PDFاصناف ادب کی تدریس
ا. تدریس نثر
2. تدریس نظم
3. تدریس غزل
4۔ تدریس قوائد
5. تدریس انشاء
ا. تدریس نثر
نثر کالغوی معنی بکھراہوا پھیلا ہوا پراگند یا پوشیدہ کے ہے لیکن عام طور سے نثر گفتگو کی اس زبان کو کہتے ہیں جس میں انسان اپنی روز مرہ زندگی کے احوال و واقعات بیان کرتا ہے۔اپی خوابشات جذبات اور خیالات دوسروں تک پہنچا تا ہے اور اپنے ماضی السمیر کا اظہار کرتا ہے ۔ میزبان کی ایسی تم ہے جس میں نہ وزن ہوتا ہے نہ براور نہ آھنگ ۔ قرین قیاس ہے کہ انسان نے جب بولنا شروع کیا ہو گا تو اس کی بولی نثری رہی ہو گی ۔ازبان نے آہستہ آہستہ ترقی کی ہوگی اور یوں انسان کی بات چیت روز مرہ کی زبان عبارتی ہوگئی ہوگی ۔ دنیا کی سبھی زبانیں پہلے نٹری بولیاں رہی ہوں گی پھران میں ادبی لطافت آ ئی ہوگی اور یوں بولیاں ادبی زبان Literature بن گئی ہوں گی ۔ اردونشر بھی زبان کی ارتقائی منزل میں بولی ہی تھی بعد میں اس میں او بیت آئی اور متعد بیلمی زبانوں (عربی فارسی، سنسکرت) کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ اس میں اد بیت آ گئی گویا اردو پیلے عوامی رابطے کی زبان ہوئی اور مچھراد لی ۔ ہم روزانہ اپنے گھریلو و دفتری کا سوں کا حساب کتاب لکھتے ہیں نوٹس لکھتے ہیں درخواستیں لکھتے ہیں تھا لکھتے ہیں میدسب نثر ہیں لیکن میداد بی نشرنہیں ہاں کچھ اد با دشعرا کے خطوط اربی نثر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ گو یا ہر نثرادب نہیں ۔ادبی نثر کے لئے کچھ قواعد وضواپ اورلر دم ہیں ۔ جب زبان آرائشی شکل اختیار کرتی ہے اور بیان تخلیقی پیرائے میں ڈھل جاتا ہے اور مشاہدات فنی تجربے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو انہیں ہم نثر کہہ سکتے ہیں ۔انچی نثر کے لئے اس کے اند ر علوم وفنون کا بیان تو ضروری ہے ہی مشاہدہ تخیل ادرفنی تجر بات بھی لازم ہیں لیکن سادگی کے ساتھ ۔ یعنی نثر میں وضاحت صراحت سادگی خیالات تجربات مشاہدے تخیل تمثیل کے ساتھ ساتھ سلاست اور روانی بھی ضروری ہے ۔ اردونثر کی ابتدا صوفیاۓ کرام کے ملفوظات سے ہوتی ہے لیکن بعض ملفوظات کو چھوڑ کر انہیں ادبی نٹر نہیں کہ سکتے ۔ اردو میں ادبی نثر کی اولین مثال داستان سے دی جاسکتی ہے ۔اردونٹر کی بہت سی میں یا اصناف ہیں۔ مثلا داستان ناول کہانی افسانہ ڈرامہ خاکہ انشائیہ سوانح سفرنا ے خطوط اور مقالات وغیرہ۔اسلوب کے لحاظ سے نشر کی تین قسمیں بتائی جاتی ہے:
3 عاری نثر
1. مسجع نثر: مسجع نثر ایسی نثر کو کہتے ہیں جس کے فقروں میں قافیے کا اہتمام کیا جاۓ ۔ عام طور سے ایسی نثر با عبارت کو مقفع و مسجع عبارت کہتے ہیں کبھی بھی ایسی عبارتوں پیشعراورمصرعے کا گمان ہوتا ہے ۔ موجودہ زمانے میں ای نثری اسلوب کا چلن تقر یا ختم ہو گیا ہے۔
