ابن انشاء کا تعارف
اِنشاء جی کا شُمار اُردو اَدب کے اُن مایہ ناز قَلم کاروں میں ہوتا ہے جِنہوں نے نظم ونثر دونوں میدانوں میں اپنے کمالِ فن کے جَھنڈے گاڑے ہیں۔ اُن کی ہَمہ گِیر اور ہَمہ جِہت شَخصِّیت میں ایک شاعِر بھی موجُود ہے، ایک کالم نویس بھی، بَچّوں کا ادیب بھی اپنی موجُودگی کا اِحساس دِلاتا ہے، سفرنامہ نِگار اور مُتَرَجِم بھی پائے جاتے ہیں۔ غرض یہ کہ وہ ہر صِنفِ اَدب میں ایک اَلگ دبستان ہیں اور اپنے اُسلُوب کے مَؤجِد بھی ہیں اور خاتَم بھی۔
اِبنِ اِنشاء کا اصل نام شیر مُحَمّد خان تھا۔ اِنشاء جی کہا کرتے تھے کہ میرے اَصل نام میں ایک عَدد چُوپائے (شیر) کا نام شامِل ہے اِس لیے جانوروں کے ساتھ مُشابہت سے بَچنے کی خاطِر میں نے اَصل نام کی بَجائے قلمی نام (اِبنِ اِنشاء) اِختیار کیا۔ جمیلُ الدین عالی نے اِبنِ اِنشاء کو "اِنشاء جی" کہا جِس کی وجہ سے اِبنِ اِنشاء "اِنشاء جی" ہی ہو گئے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حَقِیقت ہے کہ ادبی حلقوں میں وہ اپنے اَصل نام کی بجائے قلمی نام سے زیادہ شُہرت رکھتے ہیں بلکہ سَچ تو یہ ہے کہ اُردو شِعر واَدب سے شَغَف رکھنے والے ایسے لوگوں کی تعداد کَم ہے جو اُن کے اَصل نام سے واقِف ہیں۔
اِنشاء جی 15 جون 1927ء کو مُوضع تھلہ، تحصیل پھلور، ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد کا نام چوہدری مُنشی خان اور والدہ کا نام مریم تھا۔ اِنشاء جی نے 1942ء میں لُدھیانہ ہائی سکول سے دَرجہ اَوّل میں میٹرک کا اِمتحان پاس کیا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد وہ انبالہ چھاؤنی میں مِلٹری اکاؤنٹس میں بطَورِ کلرک بھرتی ہو گئے۔ کم آمدنی، گھریلو اُلجھنوں اور دفتری مَصرُوفیات کے باوجُود اُنہوں نے تعلیمی سِلسِلہ مُنقطع نہیں ہونے دیا، چُنانچہ 1944ء میں مُنشی فاضِل کا اِمتحان پاس کرنے کے بعد اُنہوں نے 1946ء میں جامِعہ پنجاب سے بی اے کی ڈِگری حاصِل کی۔ گریجویشن کرنے کے بعد اِنشاء جی نے مِلٹری اِکاؤنٹس کی مُلازمت کو خیر باد کہا اور دہلی جا کر امپیریل کونسل آف ایگریکلچر میں بھرتی ہو گئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ لاہور آئے اور 1947ء سے 1949ء تک ریڈیو پاکستان لاہور میں کام کرتے رہے۔ جُولائی 1949ء میں وہ ریڈیو پاکستان کی مُلازمت کے سِلسِلے میں کراچی مُنتَقِل ہو گئے جہاں اُنہوں نے اُردو کالِج کراچی میں داخلہ لیا اور 1953ء میں اُردو زُبان وادب میں ایم اے کیا۔
