سب رس ایک تمثیل
سب رس ایک تمثیل، سب رس جس کا پہلا نام قصہ حسن و دل ہے ادبی اور نثر کا پہلا شاہ کار مانا جاتا ہے۔ بابائے غزل شمس الدین ولیؔ دکنی کو اردو شاعری کا باوا آدم مانا اور تسلیم کیا جاتا تھا اور بعض مصنفین کو اب بھی اس پر اصرار ہے لیکن تحقیق و جستجو سے اب یہ بات صاف صاف ثابت ہو گئی ہے کہ شاعر ولی دکنی سے پہلے اردو ادب میں اچھے اچھے شاعر گزرے ہیں۔ اسی طرح نثری ادب میں بہت سے اچھے اچھے نثر نگار گزرے ہیں۔ اردو نثر کی پہلی کتاب فضلی سے منسوب کی جاتی تھی اور اس کی ''کربل کتھا''کو اردو urdu کی باقاعدہ پہلی کتاب سمجھی اور مانی جاتی تھی لیکن حال ہی میں یہ بات سامنے آئی کہ فضلی سے کہیں پہلے نثری صنف میں بہت سی کتابیں لکھی گئی تھیں، مگر وہ سب پردہ خفا میں تھیں لیکن اب تحقیق و جستجو نے انھیں گمنامی سے نکال کے منظر عام پر لایا۔ ان سب کتابوں میں سے ایک قابل قدر کتاب اگر مانا اور تسلیم کیا جاتا ہے تو وہ کتاب مُلّا وجہیؔ کی ''سب رس''ہی ہے۔
ملا وجہی
مُلّا وجہیؔ کو دور اول کے عظیم اردو نثر نگاروں میں شمار اور تسلیم کیا جاتا ہیں۔ اردو نثر کا آغاز اگرچہ ۷۵۸ ہجری میں ہوا تھا، تاہم اس زمانے میں صرف ایک تصنیف ''معراج العاشقین''شہرت عام تھا۔جس کا مصنف حضرت گیسو دراز بتائی جاتی ہے۔ تاہم ''سب رس'' کو اردو ادب urdu literature اور صنف نثر کی پہلی مستقل تصنیف سمجھا گیا ہے، جو انھوں نے سن ۱۰۴۸ہجری مطابق ۱۶۳۸ عیسوی میں تصنیف لکھی تھی۔ مُلّا وجہیؔ بادشاہ عبداللہ شاہ والئی گولگنڈہ کا درباری شاعر اور ساتھ عظیم نثر نگار مانا جاتا تھا۔ اس کا اردو ادب میں ایک رومانی داستانی مثنوی''قطب مشتری''ہے جو ان کی مشہور مثنوی مانی جاتی ہے جس میں انھوں نے بادشاہ قلی قطب شاہ اور باگ متی کے عشق کو موضوع بنایا ہے۔
قطب شاہی بادشاہوں کے دور میں دکنی یعنی قدیم اردو کو بہت فروغ اور عروج نصیب ہوا۔ یہ لوگ علم و ہنر کے بڑے سر پرست سمجھے جاتے تھے اور یہ لوگ شعرا ء و علماءکے بہت خدمت کرتے تھے اور یہی فرقہ ان کے دربار کی رونق تھے۔ خود ان میں سے بعض بڑے پائے کے شاعر ہوئے ہیں۔
سلطان محمد قلی قطبؔ شاہ جس کو اردو ادب کا پہلا صاحب دیوان شاعر مانا جاتا ہے، اس کا ضخیم کلیات اور اس کی قادرالکلامی اور وسیع النظری پر دلالت کرتاہے۔ اردو میں اس سے پہلے کا ایسا پاکیزہ کلام اور رومانی کلام دریافت نہیں ہوا ہے۔
