مکتوب نگاری
(Letter Writing)
اردو ادب میں خطوط نگاری پر ایک مفصل مضمون ملاحظہ فرمائیں۔
مکتوب کے لغوی معنی،’’ لکھا گیا‘ یا ’ لکھا ہو‘ کے ہیں لیکن عام طور پر مکتوب سے مراد خط لیا جا تا ہے ۔ مکتوب نگاری ایک اہم صیب نثر ہے بلکہ یا ایک فن ہے ، ایسافن جس سے ہر پڑھنے لکھنے کا واقف ہونا ضروری ہے ۔ ہر چند آج الیکٹرانک تک کا دور، ہر جانب اسی کا راج اور کسی حد تک مکتوب نگاری کی جگہ الیکٹرانک میڈیا نے لے لی ہے تاہم کسی شخص کے بارے میں اس کے خیالات و کیفیات سے آگاہ ہونے اور علم وادب کے لحاظ سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ اسی بنا پر مکتوب نگاری ہر زبان کے نصاب میں داخل ہے ۔ مکتوب ، کا تب کی عادات و میلانات کا آئینہ دار اور اس کے جذبات و احساسات کا تر جمان ہوتا ہے ۔شایدای بنا پر خط کو’’نصف ملاقات‘‘ کہتے ہیں بلکہ مرزا غالب نے تو خط کو دو بدو باتیں کرنے کے مترادف قرار دیا ہے جیسا کہ وہ اپنے ایک شاگر دمرزا حاتم علی بیگ مہر کے نام خط میں لکھتے ہیں: "مرزا صاحب! میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے، ہزاروں سے یہ زبان قلم با تیں کیا کرو ، ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔‘‘ مکاتیب غالب اپنی جدت اور ندرت کی بنا پر اردو ادب کا ایک گراں بہا سرمایہ ہے ۔ اگر چہ مرزا غالب سے پہلے بھی خط لکھے جاتے تھے مگر ان کا بالعموم انداز سجع متلی ہوتا اوران میں لکھنے والا اپنی لیاقت بگھارنے کی کوشش کر تا تھا ، برخلاف اس کے مرزا نے سبک انداز اپنایا اور خط کو معاشری خدوخال کے ساتھ ساتھ زبان وادب کے لحاظ سے بھی بڑا موثر ومعتبر بنا دیا۔ مرزا غالب کے اردو خطوں کے مجموعے’’اردوے معلی‘‘اور’’عود ہندی‘‘ اردو مکتوب نگاری کا پہلا سنگ میل ہیں ۔
بڑی بڑی سیاسی وادبی شخصیات کے مکاتیب چوں کہ اس دور کی سیاست اور معاشرت کے عکاس ہوتے ہیں ، اس لیے آنے والے وقتوں میں یہی مکاتیب ایک تاریخی دستاویز بن جاتے ہیں ۔ جس طرح مرزا غالب کے مکاتیب سے، 1857ء میں دتی کے قیامت خیز حالات کی مستند تاریخ مرتب ہوسکتی ہے ، اسی طرح علامہ اقبال اور قائد اعظم کے ما بین خط کتابت سے تحریک آزادی کے بعض واقعات پر خوب روشنی پڑتی ہے ۔ مکاتیب کے حوالے سے ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’غبار خاطر‘‘ جو دراصل ان کے مکاتیب کا مجموعہ ہے، بڑی اہم ہے۔ علاوہ ان میں ڈپٹی نذیراحمد ،اکبرالہ آبادی،عبدالماجد دریابادی ،سید سلیمان ندوی، رشید احمد صدیقی ،جگر مرادآبادی، میں ان دونوں میں اتنا گہر تعلق ہے کہ انھیں جدا کر تا کار دشوار ہے ۔ طرفن کی ضرورت ہے جب کہ مزاح طنز کالا زمہ۔ مزاح کا مقصد محض ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے جب کہ طنز کا مقصد سوچنے کی دعوت دینا اور اصلاح کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے ۔“
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو طنز و مزاح ادب کی مشکل صنف ہے اور اس میں لکھنے والے کو بہت محتاط ہو کر لکھنا