اِنشاء جی نے 1960ء میں روزنامہ اِمروز کراچی میں درویش دمشقی کے نام سے کالَم لِکھنا شُروع کیا۔ 1965ء میں روزنامہ اَنجام کراچی اور 1966ء میں روزنامہ جنگ سے وابستگی اِختیار کی جو اُن کی وفات تک جاری رہی۔ اِمروز، اَنجام اور جنگ کے عِلاوہ اُنہوں نے لاہور کے ہفت روزہ ایڈیشنز اور ہفت روزہ اخبارِ خواتین اور اخبارِ جہاں میں بھی بطورِ کالم نِگار خِدمات اَنجام دیے۔ وہ 1959ء میں پاکستان رائٹرز گلڈ کے رُکن بنے اور 1962ء میں نیشنل بُک کونسل (اب اِس اِدارے کو نیشنل بُک فاؤنڈیشن کہا جاتا ہے) کے ڈائریکٹر مُقرَّر ہوئے اور طویل مُدّت تک اِس عُہدے پر تعیّنات رہے۔ اِبنِ اِنشاء ٹوکیو بُک ڈویلپمنٹ پروگرام کے وائس چیئرمین اور ایشین کوپبلیکیشن پروگرام ٹوکیو کی مرکزی مَجلِسِ اِدارت کے رُکن بھی تھے۔ زندگی کے آخری اَیّام میں حُکُومتِ پاکستان نے اُنہیں اِنگلستان میں تعیّنات کر دیا تھا تاکہ وہ اپنا عِلاج کروا سکیں لیکن سرطان کے بے رحم ہاتھوں نے اُردو اَدب کے اِس مایہ ناز ادیب اور بنجارے شاعِر کو اُن کے لاکھوں مَدّاحوں سے جُدا کرکے ہی دَم لیا۔
اِبنِ اِنشاء کو بَچپن ہی سے شِعر گُوئی کا شُوق تھا۔ زمانہِ طالِب عِلمی میں اُنہوں نے "اصغر، قیصر، مایُوس اور مایُوس صِحرائی" تَخَّلُص اَپنائے تھے۔ اپنی ذاتی زندگی میں اُنہیں کئی سانِحات اور مَحرُومیوں (بِالخُصُوص پِہلی شادی میں ناکامی) کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعِری میں فَلاکَت، درد وغم، حُزنُ ومَلال اور اُداسی وپُژمُردگی کی بازگَشت بَکثرت سُنائی دیتی ہے۔ اُن کی بہت سی غزلیں اور نظمیں اُن کی ذہنی کیفیات کی غَمَّاز وعَکَّاس ہیں۔ وہ خُود کِہتے ہیں کہ: "میری نظموں میں وَحشَت، سُپُردگی اور ربودگی میری زندگی ہے۔" اِنشاء جی نے بھرپُور شاعِری کی ہے جِس میں جوگ بَجوگ کی کہانیاں اور ویرانئی دل کی حَسرت ومَاتم کی حکایتیں ہیں۔ اُن کی شاعِری میں فقر، طنطنہ، وارفتگی اور آزارگی پائی جاتی ہے۔ اِنشاء جی کا پِہلا مجمُوعہ کلام 1955ء میں "چاند نِگر" کے نام سے شائع ہُوا۔ اِس کے عِلاوہ اُن کے شِعری مجمُوعوں میں "اِس بستی کے اِک کُوچے میں (1976ء) اور دلِ وحشی (1985ء) شامِل ہیں۔ اِنشاء جی نے بَچّوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں۔ اُن کی ایک چھوٹی بہن ہُوا کرتی تھیں جِن کا نام "بلقیس بانو" تھا اور گھر بَھر اُن کو پیار دُلار سے "بلّو" کہا کرتا تھا۔ اِبنِ اِنشاء کے بقَول وہ روزانہ بلّو کے لیے ایک نظم کہا کرتے تھے اور جب بہت ساری نظمیں جمع ہو گئیں تو تمام نظموں کو "بلّو کا بستہ" کے عُنوان سے یک جا کرکے 1957ء میں شائع کیا گیا۔
اِبنِ اِنشاء نے اُردو اَدب کو کئی خُوب صُورت سفرنامے بھی عطا کیے ہیں۔ یونیسکو کے مُشیر کی حَیثِیّت سے اُنہوں نے مُتعدّد اِسلامی، یُورپی وایشیائی مُمالِک کا دورہ کیا تھا جِن کا اَحوال اپنے سفرناموں میں اپنے مَخصُوص طنزیہ وفکاہیہ اَنداز میں تحریر کیا ہے۔ اُن کے سفرناموں میں "چلتے ہو تو چین کو چلیے (1967ء)، آوارہ گرد کی ڈائری (1971ء)، دُنیا گُول ہے (1972ء)، ابنِ بطوطہ کے تعاقُب میں (1974ء) اور نَگری نَگری پِھرا مُسافِر (1989ء)" شامِل ہیں۔ عِلاوہ ازیں اُن کی دیگر کِتابوں میں "اُردو کی آخری کتاب (1971ء)، آپ سے کیا پردہ، خُمارِ گندم (1980ء) باتیں اِنشاء جی کی اور قِصّہ ایک کنوارے کا" قابلِ ذکر ہیں۔ وفات کے بعد اُن کے خُطوط کا مجمُوعہ "خط اِنشاء جی کے" کے نام سے شائع ہو چُکا ہے۔
