سبق کی منصوبہ بندی
Lesson Planning
اس سے قبل آپ منصوبہ بندی کے ضمن میں سالانہ منصوبہ بندی اور ا کائی منصوبہ بندی کے متعلق معلومات حاصل کر چکے ہیں ۔ تا ہم ان دونوں منصو بہ بند یوں کو ملی جامہ پہنانے کے لئے سبق کی منصوبہ بندی نہایت ضروری ہے کیونکہ بھی منصوبہ بندیوں کی کا میابی سبق کی بہتر منصوبہ بندی پر ہے ۔منصو بہ سبق کی انچی ترسیل ہی درس و تدریس کی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتی ہے ۔ اگر سبق کی منصوبہ بندی بہتر طریقے سے نہ کی جائے اور ان کا اطلاق در جے میں طلبا پر نہ ہوتو کسی منصوبہ بندی کا کوئی فائد نہیں ۔ سبق کی کامیابی کے لیے موزوں منصوبہ بندی ٹھیک اسی طرح ضروری ہے جیسے تعمیر وترقی کے دوسرے شعبوں میں ہوتی ہے ۔ جیسے کسی کام کے منہاج ومقاصد کو حاصل کر نے کے لئے اور اس سے بہتر تائج اخذ کرنے کے لئے سیج منصوبہ بندی کی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح بہتر تدریں اس کی ترسیل تفہیم اور آموزش کے لئے سبق کی منصوبہ بندی نہایت ضروری ہے ۔ ایک موثر اور ذمہ دار استاد کے لئے کلاس روم میں اپنی مد ریس کو دلچسپ اور بہتر بنانے کی کوشش ضروری ہے ۔اساتذہ کو پڑ ھانے سے قبل پہنی طور پر تیار ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ عام طور سے یہ دیکھا جا تا ہے کہ جواسا تذہ ذہنی طور پر سبق کی تیاری نہیں کرتے اورمنصو بہ سبق تیار کر کے درجے میں نہیں جاتے وہ کمرۂ جماعت میں ادھر ادھر کی خوش گپیاں کر کے اپنا اور طلبا کا وقت خراب کر تے ہیں ۔ بعض دفعہا پنی لاپروائی کی وجہ سے اساتذہ کو کرۂ جماعت میں اپنی لاعلمی کم علمی اور بے عزتی کا سامنا بھی کر نا پڑ تا ہے ۔ اگر وہی اساتذ سبق کے لئے منصو بہ بندی کرلیں سبق کے اشارات تیار کر لیں اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو سبق سے اس کی تفہیم سے اور طلبا کی پہنی سطح سے ہم آہنگ کر لیں تو مذکورہ حالات سے بچا جا سکتا ہے اور وقت کا صحیح استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔ یوں تو تجر بہ کار اور عمر رسیدہ اساتذہ کے لئے بھی منصوبہ سبق اور اس کے اشارات سبق کی تیاری کے ضمن میں بہت کارآمد ہوتے ہیں جب کہ زیرتربیت اساتذہ کے لئے منصوبہ سبق کی تیاری ان کی تربیت کا اہم ترین پہلو ہے۔ چنانچہ زیر تربیت اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ منصو بہ سبق اور اشارات سبق پر خاص توجہ دیں ۔ مختلف علوم وفنون کی تدریس کے لئے منصو بہ سبق کی تیاری کا مرحلہ اور ان کے اقدامات الگ الگ ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے مذری مقاصد قدرے مختلف ہوتے ہیں۔ بعض مضامین معلوماتی ہوتے ہیں بعض تجرباتی ۔ زیرتربیت اسا تذہ کو چاہئے کہ ان مضامین اور علوم کے دری مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوۓ اشارات سبق کی تیاری کر میں اوران کے اہم نکات واقدامات کو تری کرنے کے علاوہ ذہن نشیں بھی کر لیں۔ بلاشبہ سائنسی ساجی ریاضی اور زبان وادب کے مضامین اپنی الگ الگ شناخت اور افادیت رکھتے ہیں ۔ ان کی افادیت اور طریقہ تدریس کی بنا پر ان کی منصوبہ بندی اور اشارات سبق بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔ تدریس زبان میں جن دری پہلوؤں کا خیال رکھا جا تا ہے دیگر علوم کی تدریس میں ان کی افادیت نہیں ۔ چنانچہ زبان وادب کی تدریس کے لئے منصو بہ سبق اور اشارات سبق تیار کرتے وقت اس سے متعلق خصوص امور پر توجہ صرف کی جانی چاہئے ۔ اردو زبان کی تدریس میں بھی مختلف درجات کے لئے اور مختلف اصناف ادب کے لئے ان کی ضروریات کے پیش نظر اشارات سبق میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔ مثلا ابتدائی درجات کے منصو بہ سبق میں زیادہ توجہ زبان پر دینی چاہئے جبکہ ثانوی اور اعلی ٹانوی جماعتوں میں اشارات سبق تیار کرتے وقت بتدریج زبان سے زیادہ ادب پر توجہ دی جانی چاہئے ۔ عام طور سے اردو کے منصو بہ سبق میں چار طرح کا اشارات سبق تیار کیے جاتے ہیں ۔ نثر نظم قواعد اور انشا۔ ان چاروں طرح کے عنوانات کی تدریس کے لئے اسا تذہ کوا پی منصو بہ بندی میں ضرورت کے لحاظ سے طریقہ تدریس و اقدامات میں تبدیلی کرنی چاہئے کیونکہ ان میں ہر ایک کی تدریس کے مقاصد الگ الگ ہیں اور تفہیم کی نوعیت بھی ، اس لیے اشارات سبق بھی مختلف ہونے چاہئیں ۔ ہماری دری کتابوں میں نظم ونثر کے اسباق دیئے ہوتے ہیں جبکہ اساتذہ کوان کی تنہیم میں پچنگی لانے کے لئے اور ان اصناف سے دلچسپی پیدا کرنے کے لئے قواعد اورانشا کی تدریس ضروری ہوتی ہے ۔ نثری اسباق کے لئے جواشارات سبق تیار کیے جاتے ہیں ان کا پوری طرح اطلاق نظم کے اسباق پرنہیں ہوتا ۔ بعیہ نظم کے لئے تیار کئے گئے اسباق نثر کی تفہیم کے لئے بہتر نہیں ہوں گے ۔ ٹھیک اسی طرح نظم ونثر کے لئے تیار کئے گئے اشارات سبق قواعد اور انشا کی تدریس کے لئے کارآمدنہیں ہو سکتے ۔ نثر کی تدریس کرتے وقت اسا تذہ کومختلف طرح کی تو ضیحات تفصیلات اور تلمیحات کی وضاحت کرنی پڑتی ہے جب نظم کے اسباق کی تدریس میں ان تفصیلات سے زیا دہ علامتوں اور تشبیہات واستعارات اور تحسین شعر کی ضرورت پڑتی ہے ۔اس لئے وہ اصول وضوابط جونثری اسباق کے اشارات تیارکرتے وقت ذہن میں رکھے جاتے ہیں دو نظم کے لئے کارآمدنہیں ۔ یہی نہیں بلکہنظم ونثراورقواعدانشا کی تدریس کے طریقے میں نیز مہارتوں کے استعمال میں بھی اختلاف پایا جا تا ہے ۔منصو بہ سبق کا ادراس کے اشارات کا اصول بہت سے ماہرین تعلیم نے وضع کیے ہیں تاہم کوئی بھی اصول اور طریقہ کار زبان کی تدریس میں حرف آخرنہیں ۔ چنانچہ اساتذ ہ کوسبق اصناف اور موقع محل کے لحاظ سے ان میں تبدیلی کر لینی چاہئے لیکن تبدیلی کرتے وقت تعلیمی اور آموزشی اصول کارفرماہوں ۔ جیسا کہ تایا گیا کہ منصو بہ سبق کی تیاری تدریسی مقاصد کوسامنے رکھ کر کی جاتی ہے اس لئے تمام اسباق کو مقاصد کے لحاظ سے دوحصوں میں تقسیم کر لیتے ہیں اردو میں پہلا مقصدعلمی اور معلوماتی ہوتا ہے جب کہ دوسرا مقصد لطف اندوزی اورخن نہی حالانکہ دوسرے مضامین مثلا ساجی علوم اور سائنسی علوم میں اس سے قدرے فرق پایا جا تا ہے حالانکہ علمی اور معلوماتی مقصد کا زیادہ تعلق مطالعہ فطرت اور ماحولیاتی مشاہدات پر ہے لیکن ان کا اطلاق زبان وادب کی تدریس میں بھی ہوتا ہے کیونکہ دری کتاب کی تدوین کے وقت جو اصول کارفرما ہوتا ہے وہ مختلف مضامین وعلوم کا عمودی وافقی ربط ہے ۔ چنانچہ درسیات میں زبان اور دوسرے علوم کی تدریس کو پوری طرح الگ تصورنہیں کر نا چا ہئے اشارات سبق تیار کرتے وقت معلم اسا تذہ کو اور ان کے نگراں اسا تذہ کو جن نکات پر اور اس کی تفہیم پر خاص خیال کر نا چاہئے ان میں دری امدادی ذرائع تمہید اعلان سبق پیش کش رائنگ بورڈ اور گھر کا کام خاص ہیں ۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ منصو بہ سبق کے اشارات کوئی مجرد شئے نہیں جوتبد میں نہ ہو سکے بلکہ مضامین اور اصناف کے لحاظ سے ان نکات میں رد بدل کی جاسکتی ہے ۔ جہاں تک دری یا تدری آلات ساز و سامان لینی ٹیچنگ ایڈس کے سامان کا تعلق ہے تو یضمون سبق عنوان اور ذیلی عنوان کی مناسبت سے ہو نا چا ہنے اوران کا استعمال اس سبق میں تدریس کے دوران موزوں اور مناسب وقت پہ کیا جانا چاہئے ۔ تدریس کے دوران موزوں اور مناسب وقت پہ کہا جانا چاہئے تدری امدادی ذرائع کا استعال طلبا کے ذہن کو تدریس کی طرف مبذول کرانے اورسبق میں دلچسپی پیدا کرنے نیز کر کے سیکھنے میں تحریک پیدا کرتے ہیں ۔ عام طور سے اس کے لئے چارٹ تصاویۂ نقشہ ماڈل ٹلس رائٹنگ بورڈ‘ پاک ڈسٹر وغیرہ شار کیے جاتے ہیں ۔لیکن سب سے بڑی ٹیچنگ ایڈ کا رول دری کتاب ادا کرتی ہے ۔ موجودہ زمانے میں سمعی و بصری ساز وسامان اور الکٹرانک اشیا جیسے کمپیوٹر وغیرہ بھی T. A دیگر اس کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ امدادی تدری اشیا درس و تدریس کوموثر دلچسپ بناتی ہے اور آموزش کو ستحکم کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔ نیز اساتذہ کا وقت بچانے کے ساتھ ساتھ تقویت بھی فراہم کرتی ہے یوں تو زبان کی تدریس میں معاون تدریسی ساز و سامان کا بہت زیادہ اطلاق نہیں پھر بھی ابتدائی درجات میں اس کے موثر استعمال سے انکارنہیں کیا جاسکتا ہے۔ سبق کی منصوبہ بندی کرتے وقت ہدف گروپ اور اس مضمون کے مقاصد کو ضرور سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ بغیر اہداف اور مقاصد کے بہتر اکتساب کی کو تو قع نہیں کی جاسکتی ۔ مقاصد کے حصول کے لیے اور اہداف گروپ کی بہتر آموزش کے لئے مختلف طرح کی مہارتوں اور حکمت عملیوں کا استعمال کیا جا تا ہے ۔ دری مقاصد کے حصول کے لیے جن تین نکات مقاصد پر توجہ دینی چاہئے وہ ہیں: مہارت مرکوز مقاصد
موادمرکوز مقاصد
استعدادمرکوز مقاصدپوری
مذکورہ مقاصد کے تحت اسا تذہ کو چاہئے کہ سبق کی ای منصو بہ بندی کر میں جس کے دور رس نتائج سامنے آئیں ۔ یعنی مبارت مرکوز منصو بہ بندی کا مقصد سبق کی تحمیل یا ان درجات کی تحمیل کے بعد بالخصوص زبان ولسان کے مضامین میں سنے بولنے اور مافی الضمیر کے اظہار کر نے کی انچی لیاقت پیدا ہو جاۓ ۔ اسی طرح موادمرکوز منصو بہ سبق کا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ جس موادمضمون رعنوان اصناف کے لئے منصوبہ تیار کیا گیا ہے ان پر طلباکوعبور حاصل ہو جاۓ ۔ یعنی ان مضامین یا مضمون کو پڑھنے سمجھنے ان سے سبق حاصل کر نے لطف اندوز ہونے بالخصوص زبان کے مختلف اضاف کی خصوصیات وغیرہ سے واقفیت ہو جاۓ ۔اس سے نثر اور نظم کے مختلف پہلوؤں مثلا تشیبہ استعارے کنایے تلمیحات کر دار اور شخصیات وغیرہ کی معقول جانکاری طلبا کو ہو جاۓ ۔ نیز زبان کی تدریس میں استعدادمرکوزمنصو بہ سبق کا مقصد طلبا میں زبان و بیان بالخصوص صرف نحو کی لیاقت پیدا کرنا ہے اور اس کے ذریہ دوسرے علوم کے اکتاب میں تیزی اور بہتری لا تا ہے۔
