سرسید کے معاصرین اور رفقاء
سرسید کے معاصرین اور رفقاء سرسید کے اثرات اردو ادب پر علی گڑھ تحریک کا اردوادب پراثر
سرسید کی شخصیت ہمہ جہت شخصیت تھی ۔ انہوں نے بہت سے کار ہاۓ نمایاں انجام دیئے جو بھلاۓ نہیں جا سکتے اس طرح انہوں نے اردوادب پرایسے نقوش چھوڑے ہیں جو مٹاۓ نہیں مٹ سکتے ۔ انہوں نے تصنیف و تالیف میں بڑاحصہ لیا تھا جس کی بدولت ’’ آثار الصنادید‘ ’’اسباب بغاوت ہند‘اور’خطبات احمد یہ جیسی پچیسیوں کتابیں منظر عام پر آئیں۔
سرسید احمد خاں کے فکری اور علمی کاموں کو بڑھانے میں ان کے رفقا کا بڑا ہاتھ ہے تعقل پسندی جو سرسید کا محبوب نظر یہ تھا اس کو چراغ علی نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اس کو اپنانے میں سرسید سے بھی دوقدم آگے بڑھ گئے ۔ ان کے دوسرے دوست محسن الملک جنہوں نے کئی اہم علمی کا موں میں حصہ لیا چنا نچہ وہ سائٹی تک سوسائٹی کے سرگرمیوں میں پیش پیش رہے اور’ تہذیب الاخلاق‘‘میں سرسید کے بعد سب سے زیادہ مضامین لکھے ان کے متعلق کہا جا تا ہے کہ وہ مشن سرسید کے سب سے بڑے داعی اور مبلغ تھے ۔سرسید کے دوستوں میں علامہ شبلی کا مقام بہت اہم ہے ۔ جنہوں نے تقابلی تنقید کی بنیاد ڈالی اورسوانح نگاری کے میدان میں ایسے کارنامے انجام دیئے جس کی مثال مشکل سے ملے گی ۔’’الفاروق‘‘ ان کی شاہ کا رتصنیف ہے۔ انہیں مشرقی اور قدیم روایتیں عزیز ہیں ، انہوں نے تعقل پسندی کو مضبوط بنایا اور بھی کئی ادبی خدمات انجام دی ہیں ۔ سرسید کے دوستوں میں منشی ذکا ءاللہ تھے جنہیں تاریخ ہند میں ایک کمال حاصل ہے چنانچہ انہوں نے دس جلدوں میں’’ تاریخ ہندوستان‘‘ لکھا۔ سرسید کے اہم دوستوں میں الطاف حسین حالی کا نام بھی آ تا ہے۔جنہوں نے سرسید کی فرمائش پر’مسدس حالی‘ لکھا انہوں نے ’’مقد مہ شعر و شاعری‘‘ بھی لکھا جس سے با قاعدہ و جہد ید تنقید کا آغاز ہوا ، حالی نے جد ید تنقید کی طرح با قاعد و سوانح نگاری کی بھی بنیاد ڈالی’’حیات سعدی‘‘ سے ان کی با قاعد ہ سوانح نگاری کا آغاز ہوا۔’’ یادگار غالب‘‘ان کی شاہکار تصنیف ہے ۔ جس کے بغیر غالب شناسی کا حق پورا ادانہیں ہوسکتا ، انہوں نے حیات جاوید‘‘ لکھا جو سرسید کی سوانح عمری ہے غرض کہ سرسید کی مخلصانہ کوششوں کی بدولت ہی آج اردوادب افق پر نظر آ تا ہے ۔سرسید اور ان کے رفقاء کے اثرات اردوادب پراسی طرح جلو لگن میں جس طرح آسمان پر چمکتے ستارے۔ سرسید اور ان کے رفقا کی کاوشیں اوران کے اثرات اردوادب پر ہمیشہ ہمیش نظر آ تے رہیں گے