ناول یاخدا
ناول ’’یا خدا‘ .. ایک مطالعہ
اردو ادب میں ناول کی صنف مغرب سے آئی ۔ ہمارے ہاں سب سے پہلے اپنا مذ یر احمد نے ناول نگاری کے کچھ ابتدائی نقوش پیش کئے ، تاہم ان کے ناول ، بڑے یا علیم ناولوں کی صف میں شامل نہیں ہوتے ۔ اردو میں جس ناول کو پہلی مرتبہ ادبی حوالے ے پڑا ناول قرار دیا گیا، وہ رسوا کا امراؤ جان ادا تھا لیکن اس کے بعد جب اردو زبان اب کی وسعتوں میں اضافہ ہوا، ساتھ ہی تعلیمی سلا کے بلند تر ہونے کے پیش نظر، مغربی اب سے استفادے اور مطالعے کی روایت شروع ہوئی تو پھر یہاں پر بھی ناول نگاری پر با قا عد و توجہ دی گئی۔اگر چہ ابھی تک اردو ناول، مطربی زبان و ادب کے ناولوں کے معیار تک نہیں پہنچا، پھر بھی ہمارے ہاں کچھ بڑے ناول ضرور لکھے گئے ، ان بڑے ناولوں میں آگ کا در یا، اداس نسلیں ، عدا کی بستی اور دیگر کئی ناولوں کا نام لیا جا سکتا ہے، ان ناولوں میں ہے شمار واقعات و مسائل کو موضوعات کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اردو ناول نگاروں کے ہاں بیسویں صدی میں جو موضوع انتہائی اہم رہا ہے، وہ فسادات تقسیم ہند اور اس کے نتایج و اثرات کا ہے۔ اس موضوع کی مختلف جہتیں ، مخلف زاویے اور متنوع نفسیاتی رویے، آج بھی احاط تحریر میں آ رہے ہیں ۔’’یاخدا‘‘ بھی اس موضوع سے متعلق ایک ناول ہے۔ یا خدا. قدرت اللہ شہاب کی تخلیق ہے، اسے ناول سے کہیں زیادہ ناولٹ کا نام دیا جا سکتا ہے، اس کے صفحات کی ضخامت سو سے بھی کم ہے اور اسے تین ذیلی عنوانات رب المشر قین ، رب المغر بین اور رب العالمین میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جہاں تک قدرت اللہ شہاب کی ادبی وملی شخصیت کا تعلق ہے وہ ایک لحاظ سے متنازعہ رہی ہے، آپ نے ایک بیوروکر بیٹ اور جنرل ایوب صدر پاکستان کے معتد خصوصی کے طور پر او یوں اور شاعروں کیلئے رائٹرز گلڈ کا ڈول ڈالا ۔ جس سے وابستہ اہل قلم میں سے کئی ایک کو سرکاری و در باری ادیب کہا گیا، ان میں سے بہت سوں کو سرکاری مراعات بھی ملیں اور انعام و اکرام بھی، ساتھ ساتھ اہم سرکاری ملازمتیں اور سرکاری ذرائع ابلاغ کی سر پرستی بھی ان کے حصے میں آئی ۔ چنانچہ عام طور پر یہی کہا جا تا رہا ہے کہ قدرت اللہ شہاب کے ادبی قدوقامت کی بلندی انمی اہل قلم کی شعوری کادشوں سے وجود میں آئی ۔ لیکن میرے خیال میں یہ راۓ تھوڑی سی غیر متوازن ہے، قدرت اللہ شہاب کی کئی تحریر میں وقار و اعتبار کی حامل رہی یا خدا۔ جسے ناول سے زیادہ ناولٹ کہا جا سکتا ہے بنیادی طور پر فسادات کے بعد کے حالات کا ایک فکری جائزو ہے جس میں انہوں نے دلشاد کے کردار کو بنیادی موضوع بنایا ہے جو مشرقی پنجاب کے ایک ایسے گاؤں کی باسی ہے جہاں اکثریت سکھوں کی ہے، اور جو قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ جب ارض پاک کی مٹی پر قدم رکھتی ہے تو ایک بھی کی ماں بن چکی ہوتی ہے، بن بیاہی ماں ۔ جو پاکستان کیلئے نہ صرف اپنے مولوی و مؤزن باپ بلکہ اپنی عزت وعصمت کی قربانی بھی دے چکی ہوتی ہے، یہ دلشاد اپنی آنکھوں میں کیسے کیسے ارمان سجاۓ جب اس پاک دھرتی پر سانس لیتی ہے تو اسے کتنی گھٹن کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیسے کیسے مصائب اسے امتحان میں ڈالتے ہیں، اور وہ کس طرح ایک کھلونا بن کر رہ جاتی ہے یہ سب اس ناول کا بنیادی موضوع ہے ۔ دلشاد کے ساتھ ایک اور مختصر سا کر دارز بیدہ کا بھی ہے جو اپنے چارسالہ بھائی اور دادا کے ساتھ مہا جر خانے کی مہمان بنتی ہے، گیارہ بارہ سال کی عمر کی زبیدہ کی داستان حیات بھی دلشاد سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ قدرت اللہ شہاب نے ناول کے دیباچے میں لکھا۔ مہاجر کیمپوں کا جو حال میں نے لکھا ہے ، لاہور میں دیکھا، مہاجر بہنوں کا شکار کرنے والے بہت سے بھائی جن کے چہرے یا خدا میں نظر آئیں گے، مولوی ، خدام خلق ، قوم کے لیڈر اور سیاستدان سبھی اصلی کردار ہیں میں نے ان کے نام نہیں لکھے، ان میں سے ایک صاحب کو تو خدا نے وز ریملکت بھی بنایا۔‘‘ اجڈ اور گنوارسکھوں کی بستی کے مکین اگر چہ ملاعلی بخش ینی دلشاد کے والد کوقتل کر کے مسجد ہی کے کنویں میں پھینک دیتے ہیں اوپر سے کوڑا کرکٹ بھی ڈال دیتے ہیں لیکن پھر بھی ان سکھوں کی تو ہم پرست گھر والیوں کو اس کی اذان سنائی دیتی ہے، ان سکھ گھرانوں کا یہ خیال ہے کہ اگر کوئی سکھ عورت اذان کی آواز سن لے تو وہ بانجھ ہو جاتی ہے۔
چنانچہ شہاب لکھتے ہیں کہ ’’ادھر اذان کی آواز آئی، ادھر کسی نے کٹورے کو چھچے سے بجانا شروع کردیا، کسی نے چنے کو توے سے لڑایا، کوئی کانوں میں انگلیاں ٹنس کر بیٹھ گئی، کوئی بھاگ کر یلی کوٹھڑی میں جیا تھسی اور اس طرح یہ بہادر خاندان اپنی لاڈلیوں کی کوکھ کو کالے جادو کے اثر سے چنانچہ شہاب لکھتے ہیں کہ بچا کر ہرا رکھتا آیا تھا۔‘‘ والد کے قتل اور گاؤں کے دوسرے مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور ہجرت کے بعد دلشاد گاؤں کے تمام سکھ نوجوانوں کی مشتر کہ میراث بن جاتی ہے، یہ وہی دلشاد ہے جو اپنے کردار میں اتنی پختہ ہوتی ہے کہ جب اس کے محبوب رحیم خان نے اسے زبردستی چومنے کی کوشش کی تو اس نے اس کے سر پر دوہتٹر مارا تھا، اتنے زور سے کہ اس کی چوڑیاں ٹوٹ کر رحیم خان کے ماتھے میں گڑ گئی تھیں اور وہ خود ساری رات انگاروں پرلوٹتی رہی تھی کہ نجانے خدا اور رسول رحیم خان کو اس گناہ کی کیا سزا دیں گے ۔ یہ وہی دلشاد ہے جس کا پیٹ جب سرسوں کی طرح پھولنے لگتا ہے تو گاؤں کا ایک سکھ حکومت کی نظروں میں اعتبار و وقار حاصل کرنے کیلئے اسے تھانے مچوڑ آتا ہے تا کہ اسے سرحد پار بھجوایا جا سکے، لیکن تھانے میں ہندو تھانے دار کا سلوک ملاحظہ ہو ۔ تھانے دار صاحب نے عینک اٹھا کر دلشاد کا جائزہ لیا۔ قبول صورت ، جوان ، ذرا سی پیلی لیکن گرم گداز مگر جب ان کی نظر دلشاد کے پیٹ پر پڑی تو ان کی انجری ہوئی امیدوں کو زبردست دھچکا لگا، تاہم رات کے کھانے کے بعد جانگیہ پہن کر وہ چار پائی پر لیٹے تو انہوں نے دلشاد کو پاؤں دبوانے کے لئے اپنے پاس بلا لیا اور پھر ان کے پاؤں کا درد بڑھتے بڑھتے پنڈلیوں تک آ گیا، پھر گھٹنوں میں ار . دلشاد کا ہاتھ پکڑ کر اپنی کھتی ہوئی رگوں کا درد دبواتے رہے کیونکہ بھو رام کے نزدیک خواہش کا دوسرا نام تسکین تھا۔
ای طرح و و ہیڈ کانسٹیبل جو دلشاد کو انبالہ کیمپ لے جاتا ہے راستے میں اس کے کولھوں اور گھٹوں میں بھی کئی بار درد اٹھتا ہے اور وہ دلشاد سے اس درد کا مداوا کرا تا ہے۔ اس تمام واقعاتی تناظر میں ناول نگار دلشاد کے نفسیاتی رویے کی بے حسی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ۔ دلشاد کیلئے یہ کوئی نئی بات نہ تھی، پچھلے چند مہینوں میں اس نے زندگی کے پیچ وٹم کچھ اس طرح کھولے تھے کہ اس کے بدن کی بوٹی بوٹی گو یا مرہم کا پچاہا بن کر رہ گئی تھی جو کوئی اسے جہاں سے چاہتا لگا لیتا اور اس کے جسم کا ہر ہر حصہ ’’ بھڑ کتے ہوۓ ، ہانپتے ہوۓ‘‘ بے چین انسانوں کو چند ہی لمحوں میں تسکین کا جام پلا دیتا تھا۔‘‘ دلشاد جب آنکھوں میں رحیم خان کے خواب، پلکوں پر امید کی کرنیں اور گود میں ایک دن کی پکی لئے لاہور ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر اترتی ہے تو اسے ابتدا ہی میں رشید اور انور جیسے تماش بینوں کی ہوسٹاک نگاہوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جومعنی خیز انداز میں اسے بہن کے نام سے پکار کراپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن اس کی چوہیا میسی ریل کی ایک دن کی پی کو دیکھ کر انہیں ابکائی سی آ جاتی ہے ۔ لا چارگی کے اس عالم میں ایک انگریز جوڑا اپنے بچے کی ضد پوری کرنے کیلئے دلشاد کو پانچ روپے کا نوٹ اور اس کی پچی کو ریشمی کپڑے دیتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے اس موقع پر انگر یز جوڑے کو شاید اس لئے منتخب کیا کہ ان کے خیال میں انگریز قوم انسانیت کے وقار کی زیادہ علمبردار ہے لیکن دوسری طرف یہ بات یوں بھی تو کہی جا سکتی ہے کہ وہ ذہنی طور پر انگریزوں سے متاثر نظر آتے ہیں، لیکن یہاں انہوں نے اگر یز جوڑے کی موجودگی کا ایک جواز ضرور پیدا کیا ہے اور یہ جواز قابل قبول کی ہے۔ اس موقع پر شہاب نے اپی کردار نگاری میں بڑی پانی کا ثبوت دیا ہے جب دو بوڑ ھے ،اگر یڑوں کے اس طرز عمل پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے اور دلشاد کو انپی خاصی کھری کھری سناتے ہیں وہ موسم کے اثرات سے متاثر ہی اور بھوک سے نڈھال ماں کی کیفیات کو کھنے کی کوشش نہیں کرتے نہ ہی عملی طور پر کوئی مدد کرتے ہیں، بس نام نہاد اخلاقیات کی تقریری مھاڑ دیتے ہیں کہ۔ ۲ زادی تو ملی ، غلامی کا چسکا نہ گیا تم کوئی بچہ نہیں ہو، تمہیں خود شرم آنی چاہیے آزادقوم کی بیٹیاں بھیک کے لکڑوں پر نہیں پلتیں ، ہاں‘‘ یہ وہ تلخ تجر بہ ہے جو پہلے ہی قدم پر خواب دیکھنے والی آنکھوں میں اداسی کے شامیانے سے تان دیتا ہے اور وہ سو پنے گلتی ہے کہ میں تو ایک وسیع برادری میں شامل ہونے آئی ہوں، یہ کیا ہے کہ ہر کوئی مجھ سے پوچھتا ہے، تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟ تمہاری جیب میں پیسے ہیں؟ تمہارے جسم میں تازگی ہے؟ ای طرح مہا جر ین کیمپ میں مہا جر ین سے جس طرح کا سلوک ہوا، جو ڈراے ہوۓ ، ظاہر و باطن کا جو تضاد سامنے آیا، انسانیت کی جس طرح تذلیل ہوئی ، ان سب کی داستان بڑے مختصر لیکن انتہائی جامع پیراۓ میں اس ناول میں ملتی ہے، یقینا اس پر آشوب دور میں بہت سے لوگوں کا رویہ مثبت بھی رہا ہوگا ، اچھے برے لوگ ہر معاشرے میں، ہر جگہ پائے جاتے ہیں ، لیکن یہاں ان لئے پتے خاندانوں اور تیاہ حال لوگوں کے جذبات و احساسات کے پل جانے کے واقعات بڑے اہم ہیں، اس سؤنی دھرتی کا مہمان بنے والوں نے اس سلوک کی توقع شاید نہ کی ہو۔ اسی کیمپ میں دلشاد کی ملاقات گیارہ بارہ سال کی بھی زبیدہ سے بھی ہوتی ہے۔ جو وقت کی بیدار سہتے سہتے وقت سے پہلے Mature ہو جاتی ہے اسے بھی بھوکی نگاہوں کا سامنا ہے ، اس کی کردار نگاری کے حوالے سے صاحب تحریر کا کہنا ہے ۔ وہ چھوٹی سی بہن اپنے چھوٹے بھائی کو بزرگوں کی طرح ڈانٹتی تھی اور دیکھنے والے کو یحسوس ہوتا تھا کہ اس مختصر سے خاندان کا نگہبان دادانہیں ، زبیدہ ہے۔ اس لڑ کی کا شعور اس قدر حساس اور بیدار تھا کہ وہ بیک وقت ایک نمی سی بہن، ایک بھی سی بیٹی اور ایک نھی کی ماں کے فرائض انجام دے رہی تھی ۔‘‘ قدرت اللہ شہاب کے فنکارانہ کمال میں اس کی منظر نگاری بڑے عروج پر رہی ہے، واقعات کا چناؤ اور ان کی جزئیات نگاری کا ہنر انہوں نے بڑی خوبصورتی سے برتا ہے، دلشاد کے والد ملاعلی بخش کا سراپا انہوں نے جن الفاظ میں کھینچا اس سے کتنی عمدہ تصویر بنی، آپ خود محسوس کیجئے ۔ الحیف بدن، دو ہاتھ کی لی داڑھی، آنکھوں پر موٹے گلاس کا چشمہ، سر پر سبز ململ کی بے ڈھب سی - بے ڈھب سی پگڑی، ہاتھوں میں رعشہ، گردن میں انجری ہوئی رگیں لیکن جب دو صحن میں کھڑا ہو کے پانچ وقت اذان دیتا تو مسجد کے گنبد گونج اٹھتے ، اور علی بخش کے نحیف و نڈھال گلے سے وہ زنانے کی آواز نکلتی جیسے بہت سی آبشار میں دست بداماں ہو کر گونج رہی ہوں ۔‘‘ ای طرح وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں ۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو ریل کا ڈبہ خالی ہو چکا تھا، اٹیشن کی ایک مہترانی ڈبے کے فرش کو پانی سے دھو رہی تھی ، دلشاد کے پہلو میں ایک نھی سی پی رو رہی تھی ، صبیح کی فضا سورج کی کنواری کرنوں میں نہا رہی تھی ، درختوں پر پڑیاں پچھدک رہی تھیں ، گھاس پر شبنم کے سوتی چمک رہے تھے ، اسٹیشن پر چہل پہل تھی ، ایک گرم چاۓ والا کھڑ کی کے پاس خوانچہ اگائے دودھ اہال رہا تھا ۔‘‘ لیکن شہاب کی منظر نگاری کا نقطہ عروج وہاں نظر آتا ہے جب وہ مہاجریپ کی اس ماں کے بارے میں لکھتے ہیں جو اپنی پارسالہ پیار پھی کو کڑاکے کی سردی سے بچانے کیلئے بالآخر اپنے کپڑے اتار دیتی ہے، تا کہ تاروں بھرے آسان تلے اپنی پی کا جسم ڈھاپ سکے، اور جب سورج کی پہلی کرن اندھیرے کا سینہ چیرتی ہے تو چشم فلک یہ تماشا بھی دیکھتی ہے کہ دونوں ماں بیٹی مر چکی ہوتی ہیں۔ اس واقعے کی منظر نگاری دیکھے ۔ جب بح صادق کی پو پھٹی تو مہا جر خانے کے میدان میں ایک رمریں مجسمہ چاندی کی طرح جھلسلایا، یہ اس جوان عورت کا برہنہ جسم تھا جس نے اپنے کپڑوں میں اپنی مرتی ہوئی بچی کو لپیٹ لیا تھا، اس کے بے جان سینے سے اس کی بچی کی لاش یوں پھٹی ہوئی تھی جیسے ابھی ابھی دودھ پینے گئی ہو، معلوم ہوتا تھا کہ کسی بڑے فنکار نے مرمر کوتراش کر یہ خوبصورت بت بناۓ ہیں، عورت کے کے ہوۓ دودھیا بدن پر بارش کے قطرے موتیوں کی طرح جگمگا رہے تھے، اس کی گھنی زلفیں کا لے نا گوں کی طرح بھری پڑی تھیں، اس کی نیم باز آنکھوں میں پانی کی ایک تہہ ی جمی ہوئی تھی جیسے اس کے خون کے ساتھ ساتھ اس کے آنسو بھی منجمد ہو کر رہ گئے ہوں ۔‘‘ J میرا خیال ہے کہ ممتا کی مجبوری، اس کی نفسیات اور اس کی لازوال قربانی کا یہ لحہ نا قابل فراموش ہے، اس منظر سے ایک اور المیہ بھی جنم لیتا ہے جب مہا جر خانے کے ملازمین کمبلوں کا انبار لئے آتے ہیں اور رات بھر کے مردہ جسموں کو ان سے ڈھانپ دیا جاتا ہے ان کمبلوں کی گداز گرمی، دوسرے مہاجروں کو اپنے بدن پر محسوس ہوتی ہے اس مواقع پر مامی کتاب لے ان کی نفسیات اور ان کے احساسات کی بوی خوله ورت برائی کی ہے۔ و لوگ زنده ش رو سرت بھری نگاہوں سے اسپا مردہ ساتھیوں کی طرف ر کھنے لئے اور رشک کرتے لے کہ اگر موت کے تصور میں ایک ان دیکھی، ان ہائی ، ان کی حقیقت کا خوف نہ ہوتا ت وو سب برضاورغبت و ہیں مر جائے تا کہ مہا ہر خانے کے مہر، ان پر بھی اوئی کمیل ڈالئے جائیں اور ان کے کپکپاتے ہوۓ گوشت اور کٹرقی ہوئی ہڈیوں کو ڈرا سا سکون، ذرا سی گرمی، درا سا آرام مرا کے " بھی وویپ ہے جہاں بڑے بڑے مخیر اور’’ خداترس‘‘ لوگ اپی مطلب براری کیلئے ’ کیے‘ منتخب کرتے ہیں اور جن کی ہمدردی و مگساری کے قصے اظہارات کی زینت ہئے ہیں ،مسٹر مصطفے خان سیمانی بھی اس طرح کا ایک کردار ہے، دلشاد پر ان کی نگاہ خاص ہے، اس کیلئے وہ تھئے تحائف لاتے رہتے ہیں، ایک دن وہ اسے اس کے رحیم خان سے طوائے کا جھانسہ دے کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور پھر یقول ناول نگار: ’’دو و پار دن میں جب مصطلی خان سیمانی نے اپنے ج کے ارکان پورے کر لئے تو دلشاد پھر مہا جر خانے پہنچ گئی ، زبیدہ کا بھائی شیشے کا لٹو پلا رہا تھا، اس نے تلا تلا کر تالیاں بجا کر دلشاد کو سجھایا کہ زبیدہ باری بھی موٹر میں بیٹھ کر دادا میاں کے پاس گئی ہیں ، آج وہ پھر دادا میاں سے پیے لاۓ گی ، نئے نئے بوٹ لاۓ گی ، تلے دار ٹوپی لاۓ گی ۔‘‘ یہ وہ ماحول ہے ، وہ کردار ہیں جو ناول نگار ہی کونہیں، پڑھنے والوں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ان سطروں کی تہ میں چھے طئر اور کرب کو صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ لاہور، لا ہور نہ تھا مد ینہ تھا ، لا ہور والے، لاہور والے نہ تھے انصار تھے،نہیں ، دہ تو شاید انصار مدینہ سے بھی کچھ درجہ افضل تر تھے، یہاں دلشاد کیلئے ہر روز ایک نیا رحیم خان پیدا ہو جا تا تھا، زبیدہ کیلئے ہر روز ایک نیا دادا جنم لیتا تھا، بیٹیوں کیلئے نئے نئے باپ تھے، بہنوں کیلئے نئے نئے بھائی ، جسم کا رشتہ جسم سے ملتا تھا اور خون کا رشتہ خون سے ۔ ناول کا وہ حصہ جو مہاجرین کی کراچی آمد کے بعد کا ہے، وہ ہے رب العالمین، اس حصے میں دلشاد کا کردار ثانوی ہوجا تا ہے اور دوسرے کئی کر دار اپی ذہنیت اور نفسیات کے حوالے سے نمایاں ہو جاتے ہیں، اگر چہ یہ کردار، ان کے مکالمے اور ان سے وابستہ واقعات اپنے اجزائے ترکی میں بڑے مختصر ہیں لیکن نتائج کے لحاظ سے یہ بڑے دور ریس رہے ۔ سقوط مشرقی پاکستان کے سانحے کے بعد سندھ میں لسانی فرقے و فسادات کے الیے، سالوں تک آتش فشاں کی صورت کھو لتے رہے، تب وجود میں آۓ ، کراچی جسے اب بھی پاکستان کا عروس البلاد کہا جا تا ہے ۔’’یا خدا‘ میں اس کے ابتدائی خدوخال کی تصویر کیا بنتی ہے، ملاحظہ ہو۔ ’’ایک ہندو خاندان ہجرت کر رہا تھا، ان کی خوشنما کوٹھی کے سامنے چار اونٹ گاڑیاں سامان سے لدی کھڑی تھیں، سامان میں ایک طوطے کا پنجرہ بھی ہے، طوطا مٹر کی پھلیاں کھا رہا ہے، جب کوئی اس کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ نیم باز آنکھوں سے اس کی طرف یوں دیکھتا ہے، گویا کہہ رہا ہو کہ لوہ سالو میں بھی چلا، اب میں دیکھوں گا تم اپنا پاکستان کیسے بناتے ہو ‘‘ اس طرح یہ واقعہ بھی ذہن میں رکھیے۔