سبق کی منصو بہ بندی
سبق کی منصوبہ بندی تدریسی امور کی انجام دہی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔ ایک استادجتنی انچی منصو بہ بندی کرتا ہے کمرہ جماعت میں خوداس کے لئے اور اس کے طلبا کے لئے اتنے ہی بہتر اکتساب مل کا فروغ ہوتا ہے ۔ منصو بہ سبق بہ یک وقت طلبا اساتذہ اورتعلیمی مشیروانتظامیہ سب کے لئے یکساں مفید ہے ۔ منصو بہ سبق باقی دونوں منصوبوں سالانہ منصو بہاورا کائی منصو بہ کا تکملہ ہے۔ گویا اگرمنصو بہ سبق کی تیاری اور انجام دہی اچھی طرح نہ کی جاۓ تو نہ ہی اکائی منصوبہ کی تکمیل ہوسکتی ہے اور نہ سالا ن منصوبہ بندی کی ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پوری تعلیمی سرگرمیوں کا حورسبق کی منصو بہ بندی ہے ۔سبق کی منصوبہ بندی سے اسا تذہ میں
خوداعتمادی اور طلبہ میں انہاک پیدا ہوتا ہے نیز مد ریس موثر ہوتی ہے اور کرہ جماعت پرسکون۔ عام طور سے سبق کی منصوبہ بندی میں تین مراحل کا استعال پوری دنیا میں ہوتا ہے ۔ جوذیل کے اصولوں پرینی میں سبق کے مقاصد کاتعین ii موزوں طریقہ تدریس کا انتخاب
iii) تدریس زبان کی اہم مبارتوں کا انتخاب
مذکورہ نکات سے یہ
ظاہر ہوتا ہے کہ اولا استادکو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کیا پڑھانے جارہا ہے؟۔
تدریس کا طریقہ کاراورحکمت عملی کیا ہوگی؟ پڑھاۓ جانے والے سبق کا مقصد کیا ہے؟ آج کل بہت سے تعلیمی تحقیقی اداروں میں مسائل پرہنی Issue Based سبق تیار کر نے اور اس کا منصو بہ بنانے کا چلن
عام ہور ہا ہے ۔ایسے اسباق کی منصو بہ بندی کے خاص مقاصد ہوتے ہیں۔ چنانچہ اساتذہ کو اس طرح کی تدریسی سرگرمیوں کا انتخاب کر نا چاہئے جو مذکورہ مقاصد کی تحیل میں معاون ہوں۔ ان سب کے علاوہ
اسباق سے طلبہ کی پہنی
مطابقت دلچسپی اور
مفاہمت بھی لازم ہے ۔
سبق کی منصوبہ بندی کے مراحل
متعدد ماہرین تعلیم ماہرین تعلیمی نفسیات اور حقین نے سبق کی منصو بہ بندی کے مراحل سے متعلق اپنے اپنے نظریات و خیالات پیش کیے ہیں۔ زیادہ تر ممالک کے تعلیمی اداروں نے جان فریڈرک ہر بارٹ (John Fredrich Herbart) کے مراحل کو اصولی طور پر تسلیم کیا ہے اور ان کے پیش کردہ منصو بہ سبق کے چھ مراحل ہی کا استعمال منصو بہ سبق تیار کرنے میں کرتے ہیں ۔ یہ چھ مراحل ہیں۔
تیاری
پیش کش
موازنه
اطلاق
اعاده
تیاری ( Preparation )
تیاری یا تعارف اصل میں طلبا کو پڑھاۓ جانے والے مضامین اور ان سے متعلقہ معلومات کا انداز ہ ہے۔ اس کے ذریعہ طلبہ کی ذہنی توجہ تد ریس وسبق کی جانب مبذول کرنی ہوتی ہے ۔مختلف مضامین سطحوں اور درجات کے لحاظ سے اس کے کئی ذیلی عنوانات دیے جاسکتے ہیں ۔مثلا مقاصد تمہید سابقہ معلومات کی جانچ اور محرکہ وغیرہ ۔
مقاصد (Objectives