اس کا بھتیجا تھا جو بعد میں جانشین ہوا جس کا نام محمد قطب شاہ تھا اردو کا بہت اچھا اور رومانی شاعر تسلیم کیا جاتا تھا۔ پھر اس کا جانشیں عبداللہ قطب ؔ شاہ بھی اپنے باپ دادا کی طرح اردو کا سخن ور تھا۔ اس کے زمانے میں علم کا بہت چرچا تھا اور بعض بڑے فاضل اور عظیم شاعر اس کے دربار سے وابستہ اور رونق تھے۔ فارسی ادب کی لغت مشہور اور مقبول کتاب''برہان قاطع'' اس کے دور میں لکھی گئی تھی اور طب کی بعض مشہور کتابیں اس زمانے کی تالیف کردہ ہیں اور اسی بادشاہ کے نام سے منسلک ہیں۔
سب رس
"(1635ء)
"سب رس" ایک ایسی تصنیف کی گئی ہے جو ملا وجہی نے ادبی اسلوب میں ادبی دل چسپی پیدا کرنے کے لیے قلم بند کی ہے۔ اس کے مصنف(بل کہ زیادہ بہتر تو مترجم) ملا وجہی ہیں۔
یہ کتاب پہلے محمد یحییٰ ابن سیبک فتاحی نیشاپوری(وفات1448ء752ھ) کی فارسی مثنوی ہے اور "دستور عشاق" پر مبنی قصہ "حسن و دل" کا آزاد نثری ترجمہ ہے جس کو نصیرالدین ہاشمی کے بقول "ملا وجہی نے غالباً حضرت وجیہہ الدین گجراتی متوفی 998ھ کی تالیف سے ترجمہ کیا ہے۔"
سب رس کی ادبی تاریخ
"سب رس" دراصل ایک تمثیل ہے۔ یعنی اس میں عقل، حسن، عشق، ناز، ادا، توبہ، ہمت، ناموس، حیا ایسی مجرد خصوصیات کی انسانی صورت میں تجسیم کرتے ہوئے 76 کرداروں کی تشکیل سے ان کی کارکردگی سے اخلاقی نکات اجاگر کیے گئے ہیں۔
ملا وجہی قطب شاہی دربار سے وابستہ رہے اور چار بادشاہوں یعنی ابراہیم قطب شاہ، محمد قلی قطب شاہ، محمد قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کے دربار سے تعلق رہا۔
"سب رس" اپنے مربی عبداللہ قطب شاہ کے لیے 1045ھجری 1635ء میں دکنی زبان میں قلم بند کی ہے۔ یہ کتاب مدتوں نایاب رہی ہے۔سب رس کے بارے میں مولوی عبدالحق نے اس کا کھوج لگایا۔ انھوں نے "اردو" (اپریل 1925ء) میں "سب رس" پر ایک تفصیلی مقالہ قلم بند کیا اور سن 1932ء میں ایک مستند نسخہ مع مقدمہ فرہنگ شائع کیا اور یوں اس کے منظر عام پر آنے سے نثری تاریخ بہت دور تک جا پہنچی۔
سب رس کے کردار اور ان کے نام
عقل، بادشاہ مغرب
عشق، بادشاہ مشرق
دل، عقل کا بیٹا
حسن، عشق کی بیٹی
نظر، دل کا جاسوس
غمزہ، نظر کا بچھڑا ہوا بھائی
عافیت، شہر
ناموس، ملک عافیت کا بادشاہ
زہد، پہاڑ کا نام
ہدایت، گاوں کا نام
ہمت، ملک ہدایت کا بادشاہ
دیدار، ملک عشق کا شہر
رخسار .شہر دیدار کا بادشاہ
دہن، باغ رخسار کا چشمہ
قامت، ہمت کا بھائی
رقیب، شہر دیدار کا نگہبان
غیر، رقیب کی بیٹی
وہم، عقل بادشاہ کا مصاحب
خیال، حسن شہزادی کا غلام
غمزہ، حسن کا مصاحب
لٹ، شہزادی حسن کی سہیلی
رزق، ایک بزرگ درویش
توبہ، رزق کا فرزند
صبر، عقل بادشاہ کا سپہ سالار
مہر، عشق بادشاہ کا سپہ سالار
قصہ حسن و دل