2. مرجز
مرجز کی ایک ایسی تم ہے جس کے جملوں میں دوفقروں کے کلمات ہم وزن اور ہم قافیہ ہو جاتے ہیں ۔اس تم کی نثر بھی اب استعمال میں نہیں ۔ ہاں اس کی بہت سی مثالیں مشہور داستانوں سے دی جاسکتی ہیں۔
3۔ عاری نثر،
عاری نثر کی ایسی قسم ہے جو مذکورہ دونوں (مسجع مرجز) سے الگ ہے ۔ یعنی عاری نثرایسی نثر ہوتی ہے جس میں مقفع مسجع عبارت آرائی نہ ہو بلکہ سیدھی سادی زبان میں نثری تحریر کی جاۓ ۔ موجودہ زمانے میں اس طرح کی نشر لکھنے کا چلن عام ہے اردوزبان کے استادکو بھی طرح کی نثری اصناف کی تدریس پر دسترس حاصل ہونی چاہئے ۔ یعنی اردو زبان کے استاد کوان سبھی طرح کے نثری متون جو درسی کتابوں میں شامل نصاب ہوتے ہیں کی تدریس پہ مہارت حاصل ہونی چاہئے ۔نثر کی تدریس میں الفاظ کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے اس کا برجل استعمال معنی ومفہوم میں چاشنی پیدا کر دیتا ہے ۔ نثر نگار کے لئے کوئی پابندی نہیں ۔ وہ پوری آزادی کے ساتھ اپنی بات کہ سکتا ہے لیکن نشر کے منفی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ ۔ نثر میں الفاظ کا معنی ومفہوم دلائل تفصیل اور تلمیحات وتو ضیحات کا تدریس کے وقت ترجیجی طور پر خیال رکھنا چاہئے ۔اردو کے اساتذہ کونٹر کی تدریس کر تے دقت درجات طلبا کی عمراورنفسیات کے ساتھ ساتھ اصناف نثر کے تقاضوں پر توجہ مبذول کرنی چاہئے ۔مثلا استادنتر ابتدائی جماعتوں میں پڑ ھار ہا ہے ثانوی میں یا اعلی ثانوی سح پر ۔نٹر کی کون سی صنف راستان نادل کہانی افسانہ انشائیہ خطوط سوانح، مقالے مضامین وغیرہ ۔اس ضمن میں اردو کے اسا تذ ہ کو ادب اطفال کی خصوصی سمجھ ہونی چاہئے ۔ کیونکہ بچوں کے ادب اور بڑوں کے ادب میں کافی فرق ہوتا ہے اور سی فرق نثری اسلوب سے ظاہر بھی ہوتا ہے چنانچہ اساتذ گونثری اسلوب سے واقفیت لازمی ہے ۔اس کے بغیر ونثر کی تدریس میں طلبا کی خاطر خواہ رہنمائی نہ کرسکیں گے ۔ مدریس نثر میں کمرہ جماعت میں اسا تذہ موثر تدریس کے لیے کئی طرح کی تعلیمی حکمت عملی کا استعمال کرتے ہیں ۔ اساتذہ کو چاہئے کہ ان حکمت عملیوں کو استعمال کر نے سے قبل نثر کی صنف پرغور کرلیں ۔ نثر پڑھاتے دقت کچھ تدریسی اصول بھی اپناۓ جاتے ہیں مثلا معلوم سے نامعلوم کی طرف اخذمنی کے ذریعہ تلمیحات توضیحات کا استعمال کر کے تمثیل کے ذریعے اور مثالوں کا سہارالے کر ۔ بھی طرح کی حکمت عملی اور طریقہ کار اپناتے ہوۓ موادمضمون او رطلبا کی نفسیات کو مدنظر رکھنا چاہئے تا کہ دوران تدریس دیسی قائم رہے ۔
جبیا کے آپ تدریس کے طریقے میں جان چکے ہیں کہ موثر مد ریس کے لیے تربیت یافتہ اساتذہ بے چند مد ری اقدامات کا استعمال کرتے ہیں جن سے ان کی تدریس طلبا کے لیے آسان اور اساتذہ کے لیے پراثر ہو جاتی ہے۔ان اقدامات میں نثر کی تدریس کے لیے:
ا. معلوم سے نا معلوم کی طرف
آسان سے مشکل کی طرف
مقرون سے مجرد کی طرف
4. خاص سے عام کی طرف
5. اور نطقی ترتیب سے نفسیاتی ترتیب کی طرف نثر کی تدریس میں ہوں تو سبھی تدریسی مہارتوں کا کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی طرح استعمال کیا جا تا ہے ۔لیکن تمہیدی مہارت سوالات کی مہارت تشریح وتوضیح کی مہارت ترسیل کی مبارت سمعی و بھری آلات کے استعمال کی مہارت تختہ سیاہ کے استعال کی مہارت اور مظاہراتی مہارت خاص ہیں ۔ مذکور ومہارتوں میں سوال کی مہارت کو دوران تدریس کئی طرح سے استعال کیا جا تا ہے۔ اس کے ذریعے الفاظ ان کی ترتیب و ترکیب جملوں کی ساخت فقروں کی وضاحت اور عبارت کی تو میح کو آسان اور قابل فہم بنایا جا سکتا ہے۔ عام طور سے دوران تدریس استادسوالات کی مہارت کو تمہید اور سابقہ معلومات کے ذریعہ طلبا کے ذہن کو پڑھاۓ گئے اسباق اور حاصل کیے گئے علوم سے جوڑ تا ہے ۔جبکہ Developmental Question سبق کی ترسیل اور آگے بڑھانے کے لیے طلبا کے ذہن اور ان کے خیا لات کو وسعت دینے کے لیے نیز سبق سے جو پیدا کرنے کے لیے کیا جا تا ہے ۔مدریس کے آخری مرحلے میں طلبا کے شعوراوراسباق کے متعلق آموزش کی جانچ کرنے کے لیے اعادہ کے سوالات کیے جاتے ہیں ۔ اعادہ کے سوالات میں طلبا کی تفہی جانچ اور سبق کا مجموعی قدرکا انداز دلگانابھی مقصود ہوتا ہے۔
تدریس نظم
نظم کا لغوی معنی ’’پرونا‘‘ لڑی بنانا انتظام و بندوبست کر تا ہے ۔لیکن اصطلاح میں موزوں کلام کو جس میں وزن بحر ردیف قافیہ کا اہتمام کیا جاۓ نظم کہتے ہیں نظم میں ڈھن شر، نفعی کا ہوتا بہت ضروری ہے ۔ انسان اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کی ترجمانی دو ذریعوں، نظم و نثر سے کرتا ہے نظم انسانی نفسیات اور ذہن ودل کو بہت جلدی اور دیر تک متاثر کرتی ہے نظم کا ایک مصرع یا کوئی شعر نثر کے کئی صفحات سے زیادہ متاثر کن ہوتا ہے۔ نظم میں بڑے سے بڑے خیالات مشکل سے مشکل مسائل اور انسان کے اندرونی جذبات کی عکاس مخترت لیکن پراژ طریقے سے ہوسکتی ہے لنظم کا کہنا بہت ہی مشکل اور پیچیدہ مل ہے۔اسے قصد انہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ایک جذ بہ ہے جو شاعر پر طاری ہوتا ہے ۔ بہت سے بکھرے ہوۓ خیالات کو پراثر الفاظ کا جامہ پہنا کر اس کونسگی عطا کر نا ایک مشکل امر ہے ۔ بقول آتش . بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں شاعری بھی کام ہے آتش ربع ساز کا ماہر ین ادبیات نے شاعری کو روز مروں میں تقسیم کیا ہے اصلی اور خارجی۔ دال شاعری میں شاعر اپنے ذاتی تجربات محسوسات تاثرات اور مشاہدے کو پیش کر تا ہے ۔ انگریزی میں Sonnet Elegy ode وغیرہ اس کی مثالیں ہیں ۔ جبکہ اردو شاعری میں غزل گیت مرثیہ وغیرہ داخلی شاعری کی ترجمانی کرتی ہیں۔خارجی شاعری میں شعرا زندگی کی حقیقتوں کو پیش کرتے ہیں ۔ انگریزی میں اس کی مثال Lyrie Ballad اور Epic سے دی جاسکتی ہے ۔ جبکہ بیانظمیں موضوع نظمیں مثنوی بچوں کی نظمیں اور جذباتی گیت اردو شاعری میں اس کی مثالیں ہیں ۔ نظم یا شاعری کی مختلف اصناف ہوتی ہیں۔ مثلا غزل نظم ربای قصیدہ مرثیہ مثنوی وغیرہ۔
نظم کی ان بھی اصناف کی تدریس کا طریقہ موی طور پرایک ہی جیہا ہے ۔ لیکن اسناف نظم کی خصوصیت کے اعتبار سے اس میں بعض تبدیلیاں کرنی چاہئیں بالخصوص غزل رباعی اور مثنوی مر ثیہ وقصید ہ کے طریقہ تدریں میں (اس کا ذکر ان اصناف کی تدریس کے باب میں آۓ گا )۔ ہیت اور اسلوب کے تحت مصرعوں اور اشعار کی بندش و تعداد کے لحاظ سے بندوں کی ترتیب کے اعتبار سے نظمیں لکھی گئی ہیں جن کو مسدس ترجیع بند تر کیب بند متنزادا ورتنسین کہتے ہیں ۔ عام طور سے گرہ جماعت میں طلبہ کے وقوفی اور معلوماتی ذہانت والے مضامین پر زیادوز ورد یا جا تا ہے۔ جب کہ جذباتی و جمالیاتی پرکم ۔ حالانکہ طلبہ کی ہمہ جہت نشو ونما میں بھی طرح کے مضامین کی یکساں افادیت ہے نظم حلب کی شخصیت کے جذباتی اور جمالیاتی پہلوؤں کی نشوونما میں بھر پور مددکرتی ہے۔ جس سے ان کی شخصیت کی ہمہ جہت ترقی ممکن ہو سکتی ہے ۔ بھی عمر کے انسان میں نہ شر تال راگ اور آہنگ سے فطری لگاؤ ہوتا ہے ۔ چونک نظم اس جذباتی لگاؤ کی تسکین کا اہم ذریعہ ہے اس لئے بیچ نظم کی طرف بہت جلدی راغب ہوتے ہیں ۔نظم بچوں کے ذہن کو بہت جلدی اور دیر تک متاثر کرتی ہے ۔ چنانچہ اس کی تدریس کے ذرایہ کی تعلیمی مقاصد کی حصولیابی مکن ہے ۔نٹر کے ذریہ کہی گئی بات کا اثر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا ۔ جب کہ کسی نظم کا سادہ سا مصرع بھی انسانی ذہن کو بہت دیر تک متاثر کرتا ہے اور پر لطف بھی ہوتا ہے نظم کے خاص شعرا میں نظیراکبرآبادی اسمعیل میرٹھی حالی آزاد سرور جہاں آبادی اکبرالہ آبادی چکبست اقبال تلوک چند محروم سیماب اکبرآبادی جوش ملیح آبادی حفیظ جالندھری جمیل مظہری اختر شیرانی ن۔م۔ راشد اختر الایمان مجاز مجروح مخدوم جذبی نیش احدنیش مردار جعفری تاباں اوراحمد ندیم قاسمی وغیرہ شامل ہیں۔ ابتدائی جماعتوں میں سب سے پہلے بچوں کونظمیں سنائی جاتی ہیں ۔ بچے اس میں خود دیپی لیکر نظمیں یاد
