ڈرامے کا تعارف
ڈرامے کا تعارف، قدیم یونان کے ادوار سے لوگوں نے ڈراما بنایا، دیکھا گیا بہت پسند کیا گیا اور بڑی دل چسپی سے اس میں حصہ لیا۔ ڈراما تماشائیوں کے سامنے حقیقی یا فرضی واقعات و جذبات کو پیش کرتا ہے۔ ڈراما ایک بصری تجربہ ہے۔ یہ ذہن میں بہترین تصور بناتا ہے ۔ یہ تصویر میں اداکاروں اور مصنفوں کے الفاظ کے ساتھ مل کر مطلوبہ جذبات پیدا کرتی ہیں اور ڈرامے کے موضوع اور خیال کا اظہار کرتی ہیں۔
ڈرامے کی روایتی ہیئتیں
اس حقیقت کے باوجود کہ جدید ڈراما نگار روایتی ڈرامے کے عناصر کا رد و قبول کرتے ہیں، ڈرامے کی قدیم ہیئیں اب بھی سٹیج پر ہوتی ہیں اور لوگ ان سے محظوظ ہوتے ہیں۔
یونانی ڈراما۔
یونانی ڈرامے کی تاریخ کی تلاش میں کہا جا سکتا ہے کہ یونانی ڈراما نگاروں کے درمیان با قاعدہ مقابلہ تقریبا 530 ق م میں شروع ہوا۔ یہ مقابلے صدیوں تک جاری رہے جو ہمیشہ Bod of Wine Dionysus جو زندگی دینے والی طاقت کی علامت ہے، کی نذر کی جانے والی مذہبی تقریبات سے وابستہ ہوتے تھے۔ یہ ڈرامے باہر بڑے اور کھلے میدان میں نصف دائروی ایمفی تھیٹرز ( amphitheatres ) میں کھیلے جاتے تھے جن میں 15,000 آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی۔
تماشائی یونانی ڈرامے کے اجزاء کی سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر کورس ( Chorus ) عوام کی آواز کا ترجمان ہوتا تھا اور لوگ ایمفلی تھیٹرز کے نیچے کی طرف موجود ایک دائر دی حصے میں گاتے اور رقص کرتے تھے۔ آرکسٹرا کے پیچھے ایک اونچے سٹیج پر اپنے کردار کے مطابق ماسک سینے ہوۓ اداکار اونچی آواز میں بول کر اپنے کردار ادا کرتے تھے۔ یونانی تھیٹرز میں سیٹ بہت تفصیلی نہیں تھے لیکن ان کے پاس سٹیج کا ایک غیر معمولی آلہ سا تھا جسے deus ex machina (مشینی دیوتا) کہتے تھے۔ اس کے ذریعے ادا کار بلندی سے سٹیج پر اپنے کردار ادا کرنے کے لیے یہ کہہ کر اتارے جاتے تھے کہ دیوتا انسانوں کو سزا یا انعام کے طور پر ایسا کر رہے ہیں۔
یوتانی ڈرامے کے مناظر کورس کی شکل میں رقص اور نغمے کے ساتھ ختم ہوتے جن میں بعض اوقات منظر پر تبصرہ بھی ہوتا۔ جیسے ہی کورس گایا جا چکتا ان کے تجرے کا ایک حصہ مکمل ہوتا اور وہ سٹیج پر دائیں سے بائیں آجاتے ۔ جیسے ہی وہ دوسرا حصہ گاتے تو پھر دائیں طرف آجاتے ۔
یونانی ڈرامے شیکپیر کے پانچ ایکٹ کے ڈراموں، یا جدید تین ایکٹ کے ڈراموں کی نسبت مختصر تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں سے اکثر ڈرامے اساطیر اور روایتی قصوں پر مشتمل تھے اور تماشائی ان سے مانوس تھے ۔ مصنف کو پس منظر بیان کی ضرورت نہیں تھی ۔ زیادہ تر یونانی ڈرامے ڈیڑھ گھنٹے میں کھیلے جا سکتے ہیں۔ یونانی المیہ ڈراموں کی ایک مثال سوفوکلیس ) Sophocles ) کا Oedipus Rex ہے۔ یونانی ڈرامے کی روایت سے آگاہی کے لیے طلبہ کو سوفوکلیس کا ڈراما پڑھنا چاہیے یا اسے کھیلتے ہوۓ دیکھنا چاہیے۔
