ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض
فیض احمد فیض کا یوم وفات
اردو ادب کا ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض پر مختصر تعارف پیش خدمت ہے.
اردو کے خوب صورت لب و لہجے والے شاعر فیض صاحب کی شاعرانہ قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فیض صاحب کا نام غالب اور اقبال جیسے عظیم شاعروں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ان کی شاعری نے ان کی زندگی میں ہی سرحدوں،زبانوں،نظریوں اور عقیدوں کی حدیں توڑتے ہوے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی۔جدید اردو شاعری کی بین الاقوامی شناخت انہی کی مرہون منت ہے۔ان کی آواز دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں،حسن و عشق کے دلنواز گیتوں،اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں اپنے عہد کے انسان اور اس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر ابھرتی ہے اپنی ادبی خدمات کے لئے فیض صاحب کو بین الاقوامی سطح پر جتنا سراہا اور نوازا گیا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ۱۹۶۲ میں سوویت یونین نے فیض صاحب کو لینن امن انعام دیا جو اس وقت کی ذوقطبی دنیا میں نوبیل انعام کا بدل تصور کیا جاتا تھا۔ فیض صاحب کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ان کو نوبیل انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا ۔۱۹۷۶ میں فیض صاحب کو ادب کا لوٹس انعام دیا گیا۔۱۹۹۰ء میں حکومت پاکستان نے فیض صاحب کو ملک کے سب سے بڑے سویلین ایوارڈ"نشان امتیاز" سے نوازا ۔ پھر ۲۰۱۱ کو " فیض صاحب کا سال" قرار دیا.
اردو کے خوبصورت لب ولہجے کے معروف ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض ۱۳، فروری ۱۹۱۱ء کو ضلع سیالکوٹ میں خان بہادر چوہدری سلطان محمّد خان کے گھر پیدا ہوئے آپ کے والد سلطان محمد معروف وکیل تھے۔ فیض صاحب کے ذہن پر ان کے والد کی شخصیت کا گہرا اثر تھا۔ ان کے والد ایک شاندار شخصیت کے مالک تھے وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ انہیں علم و ادب سے بھی گہرا شغف تھا۔ اپنے عہد کی نامور ہستیاں ‘ علامہ سید سلیمان ندوی، صاحبزادہ آفتاب احمد خان وغیرہ سے ان کے ذاتی مراسم تھے۔ ان کی دو انگریزی تصانیف عبدالرحمن کی سوانح عمری اور افغانستان کے دستوری قوانین مشہور ہیں آپ کی والدہ کا نام غلام فاطمہ تھا جو دیندار خاتون تھیں۔ فیض احمد فیض کی ابتدائی تعلیم کا آغاز روایتی طریقے سے ہوا اور والدہ سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی۔ فیض نے تین سپارے بچپن میں حفظ بھی کئے تھے مگر آنکھوں میں تکلیف ہونے لگی اور ڈاکٹروں نے منع کر دیا اور اس سعادت سے محروم رہے۔ ۱۹۱۶ء میں فیض صاحب کو مولانا ابراہیم کے مدرسے میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں انہوں نے ابجد پڑھی‘ عربی فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ قرآن و حدیث کا درس بھی ان سے لیا۔ اس سے فارغ ہونے کے بعد ۱۹۲۱ء میں اسکاٹ مشن ہائی سکول سیالکوٹ میں داخل ہوئے اور جماعت چہارم سے میٹرک تک یہاں پر تعلیم حاصل کی۔ فیض کو ابتدا ہی سے ادب سے لگائو تھا اور سکول کے زمانے میں ہی وہ عبدالحلیم شرر اور پنڈت رتن ناتھ سرشار کے ناول پڑھ چکے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ داغ‘ میرؔ اور غالبؔ کا کلام پڑھنے سے ان میں شعری ذوق پیدا ہوا میٹرک تک بہت سے انگریز ادیبوں کو بھی پڑھ چکے تھے۔ ۱۹۲۷ء میں میٹرک کا امتحان درجہ اول میں پاس کیا اور مرے کالج سیالکوٹ سے ۱۹۲۹ میں ایف اے کے امتحان میں بھی اول آئے۔ اس کالج میں علامہ اقبالؒ کے استاد مولوی میر حسن سے فیض حاصل کیا۔ ایف اے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا۔ دوران تعلیم ان کے والد کا اچانک انتقال ہو گیا اور وہ مالی مشکلات کا شکار ہو گئے فیض صاحب نے ان حالات میں معاش کا سلسلہ چلانے کے لیے ایک کاروباری ادارے میں ملازمت اختیار کر لی اور ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ دیتے رہے۔ ۱۹۳۳ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے انگریزی کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج میں دوران تعلیم انہیں کامل اساتذہ پطرس بخاری اور لینگ ہارن کی تلمندی کا شرف حاصل ہوا۔ شاعری میں صوفی غلام مصطفی تبسم سے اصلاح لیتے تھے۔ فیض گورنمنٹ کالج لاہور کے پطرس بخاری کی قائم کردہ ادبی مجلس ’’بزم احباب‘‘ کے روح رواں تھے۔ گورنمنٹ کالج کی دوسری ادبی تنظیم بزم سخن کے بھی سرگرم کارکن تھے اس ادبی مجلس میں ان کے ساتھ ن م راشد‘ امتیاز علی تاج‘ چراغ حسن حسرت جیسی جلیل القدر ہستیاں بھی شامل تھیں۔ ۱۹۳۴ء میں اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے عربی میں داخلہ لیا اور یہ امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ۱۹۳۵ء میں ایم اے او کالج امرتسر سے تدریسی خدمات کا آغاز بطور انگریزی استاد کیا اس کالج کے وائس پرنسپل معروف ترقی پسند ادیب محسود الظفر تھے۔ یہاں پر فیض صاحب کی ملاقات بیگم رشید جہاں‘ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور سجاد ظہیر سے ہوئی اور ان کے خیالات میں ایک واضح انقلاب رونما ہوا ۱۹۳۶ء میں سجاد ظہیر نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی تو فیض صاحب نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا اور لاہور میں اس کی بنیاد رکھی۔ لاہور آ کر فیض صاحب کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوا وہ ’’ادب لطیف‘‘ کے مدیر مقرر ہو ئے۔ ۱۹۴۰ء میں ہیلے کالج آف کامرس لاہور میں استاد مقرر ہوئے۔ یہاں پر دو سال تک ملازمت کی۔ اسی دورانیے میں ۱۹۴۱ء میں فیض صاحب کی شادی ڈاکٹر ایلس جارج کے ساتھ انجام پائی۔ یہ شادی اسلامی طریقے سے ہوئی۔ ان کے ہاں دو صاحبزادیاں
سلیمہ اور منیزہ پیدا ہوئیں فیض صاحب ۱۹۴۲ء سے دسمبر ۱۹۴۶ء تک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ سے وابستہ رہے۔ آپ نے کیپٹن کے عہدے پر ملازمت شروع کی اور ۱۹۴۳ء میں میجر کے عہدے پر ترقی پا گئے اس سال انہیں فوجی خدمات کے صلے میں ایم بی ای کا خطاب ملا اور ۱۹۴۴ء میں کرنل کا عہدہ تفویض ہوا۔ ۱۹۴۶ء میں فوج سے استعفیٰ دے دیا اور دوبارہ صحافت کی طرف آ گئے اور میاں افتخار الدین کے انگریزی اخبار پاکستان ٹائمز اور اردو اخبار روزنامہ امروز کے مدیر ہو گئے قیام پاکستان کے بعد سیاست کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۱ء تک اس تنظیم کیلئے کام کرتے رہے۔ ۱۹۴۸ء میں سان فرانسسکو (امریکہ) میں ہونے والی مزدور تنظیم کے مدوبین میں شامل تھے اس سال انہیں عالمی کونسل کا رکن منتخب کیا گیا اور یہ رکنیت ۱۹۷۱ء تک برقرار رہی۔۱۹۵۱ء میں آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کے نائب صدر ہو گئے۔ اس سال ان کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ آیا جس نے ان کی خانگی و مجلسی زندگی کو بہت متاثر کیا اور انہیں سخت مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہ ان کی نام نہاد راولپنڈی سازش کیس کے تحت گرفتاری کا واقعہ تھا۔ ۰۹ مارچ، ۱۹۵۱ء کو فیض صاحب سجاد ظہیر اور چند دوسرے افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ فیض احمد فیض چار سال دو ماہ تک مختلف جیلوں میں قید رہے دوران قید پہلے تین ماہ قید تنہائی کی سزا ملی حتیٰ کہ کاغذ قلم استعمال کرنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ قید تنہائی کے خاتمے کے بعد ۱۹۵۵ء میں دیگر اسیروں کے ساتھ رہا ہوئے۔ رہائی کے بعد فیض صاحب لندن چلے گئے۔ ۱۹۵۸ میں فیض پاکستان واپس آئے لیکن جیل خانہ ایک بار پھر ان کا منتظر تھا ۔اسکندر مرزا کی حکومت نے کمیونسٹ مواد شائع اور تقسیم کرنے کے الزام میں ان کو پھر گرفتار کر لیا۔ اس بار ان کو اپنے مداح ذوالفقارعلی بھٹو کی کوششوں کے نتیجہ میں۱۹۶۰ میں رہائی ملی اور وہ پہلے ماسکو اور پھر وہاں سے لندن چلے گئے۔ ۱۹۶۲ میں ان کو لینن امن انعام ملا۔