قرۃ العین حیدر
قرۃ العین حیدر سے ایک ملاقات
قرۃ العین حیدر ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ ء کو سجاد حیدر یلدرم ( رومانوی افسانہ نگار ) اور نذرالباقر ( ناول نگار کے ہاں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں ۔ وہ اردو ادب کا انمول سرمایہ ہیں ، جنہوں نے ناول ، ناولٹ ، افسانہ، سفر نامہ اور تراجم میں اپنا لوہا منوایا ہے اور ان کی شخصیت ادلی دنیا میں ایک خاص مقام رکھتی ہے ۔ انہوں نے سات ناول تحریر کیے ہیں ۔ جن کے نام درج ذیل ہیں ۔’’ میرے بھی صنم خانے‘‘ سفینہ غم دل‘‘ آگ کا در یا‘‘ ’’ گروش رنگ چمن‘’’آ خر شب کے ہم سفر‘’ کار جہاں دراز ہے‘ اور’’ چاندنی بیگم‘ چھ ناولٹ ’دربا‘ ’’سیتا ہرن‘، ’چاۓ کے باغ‘‘ ’’اگلے جنم موہے بیٹا نہ کچی‘‘ اور’ہاؤسنگ سوسائی‘‘ تحریر کیے ہیں ۔ انہوں نے ناول نگاری سے قبل افسانہ نگاری میں قدم رکھا۔ ان کے افسانوی مجموعے ’’ستاروں سے آگے‘‘ ’’شیشے کے گھر‘‘، ‘‘ یادوں کی اک دھنک جل‘’ ٹوٹتے تارے‘‘، ’’ فصل گل آ ئی یا اجل آئی‘‘’ پت حجر کی آواز‘‘اور’’ روشنی کی رفتار‘ ایک خاص ادبی شہرت کے حامل ہیں ۔ قرۃ العین حیدر نے سفرنامے اور رپورتاژ بھی تحریر کیے ، جن کے نام’لندن لیٹر‘’ کو دماون‘’ پکچر گیلری‘‘ بھی تحریر کیا تا کہ پی ایچ ڈی کے لیے اپنی رجسٹریشن کرواسکیں مگر نجانے کن حالات کی بنا پر وہ رجسٹریشن نہ کر واسکیں ۔ ادبی دنیا کے بڑے بڑے ادیوں کی مانند انہوں نے بھی بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں کے ناولوں بالخصوص روی ناولوں کا اردو زبان میں ترجمہ کیا، جن میں’’ہمیں چراغ‘‘ ’’ ہمیں پروانے‘‘ ڈان بہتا رہا‘ ’آدمی کا مقدر‘ تو دوکیہ‘’ آپس کے گیت‘‘ تلاش‘‘ کیا میں قتل‘‘’ ماں کی کی‘’ڈنگو‘ اور’خیالی پلاؤ‘‘ ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔ قرۃ العین حیدر نے مندرجہ بالا تصانیف کی بناپر اردو ادب میں نہ صرف مقام حاصل کیا ہے بلکہ اعزازات بھی حاصل کیے ۔ جن میں افسانوں کے مجموعے پت جھڑ کی آواز پر ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ ، ۱۹۶۷ ء میں وصول کیا۔ تراجم پر انہیں روس کی جانب سے ’سوویت نہرو ایوارڈ‘ ۱۹۲۹ ء میں دیا گیا۔ ۱۹۸۴ ء میں انہیں’ پدم شری‘‘اور’غالب ایوارڈ‘ سے نوازا گیا ۔ ۹۰ - ۱۹۸۹ ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا اعزاز ’’گیان پیٹھ ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ ۱۹۸۷ ء میں قرۃ العین حیدر کی ’’اقبال شناسی‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوۓ انہیں قومی ایوار ڈ’’ اقبال سان‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ قرۃالعین حیدر کی انہی ادبی خدمات اور انعامات کو مدنظر رکھتے ہوۓ ۵ نومبر ۲۰۰۰ ء کو مجھے علامہ اقبال اوپن یو نیورسٹی اسلام آباد کی جانب سے ایم فل (اقبالیات) کا تحقیقی مقالہ' قرۃ العین حیدر پر علامہ اقبال کے اثرات کا جائزہ‘ پر کام کر نے کا موقع ملاء جسے بالفاظ دیگر قرۃ العین حیدر کی اقبالیات سے دلچپی کہیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ قرة العین حیدر سے میری یہی دی ان سے ملاقات کا سب سے بڑا سب ٹھہری۔ چودہو میں سارک رائٹر کانفرنس میں جو 9 اکتوبر تا ۱۱ اکتو بر ۲۰۰۵ ء کو نیو دہلی (انڈیا ان نیشنل سنٹر میں منعقد ہوئی شرکت کرنے کے لیے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد ، ڈاکٹر عقیلہ جاوید ( شعبہ اردو)، ڈاکٹر حمیرہ دستی ( چیئر پرسن شعبہ تاریخ)، اسلامیہ یونیورسٹی بہادل پور کے ڈین کلیہ فنون پر پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال، جناب سعد مسعود افنی اور راقم الحروف مدعو تھے ۔ اس کانفرنس میں لاہور سے جناب انتظارحسین اور محترمہ کشور ناہید بھی مدعو تھے اور ہم ان کے ساتھ ایک ہی گیسٹ ہاؤس میں قیام پر ک ڈاکٹر انوار احمد نے میرے ایم فل کے تحقیقی مقالہ کی نسبت سے قرۃالعین حیدر سے میری ملاقات کی دلی خواہش کو ہا بچے ہوۓ کہا کہ میں انتظار حسین اور کشور ناہید سے کہوں گا کہ وہ قرۃ العین حیدر سے ملاقات کی کوئی راہ نکالیں ۔ یہ سن کر میری خوشی سے بانچھیں کھل گئیں کہ چلو دہلی میں آ کر قر ۃ العین حیدر سے ملاقات ای او جائے ، جس پر میں نے تحقیقی کام کیا ہے ، لہذا ایک پنتھ دو کاج کے مترادف مجھے خوشی ہوئی ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر شیم حفی سے ۱۱۲ اکتو بر ۲۰۰۵ ء کی صبح ۹ بجے قرۃ اعین حیدر سے ملاقات کا پروگرام طے کیا ۔ چنانچہ ہم لوگ ایک لینڈ کروزر پر وقت کولو ظ خاطر رکھتے ہوئے قر و امین حیدر کی رہائش گاہ کوٹھی نمبر ۳۳ ای نوڈا کالونی ، نئی دہلی پہنچے تو ڈاکٹر انوار احمد نے گھٹی بجائی ۔ شمیم حنفی صاحب گیٹ کھولنے کے لیے باہر آۓ اور فرمایا کہ آ ئیں ماشا اللہ آپ لوگ بروقت تشریف لاۓ ہیں ۔ ہم سے قبل جناب شمیم حنفی اور ان کی اہلیہ ،انگلارحسین اور کشور ناہید مقرۃ اعین حیدر کے گھر پانی چکے تھے ۔ قرۃ العین حیدر کی رہائش گاہ ایک خوب صورت اور جدید طرز کی کوٹی نما بنگلہ تھی جو تقریبا دس مرلے پر مشتمل ہوگی ۔ کمرے ہوادار اور روشن تھے ۔ باہر کی طرف ایک گرای لان تھا، جس میں گھاس اور پھول اگاۓ ہوۓ تھے ۔ بیرونی دیوار تقریبا چھ فٹ اونچی ہوگی ۔ہمیں ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا۔ ڈرائنگ روم میں قالین بچھایا ہوا تھا اور صوفے اور ایک بیڈ بھی لگایا ہوا تھا۔ دیواروں پر یلدرم اور نذر الباقر وغیرہ کی تصاویر تھیں ۔ یہ وہی تصاویر ہیں ، جو’’ کار جہاں دراز ہے‘‘ میں قرۃ العین حیدر نے شامل کی ہیں ۔ علاوہ از یں ایک بک شیاف میں کتب ترتیب کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں ۔ قرة العین حیدر ڈرائنگ روم میں کشور ناہید اور مسز شمیم حنفی کے سہارے (ان دونوں نے قرۃ اعین حیدر کے باز و پڑے ہوۓ تھے ) تشریف لاۓ ، جہاں ہم سب ان کی آمد کے منتظر تھے ۔ ان کی آمد پر ہم سب احترما کھڑے ہو گئے ۔ چناب میم حنفی نے قرۃ امین حیدر سے ہمارا فردا فردا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا کہ لوگ پاکستان سے ’’سارک رائٹر کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لیے تشریف لاۓ ہیں اور میری طرف اشارہ کرتے ہوۓ بتایا کہ نیم عباس صاحب نے آپ پر علامہ اقبال کے حوالے سے کام کیا ہے، جس کا انہوں نے کسی قد رطویل’ اچھا‘‘ کہ کر جواب دیا۔ قرۃ العین حیدر ہم سب کی طرف مخاطب ہو کر ) ہاں بھئی ؛ آپ سب کو یہاں آ نا کیا لگا؟ پہلے بھی دہلی آۓ ہو یا پہلی مرتبہ آ نا ہوا؟ انوار احد میں دوسری بار دہلی آیا ہوں، میں نے پچھلے سال بھی ’’ سارک رائٹر کانفرنس ‘‘ میں شرکت کی تھی ، البتہ یہ دیگر احباب پہلی مرتبہ آۓ ہیں ۔ انوار احمد: آج کل آپ کیا کر رہی ہیں؟ آپ نے ’’ کف گلر دش‘‘ کے بعد پچھتری کیا ہے یا آرام کرتی ہیں؟ قرۃ اعین حیدر نہیں بھی لکھ ہی رہے ہیں ۔لکھائی پڑھائی کا کام جاری و ساری ہے ۔ انوار احمد : ان دنوں آپ کیا لکھ رہی ہیں؟ قرۃ العین حیدر وہی‘‘ کار جہاں دراز ہے‘ ہی لکھ رہے ہیں اور لکھا جار ہا ہے ۔ انواراحمد: آپ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آپ علی گڑھ کے تناظر میں ایک ناول لکھ رہی ہیں ، مجھے گمان گزرا کہ سہاد میلدرم کے لیے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں رجٹرار شپ کے حوالے سے ایک سنگین صورت حال پیدا ہوئی تھی ۔ شاید وہ آپ کے تحت الشعور میں ہے ۔ قرۃالعین حیدر ( برہم ہوکر سنگین صورت حال ؟ کیا مطلب ہے آپ کا ؟ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔ آ پ کوکس نے بتایا؟ ہرگز ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ انوار احمد میرا مطلب تھا کہ دفتری معاملات میں نشیب و فراز آتے ہیں ، پگڈنڈی (امرتسر)، لیدرم نمبر میں بھی اس کا حوالہ ہے اور آپ نے بھی ،کار جہاں دراز ہے ، میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے۔
تر و امین حیدر ( براہی سے نہیں بھئی ؛ ایا کسی متم کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ ہاں بھئی ؟ پاکستان میں لوگوں کی بلدرم یا میرے متعلق بھی کوئی اس قسم کی باتیں ہوتی ہوں یا افواہیں پھیلائی جاتی ہوں تو مجھے بھی آ گاہ کیجئے کہ میرے بارے میں بھی کوئی تقلین صورت حال موجود ہے۔ انوار احمد، میرا مقصد آپ کی دل آزاری نہ تھا میں تو ایک تخلیق کار سے مخاطب ہوں ۔ ڈاکٹر نجیب جمال ( موضوع بدلتے ہوۓ ) آپ کے ناول’’ آخر شب کے ہم سفر‘‘ کا مطالعہ کیا۔ اس میں آپ نے بنگلہ دیش کی تہذیب و تمدن پر روشنی ڈالی ہے ۔ اس کی کوئی خاص وجہ ہے ؟ جس بناء پر آپ نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کے رہن سہن کو اپنا موضوع تخن بنایا؟ قرة العین حیدر ایسی کوئی خاص بات تو نہیں ہے ۔البتہ چٹا گانگ میں میرے ایک کزن رہتے تھے ، میں ان سے ملنے وہاں گئی تو جو پٹھ دیکھا؛ بس میں نے تحریر کر دیا۔ قرة العین حیدر پاکستان میں ادب کی کیا رفتار ہے ؟ کیا ہندوستانی ادیوں کی وہاں کچھ اہمیت ہے؟ انوار اند: پاکستان میں ہمارے ہاں کرشن چندر ، راجندرسنگھ بیدی ، پریم چند اور آپ کو بھی ایم ۔ اے کے نصاب میں شامل کیا ہوا ہے ۔ قرۃ العین حیدر (مسکراتے ہوۓ کہا) یعنی آپ کو بھی سے کیا مراد ہے ؟ کیا میں بھی غیر مسلم ہوں؟ انوار احد: ( وضاحت کرتے ہوۓ نہیں بنہیں؛ آپ ہندوستانی ادباء میں شمار کی جاتی ہیں ۔اس لیے میں نے تذکرہ کیا ہے کہ آپ کو بھی شامل نصاب کیا گیا ہے ۔ الواراحمد: آپ نے اپنی تصنیف ’’ کار جہاں دراز ہے‘‘ میں ایک پروفیسر ملف ونشر ، کا تذ کرو گیا ہے ۔ کیا و صاحب پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں؟