ایلزبتھ کے دور کا ڈراما۔
ولیم شیکسپیئر کے ڈرامے انگلستان کی ملکہ الزبتھ اول ( 1558 ء - 1603 ء) کے دور کے ڈراموں کی مثالیں ہیں ۔ شیکسپیر نے المیہ، طر بیہ اور تاریخی ڈرامے لکھے ۔ وہ بادشاہوں، ملکاؤں اور اعلی طبقے کے کرداروں کے افعال و اعمال پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی ان کے معاشقے اور سازشیں بھی کیونکہ یہ بھی ان کی زندگیوں کا حصہ ہے۔ الزبتھ کے دور کے ڈراما نگاروں نے یونانی روایت کی پیروی کی اور خواتین ادا کاروں کو سٹیج سے باہر کر دیا۔ نوجوان خوبصورت لڑ کے نوجوان ہیروئنوں کے کردار ادا کرتے اور بڑی عمر کی خواتین کے کردار مرد اداکار کرتے ۔ الزبتھ دور کے ابتدائی ڈرائے makeshift مقامات پر کھیلے جاتے جیسا کہ سراۓ کاصحن یا عمارتوں کے درمیان کی خالی جگہ یا در باری سراۓ جو کہ لندن لاء کالج تھا۔ جب تھیٹر ہے تو یہ عموما ہشت پہلو تھے ۔ اندر سے یہ دائرے کی شکل کے تھے ۔ تماشائی اونچے سٹیج کے دونوں طرف اور سامنے بیٹھ جاتے ۔ یونانی سٹیج کی طرح سٹیج سیٹ بہت سادہ اورمختصر تھا سواۓ اس لکڑی اور مشینری کے جس کے ذریعے اداکار ماوراۓ فطرت قوتوں کے نمائندوں کی حیثیت سے سٹیج پر اترتے تھے ۔ یونانی تھیٹر کے بریکس الزبتھ کے دور کے تھیٹر میں ایک دوسرے درجے کی بالکونی بھی تھی ۔ سٹیج پر داخلے اور باہر جانے کے گیٹ تھے۔ ایک پردے والی محراب تھی ۔سٹیج کے فرش میں ایک مخفی دروازہ بھی تھا جس سے بھوتوں اور روحوں کا اچا تک داخلہ ممکن ہوتا۔ الزبتھ کے دور کے تماشائی جن میں ان پڑھ سے لے کر اعلی تعلیم یافتہ شرفاء تک شامل تھے، ڈراما نگاروں کے لیے ایک چیلنج تھے ۔ کامیاب ڈراموں میں عموماً ایکشن، مزاح ، صدمہ، فلسفیانہ بصیرت اور جذبات ابھارنے والی شاعری کا امتزاج ہوتا تھا۔ اس طرح کے ڈرامے کی ایک مثال Hamlet ہے۔
ڈرامے کی جدید ہیئیں۔
الزبتھ کے دور میں ڈرامے کی کامیابی کو دیکھتے ہوۓ خصوصاً انگلستان اور فرانس کے ڈراما نگاروں نے المیہ اور طر بیہ ڈراموں پر خصوصی توجہ دی ۔اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ان ڈراما نگاروں نے معاشرتی برائیوں پر اپنے مزاحیہ ڈراموں میں مسلسل طنر کی اور رومانی تعلقات اور ان سے وابستہ پریشانیوں کی تصویر کشی کی ۔ اس دوران امر کی ڈراما نگاروں نے میلو ڈراما کی روایت ڈالی جن میں رہی انداز کے ولن اور ہیرو تھے جو خیر اور شر کی انتہاؤں کی علامت تھے۔
حقیقی ڈراما۔