لینن انعام ملنے کے بعد فیض صاحب کی شہرت،جو ابھی تک ہندوستان اور پاکستان تک محدود تھی ،ساری دنیا بالخصوص سوویت بلاک کے ممالک تک پھیل گئی۔ انھوں نے کثرت سے غیرملکی دورے کئے اور وہاں لیکچر دئے۔ ان کی شاعری کے ترجمے مختلف زبانوں میں ہونے لگے اور ان کی شاعری پر تحقیقی کام شروع ہو گیا۔ ۱۹۶۴ میں فیض پاکستان واپس آئے اور کراچی میں مقیم ہو گئے۔ ان کو عبداللہ ہارون کالج کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا اس کے علاوہ بھی ذوالفقار علی بھٹو نے فیض صاحب کو خوب نوازا ۔ ۱۹۷۷کو جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کا تختہ الٹا تو فیض کے لئے پاکستان میں رہنا ناممکن ہوگیافیض صاحب بیروت چلے گئے۔اس وقت فلسطینی تنظیم آزادی کا مرکز بیروت میں تھا اور یاسر عرفات سے ان کا یارانہ تھا ۔ بیروت میں وہ سوویت امداد یافتہ رسالہ "لوٹس" کے مدیر بنا دئے گئے۔ ۱۹۸۲ میں ،خرابیٔ صحت اور لبنان جنگ کی وجہ سے فیض پاکستان واپس آ گئے فیض صاحب کی پوری زندگی نشیب و فراز ہی میں گِھری رہی۔ تاہم ، اس دوران ان کی اہلیہ، ایلس نے ایک سچّے ہم سفر کی طرح تمام حالات میں ان کا ہاتھ تھامے رکھا، چاہے وہ جِلا وطنی کے دن ہوں یا معاشی طور پر کٹھن حالات۔یہ خوشی کی بات ہے کہ فیض صاحب کی زندگی کے آخری ایّام میں ان کے ناقدین نے بھی انہیں ایک عظیم شاعر تسلیم کر لیا تھا فیض صاحب ، ۲۰، نومبر ۱۹۸۴ء کو لاہور میں حرکتِ قَلب بند ہونے سے انتقال کر گئے۔فیض صاحب کی رحلت سے اردو ادب میں جو خلاء پیدا ہوا ، اُسے تو پُر نہیں کیا جا سکے گا، پر وہ آج بھی اپنے کلام کی صُورت ہمارے دلوں میں زندہ ہیں اور اُن کی شاعری کی خُوش بُو ہمارے دلوں کو معطّر کر رہی ہے فیض صاحب کے شاعری مجموعے میں نقش فریادی، دست سبا، نسخہ ہائے وفا، زنداں نامہ، دست تہہ سنگ، میرے دل میرے مسافر اور دیگر قابل ذکر ہیں۔ فیض صاحب کے مجموعات انگریزی، فارسی، روسی، جرمن اور دیگر زبانوں میں تراجم شائع ہوچکے ہیں۔ اردو ادب کے بہت سے ناقدین کے نزدیک فیض صاحب غالب اور اقبال کے بعد اردو کے سب سے عظیم شاعر ہیں۔
فیض احمد فیض کا یوم وفات پر ان کے کچھ منتخب اشعار بطور خراج عقیدت جنہیں پڑھ کر ان کی شعری عظمت کا احساس ہوتا ہے.
ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیم صبح وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔
دل میں اب یوں ترے بھولے ہوئے غم آتے ہیں
جیسے بچھڑے ہوئے کعبہ میں صنم آتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
۔۔۔۔۔۔۔
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
۔۔۔۔۔۔۔
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
۔۔۔۔۔۔۔
کر رہا تھا غم جہاں کا حساب
آج تم یاد بے حساب آئے
۔۔۔۔۔۔۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
۔۔۔۔۔۔۔
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے
۔۔۔۔۔۔۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
۔۔۔۔۔۔۔
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
۔۔۔۔۔۔۔
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
۔۔۔۔۔۔۔
اور کیا دیکھنے کو باقی ہے
آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا
۔۔۔۔۔۔۔
نہ جانے کس لیے امیدوار بیٹھا ہوں
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہ گزر بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی
سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی
۔۔۔۔۔۔۔
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
۔۔۔۔۔۔۔
تیرے قول و قرار سے پہلے
اپنے کچھ اور بھی سہارے تھے
۔۔۔۔۔۔۔
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
۔۔۔۔۔۔۔
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
۔۔۔۔۔۔۔
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
۔۔۔۔۔۔۔
نہ رہا جنون رخ وفا یہ رسن یہ دار کرو گے کیا
جنہیں جرم عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے.