انشا کی نثری تصانیف دریاۓ لطاقت
دریائے لطاقت‘‘، انشا کی اہم تصنیف ہے جو نواب سعادت علی خاں کی فرمائش پرلکھی گئی ہے۔انشاء اللہ خان انشاء نے اسے فارسی زبان میں لکھا ہے لیکن اس کا موضوع اردو زبان اور اس کی قواعد ہے ۔ دریاۓ لطافت‘‘ اردو زبان وقواعد کی پہلی کتاب ہے جسے کسی اہل زبان نے لکھا۔ اس کی تصنیف میں میرزا محمد حسن قتیل بھی انشا کے ساتھ شریک تھے۔ اس شرکت کی وجہ انشانے یہ بتائی ہے کہ
ایں ہمہ فرصت بدست نیامد که تنها رنگ بر چهره این نقش بدایع کشم ۔ میرزا محمد حسن قتیل را نیز که رو کرده او بے تامل رد کرد و من و پسندیده او پسند یدہ اسی کز مرزبان بودوات واز صفرین میان من واو ور ہر چیز حقہ برادرانہ قرار پذیرفته شریک این دولت اید مدت ساختم۔ چنتیں مقرر شد که خطبه کتاب داشت و محاورہ اردو و هر چه صحت و سقم آن باشد و مصطلحات شاہجہاں آباد وعلم صرف ونحواہیں زباں را راقم مذنب یعنی بند کمترین بنده درگاه آسمان جاو انشا بنویسید ومنطق وعروض و قافیه و بیان و بدیع را اد بقید قلم در آرد (۱۰۵) (اردوترجمہ دیکھیے : حواشی ب )
مرشد آباد کا مطبوعہ نسخه ۵ ۴۷ صفحات پر مشتمل ہے جس میں ۳۰۹ صفحات انشا کے لکھے ہوئے ہیں اور ۱۲۶ صفحات قتیل کے لکھے ہوۓ ہیں ۔ کتاب کا ’’خاتمہ“ بھی انشا نے لکھا ہے۔ یہ پہلا مطبوہ نسخہ ہے۔ اس کے بعد مولوی عبدالحق نے دریائے لطافت‘‘ کو مرتب کر کے ۱۹۱۶ء میں الناظر پریس لکھنو سے چھپوا کر انجمن ترقی اردو اورنگ آباد سے شائع کیا۔ ترتیب دیتے وقت عبدالحق صاحب نے انشا کا’’خطبہ‘‘ خارج کر دیا۔ حروف بجھی سے ترتیب دے کر انشانے جو جدت کی تھی اسے بدل کر مروجہ طریقہ اختیار کیا اور ساتھ ساتھ وہ مبتذل مثالیں بھی خارج کرو میں جوانشانے لکھی تھیں۔اس کے ساتھ منطق ،عروض وقوافی کا ووضہ، جوقتیل کا لکھا ہوا تھا اپنے مرتبہ دریاۓ لطافت سے نکال دیا۔صرف بیان ومعنی کا بیان نمونے کے طور پر رہنے دیا۔[۱۰۲] اس کے بعد انجمن ایڈیشن کا اردوترجمہ پنڈت برج موہن دتاتر بی کیفی دہلوی نے کیا جوانجمن ترقی اردو اورنگ آباد سے ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا ۔ اس ترجمے میں چونکہ متعدد غلطیاں ہیں اور اکثر مقامات پر مفہوم بھی خبط ہو گیا ہے اس لیے ضرورت ہے کہ مرشد آبادی نسخے کو بغیر کسی کمی بیشی کے ،حواشی کے ساتھ، دوبارہ اردو میں ترجمہ کر کے اس کے دوحضنے کر دیے جائیں ایک دریاۓ نظافت‘‘ حصہ اول از انشا اور دوسراور دریائے لطافت کا حصہ دوم از میرزاخر حسن قتیل ۔ اس کتاب کی تالیف میں چونکہ انشاء بھی دونوں شریک تھے اس لیے دونوں نے کتاب کے دو دو نام تجویز کیے۔ انشانے’’ارشادنامی‘‘اور’’ بحرالسعادت‘‘ نام تجویز کیے ۔ دونوں ناموں میں ناظم الملک بہادرنواب سعادت علی خاں کے نام کی مناسبت موجود ہے۔ ان ناموں کی وجہ انشا نے یہ بتائی ہے کہ بارشاد ناظم الملک بہادر تالیف پذیر نی ۱۰۷] مرز اقتیل نے دریائے لطافت‘‘ اور ’’حقیقت اردو نام تجویز کیے اور یہ کتاب’’دریاۓ لطافت‘‘ کے نام سے موسوم و مشہور ہوئی۔ اس تالیف کا قطعہ تاریخ تصنیف انشا نے لکھا جس کے الفاظ اردوۓ تاہمی‘‘ سے ۱۲۲۲ھ برآمد ہوتے ہیں۔