زبان کی تدریس کے لحاظ سے مقاصد کو دوزمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے عموی مقاصد اور خصوصی مقاصد ۔ جسے عام مقاصد اور خاص مقاصد بھی کہتے ہیں ۔عمومی مقاصد عام طور سے اسی سجکٹ یازبان کے لحاظ سے طے کیے جاتے ہیں ۔ یعنی کسی زبان یا مضمون کی تدریس کے مقاصد کیا ہیں؟ اس کی تدریس کے بعد طلبا کے علم میں کیا کیا اضافہ ہوگا؟ ان کی آموزش کے بعداکتسابی عمل میں کتنی آسانی ہوگی؟ اور مجموعی طور پرکوئی طالب علم یاہدف گر وپ اس مضمون یازبان سے کیا فائدہ حاصل کرے گا؟ ۔ خصوصی مقاصد عمومی مقاصد کی تحمیل کرتے ہوۓ اس مخصوص سبق اور صنف کے دری مقاصد کو طے کرتے ہیں یعنی خصوصی مقاصد کسی مخصوص در جے کے خاص اوقات (Period ) میں پڑھاۓ جانے والے سبق پڑہنی ہونا چاہئے ۔مشلانظم نشر قواعداورانشا کی تدریس میں ان کے اسباق کے خصوصی مقاصد انہیں مخصوص مضمون پڑہنی ہونے چاہئیں ۔
تمہید یا تعارف (Introduction ) یوں تو تمہید طلبہ کوسیق کی طرف راغب کرنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن عملی طور پر دوران تربیت معلم گھسے پٹے الفاظ اور طریقہ کاراپنا تا ہے جب کہ چاہے یہ کہ تمہید پراثر ہؤ پرلطف ہو طلبہ کی ذہنی سطح سے میل کھاتی ہو مضمون اورسبق کے اعتبار سے موزوں ہواور حالات و واقعات کے لحاظ سے برخل ہوتا کہ طلبا دلچسپی کا مظاہرہ کر میں طلبا اپنے سابقہ ذہنی دائر ہ سے نکل کر استاداورسبق کی طرف مائل ہو جائیں اور ان کا ذہن کلی طور پر سبق کی طرف راغب ہو جاۓ ۔
سابقہ معلومات کی جانچ (Testing Previous Knowledge)
اس کے تحت طلبہ میں موجودہ علم وفہم کی جانچ کی جاتی ہے اور پڑھاۓ گئے اسباق یا دی گئی معلومات سے ان کی واقفیت ناواقفیت دلچسپی عدم دلچسپی کی بھی جانچ کی جاتی ہے ۔اسا تذہ کو چاہئے کہ وہ سابقہ معلومات کی جانچ اس طرح کر میں کہ موجودہ سبق کی طرف طلبا کا ذ ہن خودبخو دمبذول ہو جاۓ ۔ اور طلبا سبق سے طریقہ تدریس سے اور استاد کی شخصیت سے دلچسپی اور تجس کا اظہار کر یں۔ سابقہ معلومات کی جانچ چست درست بریل اور دلچسپ تو ضر ور ہولیکن اس پر کم سے کم وقت خرچ کیا جاۓ ۔
مرکہ (Motivation) محرکہ تمہید اور سابقہ معلومات کی ہی ایک شکل ہے لیکن اس کا طریقہ کارتھوڑ الگ ہے ۔محرکہ خاص طور سے ابتدائی جماعت کے اولین در جات مثلا اول دوم اور سوم کے لیے زیادہ مفید اور کارآمد ہوتا ہے ۔ جب کہ بعض مضامین میں چوتھے اور پانچویں درجے میں بھی محر کہ سے بہتر تدری مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں ۔محرکہ صرف سوال پوچھنے کا اور جواب دینے کا نام نہیں بلکہ اس کا مقصد ان مچوٹے بچوں میں تحر یک ذہنی اور تحر یک نفسی پیدا کرنا ہے تا کہ وہ پڑھاۓ جانے والے سبق سے دلچپسی وانہاک کا مظاہرہ کر میں ۔محرکہ کہ لیے حسب ضرورت گانا گیت میوزک (موسیقی)، نظم ڈرامہ ڈائلاگ تصاویر تذری اشیا اور سمعی و بصری امداد میں (Audio -Visual Aids) کا مضمون سبق اورسطح کے لحاظ سے موزوں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
اعلان سبق
مذکورہ بالاعلمت ملیوں کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ان اریوں سے طلبہ کے ذ ہن کوسبق کی طرف مائل کیا جائے اور تدریس کا عمل بہتر ڈھنگ سے شروع ہو ۔ نیز سبق کا مفہوم اور موضوع قریب قریب واضح ہو جائے ۔ اسا تڈ کو چاہئے کہ جب مذکور و محکمت عملیوں کے ذریعے طلبا تدریس کی جانب آمادہ ہو جائیں تو وہ تدری موضوع سبق کا نام یا اضاف کا اعلان کرے کہ بچوں آتے ہم۔۔۔۔۔۔۔۔ کے متعلق مرید جانکاری حاصل کر یں گے ۔
