تاریخی اور غیر تاریخی ناولوں میں فرق
انگریزی ادب سے اردو ادب، میں منتقل ہونے والے اصناف میں سے ناول کی اہمیت بہت زیادہ ہے عام قاری کیلئے ناول میں دلچسپی کے پہلو نمایاں ہیں قصہ سے لطف لینا انسانی فطرت کا حصہ ہے کوئی بھی ناول بغیر کہانی یاقصہ کے ناول نہیں کہلا سکتا۔ ناول میں بیان کیا گیا قصہ یا کہانی بنیادی طور پر انسانی زندگی پر بنی ہوتی ہے روز مرہ کے واقعات سے مزین ہوتی ہے اردو میں غیر تاریخی ناول بھی تخلیق ہوئے اور تاریخی ناولوں کی ایک بڑی تعداد لکھی گئی تاریخ اور تاریخی ناولوں کے حوالے سے پچھلے صفحات میں بحث ہو چکی ہے ان صفحات میں غیر تاریخی ناولوں اور تاریخی ناولوں کے فرق کو واضح کرنا ہے۔ ہے۔
غیر تاریخی ناول، میں قصہ تو ہو تا ہے اور اکثر اچھاہو تا ہے مگر پلاٹ نہیں ہو تا، عام ناول پڑھنے والے میں قصہ سے دلچسپی لینے کا ملکہ ہو تا ہے مگر پلاٹ کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہوتا۔
غیر تاریخی ناول نگار کے لیے انسانی زندگی کے حالات واقعات سے کہانی کا خمیر اٹھانامشکل نہیں ہو تا اس میں نہ تو کسی خاص تاریخی شخصیت کی زندگی کا احاطہ کرنا ہو تا ہے اور نہ کسی تاریخی واقعہ کو ناول کا حصہ بنانا ہو تا ہے اپنی سوچ اور فکر کا سہارا لیکر کہانی کو شروع سے آخر تک مرضی کے مطابق موڑ دیتا ہے۔
تاریخی ناول نگار، کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی خاص تاریخی عہد اور موضوع کا انتخاب کرے اور وہ حقائق سے ہٹ کر کہانی کارخ نہیں موڑ سکتا کیونکہ تاریخی حقائق سے روگردانی کی صورت میں ناول میں دلچسپی قاری کیلئے ختم ہو جاتی ہے۔
تاریخی ناولوں کے قارئین عام ناولوں کے قارئین سے ذرا مختلف طبعیت کے ہوتے ہیں وہ اپنی تاریخ کے ایسے واقعات دلچسپ انداز میں پڑھنا چاہتے ہیں جو ان کو عظمت ورفعت کے اس دور میں لے جائیں جب ان کی قوم ثریامثال تھی لیکن جس طرح پڑھنے والے کا ذوق مختلف اور ان کی ادبی خواہش مختلف ہوتی ہے اسی طرح لکھنے والوں کا مزاج بھی عہد اور موضوع کے انتخاب کے بارے میں مختلف ہو تا ہے یہ درست ہے کہ عام طور پر ناول اپنے تاریخی واقعات کو
اپنے موضوع کے طور پر منتخب کرتے ہیں جنہیں پڑھ کر قومی خون جوش مارنے لگے عام ناول نگار جو کچھ اپنے ارد گرد دیکھتا ہے اور محسوس کر تا ہے اسی کو لفظوں کی صورت میں ڈھال کر ناول تخلیق کر تاہے عام ناول نگار کو فقرہ سازی کیلئے زیادہ محنت اور تگ و دو نہیں کرنی پڑتی نہ ہی اسے ماضی کے ادوار میں جھانکنا پڑ تا ہے اس کے سامنے روز مرہ زندگی کے حالات وواقعات کی صورت لا تعداد موضوعات موجود ہوتے ہیں انہی سے وہ ناول کی کہانی بنتا ہے جبکہ تاریخی ناول نگار تاریخ اسلام کی نامور شخصیات کو موضوع بنا تا ہے اور ان کے گرد کہانی ترتیب دیتا ہے تو اسے حد سے زیادہ محتاط انداز میں تاریخی کردار کو نبھانا پڑ تا ہے۔