اِنشاء جی ایک مُتَرَجِم کی حیثِیّت سے بھی بُلند مُقام پر فائز ہیں۔ اُنہوں نے کثیر تعداد میں منثُور ومنظُوم کِتابوں کو اُردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ پاکستان کی عِلاقائی زُبانوں کی شاعِری کے منظُوم اُردو ترجُمے کرنے کے عِلاوہ 1960ء میں اُنہوں نے چینی نظموں کا منظُوم اُردو ترجُمہ "چینی نظمیں" کے نام سے شائع کرایا۔ اَفسانوی اَدب کے ذیل میں اُنہوں نے جان سٹین کے ناول The Moon is Down کا "شہرِ پناہ" کے نام سے، ایڈگرایلن پوا کی کہانیوں کا "اَندھا کُنواں" کے نام سے، اوہنری کی کہانیوں کا "لاکھوں کا شَہر" اور ولیم بُش کی روسی کہانی کا "شلجم کیسے اُکھڑا" کے نام سے اُردو زُبان میں کامیاب ترجُمے کیے ہیں۔ عِلاوہ ازیں اُنہوں نے جاپان کے ایشین کوپبلیکیشن کے زیرِ اِہتمام دو کِتابوں کو "خُون کی باتیں" اور "تارو اور تارو کے دوست" کے نام سے اُردو کا جامہ پِہنایا ہے۔
اِبنِ اِنشاء کی تخلیقات کا ایک دل چَسپ پِہلو یہ ہے کہ اپنی نثری تحریروں (کالموں، سَفرناموں، خُطوط اور طنز ومزاح وغیرہ) میں ہمیں ایک اِنتہائی کھلنڈرا اور ہنسی مزاح کے گلچھرے اُڑاتا اِنشاء جی مِلتا ہے جب کہ شاعری (نظموں اور غزلوں) میں وہ ایک اُداس شَخص کے طَور پر سامنے آتا ہے۔ اِنشاء جی اپنی تخلیقات کے ضِمن میں رقم طراز ہیں: "شاعِری میرا عِشق ہے، نثر سے میں نے عِشق نہیں کیا شادی کی ہے، یُوں سمجھو کہ کالم نِگاری میری اِزدِواجی زندگی ہے۔" اُن کی کِتابوں میں مَضامین کو پُر لُطف اور دل چسپ بنانے کی خاطِر معرُوف کارٹونِسٹ جمشید نجمی سے حَسبِ مُوقع کارٹون بھی بنائے گئے ہیں۔
اُردو زُبان کے اِس قد آور ادیب اور مایہ ناز شاعِر کے فن کو اُن کے ہم عَصر اور بعد کے شُعرا، اُدَبا اور ناقِدین نے بھی تسلیم کیا ہے اور اُنہیں اپنے اپنے اَنداز میں سراہا ہے:
"اِبنِ اِنشاء ایک قُدرتی مزاح نِگار ہے۔ جِتنا زیادہ وہ لِکھتا ہے، اُتنا ہی اُس کا اُسلُوب نِکھرتا ہے۔" محمد خالد اختر
"وہ مُنفرد سادھو شاعِر جِس نے کبھی اپنا کلام بھی دوسروں کو نہ سُنایا تھا جِس کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر بھی آپ کو پتہ نہ چلتا تھا کہ وہ شاعِر ہے۔ اب کالم چھپنے کے بعد دوستوں سے پُوچھتا پِھرتا تھا، آپ نے اخبار نہیں پڑھا کیا؟" مُمتاز مُفتی
"اِبنِ اِنشاء زیادہ تر اَدبی اور سَماجی موضُوعات پر قَلم اُٹھاتے ہیں لیکن فِطری حِسِ ظرافت کے باعِث اَدق سے اَدق موضُوع کو بھی شگُفتگی سے مَملو کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔" ڈاکٹر وزیر آغا