2) پیشکش (Presentation ) عبارتوں اور حکمت عملیوں کا استعمال کیا جا تا ہے ۔ طلبہ اور اساتذہ کا خصوصی طور سے اشتراک اور سرگرمی بہتر تدریس کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔اس مرحلے کواساتذہ کے لیے ہٹمس پیرنٹ‘‘ کہنا یہانہ ہوگا۔ پیش کش کے ضمن میں کئی ذیلی مرحلے آتے ہیں جن میں خاص طور سے طریقہ تدریس موادضمون بلند خوانی اور خاموش خوانی ترمی امدادی اشیا اور رولر بورڈ تلت سیاہ کا استعال خاص ہیں ۔ i) طریقہ تدریس مضامین کی ضرورت اور اسباق کی ندرت کے لحالا سے طریقہ تدریس کا انتخاب کرنا چاہئے ۔ گویا جس طرح کا سبق ہواور جیسا ٹارگیٹ گروپ ہوای لحالا سے طریقہ تدریس کا استعمال موثر ترین موتر استادکی کارکردگی اور موزوں اکتسابی گل کے لئے درست ہے ۔ مثال کے طور پر سائنسی اور سماجی علوم کے مضامین کے اسباق کے لیے جن مہارتوں اور حکمت عملیوں کا استعمال کیا جاۓ گا ضروری نہیں کہ ڈیان کے مضمون یا اس کے مختلف اضاف (نظم بر قواعد' انشا) کے لیے بھی موزوں ہوں۔ اس لیے مضامین اور اسباق کو ذہن میں رکھ کر طریقہ تدریس کی حکمت عملی طے کرنی چاہتے۔مواد ضمون کرو جماعت میں ایک تربیت یافتہ استاد مواد ضمون کو دلچسپ بنا کر پیش کرتا ہے۔ مضامین اور اسباق کی موزونیت کا لحاظ رکھتے ہوئے مواد ضمون کو آسان اور ترتیب وارطلبا کے سامنے رکھنا چاہیے ۔طلبا کی بیٹی صلاحیتوں کے اعتبار سے عوادضمون کی تشریح وتوضیح یا خلاصہ بیان کر نا چاہیے ۔ سائنسی اور سامی علوم کے اسباق میں معلومات و تجز یہ پرزور دینا چاہیے جب کہ زبان کے اسباق میں الا ا لہ من بی تغیر استعارے جمیمات ضرب انشل محاورے اور الفاظ ومعنی پر زیاد و زور و یا جانا چاہیے ۔ اسی لیے زبان کے اسباق میں بندخوانی اور خاموش خوانی کا مرحلہ بھی آتا ہے تا کہ یہ پہ لگایا جاسکے کہ بچوں میں پڑھنے کی صلاحیت کتنی پاتہ ہے۔
بلندخوانی
زبان کی تدریس میں بلند خوانی کے بغیر ہ پہ لگانا مشکل ہے کہ طلبا کو عبارت پڑھنے کا سلیقہ ہے کہ نہیں اور کمرہ جماعت میں کتنے طلبا سبق کی مہارت کویح طریقے سے املا اور تا کولونا رکھتے ہوئے پڑھ سکتے ہیں ۔ بلندخوانی اساتذہ اور طلبا دونوں کی جانب سے ہونی چاہیے۔ بلند خوانی کو عبارت خوانی اور نمونے کی باند خوانی بھی کہا جا تا ہے لنظلم کے اسباق میں اساتذہ کی جانب سے پہلے بلند خوانی ہونی پیا ہے ۔ جبکہ نثری اسباق میں بہتر ہے کہ طلبا پلے بلند خوانی کر یں۔ بلندخوانی معتدل آواز میں ہونی چاہیے ۔ اساتذہ کو بلند خوانی کے دوران یہ خیال رکھنا چا ہے کہ صرف مخصوص طالب علم ہی نہیں بلکہ بھی طلبا کو بلند خوانی کا موقع فراہم کیا جائے ۔انشا اورقواعد کے اسباق میں بلندخوانی کی ضرورت ہیں۔
خاموش خوانی