ایسے کرداروں کے بارے میں عقیدت و محبت کے جذبات قارئین میں موجود ہوتے ہیں کوئی بھی ایسی بات جو ایسے کرداروں کے بارے میں عقیدت و احترام اور محبت کو ٹھیں پہنچانے والی ہو قارئین کو ناراض کر سکتی ہے خواہ ای بات مبنی بر حقیقت ہی کیوں نہ ہو اس لئے ناول نگار کو ایسی شخصیت کے بارے میں محتاط ہو کر قدم اٹھانا پڑ تا ہے وہ کوئی ایسی بات نہیں کر تا جس سے وہ اپنے قارئین کی حمد در دیوں سے محروم ہو جاۓ ۔
عام ناول نگار کو یہ شک نہیں ہو تا کہ وہ اپنے کرداروں کے ذریعے سے اصلاح احوال کا کام لے وہ بآسانی کر داروں کو توڑ موڑ سکتا ہے عام ناول نگار کا انداز اور طریقہ کار تاریخی ناول نگار سے مختلف ہو تا ہے وہ اپنے ناول کے کرداروں کو ہر انداز میں ڈھال سکتا ہے لیکن تاریخی ناول نگار کی مجبوری ہوتی ہے قارئین میں قوم وملت کے متعلق جوش و ولولہ پیدا کر نے کی شعوری کوشش کرے اور واضح پیغام بھی دے۔
ہندوستان میں جب تاریخی ناول نگاری، کا آغاز ہوا تو قوم ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد شکست خوردہ اور نڈھال تھی وہ مایوس تھے لا زمان کی نظر اپنے شاند ار ماضی کی طرف اٹھتی تھی، شرر کی دانشوری نے یہ نکتہ پالیا۔ عام ناول نگار کسی بھی علاقہ اور جغرافیائی ماحول کو ناول کا حصہ بناسکتا ہے عام ناول نگار دو طرح سے ماحول کو پیش کر تا ہے ایک ساج کے نقشے بازاروں اور علاقائی ثقافت کو پیش کر کے دوسر اقد رتی مناظر کے ذریعے اجاگر کر تا ہے جب کہ تاریخی ناول نگار عرب کے ماحول کو بر صغیر کے ماحول میں نہیں ڈھال سکتا، اسے ہر صورت میں تاریخی طور ناول کے عہد کے ماحول میں جھانکنا پڑے گا، نہ ور سم ورواج کو بدل سکتا ہے اور نہ انہیں اپنی مرضی سے تخلیق کر سکتا ہے اس ماحول میں اسلامی رویات کی پاسداری بھی نظر آتی ضروری ہے ۔ بیانات کی خوبی تاریخی ناولوں میں خاص اہمیت رکھتی ہے اس قسم کی ناولوں کا پہلا مقصد کسی خاص زمانہ کو پھر سے زندہ کر دینا ہو تا ہے اس لئے ناول نگار کی کامیابی اس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی قوت بیان سے کسی اہم تاریخی واقعے کا صحیح نقشہ کھینچ سکے وہ متعدد تاریخی واقعات کی بابت مختلف تاریخ نگاروں سے معلومات حاصل کر تا ہے اور پھر ان واقعات کو اپنی قوت تخیل کے ذریعہ ایک نئی زندگی بخشتا ہے اس سلسلہ میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ناول نگار کو حقیقت کے ساتھ اپنی تخیل ملانے کی کس حد تک اجازت دی جاسکتی ہے کیونکہ بعض ناول نگار تاریخی ناولوں میں ایسی باتیں بھی بیان کر جاتے ہیں جو ناول کے زمانے سے دور ہوتی ہیں اور یقینا یہ سوال کافی اہم ہے اور ہم کو ماننا پڑے گا کہ تاریخی ناول نگار کی تخیل کو تاریخی حقیقیت کا پابند رہناضر وری ہے ۔ عام ناول نگار اپنے ناول کے مواد کیلئے تجربات و مشاہدات کو بروئے کار لا سکتا ہے انہی مشاہدات کی بنیاد پر ناول کا مواد مرتب کر تا ہے کیونکہ اس کی معلومات اور مواد کتابی نہیں ہو تاوہ جو کچھ اپنے ارد گرد محسوس کر تا ہے اور جو کچھ اس کی نگاہوں سے گزرتا ہے اس کو اپنے لفظوں کے پیر ہن میں لپیٹ کر پیش کر تا ہے یہ فرد واحد کا مشاہدہ ہو تا ہے انہی سے نتائج مرتب کر کے کر داروں کے روپ میں ڈھلتا ہے اسے کسی صورت میں کامل نہیں قرار دیا جاسکتا ہے ڈاکٹر رشید احمد گوریجہ لکھتے ہیں۔
بظاہر عام ناول نگار، اپنے عہد کی سابی تاریخ ہی مرتب کر رہا ہو تا ہے عام ناول نگار اور تاریخی ناول نگار مواد کی فراہمی کے سلسلہ میں یہی اختلافی نکتہ رکھتے ہیں کہ عام ناول نگار کو پوری کائنات سے مواد حاصل کرنا ہو تا ہے جب کہ تاریخ ناول نگار کو مواد کی فراہمی کیلئے تجربے مواد حاصل کر ناہو تا ہے جب کہ تاریخی ناول نگار کو مواد کی فراہمی کیلئے تجربے اور مشاہدے کی نسبت علمی وجد ان پر بھروسہ کرنا ہو تا ہے کیونکہ وہ اپنے عہد معاشرت کی ترجمانی نہیں کرتا بلکہ ایک ایسے معاشرے کی عکاسی کر تا ہے جسے اس نے کبھی نہیں دیکھا تھا یہ ان دیکھا جہان ، اسے تاریخ کے صفحات سے لے کر پھر زندہ کر کے پیش کرنا ہو تا ہے ۔ ۴۸
اس میں شک نہیں کہ تاریخی ناول نگار مواد تو تاریخ سے جمع کر تا ہے لیکن اس کے سامنے مسائل حال اور مستقبل کے ہوتے ہیں وہ اس خوبصورتی سے ماضی کے واقعات کو سمیٹتا ہے کہ خود بخود حال اور مستقبل کی تصویر ذہن میں سجنے لگتی ہے دراصل اس تصویر کے پس پر دہ ناول کا فن کام کر تا ہے وہ ماضی کے واقعات، کر دار کو حال کے ساتھ فنکارانہ طور پر ایسا ضم کر دیتا ہے کہ حال کے مسائل ماضی کے اور ماضی کے مسائل حال کے لگنے لگتے ہیں لہذا ایسے نازک مقام پر تاریخ صداقت کے سلسلے میں متشدد ہو نابڑا مسکل ہے ، اسے سچائی کا دامن بھی نہیں چھوڑنا چاہیے ساتھ ہی تخیل کے ذریعے اس میں ماحول پیدا کرنا ہے ۔ عام ناولوں کیلئے کسی خاص فلسفہ حیات کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی ان کو کسی خاص نقطہ نظر سے دیکھا جا سکتا ہے اس میں سپنس ، ڈرامائی اند از ضرور ہو گا مگر وہ مقصد بیت نا پید ہو گی جو تاریخی ناولوں کیلئے ضروری ہے ، تاریخی ناول نگار کیلئے موضوع کے متعلق وسیع، مطالعہ فرض کی حد تک ہے تار کہ جو کچھ وہ اس ناول میں فلسفہ حیات پیش کر رہا ہے وہ حالات و واقعات اور شخصیات سے متصادم نہ ہو نہ ہی ناول نگار کے بیان کئے فلسفہ سے کسی کی دل آزادی ہو۔ تاریخی ناول کے واقعات کے سلسلے میں ناول نگار پر گونا گوں ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اسے بڑی سمجھ بوجھ کے بعد یہ فیصلہ کر تا پڑ تا ہے کہ تاریخی ناولوں کے سلسلے میں کسی مورخ پر کتنا اعتماد کرے کیونکہ تواریخ خود بھی بعض اوقات تضاد کی حامل ہوتی ہے۔ عام ناول نگار اپنے گردو پیش کے زمانے ، تہذہب و تمدن اور انسانوں سے کہانی کا خمیر اٹھا تا ہے جبکہ تاریخی ناول نگار کو سکی گئے گزرے زمانے کے گرد آلود ماحول ، تہذیب و تمدن اور کر داروں کی بنیادوں پر کہانی کا قصر استوار کرنا ہو تا ہے تاریخ ناول نگار اگر خدا نبی کو تاہی کرے یا کہانی کے انتخاب میں سستی کا مظاہرہ کرے تو اس کا راز طشت از بام ہو جاۓ گا اور اسے نا قابل معافی قرار دے دیا جاۓ گا جبکہ عام ناول نگار کو آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے گردو پیش کے ماحول سے جو تجربہ حاصل کرے اسے آزاد تخیل کی مدد سے پیش کر دے تاریخی ناولوں میں عموماً دوہری کہانی ہوتی ہے ایک کہانی تاریخی واقعات اور کر داروں پر مشتمل ہوتی ہے دوسری کہانی فرضی کرداروں اور واقعات پر مشتمل ہوتی ہے یہ مساوی طور پر ایک سمت میں سفر کرتی رہتی ہیں لیکن کسی نہ کسی جگہ دونوں کے سرے آپس میں مل جاتے ہیں ریل کی پٹریوں کی طرح ضمنی واقعات متوازن لا ئنوں پر چلتے ہیں ان میں تصادم نہیں ہو تا۔ عام ناولوں میں کرداروں کا اپنار نگ ہو تا ہے ہیرو کے کردار میں بے مثال حسن کا ہونالازمی جزو ہے اور بہادری بھی اس جہاں ہیروئن پر مصیبت آنے والی ہو وہاں بہادری کے جوہر دکھانا ضروری ہو جاتا ہے اور ہیروئن کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہوتی ہے پیارو محبت ، خاندانی جھگڑے، منافقتیں ، نفرتیں وغیر ہ و غیر وایسے ہی کر دار عام ناولوں کی خاص پہچان ہیں جبکہ تاریخی ناولوں میں عامیانہ پن نہیں پایا جاتا اس کیلئے خاص ماحول، سلیقہ مندی، گفتگو میں مجاہدانہ رنگ ہیرو کے انداز و اطوار سے حب الوطنی اور مذہب سے لگاوٹ اور محبت و عقیدت جھلکنا ضروری ہو تا ہے تاریخی ناول نگار کو ہر لمحہ محتاط اند از اختیار کر نا پڑ تا ہے ۔ تاریخی ناول نگار کا مسلہ کچھ اور ہے کیونکہ روز مرہ زندگی میں ہمیں جیسے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے تاریخ کی کتابوں میں عہد پارینہ یا عہد وسطی کے لوگ ویسے نہیں تھے ان کی معاشرت، تہذیب و تمدن ، گفتگو ، نظریات و عقائد ، عادات و مشاغل آج کے انسان سے بہت مختلف تھے اگر تاریخی ناول نگار تو تجربے اور مشاہدے کی بنا پر انسانی فطرت کے مرقعے پیش کرتے ہیں جبکہ تاریخی ناول نگار کو تاریخ کے دھند کوں سے صدیوں پرانی معاشرت سے انسان کی تخلیق نو کر تا ہوتی ہے تاریخی ناول نگار کا علم اکتسابی اورکتابی ہو تا ہے اور عام ناول نگار کا علم تجر باتی اور مشاہدانی ہو تا ہے۔ عام ناول نگار کیلئے شخصیت کا چناؤ کوئی اہمیت نہیں رکھتا وہ اپنی ذہنی اختراح ناول کیلئے شخصیت تراش سکتا ہے اس کردار سے ہر طرح کے کام لے سکتا ہے لیکن تاریخی ناول نگار کو تاریخی معروف شخصیات کو منتخب کر نا پڑ تا ہے عام قاری بھی ان تاریخی شخصیات کے متعلق ایک خاص نظریہ رکھتا ہے یہاں تاریخی ناول نگار کو مشکلات کا سامنا کرنا تاریخی غلطی ناول نگار کو مجرم کے درجہ تک پہنچادیتی ہے۔ یقینا تار سی ناول نگار ایک مشکل ڈگر پر گامزن رہ کر اپنے قاری کو محظوظ کر تا ہے جب کہ ناقدین اس کی ہر ادا پر گرفت کیلئے تیار بیٹھے اپنے ہیں رہا بعض زمانی او جغرافیائی معاملات کامسلہ تو اگر تشد د کے ساتھ ناقدانہ نگاہ نہ ڈالی جاۓ اور ناول نگار خود بھی اختیاط سے چلتارہا ہو تو قابل معافی ٹھہرے گا کیوں کہ معاشرتی ( عام ) ناولوں میں بھی اس قسم کی اغلاط ہوتی رہتی ہیں۔ عام ناول تخلیق کرنے والوں کے پاس معاشرے کے بکھرے ہوۓ موضوعات کا اثدہام ہو تا ہے وہ کسی بھی موضوع کو منتخب کرنے میں مکمل طور پر آزاد ہے لیکن تاریخی ناول نگار اپنے ارد گرد کے ماحول اور اپنے مشاہدات و احساسات کو ناول کا موضوع نہیں بنا سکتا اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ناول کی صنف میں تاریخی ناول نگاری ایک مشکل ترین صنف ہے۔ تاریخی ناول نگار کو ہیرو کے کردار کیلئے عام ناول نگار کی نسبت بہت احتیاط سے کام لینا پڑ تا ہے کیونکہ تاریخی کردار بلخصوص ہیرو کے کردار کیلئے حلیہ ، لباس کی تراش تراش، طر ز ند گی کیلئے صدیوں پیچھے جا کر جھانکنا پڑ تا ہے اس عمل میں قدم قدم پر خطرات اور مشکلات کا سامنا کر نا پڑ تا ہے خاص کر دو قسم کے خطرات لاحق ہوتے ہیں ، وہ قاری کو صدیوں پرانے تاریخی زمانے میں اپنے تخیل کے مددسے لے جاۓ اور قاری کو اس قدر مبہوت کر دے کہ وہ اپنے آپ کو میدان جنگ ، در بار کی فضاء اور اس دور کے حالات اور عمارات کے درمیان موجود پاۓ ، تلواروں کی چہک، نیزوں کے دسکتے ہوۓ بچالے اور دوڑتے ہوۓ گھوڑے اور کرداروں کے ساتھ چلتا ہوا محسوس کرے، در حقیقت تاریخی ناول نگار وہ ہیں جو اپنے کرداروں و عہد گم گشتہ کے مردوزن کے ارد گر دایسی چمک اور عظمت کا رنگ چڑھاتے ہیں جو زمانہ قبل از تاریخ کے اوزاروں اور آلات کے رنگ کی تابانی سے مشابہ ہو جو صرف گر دائم سے پیدا ہوتی ہے جس کی نقالی کسی انسانی اوزار اور عمل سے ممکن نہیں ہے ۔ کردار نگاری ناول کا سب سے اہم عنصر ہوتی ہے اصل میں اسی ستون پر پورے ناول کی عمارت تعمیر ہوتی ہے ، ہیر و کا کر دار سب سے الگ ہو ناضروری ہو تا ہے کہ دار نگاری کا تعلق جذبات سے ہے اور جذبات کا حقیق معنی میں اظہار تب ممکن ہے جب انسانی نفسیات سے آگاہی ہو تاریخی ناول نگاری کیلئے کردار نگاری کافی مشکل عمل ہے اس لئے ناول نگار قصہ تلاش کر لیتا ہے اور ان میں اکثر و بیشتر کردار تخیل پر مبنی ہوتے ہیں خیالی کردار کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔
حوالہ جات
ا۔ فیروز الدین، مولوی، فیروز اللغات اردو جامع ، فیروز سنز لاہور ۱۹۲۴ء
۲- چراغ حسن حسرت، مضامین حسرت، مکتبہ کاروان لاہور ۱۹۲۳ء
۳۔ عابد علی عابد ، سید ، انتقاد ، ادارہ فروغ ادب لاہور ۱۹۵۲ء
۴۔ رشید احمد گوریجہ ، ڈاکٹر اردو میں تاریخ ناول، ابلاغ لاہور ، ۱۹۹۴، ص۲۵
۵۔ احسن فاروقی ، ڈاکٹر ، تاریخ ادب انگریزی، کراچی یونیورسٹی به اشتراک مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۲، ص۳۳۷
۲۔ عبد الحلیم شرر، مضامین شرر جلد سوم مطبوعہ مبارک علی شاہ گیلانی، لا ہور ۱۹۹۱، ص ۲۳۰
ے۔ ابواللیث صدیقی ،ڈاکٹر ، آج کا اردوادب ، فیروز سنز لمٹیڈ ،لاہور ۱۹۷۰ء،
ص۱۹۷
۔ فضل الرحمن ، پر وفیسر اردو انسائیکلو پیڈیا، قومی کونسل براۓ ترقی اردو، دہلی ۱۹۹۲، ص ۱۲۴
۹۔ احسن فاروقی ،ڈاکٹر ، تاریخ ادب انگریزی، کراچی یونیورسٹی به اشتراک مقتدرہ قومی زبان ،۱۹۸۲، ص، ۳۳۸
۱۰۔ احسن فاروقی ، ڈاکٹر ، تاریخ ادب انگریزی ، کراچی یونیورسٹی به اشتراک مقتدرہ قومی زبان، ۱۹۸۶، ص، ۳۴۰
ا۔ آل احمد سرور ،ازہ احسن فاروقی ، ڈاکٹر ، و یہاچہ ناول کیا ہے ، مقتدرہ قومی زبان ۱۹۸۲ء ص ۵
۱۲۔ فضل الرحمن ، پروفیسر ، اردو انسائیکلو پیڈیا، قومی کونسل برائے ترقی ارود ، دہلی ، ۱۹۹۴، ص۴۲۹
۱۳۔ صادق علی گل، ڈاکٹر : سر گزشت ، تاریخ، بلال انیڈ کمپنی، پبلشرز ، راولپنڈی ،۲۰۰۱، ص۱۸
۱۴۔ ابواللیث صدیقی ، ڈاکٹر ، آج کا اردوادب ، فیروز سنز لمٹیڈ ،لاہور ۱۹۷۰، ص۱۹۸
۱۵۔ علی عباس حسین ، ناول کی تاریخ و تنقید ، لا ہو راکیڈمی لاہور ، ۱۹۲۴، ص۲۷
۱۲۔ ممتاز منگلوری، ڈاکٹر ، شرر کے تاریخی ناول ، مکتبہ مخیابان ، ادب لاہور ، ۱۹۲۴، ص۲۷
ے۔ ممتاز عمر ، ڈاکٹر نسیم مجازی کی تاریخی ناول نکل دی ، انجن ترقی اردو، پاکستان ،۲۰۰۸، ص ۲۳
۱۸۔ علی احمد فاطمی ، ڈاکٹر عبد الحلیم شرر بحیثیت ناول نگار انجمن ترقی اردو پاکستان ،۲۰۰۸، ص۳۰۰