اردو تدریس کے مقاصد
دنیا میں کسی بھی کام کے کرنے کا کچھ نہ کچھ متصد ہتا ہے ۔ بغیر مقصد کے اور معیار کے طے کئے ہوئے کوئی بھی کام بہتر طور سے انجام نہیں دیا جا سکتا ہے ۔ ابتدائی ان پر تدریس اردو کے بھی کچھ عام اور کچھ خاص مقاصد ہیں ان مقاصد کو مجھے بغیر تدریس کا کام نہ تو آسان ہوگا اور نہ ہی معیار کے مطابق ۔ دنیا کی ساری زبانیں تدریس کے لحاظ سے کچھ نہ کچھ اپنا پس منظر رکھتی ہیں ۔اردو کی تدریس کا بھی واضح پس منظر موجود ہے لیکن کیا ہند وستان جیسے وسیع وعریض ملک میں جہاں اردواس کے تہذ یبی ثقافتی اور ساجی پس منظر میں رچی بسی ہے اور جہاں اردو کی تدریس کنی نچ پر کی جاتی ہے ، یہ طے کر لینا ضروری نہیں کہ آیا ہمارے سامنے ٹارگیٹ گروپ کیا ہے؟ اس ٹارگیٹ گروپ کے تدریسی مقاصد کیا ہیں؟ ابتدائی سطح پر بھی اردوز بان کی مد رئیس کنی مقاصد کے تحت کی جاتی ہے مثلا بحثیت مادری زبان ثانوی زبان تیسری زبان نیز ان لوگوں کے لئے بھی جو سی زبان کا مطالعہ کر چکے ہوں اوراس کے ذریعے اردو زبان سیکھنا چاہتے ہوں ۔ مذکورہ برمنزل پر اردوند ریس کے مقاصد الگ الگ ہوں گے ۔لیکن ان کا ایک دوسرے سے باہمی راہا بھی ہوتا ہے ۔ یہ رابط افتی اور عمودی دونوں طرح سے ہوسکتا ہے لین زبان کی تدریس کا تعلق کسی سیکسی طرح اسکول کے دوسرے مضامین سے بھی ہوتا ہے اوربغیراس ربط کے ار دو دنڈ ریس کے مقاصد کو حاصل کر نے کے لئے جو نصاب تیار کیا جاۓ گا رو بے ضابطگی کا شکار ہو جائے گا۔
عام مقاصد
ابتدائی سطح پر جس کے در جات سرکاری اعتبار سے اول تا آٹھو میں درجہ پر ستعمل ہیں اردو تدریس کے مقاصد بڑی حد تک مبہم ہیں کیوں کہ قومی سطح پر اس کے طے شد و مقاصد نہیں ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہند وستان میں اردو کسی ریاست کی دوسری سرکاری زبان ہے تو کسی کی پہلی ۔کسی علاقے میں پوری طرح بولی ، پڑھی لکھی اور تجھی جاتی ہے تو کئی علاقوں میں جزوی طور پر ۔ تاہم ابتدائی منزل پر تدریس اردو کے عام مقاصد میں مندرجہ ذیل مقاصد شامل ہیں۔
ا) آوازوں کوسن کر انہیں دو ہرانا ادراپنے مافی الضمیر کا اظہار کرنا ۔
2) سنی ہوئی بات کو ٹھیک اسی طرح دہرانے کی خوبی پیدا کرنا۔
3) زبان کی علامتوں کے ذریعے لکھ کراپنی بات کا اظہار کرنا۔
د) لکھی ہوئی عبارت کو یح طور پر پڑھ کر اس کا مطلب واضح کرنا۔
5) اردوزبان میں اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کرنا۔
ان عام مقاصد کے علاوہ کچھ ایسے مقاصد ہیں جن کے حاصل کئے بغیر تد ریس اردو کا مقصد قطعی حاصل نہیں ہوسکتا۔ان کو خاص مقصد کہتے ہیں۔
خاص مقاصد
درجه اول تا آٹھویں کے طلبا کے لئے درج ذیل چارمقاصد کا حاصل کر نا نہایت ضروری ہے
ا. اردوبولنا 2، اردو پڑھنا 3. اردولکھنا 4. اردو مجھتا۔ ان مقاصد میں پوشیدہ کئی جزوی مقاصد بھی ہوتے ہیں ۔ ان مقاصد کے تحت دقت کا تعین ہوتا ہے ۔ بہت حد تک طریقہ کار بھی متعین ہوتا ہے ۔ ابتدائی سے اس اعتبار سے بہت ہی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے پرہی طلبہ میں لسانی عادتیں بھی پڑت کرائی جاتی ہیں ۔ چونکہ چینی و جسمانی نشو ونما کی بہت ساری منزلیں بچے ان ہی ابتدائی جماعتوں میں طے کرتے
ہیں اس لئے ان ہی سطحوں پر ان کے خیالات ، احساسات اور جذبات کی نشو ونما بھی ہوتی ہے نیز شخصیت سازی کی بہت ہی اہم منزل بھی یہی ہے ۔اس لئے اس سطح پر زبان کی تدریس کے مقاصد بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔اساتذہ کے لئے مندرجہ بالا چاروں مقاصد کی آگجی کے لئے بہت سخت محنت اور صبر قبل کی ضرورت ہوتی ہے۔