مصنوعی طر بیہ اور مبالغہ آمیز میلو ڈراما کے ردعمل کے طور پر انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل کے ڈراما نگاروں نے ایک نئی ہیت حقیقی ڈراما ایجاد کی ۔ ان ڈراما نگاروں نے ایسے موضوعات پر لکھا جو روزمرہ زندگی سے متعلق تھے ۔ بحران، کش مکش اور جذباتی رئیمل جن کا تعلق عام آدمیوں سے تھا۔ حقیقی ڈرامے کے سٹیج کے فرش سے بھوٹ نکل کر مسائل پیدا نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ان مسائل کوحل کرنے کے لیے دیوتا اترتے تھے ۔ اس کی بجاۓ کرداروں کو پیش آنے والے مسائل واقعات کا منطقی نتیجہ معلوم ہوتے تھے اور فیصلے ایسے تھے جو تماشائیوں کی اکثریت کی سمجھ میں آنے والے تھے۔ حقیقی ڈراموں کے تھیٹر میں آڑ ( prop ) بنانے کا رواج ڈرامے کی پہلی ہیٹوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ڈراما نگارحقیقی زندگی کا عکس دکھانا چاہتے تھے ۔ اکٹ سٹیج ایک کمرے کی طرح ہوتا جس کی ایک دیوار غائب کر دی جاتی ۔ تماشائیوں کو دعوت دی جاتی کہ وہ آکر عام لوگوں کو دیکھیں جو بلند ، آرائشی اور شستہ زبان کی بجاۓ عام زبان میں گفتگو کرتے ہیں اور ازلی و دائمی سچائیوں ، عظیم حقیقتوں کی بجاۓ عام دنیاوی مشاہدات کرتے ہیں حقیقی ڈرامے کی ایک انچھی مثال ابسن ( Ibsen ) کا A Doll ' s " -- House"
لایعنیت کا تھیٹر
بیسویں صدی کے نصف آخر میں بہت سے ڈراما نگاروں نے حقیقی ڈرامے کو رد کرتے ہوۓ ایک نئی ہیت اختراع کی جو لایعنیت کے ڈرامے کی تھی ۔ ان ڈراما نگاروں نے حقیقی ڈرامے کی روایتوں سے اپنی راہ الگ کر لی ۔منطقی ترتیب رکھنے والے واقعات کی بجاۓ لایعنیت کے ڈرامے نے ایسے اعمال کو پیش کیا جن کی سمت نامعلوم تھی ۔ کرداروں کے مقاصد یا تو ایک دوسرے کے برکس تھے یا تھے ہی نہیں ۔ مکالے اور تقریریں بے جوڑ انداز میں ادھر ادھر بکھری ہوئی تھیں ۔ لایعنیت کا ڈراما کوئی ایک مرکزی خیال بیان نہیں کرتا۔ اس کی بجاۓ وہ تماشائیوں کو اس دنیا، جس میں ہم رہتے ہیں، کے بارے میں سوال اٹھانے کی دعوت دیتا ہے۔ لایعنیت کے ڈرامے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے پڑھنے والوں کو سیموئیل بیکٹ ( Samuel Beckett ) کا " Waiting for Godot " یا ہیرالڈ پنٹ ( Harold pinter ) کا The " " Caretaker پڑھنے کا مشورہ دیا جا تا ہے۔
ڈرامے کی اقسام۔
عموما ڈرامے کو دو اقسام میں بانٹا جا سکتا ہے، المیہ جو زندگی کے دکھوں اور سنجیدہ مسائل کو توجہ کا مرکز بنا تا ہے اور طر بیہ جو مزاحیہ پہلوؤں سے غرض رکھتا ہے۔ المیہ روایتی طور پر المیہ ڈراے شاہی خاندان کے افراد اور بہت باعزت عہدے داروں کی زندگی کے بارے میں ہوتا تھا۔ جیسے ڈراما آگے بڑھتا ہے، ان کرداروں کی قسمت انچھی سے بڑی میں تبدیل ہوتی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر شیکسپیئر کے ڈراے " King Lear " میں اس نام کے کردار کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔ معاشرے میں اعلی مقام پانے کے بعد الیے کا ہیرو ان وجوہات میں سے کسی ایک کی بنا پر تنزل سے دوچار ہوتا ہے قسمت یا ایسے حالات جو کردار کے اختیار سے باہر ہیں یا کوئی غلط فیصلہ۔ المیہ کے ہیرد کے تنزل یا مصیبت زدگی کو دیکھ کر تماشائیوں کے رحم اور خوف کے جذبات کو تحریک ملتی ہے ۔ المیہ کے ہیرو کو آہستہ آہستہ تباہی کی طرف جاتے دیکھنے سے یا ڈرامے کے اختتام کو دیکھ کر تماشائیوں کا اپنا کتھارس ہوتا ہے۔ لینی ڈرامے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تناؤ کے خاتمے پر گہرے سکون کا احساس اور یہ احساس کے ڈرامے سے محض تفریح کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی حاصل ہوا ہے ۔ جدید المیہ روایتی المیہ ڈرامے کے اصولوں کی سخت پابندی ہمیشہ نہیں کرتا۔ مرکزی کردار کوئی عام آدمی ہو سکتا ہے جیسا کہ " A Doll ' s House " میں Nora کا کردار ۔ مزید برآں جد ید الیہ ضروری نہیں کہ مرکزی کردار کی طبعی موت پر ختم ہو بلکہ اس کی بجاۓ یہ زندگی کے کسی ایک پہلو کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔ " جدید المیہ ڈرامے اور جد ید المیہ کرداروں کی صحیح تصور پیش کرتا ہے۔ طری روایتی المیہ ڈرامے کے بریکس، جو شرفا اور اعلی طبقے کے کرداروں کی طرف متوجہ رہتا ہے ،طر بیہ ڈراما عام آدمی کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے ۔ المیہ کے کرداروں کی طرح یہ لوگ بھی آویزشوں، مشکلات اور بحرانوں کا شکار ہوتے ہیں۔ تاہم کرداروں کو پیش آنے والے مسائل زیادہ گھمبیر نہیں ہوتے اور ان سے خوش مزاجی سے نمٹا جا تا ہے۔ طربیہ ڈراموں میں پلاٹ مختلف طرح کے ہوتے ہیں اور ان کے بنانے کے کئی ذرائع ہیں ۔ فتو یہ طربیہ ڈراما انسانوں کی خامیوں اور کنٹرور یوں کو ظاہر کرتا ہے اور ہمیں مبالغہ آمیز کر داروں اور اپنے طور طریقوں اور حماقتوں پر بنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ طنزیہ طربیہ ڈراما عموما ہلکا پھلکا اور حاضر جوابی پر بنی ہوتا ہے، پھر بھی اس کا مزاح اکثر طنز یہ انداز کا ہوتا ہے ۔ کرداروں کی خودغرضی اور خودفریبی پر ہنے کے ساتھ ساتھے ہمیں خود اپنے اور اپنے گرد کے لوگوں کے رویوں پر بنے کا موقع بھی ملتا ہے ۔ طنز یہ مزاح کی بنیاد گفتگو اور حرکتیں، دونوں ہوتے ہیں ۔ ڈراما نگار چھتے ہوۓ الفاظ اور کاٹ دار جملوں کے ساتھ ساتھ ہاتھا پائی وغیرہ بھی ڈراموں میں شامل کرتے ہیں تا کہ تماشائیوں کی ہنسی کو بیدار کیا جا سکے۔ تا ہم رومانی طربیہ ڈرامے میں شناخت کی غلطیوں اور غیرمتوقع انکشافات کے ساتھ ساتھ مصنوعی غصے سے سٹیج پر دوڑنے نقلی لڑائیوں اور دوسری جسمانی حرکتوں سے آہستہ آہستہ اور مسلسل مزاح ابھارا جا تا ہے ۔ رومانی طربیہ میں انسانی رویوں کو سزا دینے یا بہتر بنانے کا مقصد نہیں ہوتا بلکہ خودشناسی کی ایک ہلکی سی ہنسی کو دعوت دینا ہوتا ہے ۔ رومانی طر بیہ تماشائیوں کو کوئی سبق سکھانے کی بجاۓ انہیں خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس طرح کا ایک طربیہ ڈراماشیکپیر کا " As You Like It " ہے۔ طربیہ ڈراما المیہ سے بہت بڑے فرق رکھتا ہے۔ المیہ مرکزی کردار کے تنزل کی طرف سفر کرتا ہے جبکہ طر بی مرکزی کردار کی قسمت سنوار نے کی طرف جاتا ہے۔ المیہ عموماً موت پر اور اس طرح ضابطوں کی بحالی پرختم ہوتا ہے جبکہ طربیہ کا انجام، اکثر مرکزی کر داروں اورنمنی کرداروں کی شادی کے ذریعے، مصالحت پر ہوتا ہے۔