سیاڑی کی بندرگاہ میں ایک جہاز بمبئی جانے کیلئے لنگر اٹھا رہا تھا، جہاز کے ڈیک پر سیاکلا وں رنمین ساڑھیاں پھڑ پھڑا رہی تھیں ، لوگ دوربینیں آنکھوں سے لگاۓ کراچی کی آخری جھلک دیکھ رہے تھے، جب جہاز روانہ ہوا تو کچھ لوگوں نے اپنے سروں سے جناح ٹوپیاں اتار کر سمندر میں پھینک دیں اور ہوا میں گھونسے لہرا لہرا کر ‘‘ ہے نہیں بگاڑ سکتا تو انہوں نے جناح ٹولی سمندر میں مھینک کر اور جے ہند کا نعرہ لگا کر ایک غیریکی سفیر کا سیکرٹری دوسرے غیر ملکی سفیر کے سیکرٹری سے سرگوشی کر رہا تھا، مجھے کراچی میں دو چیز میں بہت پسند ہیں ۔ مجھے تین‘‘ دوسرے نے کہا۔ ’’پاری لڑکیاں‘‘ اور ’’مسلمان عورتوں کے برقع... مجھے’’بر قعے والیاں‘‘ بھی پسند ہیں ۔‘‘ ہند‘‘ کا نعرہ لگایا۔‘‘ ان واقعات سے ہندو ذہنیت مکمل طور پر کھل کر ہمارے سامنے آتی ہے، انہوں نے پہلے دن ہی سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور پیشہ اس کے خلاف سازشوں کے جال نتے رہے، پہلے واقعے میں طوطے کا کردار ایک علامت ہے ۔مٹی سے بیوفائی کے حوالے سے خوبصورت طنز ، جبکہ دوسرے واقعے میں ہندوؤں کی موقع پرستی اور ازلی بزدلی کی طرف اشارہ ہے، جب انہوں نے محسوس کیا کہ جہاز نے ساحل چوڑ دیا ہے اب ان کا کوئی کچھ پاکستان سے اپی نفرت کا اظہار کیا۔ دیگر غیرملی قوتوں کا فکری رؤیہ اس واقعے سے عیاں ہوتا ہے، قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں۔ ای طرح تاجرانہ ذہنیت رکھنے والے ان ابن الوقت قسم کے لوگوں کا نظر یہ حیات اور سوچ کا زاویہ یہاں نظر آ تا ہے، جب ایک مسلمان ایڈ یٹر شراب اور کپڑے کے ایک بڑے تاجر سے پوچھتا ہے ( یاد رہے، شہاب نے یہاں تاجر کے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں بتایا) ’’ میں نے سنا ہے پاکستان بنے کے بعد کراچی اور لاہور میں ولایتی شراب کی کھپت پہلے سے تی ہو گئی ہے؟‘‘ غلط ۔ بالکل غلط . تنی تو کیا اگر دگنی بھی ہو جاۓ تو غنیمت ہے۔ افسوس، ایڈیٹر نے اصرار کیا، کیا یہ امر اس نئی اسلامی حکومت کیلئے شرمناک نہیں، پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا اور مسلم ممالک میں سب سے بڑا ملک ہے، تاجر نے ایڈیٹر صاحب کی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی ۔ " کیا یہ امر اس سب سے بڑے اسلامی ملک کیلئے شرمناک نہیں؟‘‘ ایڈیٹر صاحب مصر تھے ۔ ’’قبلہ!‘‘ تاجر نے وہسکی کا لمبا سا گھونٹ بھر کر کہا،’ آپ ریاست بنا رہے ہیں، مسجد نہیں ۔‘‘ یہ ڈینیں ہمارے وطن عزیز کے ان تاجروں کی ہے جن کی ترجیحات ہمیشہ اپنے مفاد کے تابع رہیں، ذہنوں میں پلتی نفرت کو ہوا دینے کا یہ حوالے بھی محل نظر ہے، ملاحظہ ہو۔ ی دونی کھوٹی ہے جی ، بس کے کنڈکٹر نے کرختگی سے کہا، اسے بدل دو۔ یہ دونی میں نے نہیں بنائی ، پنجابی پنجر نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، میں یہ دوئی کوئی دتی یا لکھنو سے نہیں لایاء میں تمہیں ہرگز دوسری دونی نہ دوں گا ۔‘‘ کنڈکٹر نے بس روک دی، ’’جب تک تم مجھے دوسری دونی نہ دو گے، یہ یس آگے نہیں جاۓ گی‘‘ کچھ پنجابیوں نے کنڈ کٹر کو چند فصیح و بلیغ گالیاں دیں۔’’سالے سندھی، مفت کا پاکستان مل گیا سالوں کو، ہم بھی دو دن میں مزاج ٹھکانے لگا دیں گے، ہاں‘‘
