طبقات الشعراء اردو
طبقات الشعراء اردو
تذکرے سوانح اور تواریخ
مومن خاں مومن
حالات،عصری آگہی ، سیاسی شعور ، شعری تشخص
اردو ادب میں تذکرے
تذکروں کی حیثیت محض ادبی نہیں ، تاریخی اور عمرانی بھی ہے ۔اردو کے ابتدائی تذکرے فارسی میں لکھے گئے ۔’نکات الشعرا ‘ (میر تقی میر ) فارسی میں لکھا گیا اردو کا اولین تذکرہ ہے ۔’تذکرہ گلشن ِ ہند ‘ (مرزا علی لطف ) اردو میں لکھا گیا پہلا تذکرہ ہے ۔ تذکرے کو نہ بیاض نویس کی مختصر بیانی راس آتی ہے اورنہ تاریخ نگار کی مفصل بیانی ۔ تذکرہ نگار اپنے حدود میں رہ کر شعرا کے حالات رقم کرتا ہے ۔ کلام پر رائے دیتا ہے اور کچھ انتخاب پیش کرتا ہے ۔ اس طرح شاعر اور اس کے کلام کا مختصر تعارف ہوجاتا ہے ۔کلیم لدین احمد نے تذکروں پرسخت تنقید کی۔ انھیں لفاظی ، عبارت آرائی اور لفظوں کے سیلاب سے تعبیر کرتے ہوئے ان کے ہر نقش کو نقش بر آب قرار دیا۔ لفاظی اور عبارت آرائی کی آنکھ مچولی کو تنقید نہیں کہا جا سکتا ۔یہ بھی بجا کہ تذکروں کاخاص تعلق زبان ، محاورے اور عروض سے ہے ،لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ انھی تذکروں نے ادبی تنقید کے لیے اولین زمین ہموار کی ۔کچی زمین کو پختہ ہونے میں وقت تو لگتا ہے ۔کلیم الدین احمد کی تنقید نوآبادیاتی زبان بولتی ہے ۔ نوآبادیاتی ذہن ہماری گراں مائگی کو بے مایہ بتاتا ہے۔ تذکروں کے اسالیب کو کم مایہ اور اس کے بیانیہ کو کمزور ثابت کرنے میں کہیں کہیں احساس کمتری کا پہلو نمایاں ہوجاتا ہے ۔ دوسروں کی آنکھ سے دیکھنے پر خود اعتمادی مجروح ہوتی ہے ۔ تذکروں کی تنقید پر توجہ نوآبادیاتی عہد میں دی گئی ۔ گارساں دتاسی پہلا مستشرق ہے جس نے تذکروں کی ادبی اور تنقیدی حیثیت پرتنقیدی نگاہ ڈالی ۔ تنقید کے مغربی اصولوں پر تذکروں کا مطالعہ غلط نتائج تک لے جاتا ہے ۔ تذکروں کے نوآبادیاتی بیانیے بحث کودلچسپ تو بناتے ہیں لیکن ان کا فیصلہ یک رخی اورجانب دار ی پر مبنی ہوتا ہے ۔ ہر عہد کی اپنی تنقیدی بصیرت ہوتی ہے ۔ اس عہد کی تنقیدی بصیرت کو اسی عہد کے تہذیبی نظام ، تنقیدی معائر، فکریات اور تصور کائنات کی روشنی میں دیکھنا چاہیے ۔
تذکروں کا دوسرا دور
تذکروں کا دوسرا دور ’آب حیات ‘ سے بشروع ہوتا ہے ۔دوسرے دور کے تذکروں کو تاریخ ِ ادب سے ملانے کی کوشش کی گئی ہے ۔نئے تذکرے پرانے تذکروں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔پرانے تذکرے حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیے گئے ۔نئے تذکروں میں مختلف ادوار قائم کیے گئے ۔زبان کے آغاز و ارتقا کے مختلف مدارج کا ذکر کیا جانے لگا ۔یہاں سے ادبی لسانیات اور تاریخ کے ابتدائی نقوش ظاہر ہوئے۔نئے تذکرے اجمال سے تفصیل کی طرف بڑھے۔ کلیم الدین احمد نئے تذکروں سے بھی مایوس ہیں ۔یہاں بھی انھیں وہ تنقیدی اسالیب نہیں ملتے جن کی تلاش تذکروں اور ادبی تاریخ نگاری میں بے سود ہوتی ہے۔یعنی انھیں تنقید کی ماہیت اور اس کے ضوابط و مقاصد پر مناسب بحث نہیں ملتی ۔شعر کی ماہیت ، ادب اور زندگی کا صحیح ادراک نہیں ملتا ۔تنقیدی اسالیب کا فقدان انھیں نئے تذکروں سے بھی دور کردیتا ہے ۔کہتے ہیں ، ’’ تاریخ ِ ادب اور ادبی تنقید الگ الگ چیزیں ہیں اور تنقید تاریخ سے زیادہ اہم ہے ۔ تاریخ تنقید کی مدد کرتی ہے تو مفید ہوتی ہے ورنہ نہیں ‘‘
طبقات الشعراء اردو
ان کا فرمانا کہ تاریخ اگر تنقید کے کام نہ آئے تو غیر مفید ہوگی ،حیرت میں ڈالتا ہے۔تاریخ تنقید کے لیے معاون ہوسکتی ہے ، لیکن کوئی ضروری نہیں کہ ہمیشہ اور ہر باب میں تاریخ تنقید کا ساتھ دے۔تاریخ کو تنقید کی سند کی ضرورت نہیں ۔البتہ کبھی کبھی تنقید کو تاریخ کی سند لینا ضروری ہوجاتا ہے ۔کسی کو کم تر یا کسی کو برتر کہنا مناسب نہیں ۔نکات الشعرا (میر تقی میر ) ، گلشن گفتار (حمید اورنگ آبادی ) ، ریختہ گویان (فتح علی گرویزی ) ، مخزن نکات (قیام الدین قائم ) ، چمنستان شعرا (لچھمی نرائن شفیق ) ، طبقات الشعرا (قدرت اللہ شوق ) ، تذکرہ شعرائے اردو (میر حسن ) ، گل عجائب (اسد علی خاں تمنا) ، گلزار ابراہیم (محمد ابراہیم خاں خلیل ) ، تذکرہ ٔ ہندی (غلام ہمدانی مصحفی ) ، عیار الشعرا (خوب چند ذکا ) ، گلشن ہند (مرزا علی لطف ) ، ریاض الفصحا (غلام ہمدانی مصحفی ) ، مجموعہ ٔ نغز (قدرت اللہ قاسم ) ، دیوان جہاں (بینی نرائن جہاں ) ، دستور الفصاحت (احمد علی خاں یکتا ) ، گلشن بے خار(مصطفیٰ خاں شیفتہ) ، وغیرہ کا شمار قدیم تذکروں میں ہوتا ہے ۔یہ تذکرے 1752-1835کے درمیان لکھے گئے ہیں ۔1857کے بعد جدید تذکروں کا آغاز ہوتا ہے ۔سخن شعرا (عبدالغفور نساخ ) ، آب حیات (محمد حسین آزاد ) ، گل رعنا (عبدالحی) ، شعر الہند (عبدالسلام ندوی ) ، خم خانہ ٔ جاوید (لالہ سری رام) وغیرہ کا شمار جدید تذکروں میں ہوتا ہے ۔’آب حیات ‘ ، ’ گل رعنا ‘ اور ’ شعر الہند ‘ میں تذکرے کو تاریخ سے ملانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ جدید تذکرو ں میں اردو کی لسانی تشکیل پر توجہ دی گئی ہے۔شاعری کے عروج اور پھیلاؤ کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ایک دور کو دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ شعرا کے حالات اور ان کے کلام کا عمدہ انتخاب نظر آتا ہے۔ شاعر کے حالات ِ زندگی کو دلچسپ پیرایے اور خاکے ، کے انداز میں پیش کرنا نئے تذکروں کا وصف ہے ۔محمد حسین آزاد سامنے کی مثال ہیں ۔ تذکرے تاریخ ادب کے لیے بنیاد کا کام کرتے ہیں ۔ تحقیق اور استناد کے لیے جواز فراہم کرتے ہیں ۔ حنیف نقوی لکھتے ہیں۔
