تدریس قواعد
قواعد کا لغوی معنی ’’ضوابط‘‘ اصول جنگ ورزش کا طریقہ یا پر یڈ ہے لیکن اصطلاح میں لسان وزبان کے اس علم کو کہتے ہیں جس میں کسی زبان کی ساخت مبادیات حروف کی تمیں ان کی تعداد الفاظ ان کی بناوٹ ان کے اقسام سابقہ لاحقہ تذکیروتانیٹ مرکبات وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے ۔ قواعد میں ہی الفاظ بنا نے کے طریقے اسماء افعال ان کے سمیں فاعل مفعول ان کی پیچان جملوں کی قسمیں انکی بناوٹ اور صنائع بدائع تراکیب واضافت اور بعض دوسرے لسانی مسائل زیر بحث آتے ہیں ۔قواعد کی صیح جانکاری انچی لسانی مبارت کی دلیل ہے یعنی وخص بہتر ی وتقریر کر سکتا ہے جسے قواعد پر دسترس ہو۔ بغیر قواعد کی اچھی جانکاری کے بہتر انشا پردازی کا تصورنہیں کیا جاسکتا۔
ضرورت وافادیت
قواعد کی تدریس سے متعلق ماہرین تعلیم میں اختلاف پایا جا تا ہے ۔ کچھ ماہرین تعلیم ولسانیات کا خیال ہے کہ قواعد کی تدریس با قاعد ایک مضمون کی حیثیت سے منضبط طریقہ سے کیا جانا چاہئے ۔ ان ما ہر ین کا ماننا ہے کہ بغیر قواعد کی تدریس کے زبان کی بہتر مہارت ممکن نہیں ۔ بغیر قواعد کے کوئی بھی طالب علم زبان کی باریکیوں اور اس کے اصول وضوابط سے آشنا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ایسے طلبہ سے انھی زبان دانی کی تو قع نہیں کی جاسکتی ۔ بعض ماہر ین زبان تعلیم اس بات پر مصر ہیں کہ زبان جاننے کے لئے اور اس میں مہارت حاصل کر نے کے لئے قواعد کی با قاعدہ تدریس کی ضرورت نہیں۔ ایسے ماہرین اس بات کی دلیل دیتے ہیں کہ بچہ اپنے ماحول اور ساج سے زبان سیکھتا ہے اور اپنے بڑوں کی نقل کر کے اس میں مہارت حاصل کر لیتا ہے اس لئے قواعد کی تدریس کی الگ سے ضرورت نہیں ۔ کچھ ماہرین تعلیم و زبان مذکورہ دونوں اصول کی تردید کر تے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ضرورت کے مطابق یا ثانوی جماعتوں میں یا اس سے اوپر کی جماعتوں میں قواعد کی جزوی تدریس کی جانی چاہئے ۔قواعد کی تدریس سے متعلق میرا خیال ہے کہ اس کی تدریس کسی متعین اصول وضوابط یا بحثیت ایک مضمون کے نہیں بلکہ طلبا کی لسانی استعداداور اسباق کی ضرورت کے پیش نظر ملی قواعد کی شکل میں کی جانی چاہئے.