الیہ مزاحیہ ڈراما ( Tregicomedy )،جدید ڈراما المیہ اور طر یہ دونوں عناصر کا امتزاج ہوتا ہے۔ المیہ طربیہ کئی شکلیں بدلتا ہے ۔ بعض اوقات، جیسا کہ ڈراما " Trifles " میں، بنیادی توجہ الیے پر ہوتی ہے۔ ایک عورت اپنے خاوند کوئل کر دی ہے ۔۔۔ لیکن منڈ لاتے ہوۓ شیرف اور اس کے مرد ساتھیوں سے مزاح پیدا کیا گیا ہے جو ان دو عورتوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو اس کیس کو حل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں جس نے تمام مردوں کو چکرا دیا تھا۔ المیہ طربیہ میں بعض اوقات مزاح ڈرامے پر چھایا ہوا ملتا ہے جس میں سنجیدگی کی ایک زیر میں لہر موجود ہوتی ہے کیونکہ مزاحیہ باتوں اور حرکتوں کے پیچھے سنجیدہ موضوعات موجود ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال فارسٹین ( Fierstein ) کا On Tidy " " Endings ہے جو کرداروں کے درمیان مزاحیہ جملوں کے تبادلوں سے بھرا ہوا ہے لیکن اس کے زیرح موضوع نقصان اور موت کا ہے۔ ڈرامے کو زیادہ دلچسپ اور بامعنی طریقے سے پڑھانے کے لیے کچھ تجاویز درج ذیل ہیں جو شاید اسا تذہ اور پھر طلبہ کے لیے مفید ثابت ہوسکیں: 1 ۔ طلبہ سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ڈرامے کا کوئی ایسا منظر یا حصہ تلاش کر میں جو عجیب، حیران من ، الجھانے والا، زوردار اور تحریک دینے والا ہو۔ پھر اس کا خلاصہ لکھیں اور اس پر اپنی رائے دیں۔ 2 ۔ ڈرامے میں دو کرداروں کی بنیادی خصوصیات کا موازنہ کر میں۔ اس بات کی وضاحت کر میں کہ آپ نے ان کے تضادات اور مشابہتوں کا کیوں اہم سمجھا۔ 3 ۔ ڈرامے کا پہلا ایکٹ یا منظر پڑھنے کے بعد ڈرامے کے کسی مرکزی کردار کے متعلق اپنی ابتدائی راۓ بیان کیے ۔ اس کے بعد پورا ڈراماشتم کر چکنے کے بعد پھر اپنی راۓ کی وضاحت کیجیے۔ ڈرامے کے واقعات، افعال اور مکالموں کا تجزیہ کر کے بتائے کہ انہوں نے آپ کی پہلی راۓ کی تائید کی یا اسے بدلنے کا باعث بنا۔
ان تمام آو براشوں کی فہرست بنا ہے جو آپ کو ڈراے میں نظر آئی ہیں چاہے وہ مرکزی کرداروں کے تجربے میں آئی ہوں یا سمی ہیں؟ کرداروں کا آویزشوں کو حل کرنا کس طرح ڈرامے کے عل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے؟ ڈراے کا کوئی منظر مظفر افسانے کی شکل میں ووہارولکھے ۔ کرداروں کے والی محسوسات اور خیالات اور وہ ما عوال جس میں وقوعہ ہوتا ہے۔ ان سب کی تفصیلات لکھیے ۔ کوئی پراو راست یا ریکارڈ شدہ ڈراما یا کسی ڈراے پر ہی کوئی فلم ویکھیے ۔ اپنی اس وقت کی راۓ جب آپ نے یہ ڈراما پڑھا اور اس وقت کی راۓ جب آپ نے اسے سیج پر یا فلم میں دیکھا، دونوں کا موازنہ کیے۔ ان پہلوؤں پر غور کیے جو سٹیج با فلم ڈائر یکٹر نے بدلئے مناسب ہے۔ مثال کے طور پر کیا کوئی کردارشتم کیا گیا؟ 5 -6 -7 شامل کیا گیا؟ کیا کچھ مناظر چھوڑ دیے گئے؟ ان فیصلوں کے اثرات کا تجزیہ کیے۔ کسی ڈرامے کے ابتدائی مکالمات کی تشریح کیے۔ ہر سطر کے اندر زبان کے استعمال پر غور کیے۔ اس مکالمے سے کیسا لب ولہجہ پیدا ہوتا ہے؟ یہ سطور ڈراے کے موضوع اور اس میں آنے والی آویزشوں کے متعلق کیا تو قعات پیدا کرتی ہیں؟
سی کردار کی مدات اور ان کے مل پاور اکہ اس کے کردار اپنے سلے سے اتا ہے، اس پرانی باۓے دیے۔ اس گردان کے فیصلوں اور اعمال ( یا ایل ال دگر عالی) و تج کرتے ہوۓ اپنے تجربات و مشاہدات استعمال کیے۔ کسی ڈرائے کا ایک تبادل الانام سے ای این ادانی مهر جو اس ڈرانے کے موجودہ آخری کر کے اسلام کے مناسب وقت کے ای ظہور پسی ہو۔ اس منظر کی تہ لی کی وجہ سے ان کرداروں کے مستقبل کے بارے میں اپنی رائے کی وضاحت کیے۔ یہ وضاحت کرتے ہوئے ڈرانے میں موجود اس سے تعلق تلصیات کا حوالہ -9 10 ۔ ڈراما نگاری کے تاریٹی میں کار کا مطالعہ کیجیے، ڈراموں پر تہرے یا ڈراموں کے تجربے اور جہالات کے بارے میں ملانان پڑھیے۔ اپنے اس مطالعہ سے حاصل کردہ ایک یا دو نقی اصیتوں کا انتخاب کیجیے اور ان کی وضاحت کیے۔ آپ کے ان حاصلات نے آپ کی ابتدائی ڈراما نہی میں کیا اضافہ کیا؟ یہ اصناف ادب زیادہ تر افسانوی ادب سے تعلق رکھتی ہیں۔ تجاویز اور رہنما اصول بتائے گئے ہیں کہ کس طرح زبان کے حوالے سے ان ادب پاروں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے؟ طلبہ کس طرح کلاس کی سرگرمیوں میں عملی حصہ لینے کے قابل ہو سکتے ہیں اور کس طرح وہ متن کو پڑھ سکتے ہیں اور اس پر اپنے نقطہ نظر کا اظہار کر سکتے ہیں، اور ادب کے بارے میں اپی انفرادی اور ذاتی رائے دے سکتے ہیں۔ اس مقام پر مقالہ نگار نثر کی ایک اہم صنف ’’ضمون‘‘ ( Essay ) پر بات کرنا پاتا ہے تو ملک کے اکڑ اداروں کے ایم اے (انگریزی کے نصاب کا لازمی حصہ ہے۔ مضمون کو پڑھئے ہوئے قاری کو و یکتا پا ہے کہ اس کا مرکزی مقصد کیا نظر آ تا ہے ۔ کیا یہ کسی علس یا ملام کے بارے میں بنانے کے لیے لکھا گیا ہے، یا کیا یہ کی کہانی کو بیان کرنے کے لیے لکھا گیا ہے؟ اس بیان یا کہانی کی آپ کیا اہمیت گھتے ہیں؟ یہ بیان یا کہائی آپ، کے اپنے مشاہدے اور تجر سے سے کیا تعلق رکھتی ہے؟ ایک مضمون میں اہم موازنے اور تضادات ہو سکتے ہیں۔ یہ کسی وقوعے کی و جوہات بیان کر سکتا ہے یا کسی خاص واقعے باعمل کے اثرات کی وضاحت کر سکتا ہے ۔ اقض مضامین کسی منیال ( idea ) کے بارے میں کسی ایک حتمی نتیجے پر زور دیے بغیر کئی ارکا ناتے کھولتے ہوۓ کچھ ارادوں اور منصوبوں کو بیان کرتے ہیں ۔ کئی دیگر مضامین کسی نہ کسی طرح کسی نفتظ نظر کی حمایت یا مخالفت میں، یا کسی مسئلہ کا حل پیش کرنے کے لیے یا دنیا کے بارے میں سوچنے کا یا نقطہ نظر پیش کرنے کے بارے میں ہو سکتے ہیں۔ مضمون کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے وہ اس بات پر غور کریں کہ لفظوں کا انتخاب سے مصنف نے مضمون اور اس کے فقروں اور پیرا گرافوں کو اور وہ طریقہ کیا ہے جس ۔ ترتیب دیا ہے ۔ پھر ان کو یہ دیکھنا چاہے کہ ان کے خیال میں مصنف اپنے مقصد کو بیان کرے میں کس حد تک کامیاب رہا ہے۔ علاوہ ازیں انہیں یہ دیکھنا چاہیے کہ مصنف نے سابح کی تائید میں کیا تفصیلات ، و بنوہات اور مثالیں دی ہیں؟ وہ انہیں کیسا سمجھتے ہیں؟ قابل یقین ، حیران کن ، کمزور یا نا کافی ؟ بہتر تفہیم کے لے طلبہ کو یہ بھی کہنا چاہیے کہ وہ ان سوالات اور پیچیدگیوں کو رکھیں جو مصنف نے بیان کی ہیں اور ان کے جو جواب اور حل پیش کیے ہیں ۔ پھر وہ ان سوالات، پیچید گیوں ، جواہات اور عقدہ کشائیوں پر اپنی رائے دیں۔ مختلف اصناف کو ان طریقہ ہاۓ کار کے مطابق پڑھانا طلبہ کو ادب کے مطالعے میں مزید پر اعتماد بناۓ گا۔ جیسے جیسے ان کا ذخیرہ الفاظ اور خیالات نمو پائیں گے، وہ اپنا اظہار زبانی اور تحریری دونوں طرح کی انگریزی میں بہتر طور پر کرسکیں گے ۔ وہ عظیم مصنفین کی تحریروں کی خوبصورتی کی تحسین کرنے کے قابل ہوسکیں گے ۔ وہ اپنی زندگی کے متعلق سچائیوں کو دیکھنے کے قابل ہوسکیں گے ۔ اس سے انچی اقدار سیکھیں گے اور مجموعی طور پر ان میں متوازن شخصیت کی تعمیر ہو گی ۔ ہر صنف ادب اور تدریسی طریقہ ہاۓ کار کی توانائیوں کے متعلق اتنا کچھ کہنے کے بعد مقالہ نگار ادب کے ابلاغ پر بحث کرے گا؛ لینی ادب اور اس میں موجود پیغام، متن اور خیال کا برتاوا، انحرافات کے مسائل اور ان کا حل ، قواعد زبان کی پابندی، معنی اور اقدار، اور ان تمام کا امتزاج کس طرح مصنف اور قاری کے درمیان ابلاغ کو بہتر بناتا ہے۔
حواشی و حوالہ جات
اس باب میں پیش کیے گئے زیادہ تر خیالات کے لیے مقالہ نگار نے . Judith A Stanford کی کتاب " Responding to Literature " ، تیسرا ایڈیشن، ے فیلڈ پبلشنگ کمپنی ، کیلیفورنیا، 2002 ء، سے استفادہ کیا ہے ۔ مقالہ نگار نے اس کتاب کو اتنی بار پڑھا ہے کہ یہاں ہر حوالے کی نشاندہی کر نا ممکن نہیں ہے ۔ مقالہ نگار یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں ادب کی تدریس کے لیے سٹینفورڈ کی بہت سی تجاویز اور مشورے بروقت ہیں ۔حتی کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن ممالک میں انگریزی اکثر لوگوں کی پلی زبان ہے، وہاں بھی ادب کی تدریس میں ایسے ہی ناموزوں طریقے رائج ہیں جیسا کہ پاکستان میں ہیں۔ یہاں نہ صرف انگریزی نہ بولنے والے ممالک کے لیے بلکہ انگریزی بولنے والے ملکوں کے لیے بھی نو در یافت کے ایک عموی عمل کی نشاندہی کی گئی ہے۔