تذکروں کے متفق علیہ بیانات سے حقائق کے عرفان اور واقعات کی تعبیر میں مدد ملتی ہے اور اختلافی مباحث نے ارباب نظر کے ذوق تجسس کو بیدار کرکے تحقیقی شعور کی پرورش اور نشوو نما کے موقعے فراہم کیے ہیں ۔چنانچہ آج بھی کوئی مورخ ان مآخذ کی جانب رجوع کیے بغیر اپنی تاریخ کے مکمل اور مستند ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ۔تذکروں کا یہی وہ بنیادی کردار ہے جو ہر صائب الرائے شخص کو ان کی غیر معمولی اہمیت کے تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
تذکروں کی ترتیب میں حروف تہجی کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے جبکہ تاریخ کسی عہد اور اس کے پس منظر میں آنکھیں کھولتی ہے ۔ مورخ کی نگاہ پیش نظر عہد کی دھوپ چھاؤں پر ٹکی ہوتی ہے ۔ حنیف نقوی تذکروں کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تذکروں نے ایسے بے شمار فن کاروں کو بے نام و نشاں ہونے سے بچا لیا ہے جن کے کارنامے یا تو کسی وجہ سے مدون نہ ہوسکے یا مدون ہونے کے بعد ضائع ہو گئے۔…اردو ادب کی تاریخ سے یہاں بطور مثال مصطفی خاں یکرنگ ، خان آرزو اور مرزا مظہر جان جاناں کے نام پیش کیے جاسکتے ہیں ۔ ان اساتذہ کے کلام کے جو معدودے چند نمونے دستبرد ِ زمانہ سے محفوظ رہ کر ہم تک پہنچے ہیں وہ تذکروں ہی کے واسطے سے حاصل ہوئے ہیں ۔
اس عام خامی کے باوجود کہ تذکرہ نویسوں نے شعرا کے تعارف میں اکثر حد درجہ اختصار سے کام لیا ہے ، تذکرے عام شاعروں کے حالات ِ زندگی ، سیرت و شخصیت اور تخلیقی کاوشوں کے متعلق حصوں کی معلومات کا اہم ترین ذریعہ ہیں ۔
بعض تذکروں میں ان کے مولفین نے زمانی و مکانی قرب سے پوری طرح فائدہ اٹھا کر ہم عصر شاعروں کے بارے میں انتہائی اہم اور کارآمد معلومات کا وہ بیش قیمت سرمایہ فراہم کردیا ہے جو کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔
بعض تذکرہ نگار بذات خود بڑے شاعر ہیں ۔انھوں نے دوسرے شعرا کے کلام میں جن خوبیوں اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے یا بعض اوقات اشعار میں لفظی ترمیم و تغیر کے متعلق جو مشورے دیے ہیں ان کا مطالعہ خود ان کے رجحان طبع اور نظریہ ٔ فن کو سمجھنے اور اس کی روشنی میں ان کے کلام کو زیادہ بہتر طور پر پرکھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔
تذکروں کے انتخابات کا مطالعہ عام حالات میں دواوین کی تلاش و جستجو اور ورق گردانی کی زحمت سے بے نیاز کردیتا ہے ۔
تذکروں میں کبھی کبھی ایسی کتابوں کے حوالے اور اقتباسات بھی مل جاتے ہیں جو یقینی طور پر فنا ہو چکے ہیں یا جن کے بارے میں معلومات کا کوئی اور ذریعہ موجود نہیں ۔
مختلف العہد تذکروں کے تقابلی مطالعے سے زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے ہوئے ادبی رجحانات ، فن کی منزل بہ منزل ترقی اور زبان کے عہد بہ عہد ارتقا کی رفتار اور کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔
تذکروں میں نقل کیے گئے اشعار اور دواوین کی صورت میں مرتب شدہ کلام کے باہمی مقابلے سے متن کے ان اختلافات کی نشاندہی میں بھی مدد ملتی ہے جو بالعموم خوب سے خوب تر کی تلاش پر مبنی شعرا کے خود اصلاحی و خود تنقیدی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔
تذکروں میں اکثر ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں ، جنھیں یا تو شاعر پست از معیار قرار دے کر خود ہی اپنے کلام سے خارج کردیتا ہے یا کسی اور وجہ سے وہ اس کے مجموعہ ٔ کلام میں شامل نہیں ہوپاتے ۔غالب کے منسوخ کلام کا ایک اچھا خاصہ حصہ اسی طرح دستیاب ہوا ہے ۔
تذکروں سے متنازع فیہ کلام کی ملکیت کے تعین میں بھی مدد ملتی ہے ۔ مثلاً قائم چاند پوری کے بعض مشہور اشعار جو بالعلوم سوداؔ سے منسوب کیے جاتے ہیں ، خود ان کے تذکرے میں ان کے اپنے نام سے منقول ہیں ۔ (3)
مومن [1800-1852]کی قدر شناسی ان کے عہد میں کم ہوئی ۔ غیر جذباتی طور پر اور فنی اصولوں کی روشنی میں انھیں سمجھنے کی کوشش خال خال ملتی ہے ۔ان کی شخصیت اور ان کے کلام پر کچھ ابتدائی باتیں تذکروں اور تواریخ کا حصہ ہیں ۔ اس ضمن میںچار تذکروں کا خصوصی حوالہ دیاجاتا ہے ۔ ’گلشن ِ بے خار‘ (مصطفی خاں شیفتہ )’ ، طبقات ِ شعراے ہند‘ (منشی کریم الدین )، ’ آب حیات‘ (محمد حسین آزاد )،’جلوہ ٔ خضر ‘ (صفیر بلگرامی ) ۔ دیگر تذکرے اس ضمن میں عمومی نوعیت کے ہیں ۔
مصطفی خان شیفتہ
مصطفی خاں شیفتہ [1806-1869]نے ’گلشن بے خار، 1835میں مکمل کیا ۔یہ تذکرہ اپنی تکمیل کے دو سال بعد یعنی 1837میں شائع ہوا ۔ شیفتہ دہلی میں پیدا ہوئے ۔ غالب ، مومن ، ذوق ، نصیر ، مفتی صدرالدین آزردہ ،امام بخش صہبائی وغیرہ کا زمانہ تھا ۔ عربی ، فارسی اور اردو ، تینوں زبانوں پر یکساں مہارت تھی ۔ فارسی میں حسرؔتی تخلص کیا ۔مومن خاں مومن کے شاگردرشید ہوئے ۔ مومن کی وفات کے بعد غالب سے مشورۂ سخن کیا ۔ غالب بھی ان کی فنی اور ناقدانہ بصیرت کے قائل و قدر دان تھے ۔ انھیں مومن سے بڑی عقیدت تھی ۔ اس عہد میں عام طور پر تذکروں کا رجحان عمدہ اشعار کا انتخاب تھا۔شیفتہ نے تذکرہ اس مقصد کے تحت مرتب نہیں کیا ۔ان کا مقصد ذرا وسیع تھا ۔ انھوں نے کلام کے عمدہ انتخاب کے ساتھ ، شعرا کے حالات جمع کیے اور ان کے کلام پر تبصرہ کیا ۔تذکرے کی تکمیل کے بعد ’گلشن ِ بے خار ‘ نام رکھا جو پہلی بار 1837میں مطبع لیتھو گریفک دہلی ، اردو اخبار آفس سے مولوی محمد باقر کی نگرانی میں چھپ کر منصہ شہود پر آیا ۔ 1843میں دہلی کے اردو اخبار پریس سے اشاعت ثانی ہوئی ۔ اس کا تیسرا ،اڈیشن 1874میں منشی نول کشور کی نگرانی میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔ ’’ بظاہر نول کشور نے طباعت ثانی کا چربہ شائع کیا ہوگا ۔