ابتدائی درجات کے طلبا کے لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی کام اگر قاعدے سے کیا جاۓ تو نہ صرف وہ آسانی سے ہوتا ہے بلکہ اس میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے ۔ گو یا اردوزبان کی مہارت کے لئے اہل زبان نے درست ڈھنگ سے بولنے پڑھنے اور لکھنے کے کچھ اصول وضوابط مرتب کیے ہیں جسے ہم عرف عام میں اردوقواعد کہہ سکتے ہیں۔ابتدائی سطح پران قواعد کی پابندی کر نے سے طلبا کوتحر یری وتقر یری انشامیں مدد ملتی ہے نیز تقر یری تحریری اظہار خیال میں سلاست پیدا ہوتی ہے ۔ زبان وادب کے افہام وتفہیم میں قواعد کی جانکاری سے مددلتی ہے ۔ طلبا میں قواعد کی جتنی استعداد ہوگی اتنی ہی ان کی ذہنی تربیت اور لسانی تفہیم و تحلیل کی صلاحیت پیدا ہوگی نیز استحسان ادب میں مدد ملے گی ۔ ابتدائی سطح کی آخری جماعتوں ( چھٹی ساتو میں اور آٹھویں) میں قواعد کے بعض اصولوں کی تدریس سے طلبا اپنی زبان کی نلطیوں کو خود درست کرنے کے لائق ہو جاتے ہیں اور اس سے ثانوی سطح کے درجات میں مد دیلتی ہے۔ دنیا کی تمام زبانوں میں کچھ نہ کچھ اصول وضوابط مرتب کئے گئے ہیں ۔ دوسری زبانوں کے جانے والے اگر اس زبان کو سیکھنا چاہتے ہیں تو وہ اصول وضوابط زبان کے علم کور ہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔اردو زبان کی جین الاقوامی حیثیت مسلم ہے ۔ اس لئے اس کے لسانی اغراض و مقاصد اور اصول وضوابط کی جانکاری کے لئے اردوقواعد کا مطالعہ ضروری ہے ۔ ثانوی اور اعلی ثانوی جماعتوں میں قواعد کی تدریس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان جماعتوں میں زبان کاضہ بتدریج کم ہونے لگتا ہے اورادب کاحصہ زیادہ چنانچہ ادب اور اصناف ادب کی گو نا گوں بار کیوں کو بجھنے کے لئے بھی قواعد کی تدریس ضروری ہے ۔ یہی نہیں اعلی ثانوی یا انٹر میڈیٹ کے طلبا ہی تربیت حاصل کر کے ابتدائی درجات میں تدریس کا کام انجام دیتے ہیں اگر وہ زبان کی صیح جانکاری نہیں حاصل کر میں تو اپنے طلبا کی لسانی رہنمائی بہتر ڈھنگ سے نہیں کر سکتے ۔ اس کے علاوہ اعلی ثانوی سطح کے طلبا جب اعلی تعلیم حاصل کر نے کے لئے انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ میں داخلہ لیتے ہیں تو ان کی قواعد کی استعدادمختلف اصناف سخن کی افہام تفہیم میں اور نثری عبارتوں کی توضیح وحسین میں مددکرتی ہے ۔ زبانوں کے ضمن میں یہ حقیقت ہے کہ زبان قواعد کے اصولوں پر ترقی نہیں کرتی بلکہ زبانیں پہلے پیدا ہوتی ہیں اور قاعدے و اصول بعد میں مرتب کیے جاتے ہیں ۔کوئی بھی زبان چند سو سال سے زائد یکساں نہیں رہتی اس میں تبد یلی آتی رہتی ہے اور یہی زندہ زبانوں کی پہچان ہے ۔ چنانچہ زبان کے قاعدے اوراصول آ نے والی نسلوں کے لئے ضرور مرتب کر نا چاہئیں ۔لیکن یقواعد بھی زبان کی ترقی کے ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق تبد میں ہوتے رہنے چاہئیں ۔ قواعد کے مرتب کر نے والوں کو چاہئے کہ اصول وضواہا تھو میں نہیں بلکہ زبان کی مشترک ومرذ ج قد روں کو ہی ثبوت کے ساتھ پیش کر میں ہاں اپنی راۓ کے طور پر یہ بتانا مناسب ہوگا کہ فلاں اصول و قاعد فصیح اور موزوں ہے اور فلاں غیر صیح اور تا موزوں ۔ اردو قواعد کے مرتبین کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ زبان اور ادب دو الگ الگ چیز میں ہیں اوب زبان کی اعلی اور معیاری پیدا وار ہے اس لئے قواعد کی تدریس زبان اور ادب دونوں کی تدریس کے لئے ہونی چاہئے لیکن یہ خیال رکھنا چاہئے کہ دونوں کی ضر ورتیں اور نوعیت الگ الگ ہیں ۔