’’دریائے لطافت‘‘ کی ابواب بندی میں بھی جدت پیدا کی گئی ہے۔ یہ کتاب ایک صدف اور سات جزیروں پرمشتمل ہے۔صدف میں پانچ دردانے ہیں جن میں علی الترتیب: (۱) کیفیت زبان اردو، (۲) تمیز محلات دہلی (۳) ذکر بعضے فصیحان، (۴) ورمصطلحات دہلی ، اور (۵ ) در گفتگو و مصطلحات زنان دہلی کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس کے بعد جر مرے آتے ہیں ۔ جزیرہ اول میں علم صرف پر بحث کی گئی ہے جس کے ذیلی ابواب کو شہراول ،شہر دوم وغیرہ کا نام دیا گیا ہے۔ جزیز و اول چار شہروں پرمشتمل ہے۔ جزیز و دوم میں مباحث وکولیا گیا ہے اور اس بحث کو چار شہروں یعنی ذیلی ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ حصہ انشا نے لکھا ہے ۔ اس کے بعد جزیزہ سوم میں علم منطق پر بحث کی گئی ۔ جزیرے کو سلطنت اول و سلطنت دوم میں تقسیم کر کے سلطنت کے پانچ ذیلی ابواب کو شہر اول ،شہر دوم وغیرہ کا نام دیا گیا ہے اور سلطنت دوم کے گیارہ ذیلی ابواب کو بلدہ اول و بلدۂ دوم و غیرہ کا نام دیا گیا ہے ۔۔ جزیرہ چہارم میں علم عروض پر بحث کی گئی ہے اور اس کے ساتھ ذیلی ابواب کو شہر کا نام دیا گیا ہے۔ جزیرہ ٹیم میں پادشہر (باب ) ہیں جن میں قافیہ پر بحث کی گئی ہے۔ جزیرہ ششم میں بھی چار شہر (باب) ہیں اور ان میں علم بیان کو موضوع بحث بنایا ہے اور اسی طرح جزیرہ ہفتم میں دوشہر ( باب ) اور ایک باغ ‘‘ ہے ۔ شہروں ( ابواب میں علم بدیع کو اور باغ‘‘ کے ذیل میں اقسام معظم وذکر فواید دیگر پر بحث کی ہے ۔ محضہ قتیل نے لکھا ہے۔
’’دریاۓ لطافت‘‘ کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پہلی باراردو زبان کے مزاج کو سامنے رکھ کر اس کے قواعد و اصول بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں انشا کے سامنے وہ زبان ہے جو ان کے چاروں طرف بولی جارہی ہے۔ اسے پڑھتے ہوۓ محسوس ہوتا ہے کہ فی الواقع اردو ایک الگ زبان ہے جوعربی فارسی ترکی وغیرہ کے اثرات کے باوجوداپنی الگ شخصیت اورا پنا الگ مزاج رکھتی ہے۔ اردو زبان کے سلسلے میں اس زاویہ نظر کواپنا کر صحیح معنی میں زبان کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے مثلا ۔
(۱) جمع کے قاعدے کے ذیل میں انشانے لکھا ہے کہ: ( الف ) اگر مفرداسم کے آخر میں الف ہو اور وہ اسم مذکر ہو تو الف کو پاۓ مجبول سے بدل دیتے ہیں جیسے پیڑا( پیڑے)، خربوزا ( خربوزے)، کیلا ( کیلے )، گھوڑا ( گھوڑے) وغیرہ۔ (ب) اگر مفرد کے آخر میں پاۓ معروف ہو اور وہ مذکر بھی ہونگر حیوان کا نام نہ ہو جیسے ہاتھی ۔ نہ شہر کا نام ہو جیسے کی اور نہ یاۓ زاید ہو جیسے جوگی ، بیراگی ،سیاسی ، پنجابی ، وغیرہ تو مفرداسم کے آخر میں’’اں‘‘ لگانے سے جمع بنے گی حلیے مولی ( مولیاں ) ۔ کچوری ( کچوریاں )، چوکی (چوکیاں )، دری( دریاں )، بولی (بولیاں )،