اسی نسخہ نول کشور کو یو پی اردو اکیڈمی لکھنؤ نے 1982عیسوی میں عکسی طباعت کے ذریعہ جوں کا توں دوبارہ شائع کیا ہے لیکن اس میں آخری دو صفحات غائب ہیں ۔‘‘ (4)’گلشن ِ بے خار ‘ کے پہلے اڈیشن کا ایک نسخہ رضا لائبریری ، رام پور کی ملک ہے ۔ مومن خاں مومن کا ذکر سب سے پہلے اسی تذکرے میں ہوا ۔ اسلوب انشا پردازانہ ہے ۔ اس عہد کے تذکروں میں آج بھی اسے سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ شیفتہ نے ہی مومن کا کلام جمع کر کے ترتیب دیا جسے مولوی کریم الدین نے 1846میں دہلی سے شائع کیا ۔مومن کی حیات میں ان کے کلیات کا یہ واحد اڈیشن تھا ۔ ان کی وفات کے بعد تو اس کی اشاعت متعدد دفعہ ہوئی ۔اس سلسلے میں شیفتہ نے اپنے تذکرے میں لکھا ہے کہ ’’ اس [مومن ] کی بیشتر شاعری اس گنہ گار کی خواہش سے ظہور پذیر ہوئی ہے اور اس کے افکار (اشعار ) کی تدوین کا باعث بھی یہ فقیر ہوا ہے ۔ اس ( دیوان ِ مومن ) کا دیباچہ کہ جو میرے قلم کی ریختہ ہے ۔ ا س میں تفصیل کے ساتھ اس ماجرے کو کھول کر بیان کردیا ہے اور آج کل اس کی توجہ ریختہ کی نظم پر کم کم ہے ۔ کبھی کبھی جادو جگاتا اور سخن فہموں کی مسرت کاسامان کرتاہے (یعنی شعر کہتا ہے ) لاتعداد زبانیں کہ جو خاموش اور مردہ پڑی تھیں ، یکایک زندہ ہوکر نعرہ ہائے تحسین بلند کرتی ہیں ۔ فقیر کا خیال ہے کہ محض اپنی شاعری کے زور پر کوئی اور کم ہی اس طرح کھڑا ہوا ہے ۔‘‘ (5) رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں۔
شیفتہ بہ نسبت شاعر کے ناقد کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں ۔ اپنے زمانے میں بھی ان کو یہی شہرت حاصل تھی اور اردو اور فارسی شاعری کے اعلیٰ درجے کے نقاد او ر سخن سنج سمجھے جاتے تھے ۔ان کا تذکرہ گلشن بے خار ایک مبسوط اور مشہور تصنیف ہے اور ہمارے نزدیک وہ پہلا تذکرہ ہے جس میں انصاف اور آزادی کے ساتھ اشعار کی تنقید کی گئی ہے۔
شیفتہ کی سخن سنجی کو غالب نے تسلیم کیا ہے اور مومن سے ان کی جو عقیدت ہے اس سے زمانہ آشنا ہے ۔ ’گلشن بے خار ‘ میں شیفتہ لکھتے ہیں۔
مومن ؔ تخلص ، شعر گوئی کی کان کا کالا ہیرا ، معانی کے سمندر کا نایاب موتی ، شاعری کی سلطنت کا بادشاہ ،اس فن ( یعنی شاعری ) کا درجہ بلند کرنے والا ، ہوش و خرد کی شراب کا جام گردش میں لانے والا ،دلکش اور دل کو لبھانے والے نغمات کا مغنی ،پے چیدہ معانی کے بلند مقام کا مالک ، بیان کے جملہ اوصاف کا آفتاب ، نکتہ دانی کا آسمان ، زمانے کے نشیب و فراز کے اسباب کا جاننے والا ، فلسفہ کو پروان چڑھانے والا شاعر ، بات کو واضح کر نے والا ، فلسفی اپنے عہد کا بے مثل ، اپنے وقت کا بے مثال ، بہت سے فنون ( کو اپنی ذات میں ) جمع کرنے والا ، حکیم محمد مومن خاں جن کو اللہ نے مختلف فنون میں کمال حاصل کرنے کی خوب استعداد کی ہے ۔انھوں نے کمال مہارت اور اس کے لیے استعداد کو اپنے نفس میں بخوبی سمو لیا ہے اور یہی وجہ ہے ان کے گلستان ِ دل کے چشموں سے بے پناہ علم و فضل کے دریا جاری ہیں ۔ بڑے اور نامور خاندان سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے فضائل اور عظمتیں حیطۂ تحریر میں نہیں آسکتے ۔ اس کی بڑی بڑی خوبیوں اور پوشیدہ کرامتوں کا شمار تحریر کے بس کی بات نہیں ہے اور ان وجوہات کی بنا پر یہ مختصر تحریر ہر گز کسی تفصیل کی متحمل نہیں ہوسکتی کیوں کہ میری لکنت والی زبان پر مرغ گلستاں کا نغمہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ میرا ٹیڑھا میڑھا بیان گویا خوش آواز طوطی کی بندھی ہوئی منقار کی گریہ گفتاری ہے ۔گذرے ہوئے لوگوں کی داستانیں کہ جو بڑے طمطراق سے دنیا کے گوش گذار ہوئی تھیں ، جان بوجھ کر سب نے بھلا دی ہیں اور بیشتر لوگوں کی کہانیاں کہ جو ہزار دھوم دھام کے ساتھ اوراق زمانہ پر نقش ہیں بھولے سے یاد نہیں آتی ہیں۔
کلام کو غیرجانب دار ہوکر فنی کسوٹی پر پرکھنے، متن کے بطون سے پیدا ہونے والے مسائل پر رائے دینے اور عقیدت کی عینک سے متن کو دیکھنے یا قصیدہ پڑھنے میں کافی فرق ہے ۔ شیفتہ کے اقتباس سے مومن کے فن کو سمجھنے میں کوئی مدد نہیں ملتی ۔بعض اوقات فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ تعریف مومن خاں مومن کی کی جارہی ہے یا کسی غیرمعمولی مخلوق یا کسی پیغمبر کی ۔ مثلاً ’’ ان کے گلستان ِ دل کے چشموں سے بے پناہ علم و فضل کے دریا جاری ہیں ۔ اس کے فضائل اور عظمتیں حیطۂ تحریر میں نہیں آسکتے ۔ اس کی بڑی بڑی خوبیوں اور پوشیدہ کرامتوں کا شمار تحریر کے بس کی بات نہیں ہے اور ان وجوہات کی بنا پر یہ مختصر تحریر ہر گز کسی تفصیل کی متحمل نہیں ہوسکتی کیوں کہ میری لکنت والی زبان پر مرغ گلستاں کا نغمہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے اور یہ میرا ٹیڑھا میڑھا بیان گویا خوش آواز طوطی کی بندھی ہوئی منقار کی گریہ گفتاری ہے ۔‘‘یہ تعریف ہے یا الفاظ کا بے جا خرچ۔منطقی اور معروضی ذہن سے جس کا کوئی علاقہ نہیں ۔ تجربے اور مشاہدے سے جس کا کوئی رشتہ نہیں ، لیکن کیا کیجیے کہ مبالغہ ، بلکہ غلو کو اس زمانے میں برا نہیں سمجھاجاتاتھا۔لوگ اسے حسن سمجھتے تھے۔۔ ملاحظہ ہو :
