چراغ تلے سے ایک اقتباس[pdf]
اُردو میں چارپائی کی جِتنی قِسمیں ہیں اِس کی مِثال اور کِسی تَرَقّی یافتہ زُبان میں شایَد ہی مِل سکے:
کَھاٹ، کھٹا، کھٹالہ، اُڑن کھٹولہ، کھٹولی، کَھٹ، چَھپر کَھٹ، کھرا، کھری، جھلگا، پَلَنگ، پَلنگڑی، ماچ، ماچی، چارپائی نواری، مَسَہری، مَنجی۔ یہ نامُکَمّل فَہرِست صِرف اُردو کی وُسعَت ہی نہیں بَلکہ چارپائی کی ہَمہ گیری پر دال ہے اور ہمارے تَمدُّن میں اِس کا مَقام ومُرتبہ مُتَعَیَّن کرتی ہے لیکن چارپائی کی سب سے خطرناک قِسم وہ ہے جِس کے بَچے کَھچے اور ٹُوٹے اُدھڑے بانوں میں الله کے بَرگُزِیدَہ بَندے مَحَض اپنی قُوّتِ اِیمان کے زور سے اَٹکے رِہتے ہیں۔ اِس قِسم کے جِھلَنگے کو بَچّے بَطَورِ جُھولا اور بڑے بوڑھے بَطَورِ آلہءِ تَزکیہِ نَفس کی طرح اِستِعمال کرتے ہیں۔ اُونچے گِھرانوں میں اب ایسی چارپائیوں کو غریب رِشتے داروں کی طرح کونوں کُھدروں میں آڑے وقت کے لیے چُھپا کر رکھا جاتا ہے۔ خود مُجھے مرزا عبدالودود بیگ کے ہاں ایک رات ایسی ہی چارپائی پر گُزارنے کا اِتِّفاق ہُوا جِس پر لیٹتے ہی اچھا بَھلا آدمی نُون غُنّہ (ں) بَن جاتا ہے۔
اِس میں داخِل ہو کر مَیں ابھی اپنے اَعمال کا جائِزہ لے ہی رَہا تھا کہ یَکایَک اندھیرا ہو گیا، جِس کی وجہ غالباً یہ ہوگی کہ ایک دُوسرا مُلازِم اُوپر ایک دَری اور بِچھا گیا۔ اِس خَوف سے کہ دُوسری مَنزِل پر کوئی اور سَواری نہ آجائے، مَیں نے سر سے دَری پھینک کر اُٹھنے کی کوشِش کی تو گُھٹنے بَڑھ کر پیشانی کی بَلائیں لینے لَگے۔ کَھڑ بڑ سُن کر مرزا خود آئے اور چِیخ کر پُوچھنے لَگے کہ بھائی آپ ہیں کَہاں؟ مَیں نے مُختَصَراً اپنے مَحَلِّ وُقُوع سے آگاہ کیا تو اُنھوں نے ہاتھ پَکڑ کر مُجھے کھینچا۔ اُنھیں کافی زور لَگانا پَڑا اِس لیے کہ میرا سر اور پاؤں بانوں میں بُری طرح اُلجھے ہوئے تھے اور بان سر سے زیادہ مَضبُوط ثابِت ہوئے۔ بَمُشکِل تَمام اُنھوں نے مُجھے کَھڑا کیا۔
اور میرے ساتھ ہی بَلکہ مُجھ سے پِہلے، چارپائی بھی کَھڑی ہو گئی۔ کِہنے لَگے: "کیا بات ہے؟ آپ کُچھ بےقرار سے ہیں۔ مَعدے کا فِعل دُرُست نہیں مَعلُوم ہوتا۔"
میرے جَواب کا اِنتِظار کیے بغیر وہ دَوڑ کر اپنا تیار کَردہ چُورَن لے آئے اور اپنے ہاتھ سے میرے مُنھ میں ڈالا۔ پُھنکی مُنھ میں بَھر کر شُکرِیہ کے دو چار لَفظ ہی کِہنے پایا ہوں گا کہ مَعاً نَظر اُن کے مَظلُوم مُنھ پر پَڑ گئی جو حَیرت سے کُھلا ہُوا تھا۔ مَیں بہت نادِم ہُوا لیکن قَبَل اِس کے کہ کُچھ اور کَہوں اُنھوں نے اپنا ہاتھ میرے مُنھ پر رَکھ دیا۔ پِھر مُجھے آرام کرنے کی تَلقین کرکے مُنھ دھونے چَلے گئے۔
مَیں یہ چارپائی اوڑھے لیٹا تھا کہ اُن کی مَنجھلی بَچّی آ نِکلی۔ تُتلا کر پُوچھنے لگی: "چَچا جان! اکڑوں کیوں بیٹھے ہیں؟"
بَعد اَزاں سَب بَچّے مِل کر اَندھا بھینسا کھیلنے لَگے۔ بِالآخِر اُن کی اَمّی کو مُداخَلَت کرنی پَڑی۔ "کَم بَختو! اَب تو چُپ ہو جاؤ! کیا گَھر کو بھی اسکول سَمجھ رکھا ہے؟"