"اِنشاء جی کا اپنا فلسفہ تھا کہ زندگی اور زندگی کے مَسائِل کا کوئی نتیجہ نہیں نِکالنا چاہیے کیونکہ نتیجہ کُچھ نِکلتا ہی نہیں، حاصِل کُچھ ہوتا ہی نہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ حاصِل تو صِرف حِساب کے سوالوں کا ہوتا ہے اور زندگی نہ حِساب ہے نہ سوال۔" اشفاق احمد
"اِبنِ اِنشاء کی کِتاب ہو، رسالے میں مضمون ہو یا اخبار میں کالم، اُن کا نام پڑھتے ہی ہونٹوں پر مُسکُراہٹ آجاتی ہے کہ اَب یہ ہنسائیں گے۔ پِھر وہ ہَنساتے ہیں اور خُوب ہنساتے ہیں۔" شفیق الرحمان
"اُردو مزاح میں اِبنِ اِنشاء کا اسلوب اور آہنگ نیا ہی نہیں، ناقابلِ تقلید بھی ہے۔ سادگی وپُرکاری، شگُفتگی وبے ساختگی میں وہ اپنی نظیر نہیں رکھتے۔ اُن کی تحریریں ہماری اَدبی زندگی میں ایک سَعادت اور نِعمت کا درجہ رکھتی ہیں۔" مُشتاق احمد یُوسفی
"بِچّھو کا کاٹا روتا اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے۔ اِنشا جی کا کاٹا سوتے میں مُسکراتا بھی ہے۔" مُشتاق احمد یُوسفی
اِبنِ اِنشاء طویل علالت کے بعد 51 برس کی عُمر میں 11 جنوری 1978ء کو لندن کے ایک ہسپتال میں اِنتِقال کر گئے۔ اُنہیں 13 جنوری کو کراچی میں پاپوش نِگر کے قبرستان میں سُپُردِ خاک کیا گیا۔
"اِبنِ اِنشاء چَل بَسے، چاند نِگر کی رُوشنی دوستوں سے ہمیشہ کے لیے رُوٹھ گئی اور اُردو کا عظیم بنجارہ اپنی عُمر کی پُونجی لُٹا کر کُوچ کر گیا۔ اُردو نثر میں شگُفتگی کا سَدا بہار آبشار تھم گیا، وہ جِس کی باتوں میں گُلوں کی خُوش بُو تھی، وہ جِس کے لفظوں میں موتیے کی کلیاں کِھل اُٹھتی تھیں، اُفق کی دُھند میں کھو گیا۔ وہ سُورج جو صِرف اُس کے قَلم سے طُلوع ہوتا تھا، اَیوانِ اُردو میں پِھر کَب چَمکے گا؟ اُردو مزاح نِگاری کے قبیلے کا سردار رُخصت ہو گیا۔ کل جب وہ ہم میں مَوجُود تھا، ہم کِتنے توانگر تھے، آج وہ ہم میں موجُود نہیں، ہم کِتنے نادار ہو گئے ہیں۔ اِبنِ اِنشاء ایک بے بہا مَتاع تھے۔" سیّد ضمیر جعفری
اِنشاء جی کی کِتابیں آج کل زیرِ مُطالعہ ہیں۔ اُن کی نثری تخلیقات سے اپنی پسند کے اِقتباسات اور شِعری اِنتخاب کو اپنی دیوار پر شائع کرنے کا سِلسِلہ اگلے ہفتے عشرے تک جاری رہے گا۔
مَنحُوس غَزل
اِبنِ اِنشاء کی وَجہِ شُہرت اُن کی نظمیں اور غَزلیں ہیں جو کِتابی صُورت اِختیار کرنے سے قَبل باقاعدگی سے اَدبی جریدوں میں شائِع ہُوتی تھیں۔ سَتّر کی دَہائی کے شُروع میں اُنہوں نے ایک غَزل لِکھی جِس نے اُنہیں بامِ عُروج پر پَہُنچا دیا۔ یہ غَزل اُن کے دُوسرے مَجمُوعہِ کلام "اِس بَستی کے اِک کُوچے میں" میں شامِل ہے اور یہ غَزل ہے: "اِنشا جی اُٹھو اَب کُوچ کرو"
یہ غَزل ایک اَفسُردہ شَخص کے بارے میں تھی جِس نے ایک رات کِسی مَحفِل (مُمکِنہ طَور پر قَحبَہ خانے) میں گُزاری اور پِھر اَچانک اُٹھنے اور جانے کا فیصلہ کیا۔ نہ صِرف اُس جَگہ سے بَلکہ شَہر سے بھی۔ وہ اپنے گھر واپس جاتا ہے اور وہاں عَلیَ الصُبح پَہُنچتا ہے۔ وہ اِس تَعَجُّب کا شِکار ہُوتا ہے کہ اَپنے مَحبُوب کو کیا جَواز پیش کرے گا۔ وہ ایسا شَخص ہے جِسے غَلط سَمجھا گیا ہے اور اَب وہ جو اُس کے مُطابِق لایعنی وُجُود ہے۔ اِس میں مَطلب ڈُھونڈنے نِکلا ہے۔
اِس غَزل نے جَلد ہی مَعرُوف کلاسیکل اور غَزل گُلوکار امانت علی خان کی دل چَسپی حاصِل کر لی۔ امانت ایسے الفاظ کی تلاش میں تھے جو شَہری زندگی (لاہور اور کراچی) کے درد کو بیان کر سکے۔ کِسی نے اُنہیں اِبنِ اِنشاء کی "اِنشا جی اُٹھو" تَھمائی۔ امانت علی خان نے اِسے گانے کی خُواہِش ظاہِر کی۔ اُنہوں نے اِبنِ اِنشاء سے مُلاقات کی اور مُظاہرہ کرکے بَتایا کہ اُنہوں نے کیسے اِس غَزل کو گانے کی مَنصُوبہ بَندی کی ہے۔ اِنشاء جی، امانت سے بہُت مُتَاثِر ہوئے جِنہوں نے خُود کو اِس غَزل کے ٹُھکرائے ہوئے مرکزی کِردار میں ڈھال لیا تھا۔
جب امانت علی خان نے پِہلی بار یہ غَزل پاکستان ٹیلی ویژن پر جنوری 1974ء میں گائی تو چینل سے لاتعداد خُطُوط میں اِس غَزل کو دُوبارہ چَلانے کی فرمائِش کی جانے لگی۔ یہ امانت علی خان کی سَب سے ہِٹ غَزل ثابِت ہوئی مَگر اِس کامیابی سے لُطف اَندوز ہونے کے چند ماہ بعد ہی امانت علی خان کا اَچانک اِنتِقال ہو گیا۔ اُن کی عُمر صِرف 52 سال تھی۔
امانت علی خان کی وفات کے چار سال بعد اِس غَزل کے شاعِر اِبنِ اِنشاء بھی چَل بَسے۔ وہ 1977ء سے کینسر کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی وجہ سے لندن میں زیرِ عِلاج تھے۔ اِنشاء جی نے ہِسپتال کے بِستر سے اپنے قریبی دُوستوں کو بہُت سے خَط ارسال کیے۔ ایسے ہی ایک خَط میں اُنہوں نے لِکھا کہ وہ "اِنشا جی اُٹھو" کی کامیابی اور امانت علی خان کی مَوت پر حیران ہوتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی گِرتی ہوئی حالت کی جانِب اِشارہ کرتے ہوئے لِکھا: "یہ مَنحُوس غَزل کِتنوں کی جان لے گی؟" اِس کے اَگلے روز 11 جنوری 1978ء کو اِبنِ اِنشاء کا اِنتِقال ہو گیا۔ وفات کے وقت اُن کی عُمر صِرف 51 سال تھی۔
امانت علی کے بیٹے اسد امانت علی بھی مَشرقی کلاسیکل اور غَزل گانے کی خُداداد صَلاحِیت رکھتے تھے۔ اُنہوں نے 1974ء میں اپنے والِد کی مَوت کے بعد باقاعدگی سے پی ٹی وی پر پَرفارم کرنا شُروع کر دیا تھا مَگر اَپنے والِد کے بَرعکس اسد نے اُردو فِلموں کے لیے بھی (بَطَورِ پلے بیک سِنگر) گانا شُروع کیا۔ اُنہیں عِزّت وشُہرت 1980ء کی دہائی میں مِلی۔ وہ غَزل کنسرٹس کے لیے مَقبُول تھے اور اپنی مَشہُور غَزلیں، فِلمی گانے اور وہ جو اُن کے والِد کی تھیں، گاتے تھے۔ 2006ء میں پی ٹی وی میں ایک کَنسرٹ کے دوران اُنہوں نے اِختتامیے کے طَور پر "اِنشا جی اُٹھو" گائی۔ اِتِّفاقاً یہ اُن کا آخری کَنسرٹ ثابِت ہُوا اور "اِنشا جی اُٹھو" وہ آخری گانا تھا جو اُنہوں نے عَوام کے سَامنے گایا۔ چند ماہ بعد ہی اسد کا اِنتِقال ہو گیا۔ بِالکُل ویسے ہی جیسے اُن کے والِد کا 33 سال قَبل اِنتِقال ہُوا تھا۔ اسد کی عُمر بھی مَوت کے وقت اپنے والِد کی طرح 52 سال تھی۔
اسد کے بھائی شَفقت امانت علی 2000ء کی دہائی کے اِبتِدا سے اُبھر کر سیمی کَلاسِیکل اور پاپ گُلوکار کے طَور پر سَامنے آئے ہیں۔ وہ پاپ بینڈ فیوژن میں شامِل ہو کر مرکزی دھارے کا حِصّہ بَننے میں کامیاب ہوئے۔ اُنہوں نے اِس بینڈ کو صِرف ایک (مَگر اِنتِہائی کامیاب) اِلبَم ریکارڈ کَروانے کے بعد چُھوڑ دیا تھا اور اپنا سولو کریئر شُروع کر دیا تھا جو کہ اِنتِہائی کامیاب ثابِت ہوا۔
کَنسرٹس (اور ٹی وی میں بھی) شَفقت سے اَکثر پرستاروں کی جانِب سے "اِنشا جی اُٹھو" گانے کی درخواست کی جاتی ہے اور وہ ہمیشہ اِنکار کرتے۔ صِرف اِس وجہ سے نہیں کہ وہ اِسے گانے سے ڈرتے ہیں بلکہ اِس لیے کہ 1974ء میں اُن کے والِد اور 2007ء میں اُن کے بھائی کی مَوت کے بعد شَفقت کے خاندان نے اُن سے درخواست کی تھی کہ وہ کَبھی بھی "اِنشا جی اُٹھو" نہ گائیں۔ یہ غَزل بَظاہِر تین اَفراد (امانت علی خان، اِبنِ اِنشاء اور اسد امانت علی) کی جانیں لے چُکا ہے۔
غَزل کے لِکھاری اِبنِ اِنشاء کے وہ الفاظ جو اُنہوں نے 1978ء میں ہِسپتال کے بِستر سے تحریر کیے تھے، کو دُہراتے ہوئے شَفقت کے خاندان نے بھی اِصرار کیا کہ یہ غَزل نَحُوسَت کا شِکار ہے۔ مَزید بَرآں غزلوں کے پرستاروں میں اِس کی مَقبُولِیت کے بَرعکس بہُت کَم گُلوکاروں نے اِسے گانے کی کوشِش کی ہے۔ بعض کا کِہنا ہے کہ وہ (درجہ بالا تین اَفراد کے) اِحتِرام کے باعِث اِسے نہیں گاتے۔ دیگر کا اِعتِراف ہے کہ ایک خَوف اُنہیں اِسے گانے سے دُور رکھتا ہے۔ اَب آخِر میں پِیشِ خِدمت ہے اِنشاء جی کی "مَنحُوس غَزل" آپ کی بَصارتوں کے نام۔
اِنشا جی اُٹھو اَب کُوچ کرو، اِس شَہر میں جی کو لَگانا کیا
وَحشی کو سُکوں سے کیا مَطلب، جُوگی کا نَگر میں ٹِھکانا کیا
اِس دل کے دریدہ دَامن کو، دیکھو تو سَہی، سُوچُو تو سہی
جِس جُھولی میں سو چھید ہوئے، اُس جُھولی کا پھیلانا کیا؟
شَب بِیتی، چاند بھی ڈُوب چَلا، زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو، سَجنی سے کروگے بَہانا کیا؟
پِھر ہِجر کی لَمبی رات مِیّاں، سَنجوگ کی تو یہی ایک گَھڑی
جو دل میں ہے لَب پر آنے دو، شَرمانا کیا، گَھبرانا کیا؟
اُس رُوز جو اُن کو دیکھا ہے، اَب خواب کا عَالَم لَگتا ہے
اُس روز جو اُن سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی اَفسانا کیا؟
اُس حُسن کے سَچّے مُوتی کو، ہم دیکھ سکیں پر چُھو نہ سکیں
جِسے دیکھ سکیں پر چُھو نہ سکیں، وہ دولت کیا، وہ خزانا کیا؟
اُس کو بھی جَلا دُکھتے ہوئے مَن! اِک شُعلہ لال بَھبُھوکا بَن
یُوں آنسو بَن بِہہ جانا کیا؟ یُوں ماٹی میں مِل جانا کیا؟
جَب شَہر کے لُوگ نہ رَستا دیں، کیوں بَن میں نہ جا بَسرام کرے
دیوانوں کی سِی نہ بات کرے تُو اور کرے دیوانا کیا؟
خمار گندم سے لیا گیا سبق
اِبنِ اِنشاء نام ہم نے نہ جانے کَب رکھا تھا اور کیوں رکھا تھا۔ کیوں رکھا تھا کی تَوجِیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے اَصل نام میں ایک چُوپائے کا نام شامِل ہے۔ نَیا نام رکھنے کا فائِدہ یہ ہُوا کہ لوگ سَیّد اِنشاءالله خاں اِنشاء کی رِعایَت سے ہمیں بھی سَیّد لِکھنے لگے یعنی گھر بیٹھے ہماری تَرَقِّی ہو گئی۔ اِسی نِسبَت سے دِلّی والوں نے ہمیں اَپنا ہم وَطَن جان کر ہماری زُبان پر کَم اِعتِراض کِیے اور دِلّی مَرکَنٹائِل ہاؤسنگ سوسائِٹی والوں نے ایک پُر فِضا پلاٹ کی ہمیں پیش کش کی۔ لکھنؤ والوں نے اَلبَتّہ ہماری زُبان کے نَقائِص کے لیے اِسی کو بَہانا بَنا لیا کہ ہاں دِلّی والے ایسی ہی زُبان لِکھا کرتے ہیں۔ پِھر ایک روز ایسا ہُوا کہ ایک صاحِب نے آکر ہمارا ہاتھ اَدب سے چُوما اور کہا: والله! آپ تو چُھپے رُستم نِکلے۔ آپ کا کَلام پَڑھا اور جِی خُوش ہُوا۔ ہم نے اِنکِسار بَرتا کہ ہاں کُچھ ٹُوٹا پُھوٹا کِہہ لیتے ہیں۔ آپ نے کون سِی غزل دیکھی ہماری۔ حافظے پر زور ڈال کر بُولے: کُچھ اِس قِسم کی ہے۔ کَمر باندھے ہُوئے چَلنے کو یاں سَب یار بیٹھے ہیں۔ ہم نے کہا: کَہاں پڑھی ہے؟ بُولے: مولوی مُحَمّد حُسین آزاد کی آبِ حیات میں مَنقول ہے۔
جنگ میں "آج کا شاعِر" کے ضِمن میں خواتین کے بھیجے ہوئے پسندیدہ اَشعار بھی چَھپا کرتے ہیں۔ اِیڈیٹر صاحِبہ نے ہمیں فُون کیا کہ ذرا چیک کرکے بتائیے یہ سارے اَشعار آپ کے ہیں؟ بعض اَوقات بِی بیاں مُختَلِف شاعِروں کے اَشعار کو خَلط مَلط بھی کر دیتی ہیں۔ ہم نے کہا سُنائیے۔ اِن میں بھی پِہلا شِعر جو کوئی دس خواتین کی پسند تھا، یہی تھا: کَمر باندھے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ غزل ہمیں ہمیشہ سے پسند رہی ہے لِہٰذا ہم نے اِیڈیٹر صاحِبہ سے کہا کہ کِسی کا دل تُوڑنے کی ضرُورت نہیں، اگر کِسی کو ہمارا یہی شِعر پسند ہے تو خیر چھاپ دیجئے۔ دوسرا شِعر بھی اِسی غزل کا تھا۔
بَھلا گَردِش فَلک کی چین دیتی ہے کِسے اِنشا
غنیمت ہے کہ ہم صُورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں
ہم نے کَھنکار کر کہا خیر یہ بھی ٹھیک ہے۔ آگے چلیے۔ اِس سے اَگلا شِعر تھا۔
یاد آتا ہے وہ حَرفوں کا اُٹھانا اَب تک
جیم کے پیٹ میں اِک نُقطہ ہے سو خالی ہے
ہم نے کَہا ہمیں یاد نہیں پڑتا کہ یہ شِعر ہمارا ہو۔ مُشتَبَہ بات ہے۔ اِسے کاٹ دیجیے۔ اِس کے بعد نُوبت اِن شِعروں پر پَہُنچی۔
کہیں بِچھڑا ہُوا دیکھا جو اِک سُرخاب کا جُوڑا
تو دھاڑیں مَار کر رویا بطِ گِرداب کا جُوڑا
لَگی غُلیل سے اَبرُو کی دل کے داغ کو چَوٹ
پر ایسی ہے کہ لَگے تڑسے جیسے زاغ کو چَوٹ
شَوق سے تو ہاتھ کو میرے مَرُوڑ
میں تِرا پَنجَہ مَرُوڑوں کِس طرح