سب رس کو بادشاہ عبد اللہ قطب شاہ کی فرمایش پر ادیب شاعر ملا وجہی نے لکھا۔اور اس کتاب کو اردو نثر کی اولین کتاب ہونے کا درجہ حاصل ہے۔ یہ ملا وجہی کہ اپنی طبع ذاد نہیں ہے۔ بلکہ کتاب میں فتاحی نیشاپوری کی عظیم مثنوی ”دستور العشاق“(نظم )اور من گھڑت ”قصہ حسن ودل “ (نثر) کو بڑے فنکارانہ طریقے سے نثر کے پیرائے میں تمثیل کے انداز میں ورد لکھا کیا گیا ہے۔ صنف تمثیل انشاءپردازی کی اس طرز کو کہتے ہیں جس میں کسی صنف تشبیہ یا صنف استعارہ کو یا انسان کے کسی جذبے کو مثلاً غصہ،نفرت، محبت وغیرہ کو مجسم،گھڑ کرکے یا دیوی یا دیوتائوں کے پردے میں کوئی قصہ گھڑ لیا جاتا ہے۔اس تمثیلی قصہ صوفیانہ مسلک کا آئینہ دار پیرایہ ملتا ہے۔ مگر یہ تمثیل اپنے اسلوب اور بیان میں سب رس ایک کامیاب تمثیل اور کتاب تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں تمثیلی کہانی میں حسن و دل اور عقل و دل کی جنگ کو بڑی خوب صورت اور کامیاب تمثیل کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔
سنگ میل
سب رس داستان ، سب رس جو ایک تمثیلی کہانی ہے اس کو اردو نثر کا سب سے ممتاز اور ترقی یافتہ شاہ کار تمثیلی کہانی مانی جانی جاتی ہیں۔ اس تمثیلی کہانی میں اسلوب بیان نے ایک خاص انگڑائی اور رونق پیدا کی ہے اور زندگی کی آنکھ کھولی اور نثری صنف کو ترقی دی ہے۔ سب رس سے پہلے جو صنف نثر میں نمونے اور سانچے اردو نثری میدان میں ملتے ہیں۔ اسے اردو ادب میں صنف نثر کا دور بدویت کہا جاسکتا ہے۔ یعنی اس دور اور صنف نثر میں وہ انداز اور وہ بیان زباں تھا جس میں نئے لہجے کا دیہاتی پن، اور دیہاتی زبان پرستی کہنے کا سادہ انتہائی بے تکلف اور درست انداز اور آرایش کی ہر کوشش اور جھتن سے آزاد تھا۔ جتنے اہل قلم نے اس زمانے اور اس سانچے میں جتنا لکھا، بہت کچھ مذہبی مسائل اور اردو ادب پر لکھا گیا ملتا ہے۔ اس کے علاوہ اہل قلم کا مخاطب عوام ہی تھے اور عوام کے لیے لکھا جاتا تھا۔ لوگوں تک بات پہنچانا اور مطلبی رائے مقصود تھا۔ اس لیے اس دور میں سادگی، سلاست و راست اور رواں بیانی کے علاوہ شیرازہ بندی اور چست فقروں کی ساخت سے بے پروائی کا رویہ اور تنقیدی ذہن عام تھا۔ مگر ملا وجہی کا لکھا نثری کمال”سب رس“ اردو ادب میں صنف نثر کا ایک ایسا اور مضبوط سنگ میل ہے جس میں اس بات کی صاف صاف اور واضح کوشش نظر آتی ہے کہ مصنف یعنی ملا وجہی نے اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے کوشاں اور لکھائی کا ملکہ رکھتا ہے۔
سب رس کا اسلوب