قواعد کا استاد
قواعد کی تدریس کے استاد کو پڑ ھاۓ جانے والے امور پر مہارت اور پورا پورا اعتماد ہونا چاہئے چونکہ قواعد کی تدریس کا خاطر خواہ نتیجہ استاد کے طرز تدریس پر منحصر ہے ۔اس لئے اسا تذہ کو چاہئے کہ اس خشک مضمون کوا پنی مہارت سے دلچسپ بنا کر طلبا کے سامنے پیش کر میں ۔ تدریس قواعد کے لئے اسباق کے ہی اندر رموز و اوقات اور دیگر اصول زبان کو تلاش کر نا چا ہنے گو یا جس طرح پانی کے اندر ہی تیرنے کی تربیت دی جاسکتی ہے اسی طرح زبان کے اسباق کے اند رقواعد کے موضوعات کو تلاش کر کے ان سے طلبا میں آموزش کی سطح کو دلچسپ اور پختہ کیا جاسکتا ہے۔ قواعد کی درسی کتاب قواعد کی درسی کتابوں کے ضمن سے ماہرین تعلیم میں اختلاف پایا جا تا ہے کچھ کا یہ خیال کہ قواعد کی درسی کتاب الگ سے نہیں ہونا چاہئے بلکہ زبان کے اسباق کو اس طرح ترتیب دینا چاہئے کہ قواعد کے مختلف موضوعات زیر بحث آ جائیں ۔ کچھ ماہرین تعلیم وتدریس الگ سے قواعد کی دری کتاب پڑھاۓ جانے کے حق میں ہیں ۔ بہر حال خواہ قواعد کی دری کتاب الگ سے تیار کی جاۓ یاز بان کی نصابی کتابوں کے اسباق میں شامل کیا جاۓ ان کی تیاری بہت ذمہ داری سے کرنی چاہئے ۔ میرا خیال ہے کہ قواعد کے نصاب کو تین سطحوں میں تقسیم کر دینا بہتر ہوگا: پہلی سطح چوتھی اور پانچو میں جماعت کے لئے دوسری سطح چھٹی ساتو میں اور آٹھویں جماعتوں کے لئے اور تیسری سطح نو میں دسو میں اور گیارہویں بارہو میں جماعتوں کے لئے ۔ قواعد کی دری کتاب مصنف مولف مرتب کی صلاحیتوں کا مظہر نہ ہونا چاہئے بلکہ طلبا کی استطاعت کو سامنے رکھ کر تیار کرنا چاہئے ۔اس سے قواعد کی تدریس کے مقاصد کو با آسانی و بخو بی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک ممکن ہو تو اند کی درسیات کو آسان سہل اور اختصار کے ساتھ پیش کیا جاۓ اختصار کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ بات واضح نہ ہو ۔ قواعد کے اسباق قواعد کی تدریس میں تدری معاونت یا تدری ساز و سامان ( سمعی و بصری آلات ) بالخصوص چارٹ اور لسانی تجربہ گاہ میں کمپوٹر کا استعمال زیادہ پر اثر ہوتا ہے بغیر منصو بہ سبق اشارات سبق تیار کیے ہوئے قواعد کی بہتر تدریں ممکن نہیں ۔ قواعد کی تدریس کے لئے اشارات سبق کو مشکل اور بوجھل نہیں بنانا
چاہنے بلکہ ممکنات کی حد تک عملی ہونا چاہئے ۔
قواعد کی تدریس کے مختلف طریقے
بہتر آموزش کے لحاظ سے جس طرح زبان کی دوسری اصناف کی تدریس کے طریقے اپناۓ جاتے ہیں اسی طرح قواعد کی تدریس کے لیے بھی مختلف طریقے اپناۓ جاتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں ۔
تحلیلی طریقہ
2. استقرائی استدلالی طریقہ (عملی قواعد )
3 استخراجی طریقہ .4 تمثیلی طریقہ
نصابی طریقہ
اصطلاحی طریقہ
تحلیلی طریقہ