پڑتا ہے۔
اردوادب میں طنز ومزاح، کی صحت مند اور خوش گوار روایت کا آغاز مرزا غالب سے ہوتا ہے ۔مرزاغالب کے بعد ’’اودھ پنچ‘‘اور’’اودھ اخبار‘‘ نے بھی اسے فروغ دیا ۔ اس کے بعد کے مزاح نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی اور پطرس بخاری شامل ہیں ۔ ان لوگوں کوار دومزاح نگاری میں سند کا درجہ حاصل ہے ۔ ان تینوں مزاج نگاروں کے مضامین کے مجموعے بالترتیب ’’ مضامین فرحت‘‘ ’’ مضامین رشید‘‘ اور ’’پطرس کے مضامین‘‘ کے ناموں دور حاضر میں طنز و مزاح نے بہت ترقی کی ہے اور بے شمار ادیب اس صنف ادب میں مستند حیثیت رکھتے ہیں ، جن میں ابن انشاء، مشتاق احمد یوسفی شفیق الرحمن ، کرنل محمد خاں ، ابراہیم جلیس ، سیدضمیر جعفری ، محمد خالد اختر ، عطاءالحق قاسمی سے شائع ہوکر قبول عام کا درجہ حاصل کر چکے ہیں ۔
اور ڈاکٹر اشفاق، احمد ورک شامل ہیں ۔ جب تک انسان زندہ ہے ، اس کی یہ فطرت بھی زندہ ہے ۔سید ضمیر جعفری نے کیا خوب کہا ہے۔
غم نے کب آدمی کو چھوڑا ہے
خوب ہنس لو کہ وقت تھوڑا ہے
امید ہے کہ آنے والے دور میں یہ صنف اور بھی مقبول ہوگی کیوں کہ لوٹ غرض سے مردہ جذبات کو تر و تازہ کرنے کے لیے انسان کے پاس اس سے زیادہ مؤثر ذریعہ شاید کوئی اور نہ ہوگا۔
اور حسب موقع قلم اٹھایا تھا ، انھیں مجلس ترقی ادب لاہور نے سولہ جلدوں میں طبع کیا ہے ۔ سرسید کے رفیقوں نے جو مضامین و مقالات لکھے وہ بھی اردوزبان وادب کا ایک وسیع ذخیرہ ہے ، جس کی تفصیل میں جانے کے لیے ایک علیحدہ دفتر درکار ہے اور اس کی یہاں گنجائش نہیں مگر ہم اتناضر در بتاتے چلیں کہ سرسید اور ان کے رفقا نے مضامین و مقالات کے ذریعے اردوزبان کی بڑی خدمت کی اور لوگوں پر واضح کر دیا کہ اردوزبان تہی دامن نہیں بلکہ اس میں دقیق سے دقیق اور روکھے سے روکھے موضوع پر بھی بآسانی گفت گو ہوسکتی ہے ۔
نوٹ: موقع کی مناسبت سے ہم اپنے طلبہ پر واضح کر دیں کہ مضمون اور مقالہ درحقیقت ایک ہی صنف کے دوروپ ہیں ۔ دونوں کے درمیان فرق صرف اتنا ہے کہ مضمون قدرے مختصر ہوتا ہے اور پانچ چھے صفحات سے زیادہ طویل نہیں ہوتا اور اس کا اسلوب تاثراتی اور مفہوم سادہ وسلیس ہوتا ہے جب کہ مقالہ مضمون کی نسبت کہیں زیادہ طویل اور عالمانہ و فاضلانہ ہوتا ہے اور اس میں ایک تو مضمون کی نسبت گہرائی ہوتی ہے اور دوسرے وہ تحقیقی نوعیت کا ہوتا ہے ۔ انشائیہ بھی مضمون ہی کی ایک دوسری شکل ہے مگر ایک انشایے کا انداز مضمون کے منطقی انداز کے برعکس غیر رسمی ہوتا ہے اور اسے کہیں سے بھی شروع کر کے کہیں بھی ختم کیا جا سکتا ہے ۔ دوسرے انشایئے کی زبان شستہ ورواں ہونے کے بجاۓ زیر لب تبسم کا انداز لیے ہوئے شگفتہ اور غزل کی طرح رمز و کنائے کی زبان ہوتی ہے اور انشائیہ لازمی طور پر انشائیہ نگار کے داخلی جذبات و تاثرات کا ترجمان ہوتا ہے یعنی اس میں مصنف کی ذات کی جھلک بھی نظر آتی ہے ۔