سب رس کا اسلوب، سب رس کی سب سے بڑی کمال خصوصیت اس کی ترقی یافتہ زبان اور فنکارانہ اس کا اسلوب بیان اور ملکہ ہی ہے۔ اس نثری صنف میں سب رس میں پہلی بار زبان اردو کی ایک ترقی یافتہ اور عروج والا درجہ صورت ہمارے سامنے آئی اور اس کے علاوہ پہلی دفعہ زبان کے ایسے اسالیب نظر ائے کہ زبان کے ایسے ایسے خصائص سے قاری واقف ہوجاتا ہے کہ قاری نثری صنف میں دل چسپی لینے بغیر نہیں رہ پاتا ہے۔جائزے کے تناظر میں ”سب رس“ کی زبان اس سے پہلے کے مصنفوں اور شعراء حضرات کی زبان اور قلم کی زور ملا وجہی کا لکھا سب رس معاصر وں کی زبان و اسلوب سے بہت علاحدہ ہو گئی ہے۔اس کے بارے میں پروفیسر شیرانی مزید لکھتے ہیں کہ۔
” جو چیز ”سب رس “ کو ہماری نگاہ میں سب سے زیادہ قیمتی اور نایاب لگتی ہے۔ وہ ملا وجہی کی سب رس میں اسالیب ہی ہیں جس سے اس نثری کہانی میں چسکا سا پیدا ہوا ہے اور پوری کہانی کی فضا رنگین بنی ہے۔ جب ہم ان اسالیب کا موجودہ نثری لکھائی کا زبان سے مقابلہ کرتے ہیں توآج کی زبان اور لکھنے کے انداز میں اور اس دور کے زبان میں خفیف سا فرق ضرور معلوم ہوتا ہے۔“ اسلوب کی خصوصیات درج ذیل ہیں مثلا پہلے قصہ کی دلچسپی دوسرے قصے کی جذبات کی فراوانی تیسرے قصے کی زبان اور اس کی دلکشی چوتھے قصے کی اسلوب اور اس کی ندرت بیان پانچویں قصے کی مقفی و مسجع کی فنکارانہ استعمال۔
قافیہ بندی
ملا وجہی نے سب رس میں ترقی یافتہ اسلوب بیان اور اس کے علاوہ اس میں قافیہ بندی کا بہت بڑا خیال رکھا ضرور ہے۔ ملا وجہی کی چیدہ چیدہ عبارتوں میں دو دو یا تین تین جملے عام طور پر باہم قافیہ دار ضرور ملتے ہیں۔ اسے ملا وجہی کو مسجع اور مقفٰی نثر کا بہت بڑا شوق ہے۔ملا وجہی یہ شوق شاید قران پاک روز کی تلاوت سے پیدا ہوا ہو۔اس علاوہ ملا وجہی نے فارسی ادب کے تتبع میں بھی مقفٰی او ر مسجع عبارت لکھی ہیں۔”سب رس“ میں تقریباً ہر فقرہ دوسرے فقرے کے ساتھ ہم قافیہ ضرور نظرآتا ہے۔ مثلاً ایک مثال دیکھیے کہ ملا وجہی لکھتا ہے کہ ” یو کتاب سب کتاباں کا سرتاج، سب باتاں کا راج، ہر بات میں سو سو معراج، اس کا سواد سمجے نا کوئی عاشق باج، اس کتاب کی لذت پانے عالم سب محتاج۔“
نثر میں شاعری
ملا وجہی کا سب رس پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے گویا غزل کے مصرعوں کی نثر بنادی گئی ہو اور سب رس کی اصل کتاب دیکھیں تو اس میں مقفی اور مسجع عبارت کی بنا پر شاعری کا گماں ہوجاتا ہے۔ اردو میں صنف نثر کی میدان میں اگر رنگین نگاری کا سراغ لگانا مقصود ہو تو نیاز فتح پوری اورسجاد حیدر یلدرم کی بجائے ملاوجہی کی تصانیف تک جانا ہوگا۔ مثال کے طور پر ملا وجہی لکھتا ہے کہ۔
” قدرت کا دھنی سہی جو کرتا سو سب وہی۔ خدا بڑا، خداکی صفت کرے کوئی کب تک، وحدہ لاشریک، ماں نہ باپ “
فارسی اور عربی کااثر