گالی ( گالیاں ) وغیرہ ۔اسی ذیل میں انشا نے لکھا ہے کہ ہم نے میقا عدہ اردوالفاظ سے متعلق بیان کیا ہے اور زبانوں کے الفاظ سے سروکار نہیں۔ اگر لفظ’’ کھٹیا کی جمع پر وہ قاعدہ، جو’’ پیڑا‘‘ کے لیے لکھا ہے، عاید نہ ہو تو ہمارا اصول ناقص نہیں شہرتا کیونکہ یہ لفظ اردو نہیں اور اس کے سوا جو لفظ مذکر نہیں جیسے’’انگیا‘‘ اس کی جمع تانیث کی وجہ سے اس قاعدے کے تحت درست نہ ہوگی ، اس لیے شروع ہی میں تذکیر کی قید لگادی ہے۔ ( ج ) جس مونث لفظ کے آخر میں یا ء معروف کے سوا اردو کا کوئی بھی حرف ہو اس کی جمع پاۓ مجہول اور نون غنہ سے بنے گی جیسے ماں ( مائیں ) بات (باتیں) یاد ( یادیں ) گاجر ( گاجریں ) بندش ( بندشیں ) رقاص (رقاصیں ) کم ظرف ( کم ضرفیں وغیرہ۔( و ) جس مذکر لفظ کے آخر میں الف اور یاۓ معروف نہ ہو وہ مفرد اور جمع میں ایک ہی رہے گا جیسے پانچ لڈ و، دس کرو ، چپارسالن ،آٹھ تربوز ،سات بیگن ،وغیرہ۔ پھر اردو زبان کے مزاج کو واضح کرتے ہوۓ لکھا ہے کہ جس لفظ کی جمع اردو میں مفرد کے خلاف ہو اس کا مفر ولا نا درست نہیں سوائے اس کے کہ وہ کسی فرد واحد کی تمیز کر نے والا ہومثلاً ایک گھوڑا، ایک مولی ، ایک گاجر، دوگھوڑا، تین مولی ،تین گا جر کہنا صحیح نہیں ۔۔ بنگالہ اور پورب والے اس طرح بولتے ہیں لیکن شاہجہاں آباد میں کوئی اس طرح نہیں کہتا۔
(۲) کوئی لفظ اردو ہے یا نہیں اس کے بارے میں انشا نے بی معیار بتایا ہے کہ کسی لفظ کے اردو نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اردو میں حرف کی کمی بیشی سے دو لفظ خراو پر نہیں چڑھا خواہ دوسری جگہ مروج ہو۔ مختصر یہ کہ ان لفظوں کے سوا جنھیں شہر کے فصیح اور غیر سے اور دوسری جگہ کے باشندے استعمال کر میں ایسا ہر لفظ جس کو اہل شہر دو تلفظوں میں ادا کر میں ان دونوں میں جو تلفظ کہ دوسری جگہ مروج نہ ہوز بان اردو ہے۔
(۳) انشا نے اردو زبان اور اس کے بولنے والوں کی صوتیات کا لحاظ رکھتے ہوۓ لکھا ہے کہ اردو کے طالبوں سے پوشیدہ نہر ہے کہ عربی وفارسی کے بعض سہ حرفی الفاظ کے درمیانی حرف کو اردو میں ساکن سے متحرک بنا دیتے ہیں جیسے شرم، کوفرم ، گزم کو گرم ۔ اسی طرح کبر ،نرم نیز بعلم بعقل فر بگل ، فکر وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ یہ سب الفاظ ساکن الاوسط ہیں ۔ارود میں بعض قابل لوگوں کے روز مرہ کے سوا جو عام استعمال کا لحاظ نہ کر کے تحقیق پر نظر رکھتے ہیں متحرک الا وہ یہ تلفظ میں آتے ہیں ۔ اسی طرح بعض متحرک حرفوں کو ساکن کر دیا جا تا ہے جیسے بھر میت کو بشریت بولتے ہیں ، محل اور نظر میں بیچ کا لفظا مفتوح ہے اور مضر وحالت میں اس طرح ادا ہوتا ہے لیکن جمع کی حالت میں فتہ سکون سے بدل جاتا ہے جیسے نظروں محلوں اور پھر یہ قبروں کے وزن پر بولے جاتے ہیں۔ سی استعمال پر موقوف ہے ور نہ نظر اور محل کے وزن پر نہیں بلکہ متحرک الاوسط ہیں جب کہ قبر ساکن الاوسط ہے اور پھر بتایا ہے کہ عام استعمال کا اتباع واجب ہے اور اردو زبان کے مزاج کے مطابق ہے۔
