اردو ڈراما کا آغاز و ارتقاء
آغاز وارتقا: اُردو ادب میں اور اردو کے بہت سے مقبول اور اولین ڈرامے لکھنؤ میں لکھے گئے ہیں اور پھر وہی ڈرامے سٹیج پر پیش کیے گئے۔بقول پروفیسر مسعود حسین رضوی کی تحقیق کے مطابق اُردو ادب اور اردو زبان کا پہلا ڈراما واجد علی شاہ کا افسانہ "عشق" ہے اور یہ ڈراما جو رادھا کرشن کی کہانی پر مبنی ہے۔ یہ ڈراما محل کی چاردیواری میں کھیلا گیا لہٰذا اسے عوامی حیثیت اور پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔ اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے مثلا ڈراما"اندر سبھا" کے نام سے ایک ڈراما لکھا جو پروفیسر رضوی کے مطابق اُردو کا پہلا عوامی ڈرامہ ہے، جسے عوامی سٹیج پر پیش کیا گیا۔ اس ڈرامے کو اس کے شاعرانہ حُسن، زُبان کی صفائی وشیرنی اور ہندوستانی دیو مالا کے لطیف امتزاج کی وجہ سے کافی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔
اردو ادب میں انیسویں صدی کے نصف آخر میں پارسی اُردو تھیٹر،اردو ڈراما نگاری کا آغاز ہوا۔ اس تھیٹر کے ڈراموں میں ظرافت اور رقص وسرور کے عناصر کا زور رہا۔ عوامی جذبات کی تسکین پیشِ نظر ہونے کی وجہ سے یہ ڈرامے فحش اور سطحی جذباتیت کے حامل تھے۔ اُردو ڈرامے کو عظمت ووقار اس وقت حاصل ہوا جب اسے طالب بنارسی، احسن لکھنوی اور بے تاب بریلوی جیسے باشعور ڈراما نگاروں کی خدمات حاصل ہوئیں۔ ان ڈراما نگاروں نے نظم کے ساتھ نثر میں مکالمے لکھے اور اُردو گیتوں کو ان میں شامل کیا۔ احسن لکھنوی نے شیکسپیر کے ڈراموں کے آزاد ترجمے "خونِ ناحق"، "شہیدِ وفا" اور "گلنار فیروز" پیش کرکے اُردو ڈرامے کو وُسعت بخشی۔ بے تاب بریلوی نے "سداما"، "رامائن"، "مہابھارت" اور "فریب" جیسے ڈرامے پیش کیے۔ ان ڈراما نگاروں کے علاوہ بزرگ لاہوری، حسینی میاں ظریف اور رونق بنارسی کے نام اس ضِمن میں قابلِ ذکر ہیں۔
اس میں شُبہ نہیں کہ مذکورہ بالا ڈراما نگاروں کی کوششوں سے اُردو ادب میں ڈراما نگاری کو کافی مضبوط فروغ نصیب ہوا ہے مگر اس میں فکر وخیال کی پستی اور تخیل اور اس میں سطحی رومانیت اور حُسن وعشق کے فرضی قصوں کی وجہ سے اپنے لیے ادبی دنیا میں کوئی سنجیدہ مقام حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے اُردو ڈرامے کو نئے اُفقوں سے روشناس کرانے والے ڈراما نگار آغا حشر کاشمیری ہیں جِنہوں نے اپنی فن کارانہ صلاحیت اجاگر کر دی اور تخلیقی بصیرت سے اُردو ڈرامے کے معیار کو کافی بُلند قرار دیا گیا اور سطحی رومانیت کی جگہ مُلک کے معاشرتی مسائل کو اپنے ڈراموں میں پیش کیا۔ حشر نے پارسی کمپنیوں اور خود اپنی تھیٹریکل کمپنی کے لیے بہت سے ڈرامے لکھے گئے جن میں کچھ مقبول ڈرامے یوں ہیں۔ ڈراما "اسیرِ حرص"، ڈراما"شہیدِ وفا"، ڈراما"یہودی کی لڑکی"، ڈراما"خوابِ ہستی" اور ڈراما"رُستم وسہراب" وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
ڈرامے کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیشِ نظر بہت سے ادیبوں اور بہت سے انشا پردازوں نے بھی بہترین ڈرامے لکھے ہیں لیکن یہ ڈرامے سٹیج کے لیے نہیں لکھے گئے تھے لہٰذا وہ کتابوں تک محدود رہے۔ اس ضِمن میں مولانا محمد حُسین آزاد کا ڈراما "اکبر" مِرزا محمد ہادی رُسوا کے ڈرامے "مرقع لیلی مجنوں" اور "طلسمِ اسرار" قابلِ ذکر ہیں۔ محمد حُسین آزاد اپنے ڈرامے "اکبر" کو مُکمل نہ کر سکے تھے اسے بعد میں ناصر نذیر فراق نے مُکمل کیا۔ یہ ڈرامے فنی اعتبار سے زیادہ اہم نہیں البتہ یہ اپنی ادبی شان اور زُبان کی لطافت ودل کشی کی وجہ سے اہم ہیں