اس طریقہ میں تدریس کے وقت اسا تذہ کو چاہئے کہقواعد کی مختلف تعریفات اور اصطلاحات کی تعریف کرنے کے بعد اس کی بہت ساری مثالیں پیش کر میں اور بعض اصطلاحات اور مرکبات کو الگ الگ کر کے یعنی تحلیل کر کے طلبا کو سمجھانے کی کوشش کر میں مثالا واحد سے جمع سابقہ لاحقہ تذکیروتانی معروف و مجہول وغیرہ۔ اس طریقہ میں اصطلاح کے مفہوم تک پہنچنے کے لئے مختلف مثالیں دی جائیں اور ان کا تجزیہ کیا جاۓ اس طرح طلباس اصطلاح کی اطلاق تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں تاہم تدریس کے بعدمشق کی بہت ضرورت ہوتی ہے ۔
استقرائی راستدلالی طریقہ (عملی قواعد )
اس طریقہ میں قواعد کے اصولوں تعریفوں اور اصطلاحات کے رٹنے پر زورنہیں دیا جاتا بلکہ زبان کی فصاحت اور بلاغت پہ مثالی یانمونے کی تدریس کے ذرایہ زبان کویج استعمال کرنا سکھایا جا تا ہے۔ طلبا اس میں زبان میں مستعمل اصول و قاعدے اپنی لسانی استطاعت بعلمی استطاعت سے خود تلاش کرتے ہیں اوران کا استعمال تحریر وتقریر میں کرتے ہیں ۔اسی لئے کہا گیا ہے کہ استقرائی یاملی قواعد ( قواعد کے وہ پیلو ہیں جو طالب علم کواپنی گفتگواورترمی کو بہتر بنانے میں واقعی مد د گار ہوں) عملی یا استقرائی طریقہ طلبا کی نفسیات اور تعلیمی نفسیات کے عین مطابق ہے ۔ طلبا مختلف تجربات و تجزیہ کے ذریعہ اصول و قاعدے کی جانچ کر کے ان کا اطلاق اپنے طر زتحریر پر کرتے ہیں۔اس طریقہ کو بھی سطح کے طلبا بخوشی اور جوش وخروش کے ساتھ اپناتے ہیں اور اس سے عملی فائدہ اٹھاتے ہیں۔مثلا معلوم سے نامعلوم کی طرف طلبا کا ذہن ترقی کرتا ہے۔ مقرون سے بجرد کی طرف جو تدریسی اصول کے عین مطابق ہے ۔ طلبا کو اپنے ذہنوں پر زیادہ زورنہیں دینا پڑتا اور ٹنے کی مشکل نہیں اٹھانی پڑتی جس سے ان کا وقت ضائع نہیں ہوتا اور مد ریس پر لگاۓ ہوۓ وقت کا مفید نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔ اس میں قواعد کے مختلف اصولوں کو مختلف تعلیمی سرگرمیوں کے ذریہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔طریقہ تدریس مربوط و نظم رہتا ہے، طلباصرف ان ہی اصول اصطلاحات کو پڑھتے ہیں جن کی ضرورت ان کی درسیات میں ہو۔ عملی قواعد اور استقرائی طریقہ میں طلبا کی حقیقی لسانی ضرورتوں کو پیش نظر رکھا جا تا ہے قواعد کی علمی امنطقی ترتیب کونہیں۔
استخراجی طریقہ
استخراجی طریقہ اصل میں تدریس قواعد کا بنیادی اور سب سے پرانا طریقہ ہے اس طریقہ میں قواعد کے اصولوں اوراصطلاحات کوز بانی یادکر نے پر زور دیا جا تا ہے ۔ اسی لئے اسے روایتی طریقہ بھی کہا جا تا ہے۔ بی طریقہ طلبا کی نفسیات کے بریکس ہے اور جد ید اصول تعلیم بھی اس کی نفی کر تا ہے ۔اس میں رٹنے پر زیادہ اور مل پر کم زور دیا جا تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ طلبا قواعد سے گھبراتے ہیں اور دیسی نہیں لیتے ۔اس طریقہ کا مقصد ہوتا ہے کہ پہلے طلبا قواعد کے قوانین و اصطلاحات یادکر میں اور پچران کی بنیاد پر اپی تحریر وتقر یہ قائم کر یں۔ استخراجی طریقہ تدریس میں قواعد کی ایک منطقی ترتیب مقرر کی گئی ہے جس کی پابندی طلبا پر لازم ہے اس کا ایک فائدہ بھی ہے کہ طلبا قواعد کے اصولوں کو بالترتیب ایک مر بوط شکل میں یادکر کے ذہن نشین کر لیتے ہیں ۔اس طریقہ میں اگر قواعد کی بنیادی باتوں سے ترتیب دار بات شروع کی جاۓ تو طلبا کو اس سے خاطر خواہ فائدہ ہوسکتا ہے ۔ مثلا قواعد کے مختلف، اصولوں کو مر بوط اور بتدریج ایک Concept Map کے ذریع طلباکوذ ہن نشین کرانے کی کوشش کی جاۓ ۔مذکور ومثال سے طلبا میں قواعد کی منطقی ترتیب ذہن نشین کرانے میں مدد ملے گی اور طلبا اس میں دلچسپی کا مظاہرہ بھی کر یں گے ۔اس طریقہ سے استخراجی طریقہ تدریس کی خامیاں بہت حد تک دور کی جاسکتی ہیں۔