چند مِنٹ بَعد کِسی شِیر خوار کے دھاڑنے کی آواز آئی مگر جَلد ہی یہ چِیخیں مرزا کی لوریوں میں دَب گئیں جِن میں وہ ڈانٹ ڈپَٹ کر نیند کو آنے کی دَعوَت دے رہے تھے۔ چند لَمحوں بَعد مرزا اپنے نَقشِ فریادی کو سینے سے چِمٹائے میرے پاس آئے اور اِنتِہائی لَجاجَت آمیز لَہجَے میں بولے: "مُعاف کِیجیے! آپ کو تَکلیف تو ہوگی مگر مُنو میاں آپ کی چارپائی کے لیے ضِد کر رہے ہیں۔ اُنھیں دوسری چارپائی پر نیند نہیں آتی۔ آپ میری چارپائی پر سو جائیے، مَیں اپنی فولڈنگ چارپائی پر پَڑ رہوں گا۔"
مَیں نے بَخُوشی مُنو میاں کا حَق مُنو میاں کو سُونپ دیا اور جب اِس میں جُھولتے جُھولتے اُن کی آنکھ لَگ گئی تو اُن کے والِد بُزرگوار کی زُبان تالو سے لَگی۔
اَب سُنیے مُجھ پر کیا گُزری۔ مرزا خود تو فولڈنگ چارپائی پر چَلے گئے مگر جِس چارپائی پر مُجھ کو بَطَورِ خاص مُنتَقِل کیا گیا، اِس کا نَقشہ یہ تھا کہ مُجھے اپنے ہاتھ اور ٹانگیں اِحتِیاط سے تَہ کرکے بِالتَرتیب سینے اور پیٹ پر رکھنی پَڑیں۔ اِس شبِ تَنہائی میں کُچھ دیر پِہلے نیند سے یُوں دو چَشمی ھ بَنا، یُونانی میزبان پروقراط کے بارے میں سوچتا رَہا۔ اُس کے پاس دو چارپائیاں تھیں۔ ایک لمبی اور دُوسری چھوٹی۔ ٹَھنگنے مِہمان کو وہ لَمبی چارپائی پر سُلاتا اور کھینچ تھان کر اُس کا جِسم چارپائی کے بَرابر کر دیتا۔ اِس کے برعَکس لَمبے آدمی کو وہ چھوٹی چارپائی دیتا اور جِسم کے زائِد حِصّوں کو کاٹ چھانٹ کر اَبدی نیند سُلا دیتا۔اِس کے حُدُودِ اَربعہ کے مُتَعَلِّق اِتنا عرض کر دینا کافی ہوگا کہ اَنگڑائی لینے کے لیے مُجھے تین چار مَرتبہ نیچے کُودنا پَڑا۔ کُودنے کی ضَرُورَت یُوں پیش آئی کہ اِس کی اُونچائی "درمیانہ" تھی۔ یَہاں درمیانہ سے ہماری مُراد وہ پَست بُلندی یا مَوزُوں سَطح مُرتفع ہے جِس کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہو کہ:
نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
گو کہ ظاہِر بین نِگاہ کو یہ مُتَوازِیُ الاَضلاع نَظر آتی تھی مگر مرزا نے مُجھے پِہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ بارِش سے پیشتر یہ مُستَطیل تھی۔ اَلبَتَّہ بارِش میں بھیگنے کے سَبَب جو کان آگئی تھی، اِس سے مُجھے کوئی جِسمانی تکلیف نہیں ہوئی۔ اِس لیے کہ مرزا نے اَزراہِ تَکَلُف ایک پائے کے نیچے ڈِکشنری اور دُوسرے کے نیچے میرا نیا جُوتا رَکھ کر سَطح دُرُست کر دی تھی۔ میرا خَیال ہے کہ تَہذیب کے جِس نازُک دَور میں غَیُور مرد چارپائی پر دَم توڑنے کے بَجائے مَیدانِ جَنگ میں دُشمن کے ہاتھوں بےگور وکَفن مَرنا پَسند کرتے تھے، اِسی قِسم کی مَردُم آزار چارپائیوں کا رِواج ہوگا لیکن اب جب کہ دُشمن سِیانے اور چارپائیاں زیادہ آرام دِہ ہو گئی ہیں، مرنے کے اور بھی مَعقُول اور باعِزَّت طریقے دریافت ہو گئے ہیں۔
چراغ تلے
مشتاق احمد یوسفی