(۴) ایک اور جگہ لکھا ہے کہ جاننا چاہیے کہ جولفظ اردو میں آیاد واردو ہو گیا خواہ وہ لفظ عربی ہو یا فاری متر کی ہو یا سریانی ، پنجابی ہو یا پور بی ۔ اصلی کی رو سے غلط ہو یا بیچ ۔ وہ لفظ اردو کا لفظ ہے ۔ اگر اصل کے مطابق مستعمل ہے تو بھی صحیح اور اگر اصل کے خلاف ہے تو بھی کی۔ اس کی صحت اور غلطی اس کے اردو میں رواج پکڑنے پر منحصر ہے کیونکہ جو چیز اردو کے خلاف ہے وہ غلط ہے کو اصل میں میچ ہو اور جواردو کے موافق ہے وہی صیح ہے خوہ اصل میں میں نہ بھی ہو۔ اس کی بہت سی مثالیں انشا نے دی ہیں مثلا لفظ’’قلفی‘‘ قابل اور نا قابل اور عوام و خواص سب کی زبان پر چڑھا ہے۔اس لیے اب یہی لفظ صحیح ہے ۔اسی طرح ’’معنی‘‘ کو اہل اردو’’ماعنی‘‘ بولتے ہیں، شعر‘‘ کو’’شیر‘‘ ادا کرتے ہیں، پر ادا کو پجاوا، پیالہ ،ستاره، پیالا استارا بولتے ہیں، برقع کو برقا فصیل کونفیل ، قد رکوند ر، تند رکوند رو ضد رکوضد ر ، منذ رکوند رو قطعہ کے بجاۓ قطعہ بولتے ہیں اور چونکہ یہ الفاظ عوام اور خواص تعلیم یافتہ دغیر تعلیم یافتہ دونوں اسی طرح بولتے ہیں تو یہ سب اردو میں اور تی ہیں ۔
(۵) انشانے اردوزبان کی صوتیات کا خیال رکھتے ہوۓ ایک اصول اور بتایا ہے کہ عربی میں ایک کلمہ میں توالی حرکات اربعہ ممنوع ہیں ۔اردو میں یہی صورت توالی حرکات ثلاثہ کے ساتھ ہے مثلا ایک نام ہے شرف النساء۔اس کا بیج عربی تلفظ شرف التاء ہے لیکن اردو میں دوسرے حرف کوسکون کے ساتھ بولنا اچھا ہے یعنی شرف النساء فتح کے ساتھ غلط اور مکروہ ہے اگر چہ اصل کے اعتبار سے بیچ ہے ۔ اس طرح مگر ان کو کاف کے ساکن یعنی فکرانہ اورنظروں کو نظروں بولنا اور باندھنا مسیح اور مسیح ہے ۔
(۲) کسرۂ اضافت کے سلسلے میں انشانے لکھا ہے کہ دو ہندی لفظوں یا ایک ہندی اور ایک غیر ہندی ( عربی فاری وغیرہ ) کے ساتھ کسرۂ اضافت کا استعمال غلط ہے لیکن فاری عبارت میں اشیا کی حقیقت کے بیان میں دونوں صورتیں جائز ہیں ۔انشانے اس کی اجازت صرف قاری عبارت میں دی ہے لیکن آج ودار ولقتلوں یا ایک عربی فاری لفظ ادرار و دلفظ میں اضافت بھی جائز ہے ۔اس سے اظہار میں نئی قوت پیدا ہو جاتی ہے ۔ آج سب لب سڑک‘‘ بولتے ہیں۔اس کے لیے اس سے بہتر اور کوئی ترکیب نہیں ہے۔ میر کے زمانے میں سیطریقہ رائج تھا مثلا میر کا یہ مصرع دیکھیے که کس خوبصورتی سے اضافت کا استعمال کیا ہے: ھے اس طفل ناسمجھ کو کہاں تک پڑھائے۔ میں نے اس تبلد میں خود بھی اس طرح اضافتوں کا استعمال کر کے نثر میں روانی اور جملے کے آہنگ میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان اصولوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اردو زبان کا اپنامزاج ،اپنی صوتیات اور اپنی پہچان ہے۔اسے عربی فارسی متر کی یا سنسکرت کی ذیلی زبان بنا کر اس کے قطری نشو ونما اور ارتقا کو روکنا کسی طرح سیج نہیں ۔ انشانے’’دریاۓ لطافت‘‘ میں لکھا ہے کہ اردو کئی زبانوں کا عطر ہے اس لیے اس کے حروف بھی کی تعداد زیادہ ہے اور اسی لیے اہل ارودان تمام آوازوں کو آسانی سے ادا کر سکتے ہیں جہاں اہل عرب ، اہل ایران اور اہل ہند عاجز رہتے ہیں ۔اردو رسم الخط میں (۲۸) حروف عربی کے، (۴) فارسی کے بینی پ، چ، ژ گ اور ہندی کے :ٹ، ڈار ہیں ۔ اس طرح کل حروف تہجی کی تعداد ۳۵ ہے ۔ لیکن انشانے’’ن ۔‘‘ہ ۔ن‘‘اور’’ی‘‘ سے مخلوط ہونے والے حرفوں کو ملا کر ان کی تعداد ۸۵ بتائی ہے میرے خیال سے حروف تہجی کی تعداد کو بڑھانے کی اس لیے ضرورت نہیں ہے که وان ،ی وغیرہ حروف پہلے سے (۳۵) حروف تہجی میں موجود ہیں اور دوحرفوں کو ملا کر ہر آواز کو آسانی سے لکھا ادرادا کیا جا سکتا ہے۔ مخلوط حروف کو حروف تہجی میں شامل کرنا بے فائدہ اور بے ضرورت ہے ۔
انشانے مختلف فرقوں اور مختلف طبقوں کی زبان سے بھی بحث کی ہے اور ان کی زبان کے نمونوں سے اپنے زاویۂ نظر کو واضح کیا ہے ۔ پھر یہ بھی بتایا ہے کہ پرانی وقی کی زبان کی کیا خصوصیت ہے ، عام کشمیریوں کی زبان کیسی ہے، سادات بارہہ کے محلہ کی زبان کیسی ہے ۔ افغانوں اور باہر سے آۓ ہوۓ لوگوں کی زبان کیسی ہے ۔ مغل پورہ، اور پنجابی اور پور ہے کی اردو کی کیا صورت ہے ۔انشا نے ان سب کی اردو کے نمونے دے کر پھر فصاحت پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دہلی میں بھی فصاحت اور بلاغت ہر کسی کا حصہ نہیں ہے بلکہ معد و داشخاص پر منحصر ہے۔ پھر یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کی فصاحت شاہجہاں آباد میں پیدا ہونے پر منحصر نہیں کیونکہ فصاحت کے لیے ضروری ہے کہ وہ تین عیوب سے پاک ہویعنی (۱)’’ تنافر حروف‘‘ ’’ تنافر کلمات‘‘اور’’ تعقیدہ سے (۲) غرات لففلی یعنی اس میں نامانوس اور غیر متعارف الفاظ کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔ (۳) مخالفت قیاس لغوی معنی لغت کا استعمال خلاف قیاس نہ کیا گیا ہو ۔ جس کا کلام ان عیبوں سے پاک ہو، و نفی ہے۔
انشا نے زبان کی بحث میں لہجے کو خاص اہمیت دی ہے ۔ اسی طرح مختلف لسانی مسائل پر بحث کرتے ہوۓ جو مثالیں دی ہیں وہ دریاۓ اطافت‘‘ کی اہمیت کو دو چند کر دیتی ہیں ۔ میر غفرغینی کی گفتگو ان مثالوں میں انتہائی دلچسپ اور ٹکسالی اردو کا نمونہ ہے۔ انشا نے ٹکسالی زبان کے سلسلے میں دہلی کی زبان کومستند مانا ہے لیکن ساتھ ہی اہل لکھنو کی زبان کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں والے (اہل لکھنو ) اس کا بہت خیال رکھتے ہیں کہ ہم پورب میں ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں کے آدمیوں کی زبان کی عادت پڑ جاۓ اس وجہ سے اپنے ماں باپ اور دوسرے بزرگوں سے، جو شاہ جہاں آباد سے آۓ ہیں، الفاظ کی تحقیق کرتے رہتے ہیں..... پھر اس شہر میں فصیح دہلویوں کی اتنی کثرت ہے کہ ان کا شمار نہیں ....... اوراب پیش لکھنو نہیں رہا،شاہ جہاں آباد ہو گیا۔..... پس شاہجہاں آبا وقالب بے جان ہے اور لکھنو اس کی جان ہے اور جہان کو جسم پر تر جیح ہے (۱۰۹]
انشانے دہلی کے روز مرہ ومحاورہ پر مثالوں کے ساتھ بحث کی ہے۔ شاہ جہاں آباد کی عورتوں کی زبان کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی زبان مردوں کے سوا، سارے ہندوستان کی عورتوں کی زبان سے صحیح ہے۔ ان کی ایک اپنی ہی زبان اور اسلوب ہے ۔ جولفظ ان میں رواج پا گیا اردو ہو گیا خواہ وہ کسی زبان کا لفظ ہو [۱۱۰] اس بحث کے بعد انشانے’’ علم صرف‘‘ کو بیان کیا ہے ۔ اس میں’’ تعد بھل‘‘ ( لینی فعل لازم کو مقیدی بنانا ) کی بحث بالکل نئی اور اہم ہے ۔ علم صرف‘‘ کے بیان میں بھی اردوزبان کے مزاج کو ساری بحث کی بنیاد بنایا ہے اور بولی جانے والی ٹکسالی زبان سے اصول اخذ کیے ہیں۔ یہی صورت’’ علم نحو کی بحث میں برقرار رہتی ہے ۔ اس میں’کلمہ‘‘ (بولی) کی تین قسمیں بتائی ہیں فیصل ،اسم ، حرف اور اس کے بعد قواعد زبان کی دوسری تفصیلات اور مباحث اس کے ذیل میں بیان کیے ہیں ۔ دریاۓ لطافت کا یہ ساراحضہ انشا کی تصنیف ہے۔
اس کے بعد علم منطق علم عروض علم بیان و بدیع والا حصہ مرزا محمد حسن قتیل کی تصنیف ہے۔ اس حصے میں دو باتیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ قتیل نے باب منطق میں بہت سی عربی اصطلاحات کے اردو تراجم استعمال کیے ہیں اور دوسرے علم عروض میں یہ اختراع کی ہے کہ بجاۓ ’’ مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن‘‘ کے نئے مترادفات بی جان پری خانم ، بی جان پری خانم‘اور’’ فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن‘‘ کے بجاۓ چپت لگن پری خانم ، چت لکن پری خانم استعمال کیے ہیں۔ یہی صورت دوسری بحور کے ساتھ ہے۔ انشا اور قتیل دونوں نے دریائے لطافت‘‘ میں اردو زبان کو عربی وفاری کے تسلط سے آزاد کرانے اور اسے ایک الگ ممتاز حیثیت دینے کی شعوری کوشش کی ہے۔ اس اعتبار سے بھی یہ تصنیف اپنی اولیت بطبع زاویت، جدت پسندی اور اصول قواعد کے نئے صحت مندر خان کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ انشا نے’’ دریاۓ لطافت‘‘ میں چند ایسے کردار پیش کیے ہیں جو نہ صرف اپنے طبقے کی زبان بولتے ہیں بلکہ خوداپنے طبقے کے بھر پور نمائند ہ ( ٹائپ بھی ہیں ایسے میر غفرینی ، بھاڑامل ، براقی ٹیم، نورن کسی وغیرہ ۔انشا کے خلا قائد ذہن میں افسانہ لکھنے اور کردار تخلیق کرنے کی بڑی صلاحیت تھی ۔ دریاۓ لطافت کا یہ حصہ زبان سے بحث کرنے کے بجائے غیر معمولی تخلیقی قوت کا اظہار کرتا ہے۔