کرتے ہیں ۔ نثر سے جلدی نظمیں اور شعر با آسانی یاد ہوجاتے ہیں۔کانوی جماعت کے طلب بھی نظموں کو نثر کے مقابلہ زیادہ پسند کرتے ہیں کیونک نظم خوانی کا شوق طلبہ میں جمالیاتی ذوق کی نشو ونما کرتا ہے ۔اساتذہ کو چاہئے کہ ابتدائی وثانوی جماعتوں میں طلب کنظمیں پڑھنے یادکر نے اورانہیں جمع کرنے کا پیدا کرائیں نظم کی تدریس کے ذرایہ جن علمی ادبی اور اخلاقی مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے ان میں تخیل وتصور کی بلندی نیک جذبات کی عکای خدا پرستی ایثار وقربانی رحمدلی سخاوت' سچائی و دیانتداری کا جذ بہ اور حب الوطنی کا فروغ کے مقاصد خاص ہیں ۔اس کے علاو شخصی طور پر فرحت سکون تفریح تشن طبع نظم سے حاصل کی جاسکتی ہے ۔نظم عقل وشعورکوتو جلابخشتی ہی ہے یہ ہمارے ولی احساس و جذبات کو بھی متاثر کرتی ہے نظم کی تد ریں کے جن طریقوں کا ابتدائی اور ثانوی جماعتوں میں استعمال کیا
جا تا ہے ان میں:
1. غنائی وادا کاری کا طریقہ
2. افہام تفہیم کا طریقہ
3. تشریحی طریقہ
4. مکالماتی طریقہ
5. موازناتی طریقہ
6. تنقیدی تحسینی طریقہ
خاص ہیں ۔ یوں تو معلم میں مختلف مضامین کی بہتر مد ریس کے لئے متحد وطرح کی حکمت عملیاں اورطریقہ کار اپنانے کا شعور ہوتا ہے تا ہم نظم کی تدریس میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ کس جماعت اور کس عمر کے بچوں کو پڑ ھار ہا ہے۔ ابتدائی دور جات میں حیات ماڈل اور تصاو ی کا سہارانیک نظم کے مفہوم کو باور کرایا جاسکتا ہے ۔ در اصل نظم کی تدریس کے لئے تمہید یا تعارف کا کوئی خاص طریقہ کا نہیں ۔ استاد اور طلبا کے درمیان دری فاصلہ جتنا کم ہوگانظم کی مد رئیس اتنی ہی پراثر ہوگی اور طلبانظم سے لطف اندوز ہوں گے۔اس لئے معلم کونظم کی مناسبت سے تمہید یا تعارف اور طریقہ کارا پنانا چاہئے لیکن شرط ہے کہ وہ تعارف موثر و دلچسپ ہواورطل نظم پڑھنے کی طرف شوق سے راضی ہوں۔
نظم کی تمہیدی گفتگو اس طرح ختم ہو کہ نظم کا موضوع یا اس کا مرکزی خیال قریب قریب واضح ہو جاۓ اور طلبا کا ذہن اس طرح کی پڑھی ہوئی دوسری نظموں اور ان کی افادیت کی جانب متوجہ ہو جائے نظم کی مد ریس میں بلندخوانی کی اہمیت مسلم ہے۔ بلند خوانی کے بغیر نہتو ابتدائی درجات میں اور تر ثانوی در جات میں تدریس ممکن ہے نظم کی تدریس میں نمونہ کی بلند خوانی اسا تذہ کے ذریہ بھی ہونی چاہئے اور نمونہ کی بلندخوانی واقعی نمونہ ہو ۔اسا تذہ کو چاہئے کہ بلند خوانی کرتے وقت مصرعوں کی موزونیت تاثراور آہنگ کا بطور خاص خیال رکھیں ۔ بہتر آواز کے زیرو بم سے بلند خوانی میں لطف اندوزی اور تاثر پیدا ہوتا ہے ۔ ابتدائی جماعتوں میں اگرمکن ہوتوٹر اورٹین کے ساتھ بلندخوانی کی جاۓ اس کا اثر طلبا پر خوشگوار ہوتا ہے اورظم کی تنہیم میں مدیتی ہے فقم کی بلند خوافی کے لئے چھ ماہ میں علیم کا خیال ہے کہ طلبا کوا سا تذہ کی بلند خوانی صرف منی چاہئے۔ عبارت نہیں دیکھنی چاہئے ۔ جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ تاعت کے ساتھ ساتھ عبارت کو بھی بغور دیکھیں ۔ یہ دونوں طریقے اساتذہ نظم کی موز ونیت اور ٹارگیٹ گروپ کے علمی استعداد وقت اور حالات کے مطابق اپنا سکتے ہیں۔ میراخیال ہے کہ ابتدائی درجات میں سماعت کے ساتھ ساتھ نظم کی عبارت پر طلبا نظر رکھیں تا کہ بصارت کے ذرایہ الفاظ اور مصر کے ان کے ذہنوں میں پختہ ہو جائیں اگر یہ پتگی ابتدائی جماعتوں میں راسخ ہو جاۓ تو مانوی جماعتوں میں صرف ساعت کے ذریظم کی تفہیم اور لطف اندوزی ممکن ہے نظم کی بلند خوانی میں اساتذہ کواعراب' اوقاف الفاظ کے در دبست بہتر ند ریس کے امکانات کو روشن کرتا ہے ۔ نظم کی تدریس میں انفرادی بلند خوانی کی بھی بہت اہمیت ہے ۔ انفرادی بلندخوانی بعض معلم نمونہ کی بلندخوانی کے فورا بعد کرانا بہتر مجھتے ہیں جب کہ بعض کے نزد یک نظم کے اجمالی جائزے اور تشریح تفہیم کے بعد انفرادی بلند خوانی موزوں ہے ۔ اس مرحلہ میں بھی اسا تذہ کو در جات اور نظموں کی اختصار وطوالت کے لحاظ سے طریقہ کا را پنانا چاہئے ۔ عام طور سے ابتدائی جماعتوں میں مچوٹی نظمیں شامل کی جاتی ہیں جوحد نعت مناجات مناظر فطرت ایناز قربانی یگانگت قومی ہمدردی محنت جبد سلسل وغیرہ موضوعات پر ہوتی ہیں ۔ لیکن ان کا کوئی شکوئی اقداری پہلوبھی ہوتا ہے چاہے و تمثیلی ہی کیوں نہ ہو نظم کا اجمالی میائز لیتے وقت اس کے مرکزی خیال اور اقداری پہلوؤں کو بھی سامنے رکھنا چا ہئے لیکن نچلے درجات میں مختصر طور پراور ثانوی درجات میں بتدریج وضاحت کے ساتھ نظم کے اجمالی جائزہ کے وقت نظم کی تحسین تفہیم اورسبق آموزی کے لئے معلم کو سوال و جواب کا طریقہ اپنانا مفید ہوتا ہے۔ اس لئے کہ اس میں طلبہ کا اشتراک ضروری ہے ۔ ابتدائی جماعتوں میں نظم کا تفصیلی جائز و تشریح وتوضیح وغیر سود مند نہیں ہوتا ہاں مشکل الفاظ کے معنی اور مرکزی خیال ضرور بتائے جائیں لیکن پانوی جماعتوں میں مشکل الفاظ کے منی کے ساتھ ساتھ مرکبات تشبیبات استعارات محاورے ضرب المثل اشارے کنایے اور ندورو حالات و واقعات کی وضاحت کر نا بت ضروری ہے ۔ اسی طرح ثانوی جماعتوں میں نظم کی متف اصناف اور ہیت کی بھی جز وی جانگاری اور نظم کے او بی بحاسن کی نشاند ہی کر نی چا ہئے ۔ ثانوی سطح کے آخری درجات میں مختلف شعرا کے اسلوب بیان کا ذکر مناسب ہے تا کہ دوسرے شعرا سے اس کا مواز نہ اورا شعار کی نشاند ہی مکن ہو سکے ۔ نظم اگر بڑی ہوتو نمونہ کی بلند خوانی کے بعد اجتمالی تفصیلی جائز و لینے کے لئے اسے دوحصوں میں تقسیم کر دینا چاہئے ۔ اسا تذ ہ کو چاہئے کہ نظم کی تکمیل کے بعد اس پر تنقیدی نظر ڈالیں اور اختتامی سوالات کے ذرایہ طلبہ کے ذہنوں پرنظم سے ہونے والے اثرات کا انداز والگائیں کہ ظلم اور اس کی تفصیل سے کتنا لف اند در میوئے ہیں ۔اگرمکن ہوتو خیرواتے میں طلیا سے خاموش خوانی بھی کرائی جائے اور مزید مطالعہ کی فرض و پتی کے لیے گھر کے کام کے طور پر چندیتے گر ملی سوالات و کام دیئے جائیں۔