نثر کی اقسام درج ذیل ہیں(pdf)
نثر کی درج ذیل چار قسمیں اردو ادب میں ہیں۔
عاری
مرجز
مسجع
مقفی
اردو ادب ان کو لفظی اقسام نثر بھی کہاجاتا ہے۔
پہلا عاری : یہ وہ نثر ہے جس میں نہ وزن ہوتا ہے اور وزن کی کوئی قید ہوتی ہے اور نہ اس میں قافیہ کی کوئی قید ہوتی ہے۔ لیکن اس نثر میں سنجیدگی ، متانت، سلاست اور فصاحت میں بلند درجہ رکھتی ہو۔ جب اردو ادب نثر نگاری کی دنیا میں مسجع وقافیہ کا سکہ چلتا تھا تو مقفیٰ اور مسجع نثر نگاری ہی کوصحیح ادبی نثر سمجھا جاتا تھا۔اس دور کی نثرکا صحیح آہنگ رکھنے والی نثر کو نثر عاری جیسا نام ہی دیا جاسکتا تھا۔ جدید نقطۂ نظر کے مطابق نثرِ نگاری میں نثر عاری ہی صحیح معنووں میں ادبی نثر ہے۔مثلاً:
’’’تاریخی اعتبار سے اور تاریخی اوراق پر سرسری نظر ڈالنے سے معلوم ہوگا کہ یہ عجیب زار ہمیشہ سے عجیب عجیب تغیرات وحوادث کی آماج گاہ رہ چکاہے۔تاریخی سانچوں میں جو مدوجذر ہے قوموں اور ملکوں کا عروج وزوال، عظیم الشان سلطنتوں کی تباہی اور وبربادی ، نیرنگِ روزگار کے ادنیٰ کرشمے اور بہترین نمونے ہیں ۔‘‘
مرجز نثر: اگر نثر میں شعر کا وزن تو ہو مگر قافیہ الفاظ نہ ہوتو ایسی نثر کو مرجز نثر کہا جاتاہے۔نثر کے تمام فقروں میں وزن پیدا کرنے کے لیے الفاظ کی ترتیب میں بہترین انداز سے الٹ پھیر کردیا جاتاہے۔ ایک مثال اس طرح ہوگا دیکھیے:
قامت موزوں کے روبرو سرورواں ناچیز ہے اور کاکُل پیچاں کے سامنے مشک ختن بے قدر ہے۔
مسجع نثر: بعض حضرات کے نزدیک نثرمقفیٰ اور نثر مسجع میں ہم معنی اصطلاحات پایا جاتا ہیں لیکن بعض علمائے ادب نثر مسجع کو نثر مقفیٰ سے مختلف جانتے ہیں ۔ ان کے خیال میں صنف توضیح اگر نثر میں واقع ہو یعنی دوفقروں یاجملوں کے تمام یا پہلے الفاظ علی الترتیب وزن اور قافیہ الفاظ میں متفق ہوں تو ایسی نثر کو نثر مسجع کہا جائے گا۔
کتاب دریائے لطافت جو اردو قواعد کا پہلا کتاب مانا جاتا ہے اس میں نثر نگار سید انشاء نے اس کی بہترین مثال میں یہ فقرے لکھے ہیں : کہ
پونڈا میٹھا اتنا بھلا کہ جس کی بھلائی گمان سے بڑھ کر ہے۔ پونڈا پھیکا اتنا برا کہ اس کی برائی بیان سے باہر ہے۔ ان دونوں جملوں میں تمام الفاظ ہم وزن میں پائے جاتے ہیں ۔
نثری ادب میں مقفیٰ: یہ ایک ایسی نثری ادب اور نثر ہے جس کے فقروں میں وزن نہیں پایا جاتا ہے بلکہ اس میں قافیہ الفاظ کا استعمال کیا گیاہو، نثر مقفی کہلاتا ہے، بہترین مثال اگر ملتا ہے تو مرزا اسداللہ خان غالبؔ کے خطوط میں اس کی بہترین مثالیں مل جاتی ہے۔ مثال کے طور پر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کے درج ذیل اقتباس میں خط کشیدہ کے بہترین الفاظ ہم قافیہ درج ہے۔
’’مثلا مرزا غالب کہتے ہیں کہ حضرت نے میری گرفتاری کانیا رنگ نکالا۔ بوستانِ خیال کے دیکھنے کا دانہ ڈالا۔ مجھ میں اتنی طاقتِ پرواز کہاں کہ بلا سے اگر پھنس جائوں ۔ دام پر گرکے دانہ زمین پر سے اٹھائوں ‘‘۔
اردو ادب میں معنی کے اعتبار سے بھی نثری ادب کی چار قسمیں ہیں :(١) دقیق رنگین(٢)دقیق سادہ(٣) سلیس رنگین (٤)سلیس سادہ۔
ان سادہ نثر کو معنوی اقسام نثر کہتے ہیں ۔
١۔ دقیق رنگین کے الفاظ: ایسی عبارت میں ایسے الفاظ اور معنی دونوں ہی مشکل ہوتے ہیں اور اس میں صنائع لفظی ومعنوی سے بھی کام لیاجاتاہے۔اور یہ الفاظ آپس میں کسی نہ کسی طرح کی مناسبت رکھتے ہیں ۔
٢۔دقیق سادہ الفاظ: ایسی عبارت ایسےالفاظ اور معنی دونوں کے اعتبار سے مشکل تو ضرور ہوتی ہے مگر اس میں رعایت ومناسبات اور صنائع وبدائع نہیں کم ہوتے ہیں ۔ اور اس کے الفاظ میں مناسبت بھی کبھی نہیں پائی جاتی ہے۔
٣۔سلیس رنگین الفاظ: اس میں ایسے الفاظ ہوتے ہیں کہ اس کے معنی دونوں،اعتبار سے سہل عبارت ہوتی ہے مگر اس میں مناسبات لفظی معنی اور صنائع وبدائع کا استعمال بہت کم ہوتاہے۔
٤۔سلیس سادہ الفاظ: اس میں ایسے الفاظ ومعنی ہوتے ہیں کہ یہ دونوں اعتبار سے سہل عبارت ہوتی ہے اور کوئی رعایت لفظی اس میں نہیں ہوتا۔