کنڈکٹر اور ڈرائیور باہر نکل کر ایک طرف کھڑے ہوگئے،۔ سالے پنجابی پٹ پٹا کر یہاں آۓ تو سالوں کا دماغ ہی نہیں ملتا، سر پر ہی پڑھے آتے ہیں، سور کے بچے ، جیسے ان کی ماں کے خصم کا گھر ہے یہاں۔ ایک ہندو را گیر یہ قصید وسن کر ظہر گیا، اور داد کے طور پر اس نے کنڈ کٹر اور ڈرائیور کو ایک ایک بیڑی پیش کی ۔ دو بنگالی یہ ہنگامہ دیکھ کر بس سے نیچے اتر آۓ ، لارنس روڈ کتی دور ہے جی؟ ایک نے پوچھا، یہی کوئی دوفر لانگ اور ہوگی ، دوسرے نے اندازہ لگایا، آؤ ٹہلتے ہی چلیں، جب وہ دونوں بس سے ایک محفوظ فاصلے پر پہنچ گئے تو انہوں نے دونی والے حادثے پر جی کھول کر تبصرہ کیا۔ لڑنے دو، سالے سندھیوں اور پنجابیوں کو، کہتے ہیں پاکستان کی زبان اردو ہوگی ، چھی، گویا شرنو بنگلا بھاشا ہماری قومی زبان ہی نہیں۔ جھی تھی۔ میرا خیال ہے کہ اس واقعے کی بات سے بہت سی کڑیاں کھلتی ہیں ، مہاجر سندھی کے ساتھ ساتھ ہندو اور بنگالی کے اندر کا زہر بھی بالآخر ظاہر ہوجا تا ہے یہی وہ ابتدائی نقوش ہوتے ہیں جو بعد میں گھر کی تقسیم کا سبب بنتے ہیں۔ کوئی بھی ادیب یا شاعر نہ صرف عصر حاضر کا شعور رکھتا ہے بلکہ وہ آنے والے زمانے کی پاپ سنے کا ادراک بھی رکھتا ہے اور یہ قدرت اللہ شہاب کا کمال ہے کہ انہوں نے بیوروکریسی کا ایک کل پرزہ ہونے کے باوجود اپنی تحریر میں ان محرومیوں کے بنیادی عوامل کا کھرا اور سچا تجز یہ پیش کیا، جنہوں نے ہماری آئندہ کی قومی اور ملکی، بلکہ نظریاتی اور جغرافیائی حدود پر گہرا اثر ڈالا۔ اب آتے ہیں دوبارہ دلشاد کے کردار کی طرف ۔ کراچی آنے کے بعد بھی دلشاد کے حالات میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی ،جسم کی بھوک کے سوداگر یہاں بھی اس سے سودے بازی کرتے ہیں، بلکہ کراچی میں تو اسے ان بین الاقوامی دلالوں سے بھی جان بچانا پڑی جو دوسرے ممالک کولڑ کیاں سپلائی کرتے تھے، ان میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی ، ناول میں خوشی محمد اور چیلا رام دو ایسے کردار ہیں جو ی کام کرتے ہیں، ان دونوں کے درمیان مکالمے کا انداز دیکھئے۔ یچ پوچوتو بڑا کرارا سینرن لگا تھا، چیلا رام کے گالوں کی کچوریاں خوشی سے پھول رہی تھیں، ایک سیزن میں سولہ مچھوکر یاں ، رام قشم میں نے تو ایسا دھند و ساری عمر نہیں کیا تھا، تم سالے قسمت کے دھنی ہو، خوشی محم منمنایا ، چوکری پر مچھوکری اتارتے تھے، یہاں مشکل سے صرف تین ہاتھ آئیں ‘‘ یہ طبقہ ایسا تھا جو ہر روز ہندوستان میں فسادات اور مسلمانوں کے لئے پٹے قافلوں کی آمد کی خبر میں سن کر خوش بھی ہوتا تھا اور اس بات پر اداس بھی کہ ایک ریفیو جی انہوں نے کشمیرنوں کے بارے میں بھی یہی کچھ سوچ رکھا تھا جب انہیں کشمیر کے بارے میں بی خبر ملتی کہ وہاں بھی آگ سنگ رہی ہے تو وہ پرامید ہو جاتے تھے ۔ کشمیری لڑکیوں ٹرین کرا چی نہیں آ رہی تھی، یہی وہ لوگ تھے جو کشمیر میں بھی ان حالات کی آس لگاۓ بیٹھے تھے اور آنے والے دنوں کی امید میں ہی رہے تھے، مہاجر اور پنجابی لڑکیوں کے بعد کے بارے میں خوشی محمد کا یہ خواب ملاحظہ ہو۔ خوبصورت، رنگین ، گلزار عورتیں . جن کے گالوں میں سیب ہوتے ہیں، چھاتی پر ناشپاتیاں، ہونٹوں پر انگور کا رس، آنکھوں میں ڈل کی لہروں پر رقصند و کنول، گلے میں پہاڑی جھرنوں کا سرور، انگ انگ س گلاب اور موپے کی رنگت ، اعطران کی بھینی بھینی مہک ۔‘‘ اس سارے ناول کا لالہ عروج وہاں سامنے آتا ہے جہاں ناول کے اختام پر برائی انداز میں گلنگو ہوتی ہے، جہاں دلشاد اور زبیدہ کی طرح کی بہت سے بکاؤ مال لین وین کرتی نظر آتی ہیں ، یہ منظر نگاری، مکالماتی انداز بیان میں یقینا نا قابل فراموش ہے ۔ ’’ایک جھونپڑی میں پاور تان کر دو حصے کئے ہوۓ ہیں، سامنے کی طرف دلشاد پکوڑیاں مل رہی ہے، پچھلی طرف زبیدہ دہی بڑے لگاۓ بیٹی ہے، ایک لمبا تڑنگا پٹھان پکوڑیوں کے سامنے پھسکڑا مارے بیٹا ہے۔ گرم گرم پکوڑیاں ہیں ، خان . کھاو. بلوکنے کی دوں؟ نرم ہے خو.گرم ہے؟ پٹھان نے آنکھ ماری ہاں خان، رزم ہے، خو گرم ہے، دلشاد کڑ بھی منہ کے سامنے کر کے مسکرائی، دلشاد کی مسکراہٹ میں بھی عجیب جادو تھا، اس کی ایک مسکراہٹ پر نثار ہو کر رحیم خان نے قسم کھائی تھی کہ وہ ارض و سما کی وسعتیں پھاند کر اسے چھین لاۓ گا۔ پٹھان نے ہوٹوں پر زبان پھیری ، خو ایک روپیہ نہیں خان، خو ای روی. ہٹ ۔ خو ڈھائی روپی. خو پاچ پٹھان نے اپنی جیب کے پیے گئے، اس کے پاس تین روپے پار آئے تھے، اس نے پونے دو روپیہ کا ادھار کرنا چاہا، لیکن دلشاد نے اسے مجبور کر دیا کہ خان قرض محبت کی قینچی ہے تم پیے پارے کر لاؤ میں تمہیں حبٹ پٹ نرم نرم ، گرم گرم پکوڑیاں اتار دوں گی ۔ پٹھان مایوس ہو کر دوسری طرف چلا گیا، وہاں اس نے دہی بڑوں کا سودا کیا ، ز بیدہ ابھی بچہ تھی ، نادان تھی ، معصوم تھی ، اس لئے وہ پونے دو روپے کا ادھار مان گئی ۔ زبیدہ نے دلشاد کو آواز دی، بہن ذرا اس طرف دھیان رکھنا، محمود سو رہا ہے، میں ذرا خان کے ساتھ جا کر دہی لے آؤں ۔ ایک لحاظ سے ناول اس جگہ ختم ہو جاتا ہے، اگر چہ قدرت اللہ شہاب خود کہتے ہیں کہ میں نے ابھی اس ناول کا انجام نہیں سوچا ، اسے میری گنہ گار آنکھوں نے کراچی کے عیدگاہ میں دیکھا، جہاں بے خانمانوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے، جہاں زبیدہ دہی لینے کسی پٹھان کے ساتھ چلی جاتی ہے اور دلشاد اپنی پکوڑیوں کیلئے بیسن لینے کسی اور گا مک کے ساتھ ۔ دہی اور بیسن کی اس ملاوٹ پر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ملت کا مستقبل پروان چڑھ رہا ہے، جب دلشاد کی بیٹی نرم نرم، گرم گرم پکوڑیوں پر پل کر جوان ہوگی ، جب زبیدہ کا بھائی محمود دہی بڑوں کی چاٹ پر سیانا ہوگا تو اسلام کی برادری میں دو گرانقدر کارکنوں کا اضافہ ہو جاۓ گا، ایک مضبوط بھائی ، ایک خوبصورت بہن.جسم کی مضبوطی اور جسم کی خوبصورتی یہی تو وہ اینٹ اور گارا ہے جس سے بہادر قومیں تعمیر ہوتی ہیں ۔‘‘ کیا قدرت اللہ شہاب کی ان باتوں کے بعد پچھ اور کہنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے۔