اِس پر ہم گَھبرائے اور کہا حَاشَا وکَلَا ہمارے شِعر نہیں۔ اُس مَرحُوم کے ہیں کہ میر ماشاءاللہ خان کا بیٹا تھا اور دِلّی کا تھا۔ پِہلی بار اَفسوس ہُوا کہ ہم نے یہ نام کیوں رکھا۔ اِس سے تو وہ چُوپائے والا نام ہی اَچھا تھا۔ شیر مُحَمّد خان۔ چھوٹوں موٹوں کی تو ایسا نام سُن کر ہی گھگّی بَند ہو جاتی ہے۔
پروفیسر اَیّوب قادری نے، کہ مُحَقِّق آدمی ہیں اِس تقریب سے ہم پر مَضمُون لِکھنے کا بِیڑا اُٹھایا تو ایک دوست نے مُخبِری کی کہ اُنہوں نے اَنجُمَنِ تَرقِّیِ اُردو کے مَکتَب خانے میں تمام پُرانے تَذکرے اور مَخطُوطے کَھنگال ڈالے، کہیں آپ کے حالات نہیں مِلے۔ لِہٰذا اَب وہ آپ سے ملیں گے۔ اپنے پر مَضمُون لِکھا جانے کا سُن کر کون خُوش نہیں ہوتا۔ ہم نے کہا: چَشمِ مَا رُوشَن دِلِ مَا شَاد۔ قادری صاحِب کے لیے کِسی ایسے شَخص پر مَضمُون لِکھنے کا پِہلا اِتِفّاق تھا جو اَبھی مَرا نہیں اور قَریبُ المَرگ بھی دِکھائی نہیں دیتا لیکن ریسرچ کا آدمی کَبھی مَار نہیں کھاتا۔ آئے تو سَوالات سے مُسَلَّح ہو کر آئے۔ سَب سے پِہلے ہمارا اِسمِ گِرامی دَریَافَت کیا وہ ہم نے خُوشی سے بَتا دیا۔ وَلدِیّت بھی، عُمر ہم اَپنی مُوقَع مَحَل کے مُطابِق دو چار سال گَھٹا کر یا بَڑھا کر بتایا کرتے ہیں۔ یہاں بَڑھا کر بَتائی کہ اپنے مِہمانِ خُصُوصی کو بِالکُل ہی بَچّہ نہ سَمجھ لیں۔ کَہاں پیدا ہوئے تھے اور کیوں پیدا ہوئے تھے، کا ہم کوئی تَسَلّی بَخش جَواب نہ دے سَکے۔
شَجرہ نَسب مانگ رہے تھے۔ ہمارے پاس کَہاں سے آتا۔ ہم نے کَہا: بُزُرگوں میں اپنے والِد کا نام یاد ہے یا ایک اور مُورِثِ اعلیٰ کا کہ اَپنے زمانے کے مَشہُور پیغمبر تھے۔ بُولے کون؟ ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کا نام بَتایا تو عَقِیدت سے آدھ مُوئے سے ہو گئے۔ تعلیم کا پوچھا۔ کُچھ ہوتی تو بَتاتے۔ فرمایا تعلیم نہیں تو ڈِگریاں تو ہوں گی۔ وہ ہم نے بَتا دیں۔ کِہنے لَگے آپ سُنا ہے یُونیورسٹی میں اَوّل آئے تھے؟ اِنکار کا کُچھ فائِدہ نہ تھا۔ ہم نے اِقبال کیا۔ بُولے اِس سال ایک سے زیادہ طالِبِ عِلم تھے کیا؟ اِس سوال کو ہم ٹال گئے۔ پُوچھا شاعِری میں کِس کے شاگِرد رہے؟ ہم نے ماسٹر چُنن سِنگھ دلگیر اور چَھجو رام تِشنہ اور مُنشی الٰہ دین چراغ ریواڑوی کے نام لِکھوا دئیے۔ قَوم، گوت، نوکری، تصانیف اور نہ جانے کیا کیا لِکھ چُکے تو بُولے۔ ہمارے تحقِیق کے اُصُولوں کے مُطابِق خاصی مَعلُومات جَمع ہو گئیں۔ یہ مُعَامَلَہ کَچّا رہا کہ آپ کے بُزُرگ خَراسان سے نہیں آئے تھے اور صاحِبِ دِیوان وغیرہ نہیں تھے لیکن خیر۔ اَب ایک آخری سوال باقی ہے۔ آپ کی تاریخِ وفات کیا ہے؟ یہ ہم نے بَتانے سے اِنکار کر دیا۔ اس پر وہ کُچھ مَلُول اور اَفسُردہ واپس گئے۔ خُود ہمیں بھی اَفسُوس ہُوا کہ اِس سِلسِلے میں اُن کی تَشَّفی نہ کر سکے حالانکہ ہمارے ہی بَھلے کی کِہہ رہے تھے۔
خُمارِ گَندُم
اِبنِ اِنشاء