ترقی پسند تحریک(pdf)
تاریخی اعتبار سے ترقی پسند تحریک نے جو ابتدائی سفر شروع کیا ہے اس کے ابتدائی خاکے
1935ء میں ملتے ہیں اس حوالے سے اردو ادب میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا اور وہ دور یعنی ابتدائی سفر ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی جو ابتداء میں اس تحریک ابتدائی سفر کا پر جوش خیر مقدم ہوا۔
پس منظر
سن 1917ء میں روس میں انقلاب کا واقعہ،ہوا اور تاریخی اعتبار سے یہ لمحہ یہ واقعہ بہت ہی اہم ثابت ہوا۔ اس واقعہ نے پوری دنیا پر بہت اثرات مرتب کیے۔ باقی ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی اس واقعہ کے گہرے مذید اثرات پڑے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے بڑی تیزی اور اس کے جدوجہد میں لچک آئی۔ دوسری طرف مسلمانوں اور ہندوؤں میں جو اختلاف میں اضافہ ہوا۔ ان حالات اور سیاسی کشمش شروع ہوا اور اس کی بدولت مایوسی کی سماں چھانے لگی، جس کی بنا پر حساس نوجوان طبقہ میں اشتراکی رجحانات فروغ پکڑنے پانے لگے۔ عظیم شعرا اور ادیب ٹالسٹائی کے برعکس لینن اور کارل مارکس کے اثر کو قبول کرنے لگے۔ جب کہ روسی ادب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ مذہب کی حیثیت افیون کی سی ہے۔ اس کی مذہب باطل تصور ہے۔اس دنیا میں انسان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی حالات ہے۔ اس طرح اس ادب کی رو سے سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے اور ادب کا کام یہ ہے کہ مذہب سے متنفر کر کے انسانیت میں اعتقاد بھروسا پیدا کرنا ہے۔ اس طرح یہ نظریات ترقی پسند تحریک کے آغاز کا سبب بنتا ہے اور ترقی کرتا ہے۔
دوسری طرف سن 1923ء میں جرمنی میں جنگجو ہٹلر کی سرکردگی میں فسطائیت بربریت نے سر اُٹھایا، جس کی وجہ سے پورے یورپ کو ایک بحران قلت سے گزرنا پڑا۔ جنگجو ہٹلر نے جرمنی میں تہذیب و تمدن اور معاشرتی کی اعلیٰ اقدار پر حملہ کیا ہے۔اس نے بڑے بڑے شاعروں اور ادبیوں کو گرفتار کر لیا جن سے وہ مصنفین بہت منتشر ہوئے بعض ان شعرا و ادبا میں آئنسٹائن اور ارنسٹ ووکر بھی شامل تھے۔ ہٹلر کے اس ظالمانہ اقدام پر جولائی سن 1935ء میں پیرس میں بعض شہرہ آفاق شخصیتوں مثلاً روماں رولاں، ٹامس مان اور آندر مالرو نے ثقافت کے تحفظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلالی۔ اس کانفرس کا نام یہ تھا۔
The world congress of the writers for the defence of culture.