ملا وجہی کی عبارتوں میں عربی اور فارسی کی ضرب الامثال زیادہ تعداد میں موجود ہوتے نظر آتے ہیں بلکہ ملا وجہی نے جگہ جگہ عربی اور فارسی کی ترکیبوں کو اردو ادب میں جذب کرکے زبان کا ڈھانچہ اور بہترین طریقہ تیار کیا ہے ۔ اس علاوہ ملا وجہی نے پھر ہندوستان بھر کی زبانوں کے مطالعے کی وجہ سے ہر خطے کی زبان اورخصوصاً شمالی ہندکے محاورے کو اپنے ہاں جگہ دی ہیں اور جگہ جگہ ایک وسیع تر زبان کی بنیاد رکھی ہیں۔ ملا وجہی نے اس تجربے سے ثابت کر دیا ہے کہ اردو زبان اور اردو ادب دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ملا وجہی نے اردو زبان کے بارے میں یہ بھی ثابت کر دکھایا ہے کہ ایک اردو ادب کا اور آہنگ بھی تیار ہو سکتا ہے۔ ملا وجہی کی زبان آج کل کی زبان کے بہت نزدیک ہے۔ اس لیے اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ بکثرت سے ملتے ہیں۔
” دانایاں میں یوں چل ہے بات، المعقل نصف الکرمات“
صرفی نحوی خصوصیات
کہانی”سب رس“ کے متن اور انداز بیان میں صرفی نحوی نکات جس مہارت سے ملا وجہی نے استعمال کیے ہوئے ہیں ان سے ”سب رس“ کی صرفی و نحوی اور اسلوب خصوصیات کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ مثلا ایک طرف اگر عربی الفاظ کے املا کو سادہ کر دیا گیا ہے تو دوسری طرف فارسی میں ”گی “کا لاحقہ استعمال کرکے بعض الفاظ بنائے گئے ہیں۔ مثلاً ملا وجہی نے ہم قافیہ الفاظ کا استعمال کرکے لفظ بندہ سے بندگی استعمال کیا ہے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت ہم قافیہ الفاظ کا استعمال بھر مار ملتا ہے۔ سب رس کے بارے میں حافظ محمود شیرانی کہتے ہہں کہ۔
"ادبی پہلو سے قطع نظر اور اوصاف میں جن کی بناء پر سب رس گونا گوں دل چسپیون کا مرکز بن جاتی ہے۔ اور لغت و لسان اورقدیم صرف و نحو کے محقق اس کو نعمت غیر متبرقہ سمجھیں اور جانے گے۔ خاص طور اس کا وہ حصہ جو قدیم محاورات اور ضرب الامثال سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔"
اردو کے نقوش
”سب رس “ کی زبان کو اس کا مصنف ہندی زبان کے نام اور اس انداز اسلوب سے یاد کرتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس زمانے میں ہندی زبان (شمالی ہند کی زبان، کا دکن والوں پر اتنا اثر زیادہ چکا تھا کہ دکن کا مصنف اس زبان کو گجری، گجراتی یا دکنی زبان کہنے کی بجائے ہندی زبان کہا کرتا تھا۔ بظاہر تو یہ رواج اور انداز معمولی بات ہے لیکن دراصل یہ اس حقیقت کی داعی ہے کہ ”اردویت “ نے سب سے پہلے نمایاں طور پر اس کتاب کے زمانے میں اور اس کے زیر اثر ہی دکن میں زور پکڑا ہے۔ اورشمالی ہندمیں مغلوں سے پہلے کے بادشاہوں کے دور میں جو زبان رائج پذیر تھی۔ اس میں عربی اور فارسی کے الفاظ تو مل جاتے ہیں لیکن اس کا نقش مسلمانی نہیں ہے اور اردو زبان کی روح اور اسپرٹ مسلمانی ہے۔ ملا وجہی نے اپنے زمانہ کی بامحاورہ اور فصیح ترین زبان لکھی ہے اور ساتھ ساتھ اس کا اس کو احساس بھی تھا۔کہ وہ خود لکھتا ہے اور ایک نیاپن اس زبان کو دیتے ہیں۔ مثلا ملا وجہی ایک جگہ سب رس میں لکھتے ہیں کہ۔
” آج لگن کوئی اس جہاں میں ہندوستان میں ہندی زبان سوں اس لطافت اور اس چھنداں سوں نظم ہور نثر ملا کر گھلا کر نہیں بولیا۔“
سب رس کی زبان
اپنی تاریخ کے لحاظ سے سب رس کی زبان تقریبا چار سو سال پرانی ہے اور وہ بھی دکن کی زبان ہے۔ اس میں بہت سے الفاظ ایسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جو اب بالکل اب متروک ہو چکے ہیں جن کا استعمال ٹھیک اور درست نہیں سمجھا جاتا۔اگر اس زمانے کا مطالعہ کیا جائے تو اس زمانے میں خود اہل دکن بھی نہیں بولتے۔ اس پرانی اور قدیم زبان کے بعض پرانے الفاظ خود اہل دکن بھی نہیں بولتے اور پرانی اور قدیم زبان کے بعض پرانے الفاظ و محاورات آج کل سمجھ میں نہیں آتے۔ لیکن یہ حقیقت اور اصل ہے کہ ملا وجہی نے اپنے زمانے کی بامحاورہ اور فصیح ترین زبان لکھی اور اس بات کا خود اسے بھی احساس تھا۔ وجہی نے عربی فارسی الفاظ کے ساتھ ہندی الفاظ زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ چارسو سال پہلے بھی بالکل اسی طرح استعمال کیے جس طرح آج کل ہو رہے ہیں۔ مثلا ملا وجہی کہتے ہیں کہ۔
شان نہ گمان، خالہ کا گھر، کہاں گنگا تیلی کہاں راجا بھوج، شرم حضوری اور دیکھا دیکھی، گھر کا بھیدی تے لنکا جائے، دھو کا جلیا چھاچھ پھونک پیتا وغیرہ وغیرہ
سب رس کی لسانی حصوصیات
سب رس کی لسانی حصوصیات، ”سب رس“ اور وجہی کے معاصرین کے ذریعے ہماری اردو نے زور پکڑی۔ سب رس کا لسانی دائرہ بھی کافی کشادہ ہے۔ اس میں شمالی ہند کی زبانوں میں خاص کر برج بھاشا زبان، گوالیاری زبان، راجستھانی اور دوسری زبانوں کے محاورے، ضرب الامثال اور بھی اثرات پائے جاتے ہیں۔ ملا وجہی نے شمالی ہند کی زبان اور جنوبی ہند کی زبانوں کی خلیج مٹانے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ شاعر میر تقی میر نے دکنی زبانوں کو توجہ کے قابل نہیں سمجھا اور اسے ”نثر بے رتبہ “ کہہ کر نظرانداز کر دیاہے۔ اس کے باوجود ”سب رس“ کی لسانی حیثیت مسلم اور پختہ ہے۔ اس نے باب مراتب اور فرق مراتب سرے سے ختم کرکے ایک نئی زبان رائج کی ہے۔ملا وجہی کی نثر کو اگر آج بھی غور سے پڑھا جائے توہم تقریباً تمام کی تمام زبان کو سمجھ اور جان سکتے ہیں۔