کمالات کے حساب سے ان کی شاعری جس میں غضب کا تنوع ہے دراصل دوہرے مرتبہ کی حامل ہے ۔ لیکن چونکہ بات اس فن ( یعنی شاعری ) کی ہے بیجا روگردانی نہ کی جائے ( تو صاف نظر آتا ہے ) کہ اس کی جادو جگانے والی زبان سحر کو معجزہ کے درجے پر پہنچاتی ہے اور اس کی دل پذیر شاعری میں اختصار طوالت کے ہم پایہ ہوتا ہے ( یعنی کوزے میں دریا بند ) اس کی موتی لٹانے والی طبیعت سے ( بصورت اشعار ) قطرہ ہائے نیسان کی بارش ہوتی ہے جس سے مفلسوں کی جیبیں ، آستینیں اور دامن جواہرات سے بھر بھر جاتے ہیں ۔ وہ جب بہار کا خیال باندھتا ہے تو اس کی پھول بکھیرنے والی طبع چمن چمن پھول کھلادیتی ہے اور دیکھنے والوں کے سامنے باغ جنت جلوہ دکھانے لگتا ہے ۔ وہ یکتائے علم اپنی انوکھی جنبش کے ساتھ ماہتاب کے مانند رواں ہے ۔اس کی شمع فکر کی روشنی سے نامحسوس ذرات اس طرح روشن نمایاں اور قابل اعتناد ہوجاتے ہیں جیسے خورشید عالم تاب کی ضیا کے انعکاس سے لاتعداد ستارے چمک اٹھتے ہیں ۔ اس کے سامنے کائنات (شعر ) کو زینت بخشنے والا نوری نبات النعش کے ایک ستارے سُہا کے مانند ( کم قیمت ) ہے اور اس کے دربار میں خدا وند فریدون نژاد خاقانی ایک ادنیٰ درجہ کا خادم ہے اور اس کے خوان نعمت کے بہت سے وظیفہ خواروں میں سے ایک ہے اور بو فراس اس کے میدان تکریم میں اس کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر چلنے والوں میں سے ایک ہے۔
یہ ہے مومن تنقید کی ابتدائی جلوہ گری جس میں عقیدت کا چراغ ، عقیدت ہی کی روشنی بکھیرتا ہے ۔ جب اس نوع کے جملے پر نظر پڑتی ہے تو عقیدت کا چراغ بھی گل ہوجاتا ہے اور فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ تعریف ہے یا کچھ اور :
ملاظہوری ترشزی نے تین سو سال پہلے یہ شعر ان کے ہی خصوص میں کہاتھا اور شاید ان کی اتنی مسلسل خوبیوں کے باعث ہی بعض حضرات شک و شبہ کی لمبی سانسیں کھینچتے ہیں۔
ادبی تنقید میںتعریف کا یہ ڈھنگ آج مستعمل نہیں۔مبالغہ اور عبارت آرائی تذکروں کاعام مزاج ہے ۔ کلیم الدین احمد نے شیفتہ کی رایوں پر گرفت کی ہے ۔’’اس ناموزوں اور مہمل طوفان ِ الفاظ سے معانی فنا ہو جاتے ہیں ۔کوئی ذی فہم اسے تنقید نہیں کہہ سکتا ۔‘‘(10) رنگین عبارت اور مقفیٰ و مسجع نثر اس زمانے کا عام ڈھب تھی ۔ شیفتہ نے غالب ، مومن ، آزردہ وغیرہ جیسے کچھ شعرا کے کلام کی مبالغہ آمیز تعریف کی اور زیادہ تر شعرا پر تنقید کی ۔اسی لیے شیفتہ کے تذکرے کے جواب میں حکیم قطب الدین باطن نے ’گلستان ِ بے خزاں ‘(نغمۂ عندلیب) نامی تذکرہ 1875میں شائع کیا ۔ نظیر اکبر آبادی ، باطن کے استاد معنوی تھے اور شیفتہ نے نظیر کے کلام کو قابل اعتنا نہیں جانا تھا ۔باطن نے ان پر سخت تنقید کی ۔ انھوں نے اپنے تذکرے میں مومن کی حتی المقدور تعریف کی لیکن حد سے زیادہ تعریف کو وہ ہجو میں داخل جانتے ہیں ۔ وہ’ گلستان بے خزاں ‘میں لکھتے ہیں :
صاحب ِ گلشن ِ بے خار اپنے غم و جوش و خروش میں آکر شراب خودی سے بیہوش ہوگئے ۔یاروں کو تقریر میں وسعت ہوئی ۔طبیعتوں کو جوش ہوگئے ۔مومن خاں صاحب جو ان کے استاد ہیں ان کی صفت حد سے زیادہ کی ۔ شعر بھی اتنے لکھے کہ ہنگام شمار معلوم ہوا کہ اس قدر شعر کسی کے نہیں لکھے اور تعریف پر طبیعت آمادہ کی ۔ مولانا صدرالدین خاں کی تعریف ان سے بھی زیادہ کی ۔شاید ان کے دادا یعنی استاد کے استاد ہوں گے ۔ان کو کیسے کیسے علم ہنر کسب فن جس سے آدمی نام آور ہو [،]دریا سے جوہر کا شناور ہو[ ،] یاد ہوں گے ۔ان کے نزدیک سب استاد ان ِ ماضی و حال لیاقت سے دور ہیں ۔پس ایسے اندازوں سے فدوی نے جانا کہ یہ تالیف تذکرہ کے طرزوانداز سے ناواقف و مجبور ہیں۔
اسپرنگر کا تذکرہ’یادگار شعرا‘ اپنی جامعیت کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس میں وہ شعرا شامل ہیں جن کا پتا 1854تک چلاتھا ۔ یہ مختلف اہم تذکروں کا ست نکال کر تیار کیا گیا ہے ۔ ’’حکیم محمد مومن خاں ، اب دہلی میں بہترین شاعر اور اچھے طبیب ہیں ۔ فارسی اور ریختہ کہتے ہیں ۔ ایک دیوان اور کئی مثنویاںکہی ہیں (گلشن بے خار )۔اپنے مکان کی چھت پر سے گر کر مرے (1852)‘‘۔
’گلستان سخن ‘ مرزا قادر بخش صابر کا ضخیم تذکرہ ہے جو 1857سے پہلے لکھا گیا ۔اس پر مرتب کا مبسوط مقدمہ ہے ۔ صابر ، امام بخش صہبائی کے تلامذہ میں تھے۔ اپنے تذکرے میں مومن کے بارے میں لکھتے ہیں :
مومن تخلص سخن سنج ِبے عدیل محمد مومن خان مرحوم غفراللہ کہ زمین ِسخن اس کی بلندیِ فکر سے رشک ِافلاک اور اوجِ فلک اس کی علو طبع کے مقابل پستی خاک عروس معنی اس کے حجلہ طبع میں شوخ و برجستہ راز غیب اس کے سینۂ قلم میں سربستہ خامہ اس کی سوز معنی سے نخل طور اور ورق اس کے فروغ ِ مضامین سے مطلع نور مصرع آہ اس کی غزل عاشقانہ میں تضمین اور اسرار یقین اس کے ابیات عارفانہ میں گوشہ گزین سخن سنجان عصر ہر چند بالا دوئی فکر سے عرش تاز تھے لیکن جو کہ یہ والا نگاہ اپنی ہمت عالی کے اوج سے سب کے احوال پر نگاہ کرتا تھا ہر سر بلند اس کو پست اور ہر بزرگ اس کو خرد نظر آتا اور وہ بے تصنع اس کا نام اسی پندار کے موافق زبان پر لاتا۔
1835سے 1857تک کے تذکروں میں ’انتخاب دواوین ‘ [ امام بخش صہبائی ] ، ’ بہار ِ بے خزاں ‘ [احمد حسین سحر ] ، ’ گلدستہ ٔ نازنیناں ‘ [ مولوی کریم الدین ] ، ’ تذکرہ ٔ خوش معرکہ ٔ زیبا ‘ [ سعادت خاں ناصر ] ،’طبقات شعرائے ہند ‘ [مولوی کریم الدین ] ،’ نسخہ ٔ دلکشا ‘[ ارمان ] وغیرہ کا شمار بھی اہم تذکروں میں ہوتا ہے ۔ 1858سے 1900تک کے تذکروں میں ’سخن شعرا ‘ [ عبد الغفور نساخ ] ، ’ بہارستان ِ ناز ‘ [ رنج میرٹھی ] ، ’ تذکرہ ٔ نادر ‘ [مرزا کلب حسین خاں نادرؔ ، مرتبہ: سید مسعود حسن رضوی ادیب ] ،’ شمیم سخن ‘ [ صفا بدایونی ] ،’انتخاب یاد گار ‘ [امیر مینائی ] ، ’گلشن ناز ‘ [درد دہلوی ] ، ’ آب حیات ‘ [مولانا محمد حسین آزاد ] ، تذکرہ طوروکلیم [ نورلحسن خاں ] ،’ جلوہ ٔ خضر ‘[صفیر بلگرامی ] وغیرہ کا شمار اہم تذکروں میں ہوتا ہے ۔
تذکروں کا دوسرا دور