حالانکه خاموش خوانی خاموش مطالعہ کا مرحلہ سبق میں اعادہ سے قبل آتا ہے لیکن پیش کش کے زمرے میں بھی اس کی اہمیت مسلم ہے ۔ ابتدائی تعلیم کے اولین درجات (اول تا پنجم) میں خاموش خوانی کی بہت زیادہ افادیت نہیں لیکن چھٹی سے پار ہو میں درجات کی تدریس میں خاموش خوانی کی اہمیت مسلم ہے ۔ خاموش خوانی کے لیے پانچ سے سات یا زیادہ سے زیادہ ویں منٹ کا وقد یا جانا چاہیے اور و استاد یہ ہدایت دے کہ بغیراب کھولے یا آواز نکالے صرف آنکھوں سے عبارت خوانی کی جائے ۔ اس سے طلبہ میں مطالعے کی عادت کا فروغ ہو تا ہے۔
۷) تدری امدادی اشیا
کسی بھی دری مضمون کومزید موثر بنانے اور تدریسی عمل کو تقویت پہنچانے کے لیے مدری اشیار قدری معاونت دری ساز و سامان یا تدری امدادی سامان کا موزوں استعمال ضروری ہے۔ تدری ساز و سامان کا برجل او تاط استعال تدریس کو بہتر بنانے میں معاون ہوتا ہے۔ سہتی اور اس میں استعمال کی جانے والی مہارت کے اعتبار سے تدری ساز وسامان کا استعمال کیا جانا چاہے۔ اساتذہ کوکوشش کرنی چاہیے کہ Waste Material لیئی نال اشیا سنے اورتقلی کام کے لیے موزوں اشیا اور اپنے اردگرد کے ماحول سے دستیاب چیزوں سے تیار کی گئی Teaching Aids مینی تدریسی ساز و سامان کا استعمال کر یں۔ تدری ساز و سامان میں پیارٹ فلش کارڈ نقشے گلوب تصاوی ماڈل کارٹون پاکے اسٹر پوائر تحت سیاہ وغیرہ آتے ہیں ۔ دور جدید کے تقلی امدادی سامانوں میں سمعی و بصری معاونات سے تعلق رکھنے والی تدری اشیا استعمال کی جاتی ہیں مثلا ریڈیو ٹیلی ویژن ٹیپ ریکارڈر ٹیلی فلمیں دستاویزی فلمیں سلائنڈس سلائڈ پروجیکٹ کمپیوٹر اور پاور پروجیکٹر وغیرہ ۔ زبان کی تدریس میں ان کے اسباق کے لحاظ سے ذکور و مد ری ساز وسامان میں سے انتخاب کرنا چاہیے۔
تختہ سیاہ کا استعمال
موجودہ زمانے میں تختہ سیاہ کا تصور کم ہونے لگا ہے ۔ اب آلتہ سیاد سے مراد تختہ سبز اور تاتے سفید (رائنگ بورڈ بھی ہے طلبہ کی نفسیات اور بینائی کی افادیت کے پیش نظرابھے تعلیمی اداروں میں گیرے چار سندر نگ کے چاک بورڈ اور سفید مارگر بورڈ کا استعمال ہو نے لگا ہے۔ اس کا استعمال طلب اوراسا تذہ کے زبن مینائی اور صحت کے لحاظ سے 'ماحول دوست ہے ۔ رائٹنگ بورڈ کا استعمال زبان کی تدریس میں بہت ہی اہمیت کا حامل ہے ۔اس کے بغیر زبان کی تدریس مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ پیش کش کے دوران اماته ومشکل الفاظ محاورے فقرے اور اہم ثات لکھتے جاتے ہیں ۔ اخذ معلی جملے کی ساخت اور موزوں رموز و اوقاف بھی رائٹنگ بورڈ کے ذریعے میاں ہونا چاہیے۔
3) جائز و موازنه (Comparision ) منصو بہ سبق کے اس مرحلے میں طلبہ کوسبق کی دشوار یوں کو سمجھانے کے لیے چند مثالیں دی جاتی ہیں جن سے طلبہ مثالیں اور حقائق کا موازنہ کرتے ہیں ان پر غور کرتے ہیں اور نتائج اخذ کرتے ہیں ۔ عام طور سے اس مرحلے کا استعمال زبان کے اسباق یا اشارات سبق میں نہیں کیا جا تا بلکہ اس کا خصوصی تعلق سامی سائنسی او بخنیکی علوم کے اسباق سے ہے ۔موجودہ زمانے میں زبان کی دری کتابوں میں ماحولیات اور مختلف مسائل پرہی اسباق شامل کیے جار ہے ہیں ان اسباق کو سمجھانے میں اس مرحلے کی بیت حد تک افادیت ہے ۔
4) تعیم ( Generalisation )
