ایسٹ انڈیا کمپنی
ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈیا کو بہت ترقی دی اور ان کی وجہ سے اردو ادب کو بہت ترقی اور بقاء ملی۔اس کمپنی
1600 میں انگلستانی ملکہ الزبتھ نے ایک تجارتی کمپنی کا شاہی چارٹر دیا جس کا نام تھا "گورنر اینڈ کمپنی آف مرچنٹ آف لنڈن ٹریڈنگ ان نو ایسٹ انڈیز"
میں اس ا اور کا کمپنی کے ساتھ مل گیا۔ اس کے بعد سے اس کا مقبول عام نام ”ایسٹ انڈیا کمپنی" ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے "" نر ایبل کمپنی" اور "جان کمپنی" بھی کہا جاتا تھا۔ ہندوستان میں یہ " کمپنی بہادر" کے نام سے مشہور ہوئی۔ جب مغل بادشاہ وجہ ضقظ کے ساتھ ساتھ کمپنی نے سیاسی اقتدار حاصل کیا تو ہندوستان میں اقتدار اعلی کی تقسیم کو اس طرح سے واضح کیا گیا۔ ”مخلوق خدا کی ملک بادشاہ کا حکومت کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی پیدائش سے لے کر اپنی موت تک کہ جو 1858 ء میں ہوئی۔ بہت سے سیاسی نشیب و فراز سے گزری۔ اپنے ابتدائی دور میں یہ ایک تجارتی کمپنی تھی، اور اس لحاظ سے اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ تجارت کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے۔ اس وجہ سے اسے فتوحات اور علاقوں پر قبضہ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کیونکہ جنگ کی صورت میں اس کو مالی نقصان اٹھانے کا اندیشہ تھا۔ سترہویں صدی تک انگلستان کے لیے امریکی نو آبادیات اور جزائر غرب الہند کی مقبوضات کی اہمیت تھی اس لیے وہ ہندوستان میں سیاسی عزائم نہیں رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ اس وقت ہندوستان میں مغل بادشاہ فوجی لحاظ سے بہت طاقتور تھے لہذا ان سے جنگ کرنے کا ان کے ذہن میں کوئی سوال ہی نہ تھا۔ انگستان کے حکمران طبقوں کی کوشش یہ تھی۔کہ امریکی نو آبادیات میں غلاموں کی تجارت سے جو منافع ہو رہا تھا۔ اس کی فکر کی جاۓ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کو تجارت اور اس سے ہونے والے فوائد کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
لیکن ہندوستان کی تاریخ میں جو سیاسی اتار چڑھاؤ آئے اس نے کمپنی کو تجارت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سیاست میں ملوث کرنا شروع کر دیا۔ اس کی ابتداء جنوبی ہندوستان اور اس کی ریاستوں کے باہمی جھگڑوں سے شروع ہوئی، لیکن در حقیقت یہ ایک سیاسی طاقت 1757 ء میں پلاسی کی جنگ کے بعد ابھری۔ لیکن بنگال کی فت‘ اور سیاسی اقتدار کے باوجود کمپنی کی دستاویزات میں اسے کالونی یا نو آبادی نہیں کہا گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ بنگال کو مقبوضہ علاقہ تسلیم نہیں کرتی تھی۔ اس کے لیے ڈومینین ( Dominiton کی اصطلاح بھی استعمال نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کو "تجارتی کمپنی کا غصب شدہ علاقہ " کہا گیا۔ جب کمپنی کو بنگال میں دیوانی کے حقوق ملے تو درحقیقت اس کی حیثیت ایک علاقائی طاقت کی ہو گئی۔ اس کے بعد سے کمپنی تجارت سے سیاست کی طرف آتی گئی۔ ہندوستان کے مقبوضات کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔
ہندوستان پر اقتدار قائم کرنے کے بعد کمپنی کی انتظامیہ میں دو رحجانات تھے : ایک تو یہ تھا کہ یہ قدرت کی طرف سے ایک تحفہ ہے کہ جو اسے ملا ہے۔ اب اس کا فرض ہے کہ ہندوستان کی قدیم تہذیب جو وقت کے ہاتھوں ختم ہو گئی ہے اسے دوبارہ سے زندہ کیا جاۓ۔ دوسرا مکتبہ فکر یہ تھا کہ ہندوستان کے لوگ تہذیب و تمدن اور ثناخت میں بہت پس ماندہ ہیں، اس لیے انہیں مہذب بنانے کے لیے یورپی روایات اور اداروں سے روشناس کرایا جائے تاکہ یہ ترقی کر سکیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارت اور اس کے ثقافتی اثرات پر انتونى والد (Wild Antony ) نے دی ایٹ انڈیا کمپنی The East India Company: Trade and Conquest from 1600 (1999) لکھی ہے۔ وائلڈ کمپنی کی تاریخ کی ابتداء اس وقت سے کرتا ہے کہ جب اس نے "کپڑا ہندوستان سے لیجایا جاتا تھا۔ انگلستان میں خاص طور سے ان دونوں کی اشد ضرورت تھی۔ مسالوں کے ذریعہ نہ صرف کھانے کو محفوظ کیا جاتا تھا۔ بلکہ اس کے ذائقہ کو بہتر بنایا جاتا تھا، جب کہ روئی کے بنے ہوۓ نفیس کپڑوں نے اہل انگلستان کو اون کے کپڑوں سے نجات دلوائی جو نہ صرف جلد کے لیے تکلیف دہ اور پیاریوں کا باعث تھے بلکہ صفائی نہ ہونے کے باعث ان میں جویں پڑ جاتی تھیں، اور نہ دھلنے کے باعث ان سے بدبو آنے لگتی تھی۔ ان دونوں اشیاء کی در آمد سے انگلستان کے معاشرے میں زبروست ثقافتی تبدیلی آئی۔ بعد میں کافی اور چائے نے ان کی ثقافتی زندگی کو اور زیادہ بدلا۔ چاۓ یا Tea کا لفظ سب سے پہلے انگریزی زبان میں 1615ء میں استعمال ہوا۔ اگرچہ کمپنی کی تجارتی اشیاء میں اس کی زیادہ اہمیت نہیں تھی مگر اٹھارہویں صدی کے نصف میں اس کا رواج بڑھتا گیا۔ چین کہ جہاں سے چاۓ کی در آمد کی جاتی تھی وہاں اس کو بطور مشروب ہزاروں سال سے استعمال کیا جاتا تھا۔ وہاں سے یہ برما اور سیام (تھائی لینڈ) میں بھی گئی۔ جلانیوں نے چاۓ کے استعال کو اپنے پڑوسی ملک چین سے سیکھا۔ روس یورپ کا پہلا ملک تھا کہ جس نے اونٹوں کے قافلوں کے ذریعہ صحراۓ گولی سے ہوتے ہوۓ آتے تھے، چین سے چاۓ در آمد کی۔ 1658 ء کے ایک اشتہار میں انگلستان میں بھی اسے " چینی مشروب" کے نام سے پکارا گیا تھا۔ لیکن انگلستان میں یہ "شای شادی" کے نتیجہ میں زیادہ مقبول ہوئی۔ یہ شادی پر تگیری شنرادی اور انگلستان کے بادشاہ کی تھی۔ پر تگیری چائے پینے کے عادی اس وقت ہوۓ کہ جب "مکاؤ" جزرہ پر ان کا قبضہ ہوا۔ 1662 ء میں چارلس دوم کی کیتھرائن آف برگنزا سے ہوئی کہ جس نے انگلستان کے دربار میں چائے کو روشناس کرایا کہ جہاں چارلس نے چاۓ پینے کو ایک
مسالوں کی تجارت" سے ابتداء کی۔ مسالے مشرق بعید سے حاصل کیے جاتے تھے، جبکہ ہاۓ کی طرح کافی نے بھی انگلستان کے معاشرہ پر ثقافتی اثر ڈالے۔ 1639 ء میں اندان میں کافی ہاؤسز" کی ابتداء ہوئی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1720 ء میں ان کی تعداد شہر لندن میں تین سو تک پہنچ گئی تھی اور وہاں سے یہ دوسرے شہروں میں بھی مقبول ہونے لگے تھے۔ یہ کافی ہاؤسز اویوں، شاعروں‘ مصوروں اور دانشوروں کے ملنے کی جگہ بن گئے کہ جس کی وجہ سے علمی و ادبی موضوعات پر بحث و مباحثہ ہونے لگا اور معاشرہ میں ذہنی و فکری سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ چین سے آنے والی اشیاء کہ جن میں سلک چینی کے برتن، نقش و نگار والا فرنیچر اور دیواروں کے لیے کانن تھے (Wall Paper) ان سب نے اہل انگستان کے ذوق اور جمالیات کو متاثر کیا۔
کمپنی نے تجارت اور سیاست دونوں پالیسیوں کو برقرار رکھا۔ مثلا ہندوستان میں تو اس نے فتوحات کے ذریعہ مقبوضات کو بڑھایا لیکن مشرق کی جانب اس نے مقبوضات کی تعداد کم رکھی اور زیادہ توجہ تجارت پر دی۔ یہ کمپنی کے تجارتی مفادات تھے کہ جن کی وجہ سے سنگاپور اور ہانگ کانگ مشہور تجارتی بند رگاہوں میں تبدیل ہو گئے۔ لیکن کمپنی نے ہندوستان میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ یہاں اس کے تجارتی مفادات سے زیادہ سیاسی مفادات ہو گئے تھے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گورنر جزل رچرڈ ویلزلی نے گورنمنٹ ہاؤس کی تعمیر کرائی تاکہ ”ہندوستان پر محمل کے ذریعہ حکومت کی جائے نہ کہ تجارتی فرم کے آفس سے حکومت کا طریقہ کار حکمرانوں جیسا ہونا چاہیے۔ نہ کہ ململ اور نیل کے تاجر کا۔" کمپنی نے جب پلای کی جنگ کے بعد سیاست کا ذائقہ چکھا تو اس میں اسے تجارت سے زیادہ فائدہ نظر آیا۔ اس لیے کمپنی کے ملازمین نے بد عنوانیوں اور کرپشن کے ذریعہ بے انتہا دولت اکٹھی کی۔ جب بے تحاشہ دولت کو لے کر یہ انگلستان گئے تو انہوں نے وہاں زمینیں خریدیں اور برطانوی پارلمینٹ کی نشستیں حاصل کر کے اس کے رکن بھی بن گئے۔ نودولتیوں کا یہ طبقہ انگستان میں "نوباب" کہلایا۔ ان کی دولت اور رہائش و عادات و اطوار نے انگلستان کے قدیم امراء کو کافی پریشان کر دیا۔لیکن جب کمپنی کے اہل اقتدار نے یہ اندازہ لگیا کہ اب اسے ہندوستان میں مستقل حکومت کرنا ہے اور اس کے لیے کمپنی کے وقار اور عزت کا سوال ہے تو انسوں نے کمپنی کے ملازمین کی بد عنوانیوں اور کرپشن کو ختم کرنے کی مہم شروع کی اور ایک ای انتظامیہ کی بنیاد ڈالی کہ جو ملک میں امن و امان قائم کرے اور قانون و انصاف کے ذریعہ حکومت کرے۔ کمپنی کی جانب سے جو مختلف قوانین جاری ہوۓ۔ انہوں نے کمپنی کی حکومت کو بہتر بنایا۔ لیکن جیسے جیسے کمپنی کی سیاسی طاقت بڑھتی رہی اس طرح سے کمپنی کے ملازمین کا رویہ بھی بدلتا رہا۔ ابتداء میں کمپنی کے ملازمین نے نہ صرف یہ کہ ہندوستانیوں سے میل ملاپ رکھا۔ یہ لوگ اردو و فارسی زبانیں بولتے تھے، بلکہ اکثر تو ان زبانوں میں شعر بھی کہنے لگے تھے، لیکن جب یہ رشتہ حکمراں اور رعیت کا ہوا تو ان میں تبدیلی آگئی اور ہندوستانیوں سے دور رہنے لگے فوجیوں کے لیے کنٹونمنٹ اور سول انتظامیہ کے لیے سول لائن کے رہائشی علاقے بن گئے۔ لوگوں سے سابی و ثقافتی رابطے ختم ہو گئے۔ ان کے اپنے کلب تھے کہ جہاں ہندوستانیوں کو ممبر بنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان میں سے جو لوگ کہ چھوٹے شہروں میں بطور عمدیدار اور منتظم رہتے تھے، ساہی رابطہ کی کمی کی وجہ سے ان کی زندگی بے رنگ اور بور ہو جاتی تھی۔ اس لیے یہ لوگ اپنی تنہائی کو شراب کے ذریعہ بھلاتے تھے۔ وہ لوگ که جو شادی شدہ ہوتے تھے، اور ان کی بیویاں بنگلوں میں انتمائی بور زندگی گزارتی تھیں جہاں وقت گزارنے کے لیے وہ فضول قسم کی باتوں اور سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتی تھیں۔ انتونی وائلڈ آخر میں اس کی طرف نشاندہی کر تا ہے کہ کمپنی کا وری کیا ہے؟ شافتی و سامی طور سے کمپنی اور اس کی تجارت و سیاست سے مشرق و مغرب دونوں متاثر ہوۓ جہاں اس کی وجہ سے انگریزی زبان میں بہت سے نئے الفاظ آئے بلکہ اس نے کلفی چاۓ پوری لین چٹنی اور چنٹز ( Chintz ) کو اہل انگستان سے روشناس کر دیا جو آج تک مقبول ہیں۔ وہیں اس نے کرکٹ‘ جن‘ (gin ) اور انگلش قانون کو اپنی نو آبادیات میں متعارف کرایا۔ افیم کہ جو آج کے زمانہ میں پاکستان کے علاقہ میں کاشت ہوتی ہے، اس کی سرپرستی بھی کمپنی نے کی تھی۔ امریکہ میں چائے کو لیجانے والی کمپنی ہی تھی۔ ہندوستان کے اس وقت کے بڑے شہر کمپنی کے قائم کیے ہوۓ تھے، جن میں بھی مدراس اور کلکتہ قتل ذکر ہیں۔ پاکستان میں کراچی ایک گاؤں تھا جو کمپنی کے عہد میں اہم بند رگاہ بنا۔ کمپنی کے دور میں عیسائیت کی تبلیغ کے نتیجہ میں ہندوستان و پاکستان میں ان کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ یہ کمپنی کی حکومت کا اثر ہے کہ آج برصغیر میں انگریزی زبان، تعلیم یافتہ طبقے میں بولی جاتی ہے۔ ہندوستان میں 1857ء کی بغاوت کے بعد کمپنی کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اور اسے تاج برطانیہ کے ماتحت کر دیا گیا۔ کمپنی کے عروج و زوال کی یہ تاریخ بر صغیر ہندوستان اور انگلستان کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے کہ کس طرح سے ایک تجارتی کمپنی نے بر صغیر اور مشرق بعید کے حالات پر اثر ڈالا اور ان کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