آ ب ِ حیات ‘ سے شروع ہوتا ہے ۔ مطالعہ ٔ مومن میں آ ب حیات ‘ کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ۔ ’آب حیات کی پہلی اشاعت وکٹوریہ پریس ، لاہور سے 1880میں ہوئی ۔ آزاد نے تذکرے کو تاریخ سے ملانے کی کوشش کی ۔ پانچ ادوار قائم کیے اور ہر دور کے شعری خصائص پر اظہار ِ خیال کیا ۔ابتدا میں اردو کے آغاز و ارتقا پر گفتگو کی جس سے اردو کی لسانی تشکیل کا ایک نظریہ بھی سامنے آ یا کہ اردو برج بھاشا سے نکلی ہے۔ اتنی بات ہر شخص جانتا ہے کہ ہماری زبان اردو ، برج بھاشا سے نکلی ہے اور برج بھاشا خاص ہندوستانی زبان ہے۔
آزاد کا نظریہ کارگر نہ ہوا ،اور رد کردیا گیا ۔ آب حیات کے پہلے ایڈیشن میں مومن کا ذکر نہیں ملتا ۔ حالاں کہ مومن کو شامل نہ کرنے کا کوئی خاص جواز بھی سمجھ میں نہیں آتا ۔آزاد نے عذر لنگ یہ پیش کیا کہ ان کے حالات انھیں نہ مل سکے ۔انھوں نے خطوط لکھ کر لوگوں سے حال جاننا چاہا لیکن ناکام رہے ۔ ان کا عذر لنگ کام نہ آیا ۔ جب آب حیات شائع ہوئی تو اس پر متعدد تبصرے لکھے گئے اور مومن کی عدم شمولیت پر احتجاج کیا گیا ۔ دوسرے ایڈیشن میں مومن شامل کیے گئے ۔ آزاد مومن کی تمہید میں لکھتے ہیں۔
پہلی دفعہ اس نسخے میں مومن ؔخاں صاحب کا حال نہ لکھا گیا ۔ وجہ یہ تھی کہ دور پنجم جس سے ان کا تعلق ہے ، بلکہ دور سوم و چہارم کو بھی اہل نظر دیکھیں کہ جو اہل ِ کمال اس میں بیٹھے ہیں ، کس لباس و سامان کے ساتھ ہیں ۔کسی مجلس میں بیٹھا ہوا انسان جبھی زیب دیتا ہے کہ اسی سامان و شان اور وضع و لباس کے ساتھ ہو ، جو اہل ِ محفل کے لیے حاصل ہے ۔ نہ ہوتو ناموزوں معلوم ہوتا ہے ۔ خاں موصوف کے کمال سے مجھے انکار نہیں ۔ اپنے وطن کے اہل کمال کا شمار بڑھا کر اور ان کے کمالات دکھا کر ضرور چہرہ ٔ فخر کا رنگ چمکاتا ، لیکن میں نے ترتیب کتا ب کے دنوں میں اکثر اہل وطن کو خطوط لکھے اور لکھوائے ۔ وہاں سے صاف جواب آیا ۔ وہ خط بھی موجود ہیں ۔ مجبور اًن کا حال قلم انداز کیا ۔ دنیا کے لوگوں نے اپنے اپنے حوصلے کے بموجب جو چاہا سو کہا ؛ آزاد نے سب کی عنایتوں کو دامن پھیلا کر لے لیا۔محمد ابراہیم ذوق کہتے ہیں کہ
دو گالیاں کہ بوسہ خوشی پر ہے آپ کی
رکھتے فقیر کام نہیں رد ّ و کد سے ہیں
البتہ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض اشخاص جنھوں نے میرے حال پر عنایت کر کے حالات مذکورہ کی طلب و تلاش میں خطوط لکھے اور سعی ان کی ناکام رہی ۔ انھوں نے بھی کتاب مذکورہ پر ریویو لکھا ، مگر اصل حال نہ لکھا ، کچھ کچھ اور ہی لکھ دیا ۔ میں نے اُسی وقت دہلی اور اطراف ِ دہلی میں ان اشخاص کو خطوط لکھنے شروع کردیے تھے ، جو خاں موصوف کے خیالات سے دل گزار رکھتے ہیں ۔ اب طبع ثانی سے چند مہینے پہلے تاکید و التجا کے نیاز ناموں کو جولانی دی ۔ انھی میں سے ایک صاحب کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں جنھوں نے با تفاق احباب اور صلاح ہمدگر جزئیات احوال فراہم کر کے چند ورق مرتب کیے اور عین حالت طبع میں یہ کتاب مذکور قریب الاختتام ہے ، مع ایک مراسلے کے عنایت فرمائے بلکہ اس میں کم و بیش کی بھی اجازت دی۔
آب حیات‘ کی تفصیل ، تسلسل ، تاریخ اور ان سب میں انشاپردازانہ رنگ ، یہ وہ چیزیں ہیں جو اسے اس عہد کے تذکروں سے ممیز کرتی ہیں ۔ انشا پردازی آب حیات کی خوبی بھی کہی جاتی ہے اور خامی بھی ۔ ایک ہی شے بیک وقت خوبی اور خامی ہوسکتی ہے ۔ شرط یہ ہے کہ دیکھنے والا اسے اسی تناظر میں دیکھے ۔ آب حیات کی تاریخی حیثیت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے ؟ تذکروں میں اسے ریڑھ کی ہڈی بھی کہا گیاہے ۔ گیان چند جین نے اسے تاریخ بھی بتایا ہے اور تخلیق بھی ۔ اس پر کلیم الدین احمدنے سیر حاصل تنقید کی ہے ۔ اس تذکرے میں مومن کے حالات زندگی سے متعلق حقائق ، چند واقعات ، صلاحیتوں کے ضمن میں مختلف علوم پر دستگاہ ، مشغلہ ، تلامذہ ، اسفار، وغیرہ موضوعات کو نشان زد کیا گیا ہے ۔ یہ معلومات حالی کے الطاف و کرم کا نتیجہ ہیں لیکن کلام پر رائے آزاد نے خود لکھی ۔ اس کی وجہ آزاد نے یہ بتائی ہے۔
اپنے شفیق ِ مکرم کے الطاف و کرم کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے یہ حالات مرتب کرکے عنایت فرمائے ، لیکن کلام پر رائے نہ لکھی اور باوجود التجائے مکرر کے انکار کیا ۔ اس لیے بندہ ٔ آ زاد اپنے فہم قاصر کے بموجب لکھتا ہے۔
اور آزاد نے مومن کے کلام پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
غزلوں میں ان کے خیالات نہایت نازک اور مضامین عالی ہیں اور استعارہ اور تشبیہ کے زور نے اور بھی اعلیٰ درجے پر پہنچایا ہے ۔ ان میں معاملات ِ عاشقانہ عجیب مزے سے ادا کیے ہیں ۔ اسی واسطے جو شعر صاف ہوتا ہے ، اس کا انداز جرأت سے ملتا ہے اور اس پر وہ خود بھی نازاں تھے ۔ اشعار مذکورہ میں فارسی کی عمدہ ترکیبیں اور دل کش تراشیں ہیں کہ اردو کی سلاست میں اشکال پیدا کرتی ہیں ۔ ان کی زبان میں چند وصف خاص ہیں ، جن کا جتانا لطف سے خالی نہیں ۔ وہ اکثر اشعار میں ایک شے کو کسی صفت خاص کے لحاظ سے ذات ِ شے کی طرف نسبت کرتے ہیں اور اس ہیر پھیر سے شعر میں عجیب لطف بلکہ معانی پنہانی پیدا کرتے ہیں۔
کلیم الدین احمد نے ’آب حیات‘ کی انشا کو اس کا اہم ترین عیب بتایا ہے ۔ان کی نظر میں اس کی کوئی تنقیدی اہمیت نہیں ۔ اس کے برجستہ اور چست جملوں پر وہ سبحان اللہ کہتے ہیں اور انھیں مغز سے عاری بتاتے ہیں ۔وہ تذکروں کی لفاظی اور چمک دمک سے مرعوب نہیں ہوتے ۔ان کے تمام اعتراضات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔
عبدالغفور نساخ کا شمار انیسویں صدی کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے ۔ ان کا مشہور تذکرہ ’سخن شعرا ‘ 1864میں ترتیب پایا لیکن اشاعت اس کے دس سال بعد 1874میں ہوئی ۔ نساخ نے اسے اپنی بارہ برسوں کی جاںفشانی کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ ’سخن شعرا ‘ تاریخی نام ہے جس سے ۱۲۸۱ھ یعنی سال ِ ترتیب برآمد ہوتا ہے ۔ محمود الہیٰ نے اسے انیسویں صدی میں اردو شاعروں کا اردو میں لکھا جانے والا آخری ضخیم تذکرہ قرار دیا ہے۔
نساخ کثیرالمطالعہ شخص تھے ۔ انھوں نے ماقبل کے تمام تذکروں کا مطالعہ کیا اور شعوری طور پر کوشش کی کہ ان کا تذکرہ سب سے مختلف انداز کا ہو ۔ اختصار اور جامعیت کے اصول پر چلتے ہوئے انھوں نے 2480شعرا کا تذکرہ مرتب کیا جس میں 2441شعرا، اور 39شاعرات ہیں ۔ انھوں نے براہ راست اپنے عہد کے شعرا سے رابطہ کر کے حالات اور کلام جمع کیے ۔نساخ مومن کے باب میں رقم طراز ہیں :
مومن تخلص حکیم محمد مومن خان مرحوم ولد حکیم غلام نبی خان مغفور دہلوی ایک یا دو غزل میں نصیر دہلوی سے اصلاح لی تھی ۔ اصلاح پسند نہ آئی ۔۱۲۶۸ھ بارہ سو اٹسٹھ ہجری میں قضا کی ماتم مومن خان ان کی وفات کی تاریخ ہے۔ علم تجنیم و طب میں خوب دخل رکھتے تھے ۔جمیع اصناف سخن پر قادر تھے ۔ اشعار ان کے پر مضمون و شیرین و عاشقانہ و نمکین ہوتے ہیں۔ راقم کے زعم میں اس مزے کی طبیعت کا کوئی شاعر ریختہ گویوں میں گزرا نہیں کلیات ان کا نظر سے گزرا۔
تذکرے مومن تک پہنچنے کا براہ راست ذریعہ ہیں ، لیکن تشنہ ہیں ۔ مولوی کریم الدین [طبقات شعرا ئے ہند ] ، امداد امام اثر [کاشف الحقائق ] ، صفیر بلگرامی [جلوہ ٔ خضر ] ، مولانا عبدلحئی [ گل رعنا ] عبدالسلام ندوی [شعرالہند] وغیرہ نے بھی مومن کے احوال پر مختصر روشنی ڈال کر کلام کا انتخاب پیش کردیا اور زیادہ ہوا تو ان کے تلامذہ پر گفتگو کر لی ۔ ان کے کلام کی دو چار خصوصیات بتاکر ہاتھ جھاڑ لیا ۔ تذکروں سے تاریخ تک کے سفر میں کافی نشیب و فراز ہیں ۔
تذکروں کے ساتھ تاریخ کے صفحات بھی شعرو ادب کے حوالہ جات سے پُر ہیں ۔ رام بابو سکسینہ نے ’تاریخ ادب اردو ‘ انگریزی میں تحریر کی تھی جس کا اردو ترجمہ مرزا محمد عسکری نے کیا ۔ سکسینہ نے یہ تاریخ کیوں مرتب کی ؟ سکسینہ کہتے ہیں، ’’اس کتاب کی تصنیف کی اصلی غرض یہ ہے کہ ادب اردو کی تدریجی ترقی کا خاکہ زمانہ قدیم سے لے کر زمانہ حال تک کا مع مشہور شعرا اور نثاروں کے مختصر حالات زندگی اور ان کے کلام اور تصانیف پر ایک مختصر تنقید کے کھینچا جائے۔‘‘
آب حیات ‘ ہو یا ’سخن شعرا ‘،’ جلوہ ٔ خضر ‘ ہو یا ’شعرالہند ‘،کہیں تنقید پر اصرار نہیں کیا گیا ۔ پہلی دفعہ رام بابو سکسینہ نے تنقید کا لفظ استعمال کرکے تنقید کی اہمیت اور اس کی ضرورت پرزور دیا۔ پہلی بار یہ محسوس کیا گیا کہ ادب کی ترویج میں تحریکات و رجحانات کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے ۔ اس لیے سکسینہ نے تحریکوں اور طرزوں کی ابتدا اور ترقی اور زوال کے اسباب پر غور کیا ۔[اس تصنیف میں میرے پیش نظر یہ رہا ہے کہ زمانہ حال کے تنقیدی اصولوں کے مطابق بطور ٹکسٹ بک تیار کی جائے تاکہ انگریزی دان جماعت بھی اردو ادب سے کماحقہ واقف ہوجائے ۔
سکسینہ نے پروفیسر سینٹیسبری کی کتاب ’مختصر تاریخ انگریزی علم و ادب ‘ کے طرز پر یہ کتاب ترتیب دی ۔ ان کو کیا خبر تھی کہ نصابی ضرورت کے لیے تیار کی گئی یہ کتاب ، تاریخ ادب اردو میں اہم مقام بنا لے گی ۔ مرزا محمد عسکری ’ التماس ِ مترجم ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ اول سے آخر تک اس کتاب کے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ مصنف موصوف نے جس کاوش ، جس کوشش و زورِ مطالعہ اور وسعت ِ نظر سے اس میں کام لیا ہے ۔ اسلوب ِ بیان و تنقید وغیرہ میں جو صفائی مد نظر رکھی ہے ۔شعرا اور نثاروں کے کلام کا توازن کرکے ان پر جیسی صحیح بے باکانہ اور بے لاگ آرا قائم کی ہیں وہ اس کتاب کو ہر حیثیت سے منفرد صورت میں پیش کرتی ہیں ۔‘‘
عسکری نے ان کی جتنی تعریف ہو سکتی تھی ، کر ڈالی ،لیکن سکسینہ کو اپنی کم مائیگی کا احساس تھا ۔اسی لیے انھوں نے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور اسے مکمل یا غلطیوں سے مبرا نہیں بتایا ۔اس کے لیے انھوں نے پروفیسر سینٹیسبری کا مزاحیہ قول بھی نقل کیاکہ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں نے ایسی کتاب لکھی ہے جس میں کوئی غلطی نہیں ہے تو وہ مسخرہ جھوٹا ہے اور جو شخص کسی دوسرے سے ایسی کتاب لکھنے کی امید رکھے جس میں کوئی غلطی نہ ہو وہ اس سے بڑھ کر لغو ہے۔
سکسینہ کی تاریخ میں کمیاں کافی ہیں لیکن چوں کہ یہ اولین تاریخوں میں ہے ،اس لیے اس کی بعض کمیاں نظر انداز کی جاسکتی ہیں ۔ سکسینہ نے مومن کے حالات ، تصانیف ، رنگ کلام ، شاعرانہ مقام کا تعین اور ان کے تین اہم تلامذہ سے متعلق اظہار خیال کیا ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ میں دہلی اجڑتی اور بستی رہی ۔ ولی کی آمد کے بعد یہاں بھی ریختہ گوئی کا رواج ہوگیا ۔ پھر ایک وقت آیا جب لوگ ہجرت کرکے لکھنؤ جانے لگے ۔ ایک نیا دبستان سامنے آیا ۔ نادرشاہی حملوں کے بعد دیگر مراکز بھی بنے ۔اودھ کی کشش شعرا کو کھینچ رہی تھی لیکن کچھ شعرا ،ایسے بھی تھے جنھیں دہلی چھوڑنا گوارا نہ تھا ۔دہلی میں ویرانی اپنا سایہ دراز کر رہی تھی ۔ محسوس ہوتا تھا کہ سب کچھ ختم ہوجائے گا ، لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی اور ایک عظیم شعری روایت اپنے عروج کو پہنچنے والی تھی ۔ غالب ، مومن ، ذوق ، ظفر ، شیفتہ …۔یہ وہ ستون ہیں جنھوں نے انیسویں صدی میں اردو شاعری کو لازوال بنادیا ۔ ’ہر عروج ِ را زوال ‘،زمانے کا دستور ہے ۔سیاسی و سماجی اتھل پتھل تاریخی حقیقت ہے ۔ کہتے ہیں کہ پر آشوب دور داخلی کیفیات کے اظہار کے لیے بڑا راس آتا ہے ۔ دہلی کو اجڑتے ہوئے میر نے بھی دیکھا تھا ۔اسی لیے میر کی شاعری کو دل اور دلی کا مرثیہ بھی قرار دیا گیا :