ہندوستان کے بہت مصنفین نے اور کسی بڑے ادیب نے اس کانفرس اجلاس میں شرکت نہیں کی البتہ مصنف سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے ہندوستان کی نمائند گی کی۔ اس طرح بعد میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کچھ دیگر ہندوستانی طلبہ کی مدد سے جو لندن میں رہائش پذیر تھے۔ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کی بنیاد رکھی۔ اس تحریک اور انجمن کا پہلا جلسہ لندن کے وسیع نانکنگ ریستوران میں ہوا۔ جہاں اس انجمن کا منشور یا اعلان ترتیب دیا گیا۔ اس اجلاس میں جن لوگوں نے اور ادیبوں نے شرکت کی ان میں اردو ادب کے مصنف سجاد ظہیر، ملک راج آنند، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر وغیرہ شامل تھے۔ اس انجمن کا صدر ملک راج آنند کومنتخب کیا گیا۔ اس طرح انجمن ترقی پسند مصنفین نے جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی ہے وہ وجود میں آئی ۔
اس اجلاس اور تحریک میں ترقی پسندتحریک نے اپنے منشور رائے کے ذریعے جن مطالب کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں:
فن اور ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا ہوگا اس طرح ادب کو ترقی عروج ملے گا۔
یہ سب ادب میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا ہے۔
واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔ بے مقصد روحانیت اور بے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا۔####
ایسی ادبی تنقید کو رواج دینا ہے جو ترقی پسند تحریک اور اس کے سائینٹیفک رجحانات کو فروغ اور نام دے۔
ماضی کی جو اقدار ہے اور ان کے جو روایات ہے اس کا ازسر نو جائزہ لے کر صرف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا ہے اور وہ جو صحت مند ہوں اور زندگی کی تعمیر و ترقی میں مذید کام آسکتی ہوں وہ اصل میں اردو زبان و ادب کے لیے عروج اور ارتقاء ہوگا۔
بیمار جو فرسودہ روایات ہے اور ان کے جو سماج و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا ہے وغیرہ۔
اردو ادب ترقی پسند تحریک کے مذکورہ بالا اور ان کے جو مقاصد سے ایسا ظاہر ہوتا تھا جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی بڑی وجہ ہے کہ اس تحریک کے منشور کے منظر عام پر آتے ہی اس کا خیر مقدم کیا گیا ہو جو ضروری ہے چنانچہ ہندوستان میں سب سے پہلے مشہور ادیب اور افسانہ نگار منشی پریم چند نے اسے خوش آمدید کہا ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق بابائے اردو، جیسے حضرات نے اس تحریک کی حمایت کی اور اس تحریک کے منشور پر دستخط کرنے والوں میں افسانہ نگار منشی پریم چند، جوش، ادیب ڈاکٹر عابد حسین،ادیب نیاز فتح پوری، قاضی عبدالغفار، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، علی عباس حسینی کے علاوہ نوجوان ادیبوں کا طبقہ میں سے جعفری، جاں نثار اختر مجاز، حیات اللہ انصاری اور خواجہ احمد عباس کے نام قابل ذکر ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک نے جن مقاصد سے کام لیا تھا اور ان کے موضوعات کا تعین کیا تھا ان کے حصول اور ارتقائی سفر میں یہ لوگ ادبی سطح پر کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ اور حصول مقاصد کی کوشش میں فن کے تقاضے کہاں تک ملحوظ رکھے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے جب ہم ترقی پسند تحریک کا جائزہ لیتے ہیں تو احساس کافی ہوتا ہے کہ اس تحریک نے جو بلند بانگ دعوئے کیے تھے، ان کے مقابلے میں ان لوگوں نے جو ادبی سطح پر سرمایہ پیش کیا وہ کافی حد تک مایوس کن ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس تحریک میں دو قسم کے لوگ شامل تھے۔ ایک وہ لوگ ہے جو اس تحریک کے آغاز سے پہلے بھی تھے اور اچھے فنکار بھی تھے اور اس کے خاتمے کے بعد بھی اچھے فنکار کافی عرصے تک رہے ہیں۔
وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک کے نظریات کو غور و تدبر کے بعد اپنی فکری تربیت کرکے اپنے احساس کا حصہ بنایا ہے اور اس کے فنی خلوص کو مارکسی نظریہ کے لیے کام کرتے ہوئے بھی مد نظر رکھا گیا ہے ان ادیبوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں میں کرشن چندر، فراق، فیض، احسان دانش ،ندیم، ساحر وغیرہ شامل ہیں۔ دراصل یہ لوگ تحریک کے وجود سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور تحریک کے خاتمے کے بعد بھی اچھے فنکار مانے جاتے تھے۔
بعد میں ترقی پسند تحریک کے خلاف ایک رد عمل اُٹھا جس کے کئی اسباب تھے مثلاً منشور کو نظرانداز کرنا، روسی ادب کی سستی نقل، اپنی زمین سے کمزور ناتا، ماضی سے انحراف، دوغلا پن، غزل کی مخالفت، آمرانہ حکمت عملی وغیرہ۔