سب رس ایک تمثیل
کردار نگاری
سب رس کی کہانی میں کل 76 کردار ہیں جو کہانی کی روپ میں غیر مجسم کیفیتِ انسانی ہیں جن کو بڑے فن کارانہ انداز میں پیش کرکے اور لفظ لفظ کو مجسم کرکے پیش کیا گیاہے۔ یوں یہ کہانی انسانی زندگی کا روزمرہ تماشا ہے اور اسی تماشے کو ملا وجہی نے تمثیل کے روپ میں پیش ہنر مندی سے پیش کیا ہے۔ کسی دیومالا کا سہارا لیے بغیر اپنی کیفیات کو کردار بنا کر پیش کرنے میں یہ خامی اور کمال ضرور ہے کہ کردار کو اسم بامسمٰی ہونے کی وجہ سے ہم اس کے کردار اور سیرت سے آگاہ ہو جاتے ہیں اور کسی مختلف عمل کی توقع نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ملا وجہی نے اس کہانی کو جان دار بنانے کی حتی الوسع کوشش کی ہے اور اس میں وہ کہیں کہیں کامیاب بھی نظر آتے ہیں۔ جہاں کہیں اس نے اپنے کسی کردار کی کردار نگاری کی ہے یا کہیں مکالمہ نگاری کی ہے وہ اس کا اپنا کمال ہے اور اس کا تخلیقی عمل ہے۔ مثلاً حسن کاروپ اس طرح پیش کیا ہے۔ مثلا ملا وجہی کہتے ہیں کہ۔
”حسن ناز، اوتار، خوش گفتار، خوش رفتار، ویدیاں کا سنگار، دل کا آدھار، پھول ڈالی تے خوب لٹکتی، چلنے میں ہنس کوں ہٹ کئی،روایں تے میٹھی بولی بات، آواز تے قمری کو کر ے مات، کنول پھو ل کے پنکھڑیاں جیسے ہات، چمن میں پھول شرم حضور، لاج تے آسمان پر چڑھے۔۔۔“
معاشرت کی عکاسی
کہانی”سب رس “ میں جابجا اس دور کی معاشرت اور تہذیبی و تمدنی زندگی کی جھلکیاں اور انوکھا پن رونما ہیں۔ اس زمانے کے طرز و بود باش، خوراک، لباس، وضع قطع، ظروف، زیورات، حکومت و حکمت ،تجارت و معیشت اور غرض کہ ہر پہلو سے اس زمانے کی معاشرتی زندگی کے آثار کی تصویر نظر آتی ہے۔ جس سے صاف صاف معلوم ہوتا ہے کہ ملا وجہی ایک زندہ معاشرے کا ایک مصوّر اور ادیب ہے جس نے اپنے عہد کی معاشرتی زندگی کو بڑی گہری نظر سے دیکھا اور مطالعہ کیا ہے اور اس کے شکل و صورت کو بڑی چابک دستی سے احاطہ تحریر میں لایا ہے۔”سب رس“ اگرچہ ایک مکمل تمثیل ہے مگر اس کے مطالعے سے اس دور کی معاشرتی زندگی، افکار اور رجحانات کی ایک مکمل تصویر آنکھوں کے سامنے چلتی پھیرتی نظر آجاتی ہے۔
سیاسی حالات
ملا وجہی شاعر اور ادیب ہونے ساتھ ساتھ عبد اللہ قلی قطب شاہ کا درباری شاعر اور ادیب بھی رہا ہے۔اور اپنی قابلیت کی وجہ سے وہ دربار سے وابستہ تھا اور اس سیاسی عمل کا حصہ ہے۔ اس لیے اس کی نظر درباری معاملات پر بڑی گہری اور مطالعتی ہے۔ وہ قدیم ایشائی حکومتوں کے رنگ ڈھنگ اور جمالیات اور ان کی سیاسی حکمت عملی سے خوب آگاہ تھا۔ وہ ان قدیم مطلق العنان حکومتوں کے درباروں میں ہر قسم کی سیاسی سازشوں اور جوڑ توڑ سے باخوبی واقف ہے یہی وجہ ہے کہ جب قصے میں کبھی دربار سجتا یا سیاسی مسائل پید ا ہوتے ہیں تو ملا وجہی کا قلم اس تمثیل کی آڑ میں اپنے دربارکی تمام تر سیاسی حکمت عملیوں کا ذکر کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ وہ شہزادے کے عام اخلاقی رویوں کا ذکر بھی کرتا ہے اور شہزادی کی شراب نوشی کا جواز بھی تلاش کرتا ہے۔ وہ دربار سرکار کے معاملات سے خوب واقف ہے۔ اس واقفیت سے اس نے اپنی کتاب میں خوب کام لیا ہے۔
صوفیانہ خیالات، اخلاقی تعلیمات
ملا وجہی نے سب رس میں فرضی داستان گھڑ کر اس میں جگہ جگہ صوفیانہ خیالات، موضوعات، مذہبی روایات اور اخلاقی تعلیمات کی درس دی ہے اور یہی روش اور انداز اس زمانے کے معاشرتی رجحانات کے مطابق تھی۔ چناں چہ عشقیہ واردات کے بیان میں ملا وجہی نے نہایت حزم و احتیاط سے کام لیا ہے۔ کہیں بھی پست خیالات اور عریانی کا مرتکب نہیں ہوا ہے۔ ملا وجہی عالم دین تھا اور ساتھ ساتھ صوفیانہ ذہن کا مالک بھی تھا اور مسلم معاشرے کافرد تھا جس میں نیکی او راخلاق کے مثبت پہلوئوں کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور منفی پہلوئوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ چنان چہ ملا وجہی نے اپنی کتاب سب رس میں اخلاق کے اچھے پہلوئوں کی تعلیم و ترویج پر جگہ جگہ زور دیا ہے۔ اور اخلاق کے برے پہلوؤں کی برائی کی ہے تاکہ قاری کو دل چسپی ہو کہانی میں۔
وجہی پہلا انشائیہ نگار
ہندوستان میں ڈاکٹر جاوید شسٹ کہتے ہیں کہ ”ملاوجہی کو ”اردو انشائیہ کا باوا آدم قرار دیا جاتا ہے۔ اور اسے مونتین کا ہم پلہ ثبات کیا ہے۔ انھوں نے سب رس میں ایسے 21 حصوں کی نشان دہی کی ہے۔ جن کی بنا پر انھوں نے یہ لکھا ” میں ملا وجہی کو اردو انشائیہ کا موجد اور باوا آدم قرار دیتا ہوں اور اس کے ان اکسٹھ انشائیوں کو اردو کے پہلے انشائیے اردو کے یہ پہلے ایسے انشائیے ہیں جو عالمی انشائیہ کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔“
مجموعی جائزہ
زبانیں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ زبانیں اپنی مقام عروج تک پہنچنے میں بہت وقت لیتی ہیں۔ اردو نثر اور ادب نے تو بہت تیزی سے ارتقائی فاصلوں کو طے کیا ہے۔ محتصر یہ کہ اس طویل ارتقائی سفر کا نقطہ آغاز”سب رس“ ہے۔ اردو نثر کا خوش رنگ او ر خوش آہنگ نقشہ او ر ہیئت جو آج ہمیں نظر آ رہا ہے اس میں ابتدائی رنگ بھرنے کا اعزاز ملا وجہی کو دیا جاتا ہے اور اردو کی نثری ادب میں ”سب رس “ کا درجہ نہایت بلند و بالا اور وقیع ہے۔ ”سب رس “ اگرچہ اولین کوشش ہے مگر بہترین کوشش ہے۔