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
احتشام حسین نے صحیح کہا ہے کہ دلی مٹ مٹ کر بستی اور مر مر کر جیتی رہی ۔ 1857کا واقعہ غالب کی زندگی کا تاریخی موڑ ہے ۔ خون سے لکھی گئی تاریخ اور جذبات کے امڈتے لہو کے سیلاب میں کی جانے والی شاعری نے باور کرایا کہ ’جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے ‘؟مومن 1857کے قہر تک موجود نہ تھے ،کیوں کہ 1852میں ان کا انتقال ہوگیا تھالیکن انھوں نے بغاوت کی آندھی کی آہٹ محسوس کر لی تھی ۔ انگریزی تسلط کے خلاف مثنوی ’جہادیہ ‘ لکھی ۔ ان کی ذہنی تشکیل میں اس عہد کے خارجی محرکات نے اہم کردار ادا کیا ۔ محض داخلیت کوئی شے نہیں اور شاعری میں محض خارجیت نام کی کسی چیز کا گزر نہیں ۔ دونوں کے امتزاج ہی سے تخیل رنگ آمیزی کرتا ہے ۔ انیسویں صدی کے سیاسی ہندوستان کا عکس غالب و مومن کی زندگی میں صاف نظر آتا ہے ۔ مومن نے ایسے وقت میں آنکھیں کھولیں جب ہندوستان کی سیاست اہم سیاسی فیصلوں کا سامنا کرنے والی تھی ۔ ’’ مومن کی پیدائش سے تین سال پیشتر 1797میں افغانستان کا امیر شاہ زمان سرحد اور پنجاب کو روندتا ہوا لاہور تک چڑھ آیا تھا ۔ اس کا ارادہ دلی تک جانے کا تھا اور اس کا عزم یہ تھا کہ وہ مغلیہ خاندان کے اقتدار کو بحال کرانے کے لیے شمالی ہند سے مرہٹوں کا خاتمہ کردے ۔ شاہ زمان کی فوجی مہمات سے اٹھارہویں صدی کے آخری برسوں میں کلکتہ میں بیٹھے ہوئے ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکام کے لیے شدید خطرات پیدا ہوگئے تھے ۔ یوں معلوم ہونے لگا تھا کہ دلی کی طرف بڑھتے ہوئے کمپنی کے قدم تھرتھرانے لگے ہیں مگر 1798میں شاہ زمان کو ایرانیوں کے خلاف اپنی مغربی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے لیے لوٹ جانا پڑا ۔ مومن کی پیدائش سے سال بھر پہلے مئی 1799میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار اور جبر کے خلاف جنگ کرنے والے ہندوستانی سپاہی سلطان ٹیپو کی شہادت واقع ہوچکی تھی ۔ ‘‘ (24)مومن 1800میں پیدا ہوئے ۔ اس وقت دلی پر مادھوجی سندھیا کے جانشین دولت راؤ سندھیا کی عمل داری تھی ۔اس کی حکومت دلی سے آگرے تک تھی ۔ شاہ عالم ثانی اس وقت دہلی کے بادشاہ تھے جو سیاسی طاقت سے محروم تھے ۔ مرہٹہ سرداروں کے رحم و کرم پر گزربسر ہورہی تھی ۔ قلعے کی چار دیواری میں قید و بے بس تھے ۔ مومن ابھی بچے ہی تھے کہ 1806میں شاہ عالم ثانی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔
سلطنت مغلیہ کا زوال اورنگ زیب کے عہد ہی سے شروع ہوجاتا ہے ۔ جاٹوں ، مرہٹوں ، سکھوں اور روہیلوں کے حملوں کے بعد داخلی سازشوں نے اس سلطنت کی بنیادیں ہلادیں ۔دہلی کا تخت گردش ِ زمانہ کا شکار تھا ۔ شاہان ِ دہلی اقتصادی اور اخلاقی بحران میں مبتلا تھے ۔ رنگ رلیاں منائی جارہی تھیں ۔ اورنگ زیب کے بعد شاہ عالم اول ، کام بخش ، جہاندار شاہ ، فرخ سیر سے لے کر بیدار بخت ، اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ثانی [ظفر] تک کا سیاسی ، اخلاقی اور اقتصادی دیوالیہ پن تاریخ میں کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کی لوٹ مار کے بعد انگریزی حکومت کے تسلط نے مغلیہ حکومت کو مفلوک الحال کردیا ۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس عہد کا سورج دیکھا جب مغلیہ سلطنت کا چراغ غروب ہورہا تھا ۔ تنزلی محض خارج میں نہیں تھی ، بلکہ معاشرے کا داخلی نظام ابتری کی نذر ہوچکا تھا ۔ ’’مر کز کی کمزوری کے باعث شاہجہاں اور اورنگ زیب کی دلّی محض خواب بن کر رہ گئی تھی ۔ بادشاہ عیش و راحت میں مشغول تھے ۔ امرا اپنی رنگ رلیوں میں یا سازشوں میں محو تھے۔علما نے گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی ۔ صوفیوں کو خانقاہوں کے سوا باہر کی خبر نہ تھی ۔ ‘‘
جہاں دار شاہ ہو یا فرخ سیر سب نے اپنی عیاشی کے لیے شاہی خزانے کا منہ کھول رکھا تھا ۔پیسہ پانی کی طرح بہایا جارہاتھا۔ پے در پے حملوں نے اقتصادی طور پر مفلوج کردیا ۔ نتیجے میں فوج بھی سرکش ہوگئی اور داخلی بغاوت نے سر اٹھا یا ۔عسکری نظام میں استحکام نہ رہا ۔ ایسی صورت حال میں کسی مصلح اور انقلابی ذہن کی ضرورت تھی ۔مصلح کی حیثیت سے شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا ظہور ہوا۔ ان کی سیاسی بصیرت کے سب قائل ہوئے ۔ انھوں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے جو اسباب بتائے انھیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں :
(1)خالصہ کے علاقے کا محدود ہونا
(2)خزانے کی قلت
(3)جاگیرداروں کی کثرت
(4)اجارہ داری کے مسموم اثرات
(5)افواج کو وقت پر تنخواہ نہ ملنا