قرة العین حیدر ( مسکراتے ہوۓ نہیں ، وہ انگلینڈ میں تھے جو ہر وقت بھی لی نچوڑ تے قرۃ العین حیدر ( کشور ناہید سے مخاطب ہوتے ہوۓ دریافت کرتی ہیں ) بھئی و افجر عارف اور منو بھائی کا کیا حال ہے؟ وہ بھی پڑھ لکھ رہے ہیں یانہیں؟ کشور ناہید بینی آ پا؛ وہ ٹھیک ہیں اور لکھتے رہتے ہیں۔ کشور ناہید عینی پا؛ اس سے قبل آپ مجھ سے نالی میں باتیں کرتی تھیں ، اب آپ کو ۔ سے پنجابی میں بات چیت کر یں۔ قرة العین حیدر (مسکرا کر ) نچوڑ و لیس! ( خاموشی ) اس اثناء میں ڈاکٹر عقیلہ جاوید نے اپنی نئی تصنیف ’’اردو میں تالیثیت کی ایک ایک جلد شیم منفی ،انتظارحسین اور کشور ناہید کو پیش کی ، کشور ناہید نے فوراً کہا،ہم پاکستان سے لے لیتے اور انتظار خاموشی سے پکڑ کر ورق گردانی کرنے لگے۔ انتظارحسین:(ڈاکٹر میرہ دستی سے غلطی فہمی کے ساتھ مخاطب ہوتے ہوۓ ) آپ نے اپنی تصنیف کا نام اس قدر مشکل کیوں تحویز کیا جب کہ تانیثیت کا تر جمہ نسوانیت یا نسائیت بھی کیا جاسکتا تھا۔ ڈاکٹر عمیرا وتی یہ جناب میری تصنیف نہیں ہے بلکہ یہ ڈاکٹر عقیلہ نے تحریر کی ہے ۔ دو ادھر بیٹھی ہیں ۔ انتظارحسین نے وہی سوال دوبارہ ڈاکٹر عقیلہ سے دہرایا۔ کشور ناہید: (قرۃ العین حیدر سے مخاطب ہوتے ہوۓ وہ آپ کے شمس الرحمن فاروقی نے بھی تو تایت کانفظ اپنی تحریروں میں بار بار استعمال کیا ہے ۔ قرة العین حیدر کون؟ را اونچا سنائی دینے کے انداز میں ) کشور ناہید شمس الرحمن فاروقی صاحب ۔ قرۃ العین حیدر (مسکراتے ہوۓ) انچا وہ بقراط اعظم ( تمام احباب ایک ساتھ قہقہہ لگاتے ہیں) قرة العین حیدر (علامہ اقبال سے اپنی دناپی کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کرتی ہیں) میں نے سنا ہے کہ پاکستان میں ’’بانگ درا‘‘ سے ’’ ترانہ ہندی‘‘ اور ’’ فتاب (ترجمه گایتری) ‘‘ والی منظومات حذف کر دی گئی ہیں؟ - ڈاکٹر انوار احمد ، ڈاکٹر نجیب جمال اور میں نے بیک وقت با آواز بلند کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ۔ سب کچھ با نگ درا‘‘ میں ویسے ہی موجود ہے ۔ رۃالعین حیدر ( نہیں ذرا اونچا سنائی دیتا ہے دوبارہ دریافت کرتی ہیں ۔ کیا کہا؟ میں (راقم الحروف ) نے بازو او پر لہرا کر جواب دیا کہ میں’’بانگ در‘‘ اپی اصلی حالت میں موجود ہے اور اصلی حالت میں شائع ہو رہی ہے ( قرۃ العین حیدر سے میری ملاقات کا اصل مقصد بھی یہی تھا اور میں یہ جانچنا چاہتا تھا کہ ان پر علامہ اقبال کے اثرات ہیں یا ان کی دپی؟ ) ڈاکٹر نجیب جمال: (میرے بازو لہرانے پر کافی دیر مسکراتے رہے اور میرے جواب کو میرے روبرو بار بار دہراتے رہے) اس عرصہ میں قرۃ العین حیدر سے فوٹو گرافی کی اجازت طلب کی گئی ، جسے با آواز بلند کشور ناہید نے دہرایا کہ یہ لوگ آپ کے ساتھ تصاویر بنانا چاہتے ہیں ۔ ڈرائنگ روم میں قرۃ العین حیدر کے ہمراہ تصاویر بنائی گئیں ۔ تصاویر بنانے میں اہم کردار سعد مسعود اغنی نے ادا کیا۔ البتہ میں نے بھی سعد مسعود لغنی کی دو تصاویر قرۃ العین حیدر کے ساتھ بنائی تھیں ۔ ( بدقسمتی سے وہ تمام تصادی نا کارہ فلم کی نذر ہو گئیں لیکن ڈاکٹر حمیرہ دتی کے کیمرے میں جو تصاویر بنائی تھیں وہ محفوظ رہیں ۔ قر و امین حیدر یہ بڑھاپے کی تصاویر کسی رسالے وغیرہ میں شائع نہ کروانا۔
ہم سب نے انہیں یقین دلاتے ہوۓ کہا کہ شائع نہیں کروائیں گے ریگر - آہستہ سے کہا اخبار میں ضرور چھپوائیں گے ۔ قر و امین حیدر : آپ سب کو انڈیا آ نا کیسا لگا ؟ انوار احمد بہت خوب - قرۃ العین حیدر کوئی گھومے پھرے بھی ہو؟ انوار احمد جی ہاں، دیلی میں خوب گھوے پھرے ہیں ۔ کل( ۱۳ اکتوبر ۲۰۰۵ ے،) تاج محل ( آ گرو) بھی دیکھنے جائیں گے ۔ قرۃ العین حیدر آپ میں سے کسی نے لکھنو بھی دیکھا ہے؟ انوار احمد نہیں دیکھا۔ قرة العین حیدر : بھئی ! لکھنو بھی دیکھ آ ئیں۔ قرة العین حیدر ( کھٹوی تبذیب و تمدن پر روشنی ڈالتے ہوۓ) آج سیک لکھنو میں ہند مسلم فسادنہیں ہوا۔ شیعہ سنی فساد تو ہوسکتا ہے ۔لیکن ہندو مسلم نہیں ۔ یہاں لوگ آپس میں بڑی محبت اور چاہت سے رہتے ہیں۔ میرے بائیں طرف انتظار حسین تشریف فرما تھے۔ میں نے ان کے کان میں سرگوشی کرتے ہوۓ کہا کہ آپ قرۃ العین حیدر سے دریافت فرمائیں کہ انہوں نے پاکستان سے بھارت آنا کیوں پسند کیا؟ اس کی کوئی خاص وجہ تو بیان کر یں۔ انتظار حسین نہیں، ان سے یہ سوال ہرگز نہ پو چھا جاۓ کیونکہ اس کی وضاحت وہ اپنی تحریروں میں کر چکی ہیں ۔ اس تمام عرصہ میں انتظارحسین خاموش رہے اور انہوں نے قرۃالعین حیدر سے کوئی بھی سوال نہ پہ تھا۔ میں ڈاکٹر انوار احمد کے بائیں جانب بیٹا تھا ۔ مجھے آہستہ سے کہنے لگے کہ اب چلنے کے لیے اجازت طلب کر میں ۔ میں سب سے پہلے اٹھ کھڑ اہوالیکن دل یہی چاہتا تھا کہ ان سے ابھی اور باتیں کی جائیں مگر قرۃ العین حیدر کی مصروفیات اور صحت کو مدنظر رکھتے ہوۓ جانے کافیصلہ کیا گیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر انوار احمد ے بھی دیگر احباب کے ہمراہ اٹھ کھڑے ہوۓ اور جانے کے لیے اجازت طلب کی گئی ۔ قرة العین حیدر ابھی آپ بیٹھیں ۔ کیا کرنا ہے؟ انوار احمد: آپ کا شکر یہ، ابھی ہم نے دیلی میں بھی گھومنا پھرتا ہے ۔ قرۃالعین حیدر بھئی کہیں کھانا وانا بھی کھایا؟ عام حالات میں کسی میز بان کے اتنے اشارے پر ہم بیٹھ جاتے مگر ماگلے کی گاڑی کے پیش نظر وہاں سے چل پڑے۔ قرة العین حیدر ابغیر کسی سہارے کے اپنی نشست سے اٹھیں اور ہمیں رخصت کرنے کے لیے کھڑی ہو گئیں ۔ شمیم حنفی صاحب ہمیں گیٹ تک رخصت کرنے کے لیے آۓ اور ہم سب گاڑی میں سوار ہو کر قرۃ العین حیدر نے خوش گوار ماحول میں ملاقات سے لطف اندوز ہونے کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔
نسیم عباسی