سبق کے اس مرحلے میں اساتذہ کے ذریعے پیش کش کے تحت دی گئی معلومات اور تجربوں سے حاصل شدہ حقائق کو کم کرنا ہوتا ہے۔ جس سے معلومات میں ربط پیدا ہوتا ہے اور قاعدوں اور ضابطوں کے رابط سے طلباعلمی رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔اس کا اطلاق خصوصی طور پرسائنس اور پانی کے اسباق میں ہوتا ہے۔ لیکن زبان کے اسباق میں قواعد وانشا کی تدریس کے وقت اس سے مدد لی جاسکتی ہے اور طلبہ میں حاصل شده تاعدوں ضابطوں اور نظریوں کومیسوط کیا جاسکتا ہے۔ مشابہترانشاہرالا کے لیے صرف نحو کا جاننا اور ان کا کا آپس میں ارنا ضروری ہے ۔ جب کہ یح زبان جانے کے لیے صرف اٹھ کا جاناضروری ہے ۔
5) اطلاق انطباق (Application ) اطلاق کے مرحلے میں طلبا حاصل شد و معلومات اور تربیت کو لاشف مواقع اور مستعد طر یقے سے استعمال کرتے ہیں ۔ بینی در ہے میں اسباق اورا سا تذہ کے ذرایہ حاصل کرد و معلومات اور علوم گو و اپنے علمی ادبی اور مہارتی امور کے لیے تو استعمال کرتے ہی میں ان علوم کا استعمال معاشرے میں اورا چی کی زندگی میں بھی کرتے ہیں مشلانہ بان دانی کی تدریس میں تذکیر تامین واحد جمع المحال صفات اساوناتر اور دیگر شعری صنعتوں کا استعال تعلی کا موں کے ساتھ ساتھ روزانہ ز ند گی اوراپنی طر تحریر میں بھی کر تے ہیں ۔ اطلاق کا اثر کسی طالب علم کی شخصیت اور درجہ میں جواب دہی لگایا جاسکتا ہے ۔ اطلاق کی کا میابی علوم وفنون کا طلبا کے ذ ہن ودل میں راسخ کر جاتا ہے ۔ حالانکہ اس کا زیادہ استعال مشکل مضامین مشتاریانی اور سائنس میں ہوتا ہے لیکن زبان کی تدریس میں قواعد واٹا میں اس کا موزوں استمال کر نا چا ہیے۔
6) اعاده ( Recapitulution )
کمرہ جماعت میں اعادہ کا مرحلہ استاد کے طرز تدریں تدریسی حکمت عملی اور مہارتوں کے استعال اور طلبا میں اکتسابی عملی کی فوری جانچ ہے ۔ اس مرحلے میں سبق کے التام پر اسماندہ سہل سے متعلق طلبا سے متعدد مچو نے بڑے سوالات کرتے ہیں ۔ مقصد صاف ہوتا ہے کہ پڑھائے گئے مضمون رمتون کوطلبائے کس حد تک سمجھا؟ دوسرے لفظوں میں اسے طلبا کے فہم و ادراک اور اساتذہ کے تدریسی طریقہ کار کی جانچ سمجھنا چاہے ۔امادہ کا ایک اہم مقصد یھی ہے کہ دوران تدریس اسا تذو سے کوئی دری کلت چوٹ جائے تو وہ اس کا اس مرحلے میں اعادہ کرلیں مختصر ا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عادو پڑ ھائے گئے سبق کے تیں طلبا اوراساتذہ دونوں کی کارکردگی لازمی ملتی ہے۔
تفویض کار گھر کا کام (Home Work)
گھر کا کام منصو بہ سبق کے مراحل کا کوئی خاص حصہ نہیں ہے ۔ پھر بھی کمرہ جماعت اور تدری عمل میں اس کی اہمیت مسلم ہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ طلبا پڑھے ہوۓ سبق کو گھر جا کر دوبارہ پڑھتے ہیں ۔اس سے ان کی جانکاری پنتہ ہو جاتی ہے ۔اس سے اگلے سبق کی تدریس میں طلبا اوراساتذہ دونوں کو مد دیلتی ہے۔ گھر کا کام دیتے وقت اساتذ و طلبا کی دپی معلومات وتجربات اور اختصار کا خیال کھیں ۔ گھر کے کام کا انحصار مضامین اسباق اور طریقہ تدریس کی نوعیت پر منحصر ہے ۔ گھر کا کام کے تصور کو بو جھ نہیں سمجھنا چاہے ۔اسی لیے سوالات مچھونے اور مختصر جوابی سوالات دیے جائیں۔ اس مرحلے کی افادیت تب ہے جبکہ اساتذہ ہوم ورک کو دوسرے دن چیک کر کے ھی کر یں اور طلبا ء کی حوصلہ افزائی ہو جائیں۔