شاہ ولی اللہؒ کا ذہن تصوف کی طرف مائل تھا ۔وہ تصوف کو علم و عمل کا امتزاج سمجھتے تھے ۔ انھوں نے اپنے افکار سے علم و عمل کا وہ در وا کیا جس سے ایک عہد نے فیض پایا ۔ شاہ عبدالعزیز ؒان کے بڑے صاحب زادے تھے ۔شاہ ولی اللہ ؒکی وفات کے بعد شاہ عبدالعزیزؒ ان کے جانشین ہوئے ۔ والد کی طرح انھوں نے بھی اپنے فکر و عمل سے بڑے حلقے کو متاثر کیا۔ مومن ؔ کے والد غلام نبی خاں کا مکان ان کی خانقاہ کے قریب تھا ۔ مومن کے والد کا خانقاہ میں آناجانا بھی تھا ۔ وہ شاہ صاحب سے متاثر تھے ۔ مومن کا شاہ صاحب کے خاندان سے گہرا رشتہ تھا۔ان کی پیدائش کے بعد کان میں شاہ صاحب ہی نے اذان دی اور مومن خاں نام بھی انھوں نے ہی رکھا ۔ ان کے شاگردوں میں شاہ رفیع الدینؒ ، شاہ عبدالقادرؒ ، شاہ عبد الغنی ؒ، شاہ محمد اسحق ؒ، مفتی صدرالدین آزردہ ، حضرت سید احمد شہیدؒ ، مولوی شاہ اسمٰعیلؒ، مولانا فضل حق خیرآبادیؒ وغیرہ جیسی ہستیاں تھیں اور [بقول ظہیر احمد صدیقی ] ’ ایک آفتاب کے گرد اتنا بڑا نظام شمسی قائم تھا اور ان میں ہر ایک بذات خود روشنی کا ایک کر ّہ تھا ۔ ‘شاہ عبدالقادرؒ ، شاہ ولی اللہ ؒکے فرزند اور شاہ عبدالعزیزؒ کے چھوٹے بھائی تھے۔ ’آب حیات ‘ کے مطابق ، مومن نے ’’بچپن کی معمولی تعلیم کے بعد جب ذرا ہوش سنبھالا تو والد نے شاہ عبدالقادرؒ صاحب کی خدمت میں پہنچایا۔ان سے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھتے رہے ۔ حافظے کا یہ حال تھا کہ جو بات شاہ صاحب سے سنتے تھے ، فوراً یاد کرلیتے تھے ۔اکثر شاہ عبدالعزیز ؒصاحب کا وعظ ایک دفعہ سن کر بعینہ اسی طرح ادا کردیتے تھے ۔ جب عربی میں کسی قدر استعداد ہوگئی تو والد اور چچا حکیم غلام حیدر خاں اور حکیم غلام حسن خاں سے طب کی کتابیں پڑھیں اور انھی کے مطب میں نسخہ نویسی کرتے رہے ۔ ‘‘
شاہ عبدالعزیز ؒسے انھیں عقیدت تھی ۔ ان کی وفات پر انھوں نے تاریخ لکھی :
دست بے داد اجل سے بے سروپا ہوگئے
فقر و دیں فضل و ہنر لطف و کرم علم و عمل
[۱۲۳۹ھ]
شاہ عبدالعزیز ؒکے انتقال کے بعد بھی ملک کے حالات میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں آئی ۔مغلیہ سلطنت اپنے آخری دن گن رہی تھی ۔ مسلمانوں کے دل میں انگریزی حکومت کے خلاف غم و غصہ تھا ۔ تحریک جہاد کی ضرورت محسوس کی گئی ۔ سید احمد شہیدرائے بریلوی نے شاہ عبدالعزیزؒسے بیعت کی ۔ان کی قیادت میں تحریک جہاد کا اعلان کیا گیا جس کا مقصد اصلاحی بھی تھا اور انقلابی بھی ۔ جہاد کی دو سطحیں تھیں ۔اول تو مذہبی خرافات اور سماجی و اخلاقی گراوٹوں کی اصلاح اور دوم ، سیاسی جبر سے نجات ۔ انگریزی تسلط سے آزادی اور عدل و رواداری کی اساس پر حکومت کا قیام ، اس تحریک کا مقصد تھا ۔ انگریزوں نے اسے وہابی تحریک کا نام دیا اور وہابی اور غدّارکو ہم معنی قرار دیا ۔ سید احمد شہید نے ۱۲۴۲ھ [1826ئ]میں جہاد کے لیے بیعت شروع کی ۔ شاہ عبدالعزیز ؒکے خاندا ن کے اکثر افراد نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ شاہ اسماعیل ؒکا نام سر فہرست ہے ۔ مومن جو ایک طرف عاشقانہ مزاج رکھتے تھے اور کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل جانے کی بات کر رہے تھے ، جذبہ ٔ جہاد سے سرشار ہوئے ۔ جوشِ جہاد میں اعلان ِ جہاد کی تاریخ کہی :
جو سید احمد امام ِ زمان و اہل ِ زمان
کرے ملاحدہ ٔ بے دین سے ارادہ ٔ جنگ
توکیوں نہ صفحہ عالم پہ لکھے سال وغا
خروج مہدی کفار سوز کلک تفنگ
[۱۲۴۲ھ/1826ئ]
نادم بلخی نے اپنی کتاب ’ شعاع نقد ‘ میں پہلا مضمون ’ مومن اور وہابی تحریک ‘ شامل کیا ہے جو اس ضمن میں اہم معلومات فراہم کرتا ہے ۔ مومن عملی طور پر جہاد میں شرکت نہیں کرسکے لیکن لوگوں کو اس کی طرف راغب کرتے رہے ۔ ان کے دل میں بھی جذبہ ٔ جہاد موجزن تھا ۔ انھیں سید احمد شہید کی تحریک سے قلبی لگاؤ تھا ۔انھوں نے متعدد قصائد فارسی میں اور ایک مثنوی ’جہادیہ ‘ اردو میں لکھی :
عجب وقت ہے یہ جو ہمت کرو
حیات ابد ہے گر اس دم مرو
جو ہے عمر باقی تو غازی ہو تم
سزا وار گردن فرازی ہو تم
یہ ملک جہاں ہے تمھارے لیے
نعیم جناں ہے تمھارے لیے
شراکت یہاں کی ہے طالع کا اوج
کہایسا مام اور ایسی ہے فوج
الٰہی مجھے بھی شہادت نصیب
یہ افضل سے افضل عبادت نصیب
اس عہد کی دہلی پر نظر ڈالیے تو نشیب و فراز ، ابتری ، تنزلی ، سیاسی جبر ،اخلاقی پستی اور اقتصادی بدحالی کی تصویریں روشن ہوجاتی ہیں لیکن انھی میں بعض شخصیات ایسی ہوئیں جنھوں نے زمانے کے رخ کو موڑا ۔تہذیب کے بنیادی ڈھانچے کے وقار کو محسوس کیا ۔ ظالم سے آنکھیں ملائیں اور ظلم کا مقابلہ کیا ۔ تشخص کی جنگ میں اتار چڑھاؤ بہت ہیں ۔ نو آبادیات کی سائکی اپنا سایہ دراز کر رہی تھی ۔ رد و قبول کا مسئلہ سامنے تھا ۔ معاشرتی ہنگام اور سیاسی شکست و ریخت نے پورے تہذیبی ڈھانچے ، ثقافتی نظام اور لسانی تشخص کو متاثر کیا ۔یہ معاملات ایک طرف ، لیکن جب اس عہد میں دہلی کی ادبی فضا پر نظر ڈالی جائے تو حیرت ہوتی ہے ۔ علما، فضلا ، شعرا ، مشائخ ، اطبا اور کیسے کیسے اصحاب ِ کمال یہاں جمع تھے ۔ شاہ احمد سعیدؒ ، شاہ عبدالغنی ؒ، شاہ محمد آفاق ؒ، سید احمد شہید ؒ،شاہ رفیع الدینؒ ، شاہ عبدالعزیزؒ، شاہ عبدالقادرؒ ، مفتی صدرالدین آزردہؒ ، فضل حق خیر آبادیؒ ، حکیم احسن اللہ خاں ۔ حکیم محمد نجف خاں ، حکیم صادق علی خاں ، حکیم غلام حیدر خاں ، شاہ نصیر ، غالب ، ذوق، بہادر شاہ ظفر ، مومن ، شیفتہ ، امام بخش صہبائی وغیرہ ۔سیاسی اعتبار سے زمانہ بحران کا تھا ، لیکن علمی و ادبی اعتبار سے نہایت توانا تھا۔یہ اس زمانے کا امتیاز اور فخر تھا کہ ایسے باکمال بیک وقت ایک ہی جگہ جمع ہوگئے تھے ۔ مومن نے اپنے عہد کے باطن میں اتر کر اسے محسوس کیا ۔ تہذیبی عناصر کو اپنی شخصیت میں جذب کیا ۔ مذہبی حمیت کا پاس رکھا ۔ انگریزی حکومت کے خلاف جہاد کی حمایت کی ۔ مذہبی خرافات کے مخالف ہوئے ۔ اصلاحی تحریک سے لے کر انقلابی رویوں کا خیرمقدم کیا ۔ مختلف علوم میں مہارت حاصل کی لیکن شاعری کے آگے دیگر علوم پردہ ٔ خفا میں چلے گئے ۔ آج مومن کی شناخت کا بنیادی حوالہ ان کی شاعری ہے ۔ تاریخ کے صفحات ان کے شعری رنگ و آہنگ اور فکری میلانات کی گواہی دیتے ہیں ۔
تواریخ ادب اردو میں مومن کی حیات اور فن پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔سرسید احمد خاں نے ’ آثار الصنادید‘ میں ان کی کافی تعریف کی