تمثیلی طریقہ
اس سے قبل کی جماعتوں میں اس طریقہ کونسن وخوبی استعمال کیا جا سکتا ہے۔اس طریقہ کے ذرایہ کمرہ جماعت میں دری مقاصد کو آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اسا تذہ کو اس طریقے کے لیے مد ری حکمت عملی کا انتخاب کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہئے ۔اساتذہ کو چاہئے کہ اس طریقہ کے لئے درسی کتب سے ہی فقرے جملے اور زبان کے مختلف اصول کونتخب کر کے انہیں قواعد کے اصولوں پر پر کھ کر طلبا کو ذہن نشین کرائیں۔ چھٹی ساتویں جماعت میں اسم ضمیر اور صفت کی پیچان اور ان کی تمیں ان کی دری کتاب کے اسباق سے بہت آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے ۔اس طرح آٹھویں نویں جماعتوں کے نثری اسباق اور نظموں سے مرکبات ضرب الشل تلمیحات تشبیهات اشارے اور کنایے کا انتخاب کر کے دیگر مثالوں کے ذریعہ ذہن نشین کرایا جاسکتا
نصابی طریقہ
یہ طریقہ عام طور سے دینی مدارس سے عصری مدارس میں آیا ہے ۔ اس کے تحت مختلف تعلیمی سطوں اور در جات کے مطابق قواعد کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں ۔ یقواعد کی کتا ہیں دری نصاب کے مطابق ہوتی ہیں جن میں طلبا کی ذہنی سطح اور در جات کو ذ ہن میں رکھ کر قواعد کے مختلف اصطلاحوں کو مثالوں اشاروں اور مشقوں کے ذریعہ بڑی خوش اسلوبی سے پیش کیا جا تا ہے ۔ اس طریقہ میں طلبا کوان کے نصاب کے مطابق دری موادا یک جگہیل جانے کی وجہ سے آسانی تو ہوتی ہی ہے کمرہ جماعت میں اسا تذہ کو بھی اپنی تدریس کو منضبط اور منظم کرنے میں خاصی مد ولتی ہے ۔ نصابی طریقہ تدریس میں ایک خرابی یہ ہے کہ اس میں دری کتاب کو مرکزیت حاصل ہوتی ہے اور رٹے رٹانے کی عادت کا بے جافروغ ہوتا ہے۔
اصطلامی طریقہ
قواعد کا یہ طریقہ تدریس عام طور سے ثانوی اور اعلی ثانوی درجوں میں استعمال کیا جا تا ہے یہ
طریقہ اشخرابی اور نصابی طریقہ کا ہی پرتو ہے ۔ اس میں بھی اصطلاحات و تعریفات کو بار بار رٹایا جا تا ہے اور پھر تمثیل ومثال کے ذریعہ ان اصطلاحوں کو استعمال کیا جا تا ہے ۔مشرقی زبانوں بالخصوص ہمارے ملک کی مختلف زبانوں میں اسی اصول کے تحت کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ اردو زبان میں اسے بکثرت استعمال کیا جا تا ہے مثلا اگر اسا تذہ کوتشبیہ استعارے کنایے ایہام وغیرہ اصطلاحات کو پڑھانا ہے تو پہلے ان کی تعریفات طلبا کورنا دیا جا تا ہے جو ایک خشک اور بے جان طریقہ ہے ۔ ہونا یہ چاہئے کہ پہلے ان اشعار کو پیش کیا جاۓ جن میں مینعتیں استعمال کی گئی ہیں پھر اشعار میں ان صنعتوں کی نشاندہی کی جاۓ اس سے
طلبا میں دلچسپی بڑھے گی مثلا :
ناز کی اس کے لب کی کیا کہئے بعد مرنے کے میری تو قیرآ دھی روگئی (امانت) صنعت تضاد: در دمنت کش دوا نہ ہوا اگر اساتذہ ان اشعار کو پہلے طلبا کو سنائیں پھر تختہ سیاہ پر لکھ دیں اور اس کے بعد ان اشعار میں استعال کی گئی صنعتوں کی نشاندہی کر کے تشریح و تو نیح کر میں تو طلبا کے ذہنوں پر اس کانقش دیر پا ہوگا اور طلباسبق میں دلچسپی کا مظاہرہ بھی کر یں گے ۔