کی وجہ سے مسلم لیگ کو میں فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گئی کہ ہندو اکثریت کے تحت اپنی تہذیب و تمدن ، اپنی زبان اور مذہب، اپنی اقدار اور نظریات و نصب اعین کر برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ یہیں سے ایک الگ مسلم حکومت قائم کر نے کی ضرورت کا احساس ہوا جو مارچ 1940 ء میں ایک قرارداد کی شکل میں منظور ہوا۔ اس سے تحریک آزادی کو ایک واضح منزل ملی اور اگلے سات سال کی مسلسل کوشش سے پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں ثقافتی سطح پر بھی کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں جن کا اثر اردو ادب پر پڑا۔ ان کا بھی مختصر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ انیسویں صدی ہی سے خالص احیائی ہند وتحریکیں شروع ہو چکی تھیں جنہوں نے بیسویں صدی تک آتے آتے بہت منظم شکل اختیار کر لی ۔ مسلمانوں نے بھی ان کے مقابلے پر اپنی کوششیں کیں ۔ یوں فضا بہت کشیدہ ہو گئی ۔ اسی اثنا میں بدنام زمانہ کتاب رنگیلا رسول کی اشاعت سے مسلمانوں کے جذبات میں آگ بھڑک اٹھی ۔ اس کے مصنف راجپال کوقتل کر دیا گیا۔ 1936 ء میں شردھانند کو بھی اس کی تقریروں اور حرکتوں کے باعث قتل کر دیا گیا جس سے کشیدگی کی فضا اور بھی خراب ہوگئی ۔ دونوں طرف مسکری تربیت شروع ہوگئی اور امن خطرے میں پڑ گیا اور فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے ۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اس تازہ صورت حال میں ہندوستان کے باشندوں خصوصاً مسلمانوں میں مادی ، ارضی اور مقامی مسائل کی طرف توجہ بڑھ گئی ۔ تر کی میں خلافت کی منسوخی اور جمہوریت کے قیام کی وجہ سے ہندوستان کے رائخ العقیدہ مسلمانوں کو بہت دکھ پہنچا۔ اسی سے نئے اذہان میں یہ شکوک و شبہات پیدا ہوۓ کہ سیاست، معاشرت اور معیشت میں دین کو کہاں تک داخل کرنا مناسب ہے۔ اس دوران روس میں اشترا کی انقلاب کے مستحکم ہو جانے کے باعث نو جوانوں کی نہ صرف تشلیک میں اضافہ ہوا بلکہ اشترا کی فکر میں بھی دپی پیدا ہوئی ۔ اسی دلچسپی کے مضر اثرات کو روکنے کے لیے بعض اہل علم حضرات نے اسلام کی مدافعت و حمایت اور اس کے سیاسی، معاشرتی اقتصادی اور اخلاقی و فکری نظام کی بھنے اور سمجھانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ یہ دونوں ر قانات بعد میں ترقی پا کر اہم رویوں کی شکل میں ڈھل گئے ۔ اس دور میں مختلف تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ بعض ادبی اور تحقیقی ادارے بھی قائم ہوۓ ۔ ان اداروں سے اردو اور ہندی کے فروغ کے لیے کوششیں کی گئیں ۔ اورتل کالج میگزین کا اجرا بھی ہوا جس میں مختلف مشرقی زبانوں میں مضامین شائع ہوتے تھے ۔ سرسید تحریک کے زیر اثر اور دیگر کچھ وجوہات کی بنا پر پہلی عالمی جنگ سے قبل رے تعلیم یافتہ طبقے نے انگریزی عادات و اطوار کو اپنانا شروع کر دیا تھا۔ ایسا کرنے سے وہ خود کو مہذب اور شائستہ ظاہر کر نے کے خواہش مند تھے ۔ اس طبقے نے دیکھا کہ انگریز مادی، عملی اور افادی قدروں کو مذہب کے ظاہری پہلوؤں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت دیتے ہیں تو اس نے بھی آزاد خیالی ، روشن فکری ، مذہبی تشکیک اور مادہ پرستی کو نئی تہذیب کا لازمہ سمجھ کر اختیار کر لیا لیکن انگریزوں کی اخلاقی صفات اور ذہنی خصائص کو اپنانے کی کوششیں بہت کم ہوئیں۔ اس فیشن کی رو میں ملک میں جا بجا خصوصاً شہروں میں مشرقی تمدن کے ساتھ ساتھ مغربی تمدن کے مصنوی نمونے بھی نظر آنے لگے ۔ اکبر الہ آبادی نے اس طبقے کو نشانہ تضحیک بنایا۔ جنگ عظیم کے خاتمے کے ساتھ ہی انگریزوں کا نیا روپ سامنے آیا تو یہ طبقہ بھی اپنے نظریات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوا۔ سیاسی اور سماجی واقعات کی شدت کے باعث حکمرانوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ طبقہ بھی دوسرے طبقوں کے ساتھ مل کر آزادی کی جد و جہد میں شریک ہوا۔ دیگر ثقافتی تبدیلیوں میں طرز زندگی ، مصوری ، موسیقی ، خطاطی اور ادبی سرگرمیاں وغیرہ شامل ہیں ۔ انگریزوں کا طرزتعمیر مسلمانوں سے مختلف تھا۔ نئے تعلیم یافتہ طبقے نے ای کی تقلید میں انگریزی طرز کی رہائش اختیار کرنا شروع کی ۔ مغلیہ سلطنت کے خاتمے نے مرکز کو کمزور اور ریاستوں کو مشہور کیا تو وہی راہوں ، مہارا ہوں اور لوابوں نے موسموٹاروں کی بہت سر پری کی ۔ اس کے تو میں انیسویں صدی کے ربع اول کا زمانہ کا یکی موہانی کے عروج کا زمانہ ہے ۔ مصوری اور خطالی جیسے لون کو بھی فروغ حاصل ہوا اور مسلمانوں میں عبدالرحمن چنائی اور ماسٹر اللہ بخش جیسے لوگ پیدا ہوئے ۔ اسی طرح خلالی کے میدان میں بھی عہدالجید پرویں رقم اور دوسرے کی اساتد ولن پیدا ہوۓ ۔ اس وسیع سپای اور ثقافتی تناظر میں اردو ادب میں گئی تہد بایاں پیدا ہوئیں ۔ ہے ایک نئے دور کا آغاز تھا بقول ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار بیسویں صدی کے آغاز اور پہلی جنگ عظیم تک برلیم کو جن سیاسی اور سابی حالات سے دوچار ہونا پڑا اور جو اردو شاعری میں بھی منعکس ہوۓ ان کی مختصری فہرست ہی ہے ولن اور وطنیت کا تصور، سیاسی محکوی کا شدید احساس اور جذ بہ آزادی کی تڑپ،ملکی باشندوں کی ناتماقی اور اس کا اثر اجتماعی زندگی پر، اسلامیان ہند کی نئی کروٹ اور علی گڑھ تحر یک کا رومل، اتحاد اسلام دور، نئی روشن خیالی کا ظہور تحر یک ہوم رول وغیرہ ۔ ملکی زندگی کے یہ چند خط و خال ان سیاسی اور ساری را تانات کی نشاندہی کرتے ہیں جو انیسویں صدی کے اسلامی رجحانات کے بعد رفتہ رفت بساط ہند پر ابھرے۔ اس دور کی عمومی زندگی میں امید و ہیم کے ہنگام میں شدید بے چینی اور عدم اطمینان کی کیفیت پائی جاتی ہے، جسے عصر نو کی تمہید کہا جا سکتا ہے ۔‘( 1 ) مسلمانوں کے فکر پیسل کو ابتدائی طور پر سرسید تحر یک بہت حد تک متاثر کر چکی تھی ۔ سرسید کی زندگی ہی میں اس کا رہسل بھی شروع ہو گیا تھا۔ اکبر الہ آبادی اور اودھ پنچ اس میں پیش پیش تھے۔ 1901 ء میں 'مخزن لاہور کا آغاز ہوا تو یہ رومل سرسید کی واقعیت اور حقلیت کے مقابلے میں اردو ادب میں تخیل اور رومانویت کے عناصر کے انفور کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس کے علادہ اساعیل میرٹھی سلیم پانی پتی ، چیکیت ، بے نظیر شاہ اور دیگر شعرہ کے ہاں فطرت نگاری، بند دستانی ماحول ، وطن دوستی ، سادگی ، گھر یلو روزم و زندگی کے حسن کی تصویر کشی کی گئی ۔ یوں جیسویں صدی کا آغاز دبستان سرسید کی واقعیت عقلیت اور افادیت کے مقابلے میں لطیف تخئیلیت ، حسیت اور لذتیت کے پہلو سامنے آئے ۔ لیکن اس تحریک کو باغیانہ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ دراصل آسودگی اور خود اعتمادی کا ماحول پیدا کرنے کی ایک کوشش تھی ۔ اس تحر یک کو رومانوی تحریک کا نام دیا گیا۔ اس تحریک کے آغاز کرنے والوں میں یلدرم کا نام نمایاں ہے ۔ جمال پرستی کے اس زاویے میں نیاز فتح پوری اور ل ۔احمد اکبر آبادی بھی ان کے شریک تھے ۔ یہ لکھنے والوں کا وہ گروہ تھا جو نثر کے پردے میں شاعری کرتے تھے ۔ اس گروہ کے نزدیک ادب کا مقصد اصلاح وانصیحت نہیں بلکہ تخلیق حسن وتکمیل فن تھا۔ مہدی افادی ، مجنوں گورکھپوری، - حجاب اسمائیل بھی اس دبستان کے نمائندے ہیں۔ یہ زاویہ نگاہ صرف تخلیقات تک محدود نہ رہا بلکہ تقید میں بھی مہدی افادی اور نیاز فتح پوری وغیرہ نے اس رنگ کو اپنایا۔ رومانویت بظاہر خارجی حقیقتوں سے فرار کی ایک شکل نظر آتی ہے لیکن اس میں کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جو دراصل آزادی کی تحریکوں اور ساجی بیداری کے پیدا کردہ ہیں ۔ بغاوت، اشتعال کی حدوں کو چھوتا ہوا جذ بہ ماضی کی بازیافت وغیرہ موجود ماحول کے خلاف ایک ردعمل کو ظاہر کرتے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر انور سد مد ان ( رومانوی ادیوں) کے پس پشت خیال کی آزادی اور جہان کہنہ کو کست دے کر جبان ٹو کی تمیر قدرمشترک کے طور پر موجود تھی ۔ اس کوشش میں رومانی تحریک نے ایک سرکش فوج کی طرح آگے بڑھنے اور قدامت کی ہر شے کو مسمار کرنے کی سعی کی .اہم بات یہ ہے کہ تجدد کی اس لہر میں دیشتر اوہا ئے مغربی ادب کی اسٹاف کو اردو میں راج کرنے کی کوشش تو کی لیکن ان کے مطربی ملراج کو قبول نہیں کیا۔ اور کل او ہا نے مشرق کی روح کو نہ صرف برقرار رکما با شرق گونہ کا اتاب کہنے پر بھی اصرار کیا اور اس کی تنبدی برنزی کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ اردو کی رومانی تحریک میں مشرق پاندی ایک ایسا آیڈیل ہے جواپی قوت ماضی کی عظمت سے حاصل کرتا ہے ‘‘( 2 ) جنگ عظیم سے پہلے کے کچھ واقعات نے عوام کی دلا پاوں کا رخ سیاست کی طرف موڑ دیا جس سے لائی ہیجان اور ہذہاتی جوش و خروش پیدا ہو گیا۔ حسرت موہانی کا اردوئے معلی، وحیدالدین سلیم کا ہفتہ دار مسلم گزٹ، مولانا ظفر علی خان کا روز نامہ 'زمیندار، مولانا ابوالکلام آزاد کا 'الہلال اور مولانا محمد علی جو ہر کا کامر یڈا اس دور کے نمائندو مسلم اخبارات و رسائل ہیں ۔ ان سب میں اگر بڑوں کی سیاسی پالیسیوں کے خلاف جذبات کا اظہار ادبی صورت میں ماتا ہے۔ سیاسی واقعات کے زیراثر شدید اور تند و تیز جذبات کا اظہار نظم و نثر دونوں میں ہونے لگا۔ جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تریکوں اور ہنگاموں کا زمانہ تھا۔ عوام میں قومی بیداری اور سیاسی سوجھ بوجھ بیدار کرنے اور انہیں مجھنجھوڑ نے کی ضرورت تھی۔ یہ کام جذباتی ، جو شیلے اور خطیبانہ انداز کے بغیر مشکل تھا۔ چنانچہ مولانا ظفر علی خان، مولانا ابوالکلام آزاد اور محمد علی جو ہر کے ہاں یہ عناصر ہ افراط ملتے ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ لکھنے والے منفیقی واقعات سے صرف نظر نہیں کر سکتے تھے۔ لہذا لظم اور نثر دونوں میں سیاسیات کی جھلک پورے جوش کے ساتھ نمایاں رہی ۔ قظفر علی خان ، اکبر الہ آبادی ، چیکوست ، آغا حشر، غلام بھیک نیرنگ وغیره کی بیسیوں فلمیں سیاسی موضوعات پر ہیں۔
اقبال نے ان تمام مسائل پر نظری اور فلسفیانہ انداز میں غور کیا۔اقبال کے کام کے ذریعے اردو شاعری کو نہ صرف وعدت فکر بلکہ ذوق یقین بھی ملتا ہے ۔ ان کے پیام کی ہمہ گیری ، فعالیت علمی و عملی امکانات ، انقلابی خصوصیات ، انسان دوستی اور انسان کی غیرفانی صلاحیتوں پرایمان دراصل انہی حالات کا رومل تھا جس کے ذریعے انہوں نے مسلمانوں میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ اقبال اور ان کی ہم عصر اور بعد کی شاعری میں مانی سے زیادہ مستقبل کا اور اپنی حالت پر ماتم سے زیادہ پکھ کر نے کے عزم کا اظہار ہوتا ہے ۔ جنگ عظیم سے پہلے ہی حالی، اسامیل ، اکبر الہ آبادی، چیکوست اور اقبال کے ہاتھوں اردو غزل اپنے قدیم روایتی انداز نظر کو اسلامی ، حکیمانہ اور عصری رمخانات کو اپنے دامن میں جگہ دے رہی تھی تاہم امیر اور داغ ہی غزل کے مقبول شاعر رہے۔ جنگ عظیم کے بعد صورتحال بدل گئی اقبال نے غزل کو اس طرح بدلا کہ اس میں عظمت و وقار، تازگی و ندرت اور ایک نئی رمزیت و اشاریت ، معنویت اور علمیت پیدا کر دی ۔ دوسرے غزل گو شعرا ینی حسرت، فانی ، یگانہ ، اصغر گونڈوی ، جگر مراد آبادی وغیرہ نے اقبال کی طرح اس صنف کو نہیں برتا۔ لیکن ان کی نفسیات، ان کے طرز احساس، ان کے لہجے اور ان کے رویے میں نے حالات اور نئے تصورات کے تحت تبد یلی آ گئی۔ نئے عشقیہ تصورات اور زندگی کے سیاسی اور ساجی تاثرات غزل میں راہ پانے لگے ۔ ان حالات کی وجہ سے جہاں مندرجہ بالا خارجی زاویہ پیدا ہوا د ہیں کچھ ادیوں نے داخل میں پناہ لی ۔ یہ کچھ تو ان کے اپنے طبعی میلان کا اثر تھا اور کچھ اس خارجی پہلو کا ر ٹمل بھی ۔ اسی دور میں بعض شعرا کے ہاں شعر و ادب کی مقصدیت سے قطع نظر خالص فنی اور تاثراتی انداز نظر پیدا ہوا۔ ان کی دنیا خوش آئند جذبات کی ایک حسین کائنات بن گئی ۔ اس قبیل کے شاعروں کا عشق حسن سے زیادہ اس سے پیدا شدہ جذ بہ سرستی سے تھا اور ان کا تصور انقلاب ان کی داخلی آرزو مندی کا آئینہ دار ۔ ان شاعروں میں اختر شیرانی ، فاخر اوی عار سے اللہ مان ، بوش و آبادی ، مویٹ بالر ھری اور ان کے بعد عالم اللہ امر ساغر های استر الماری اور اسان دائن ومیرہ کے نام سے ہوا سکتے ہیں ۔ ڑ کے والے سے دیکھا ہواۓ اگر افسانہ نگاری کا آغاز بھی بیسویں صدی شو و پی پی پی اور پیدرم کے ہاتھوں انکی ائوں ہوا ہے۔ اردو ناول امراؤ بیان ارا اور خواب اسی کی شکل میں نئے نفسیات اور منطق کی دنیا میں قدم رکھ رہا تھا۔ پریم پیر کے ابتدائی دور کے افساۓ ، پیدرم ، سلطان حیدر پوش اور پیار قوری کے افساۓ سب واستانوں کی رگیں روایت کی پاو ولا تے ہیں۔ تاہم اس اشتراک کے باوبو ان لکھنے والوں کے تخلیقی حرکات یکساں نیں تے ۔ پریم پڑی اور ہوش متھری اور اصلای حرکات رکھتے تے۔ ریم پیر کا مامور پہ تھا کہ ان کے افسانوں کے ذریے قوم اور وطن کی محبت اور اس مرتے میں تن من ومن سب و نزار کر وپے کا ہار پہ پیدا کیا ہاۓ ۔ ای دوران روس میں اشترا کی انقلاب برپا ہو پر کا تھا اس کے اثرات ستار وستان میں بھی پچ پچکے تھے ۔ بقول ڈاکٹرٹس الامرین صدری " 1917 ء کے روی انقلاب نے اشتراکیت ، محنتے اور سرماۓ کے موضوعات پر اہل کر کی توبہ کو مرکوز کر دیا تھا ہندوستان میں یہ احساس بھی پید ہو رہا و رہا تھا کہ سیاسی آزادی کا مطالبہ برحق سہی لیکن سیاسی آزادی اس وقت تک بیکار ثابت ہو گی ، جب تک اس کے ساتھ ہی عوام کی معاشی آزاری بھی شامل نہ ہو۔‘‘ ( 3 ) اس کے نتیجے میں مزدور کسان ، افلاس ، رکا ری ، بیعات سرمایہ داری سوکیت ہیے مضامین و موضوعات بھی شعروادب میں جگہ پا گئے۔ 1990 ء کے عالمگیر مواشی بحران کے بعد حقیقت نگاری کا روحان بہت ساوی ہونے لگا اور افسانہ و ناول کی دنیا میں اترے اور تخدیلیت کو زوال آ گیا۔ نئے لکھنے والوں میں سدرشن ، سجادظہیر ، احمدعلی ، سید فیاض نمود، اختر انصاری ، اختر راۓ پوری، اختر اور بیوی ، او پندر ناتھ اشک ، کرشند چندر ، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی ، سعادت حسن منٹو، احمد ندیم قاسمی ، غلام عباس وغیرہ منظر عام پر آۓ جنہوں نے ترقی پسند تحریک کے لیے راستہ ہموار کیا۔ اس دور کے کچھ ادیوں نے پرانی سابی قدروں کے خلاف آواز اٹھائی ۔ مغربی علوم و افکار کے زیراثر زندگی ، سماج اور انسان کے متعلق نئے سوالات اٹھاۓ گئے ۔ معاشرے کے پرانے سانچوں کو توڑنے پر زور دیا گیا اور انقلاب کی اس خواہش کے نتیجے میں بہت سا تخریبی عمل بھی بروۓ کار لایا گیا۔ بقول ’’اردو میں اس انقلابی تخریب کا پہلا اہم کارنامہ ایک مجموعے کی صورت میں شائع ہوا جس کا نام’انگارے‘‘ تھا۔ اس کتاب میں ہزار نقائص سہی لیکن اس کی اہمیت سے انکارنہیں ۔ اس کی اشاعت سے نئے ادب نے خودمختاری کا علم بلند کیا۔ یہ سماج پر پہلا وحشیانہ حملہ تھا . .. اس کتاب کا مقصد نئی قدروں کی تعمیر سے زیادہ پرانے اصولوں کی تخریب تھی ۔‘‘( 4 ) ترقی پسند تحر یک اد ب کے ذریعے تبلیغ اور عملی جدوجہد کے ذریعے ملک میں انقلاب لانے کی آرزو مندتھی ۔ اس کو آغاز ہی میں فعال حیثیت حاصل ہو گئی اور اس نے ملک کی ادبی فضا میں تحرک اور رومل پیدا کیا۔ اس تحریک کے منشور میں زندگی اور سماج کے جن بنیادی مسائل کو موضوع بخن بنانا قرار پایا ان میں بھوک ،افلاس ، ساجی پستی اور غلامی کے مسائل ، جن میں غیر ملکی سامراج کے خلاف جدوجہد کو ابھارنے کے علاوہ خاندن، ند ہب جنس ، جنگ اور سماجی کے بارے میں رجعت پسندی اور ماضی پرستی کے خیالات کی ک تھام کر نا اور شعرو ادب میں سائنسی عقلیت پسندی کو فروغ دے کر تغیر اور ترقی کی مایت کرنا شامل تھے ۔ اس تحریک نے آزادی رائے کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا۔ اگر چہ اس تحریک کے وجہ منفی پہلو بھی ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ اس تحریک کے زیراثر اردو ادب کا جاوداں سرما یخلیق ہوا۔ بقول ڈاکٹر انور سدید ترقی پسند تحریک کے زیراثر جو ادب تخلیق ہوا اس پر ترقی پسند نظریے کی چاپ گہری گی ہوئی تھی ۔ چنانچہ اس ادب میں پراپیگنڈا، تشہیر اور تبلیغ کا عنصر وافر مقدار میں موجود ہے اور تحریک کا مقصد بے حد نمایاں نظر آ تا ہے ۔ تاہم جب زندگی کا مشاہدہ ادیب کے تجربے کا جزو بن جاتا ہے تو ایسے ادب پارے بھی تخلیق ہوتے ہیں جن میں جمالیاتی شان موجود ہوتی ہے اور جنہیں تنقید کے بخت پیانوں پر پرکھنے کے باوجود جاوداں قرار دیا جا سکتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ترقی پسند تحریک کے بعض ادبا نے جو ادب پیش کیا اس میں زندگی کی تصور ہی نہیں بلکہ اس کی رواں تنقید بھی موجودتھی اور اس نے مستقبل کو متاثر بھی کیا ہے ۔‘‘( 5 ) جموعی طور پر دیکھا جاۓ تو سیاسی حالات اور سماجی اور جمہوری بیداری نے ادب کو داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر متاثر کیا۔ ادب کے موضوعات اور فکری پس منظر میں بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اصناف، ہیت ، اسلوب اور تکنیک کے حوالے سے بھی متنوع امکانات کے در پے دا ہوۓ۔