اردو بولنا سکھانا
چونکہ بچہ اپنے ماحول سے اسکول میں بولتے ہوۓ داخل ہو تا ہے اوراس کے پاس چوٹا ساذ خیرہ الفاظ بھی ہوتا ہے اس لئے اسا تذ کو اردو بولنا سکھانے میں کسی خاص دشواری کا سا منانہیں کر نا پڑ تا ۔ پر بھی طلبہ کو نشو کر نے پر قدرت حاصل کرنے میں اساتذہ کو رہنمائی کرنی چاہئے ۔ بولتے وقت صاف صاف آواز اور صحت الفاظ کا خیال رکھ کر بولنے کی مہارت پیدا کرنی چاہئے ۔سیح تلفظ کے ساتھ نمتلو کی مشق کر نی چا ہئے ۔ بولتے وقت جملے اورفقرے کے اتار چڑھاؤ کا خیال رکھنا چاہئے ۔ بناوٹی نشتگو سے پر ہیز کرتے ہوئے فطری انداز کی کانگوکی مارت ڈالنی چاہئے ۔ بولنا سکھانے کے مختلف طریقے اور اس کے لیے سمعی و بصری آلات کا استعمال بھی ضروری ہے ۔
اردو پڑھناسکھانا
ابتدائی منزل پر زبان کی تدریس کا جوسب سے اہم مرحلہ ہوتا ہے وہ پڑھنا سکھا نا ہوتا ہے ۔استاد سب سے پہلے پڑھناسکھانے کی طرف توجہ دیتا ہے ۔ پڑھنا سکھانے میں شروع سے ہی سی تلفظ کی طرف دھیان دینا چاہئے اور طلبا میں اس کی مہارت پیدا کر نی چاہئے کہ وہ الفاظ کو فقروں کواور جملوں کوسیح مفظ کے ساتھ پڑھیں ۔شروع شروع میں اعراب کے ساتھ پڑھنے کی مہارت پیدا کر نی چاہئے تا کہ آگے چل کر بغیر اعراب کے متن بھی ہوں تو صیح پڑھنے میں دشواری پیدا نہ ہو۔ ابتدائی سطح کی شروع کے درجات میں بچے کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور بچے کو مناسب لب و لہجے کے ساتھ الفاظ کی بجے بتانی چاہئے تا کہ آگے چل کر بلند خوانی اور خاموش مطالعے میں موزوں لب دلیجے کے ساتھ عبارت خوانی میں مہارت پیدا ہوگے۔
أردولکھنا سکھانا
ابتدائی سطح پر جوسب سے مشکل مرحلہ تا ہے وہ بچوں کو اردولکھناسکھانا ہوتا ہے۔ بولنے اور پڑھنے احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ حرفوں کی مختلف اشکال ان کے نقوش ، نقطے شوشے مراکز اور طرز تحریر کی کی مشق ہونے کے بعد لکھنا سکھایا جا تا ہے ۔ ابتدائی سطح کے مدرس کولکھنا سکھانے میں سب سے زیادہ عادت ابتدائی سطح پر یسی پڑ جاتی ہے وہ پوری زندگی قائم رہتی ہے کیونکہ ۔ خشت اول گر نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج اس نہج پر حرفوں کی صیح شناخت اور درست اما کے ساتھ لکھنے کی مہارت پیدا کرنی چاہئے ۔
طلبا کو لکھناسکھاتے وقت خاص طور سے شوشئے دائر ے اور نقطے کی صیح جگہ کا دھیان رکھنا چاہئے ۔ ایک لفظ سے دوسرے کے درمیان واضح فرق (دوری) ہونی چاہئے ۔ جملوں میں لفظوں کی ترتیب اورسطور کے سید ھے ہونے کا خیال رکھنا چاہئے ۔ مرکب لفظ لکھتے وقت اس کی ملاوٹ کا خیال رکھنا چاہئے ۔تحریر میں صحت اور صفائی کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور ان بھی باتوں کے بعد جملوں میں اوقاف کا خیال بھی رکھنا چاہئے ۔
اردو سمجھنا سکھانا
ابتدائی سطح پر بولنا پڑھنا اورلکھنا سکھانے کے بعد جو مرحلہ آ تا ہے وہ سمجھنا سکھانالی تفہیم ہے۔ لینی طلب میں کس طرح یہ مہارت پیدا کی جائے کہ عبارت کو پڑھ کر بیوی کی اور اس کا اظہارا پیاز یان میں کرسکیں ۔ اس سطح پر مدارس میں مختلف درجات ہوتے ہیں ۔شروع کے درجات میں تو تفہیم کا پہلو بہت
زیادہ نہیں ہوتا بلکہ ان سطحوں پر حروف الفاظ کی شناخت نیز تذکیرو تا نیٹ ، اسم اور اس کی قسمیں ،متضادو مترادف الفاظ وغیرہ سے واقف کرانا مقصود ہوتا ہے ۔لیکن ابتدائی تعلیم کے آخری در جات ( چھٹی ساتویں آٹھویں میں تفہیم کا پہلو بھی نمایاں ہو جاتا ہے ۔
عام طور سے پوری ابتدائی سطح پر لفظ اور جملوں کی ساخت اور شناخت بناوٹ ، ان کے استعمال کی سمجھ پیدا کرانی چاہئے ۔الفاظ کی سی ترتیب کے ساتھ بیان کرانا چاہئے تکلم ونٹر کے سوالات اوران کے جوابات کی تفہیم اور پیچان میں مہارت ہونی چاہئے ۔ اظہار خیال کے لئے مناسب الفاظ کا انتخاب بھی اسیا سطح پر کرایا جانا چاہئے ۔ نئے الفاظ فقرے محاورے اور ضرب الامثال و کہاوتوں کا جز وی شعور بھی اسی
نج پر ہو جانا چاہئے کیونکہ ابتدائی سطح کے آخری درجات کا شار ثانوی سطح کے اولین در جات میں بھی ہوتا ہے اور میزبان کے شعور کی دوسری منزل‘‘ سمجھی جاتی ہے۔ ابتدائی سطح پر اردو تدریس کے ان چار بنیادی عناصر کا مختصر جائزہ لینے کے بعد واضح طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان مہارتوں کے فروغ کے بعد طلبا میں اردو بولنے، پڑھنے لکھنے اور مجھنے کی اتنی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اپنے ہم جماعتوں میں تحریر وتقر می دونوں زرایوں سے اظہار ڈیال کریں گردوپیش کے ماحول سے جو کچھ سیکھا ہے اس کا لسانی اظبار حسب خواہش کرسکیں ۔ اس سطح کے ابتدائی درجات میں جو مبارتیں مشقیں ادھوری اور نامکمل یا ہم رہ گئی ہوں آخری در جات تک ان میں پختگی حاصل کر لیں گے۔
تدریس اردو کی دیگر افادیت
تدریس زبان کے مقاصد کے سلسلے میں ماہرین تعلیم میں بہت ہی تنوع پایا جا تا ہے ۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ میلسانی مقصد دراصل افادی مقاصد ہیں ۔ بعض نے اسے معاشی اور سماجی مقاصد بھی تسلیم کیا ہے ۔ ان مقاصد میں بولئے، پڑھنے لکھنے اور بجھنے کی صلاحیت جس سے نہ صرف سابی رابطے میں مد دیلتی ہے بلکہ انسان ان ویلوں سے اپنے کاروبار اور چیے کو بہتر سے بہتر بنا سکتا ہے ۔ ان مہارتوں کے حصول سے دیگر مضامین کی آ سوزش میں خاطر خواہ مد ملتی ہے۔ان کی وساطت سے دیگر زبانوں کے سیکھنے میں استحکام د وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ یہ مہارتیں انسان کی زندگی میں آ گے چل کر شخصیت سازی کا وسیلہ بنتی ہیں اور ان کے ذریعے متوازن شخصیت کی نشوونما ہوتی ہے ان مہارتوں کے فروغ سے بچوں میں صیح اور واضح اظہار کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے جو بعد میں ان کی عملی زندگی میں کارآمد ثابت ہوتی ہے ۔اظہار خیال کے ذریعے طلبا کو نفسیاتی اور پہنی سکون ملتا ہے ۔ اظہار خیال کی چنگی کے لئے وہ نے نے انغا لہ تلاش کرتا ہے ۔ اس طرح اس کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے اور قوت تخیل پروان چڑھتی ہے نیز دوسروں کی تحریر وتقریر کو جھنے اور اس سے استفادہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔انہی مہارتوں کے فروغ سے طلبا میں غوروفکر مشاہدہ اور مطالعے کا شوق پیدا ہو جا تا ہے ۔اگر ہم زبان کی تعلیم کے دائرے کو اور وسیع تناظر میں دیکھیں تو اس کے ذریعے اقتدار کا فروغ اور تہذیب و ثقافت کی تدوین بھی ہوتی ہے ۔شعروادب کے مطالعے کاز وق وشوق بھی پیدا ہوتا ہے اوراپی دراخت کے فولاگر نے کا جذ ب بھی فروغ پا تا ہے ۔انہی مہارتوں کے فروغ سے طلبا میں مخفی تخلیقی تخیلی ،استحسانی اور تجرباتی صلاحیتوں کا فروغ ہوتا ہے ۔ ہند دستان کے کیوں میں اگر ہم اردوزبان کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قومی اقتدار جمہوریت سیکولرزم، سوشلزم اورقومی ہم آہنگی کا نا قابل فراموش ذریعہ ہے۔