مرزا اسد اللّٰہ خان غالب کا محتصر تعارف
فارسی میں تخلص اس اور اردو میں تخلص غالب کرتا تھا۔ مایہ شاعر شاعری کے حوالے سے مذید معلومات ملاحظہ فرمائیں۔
تاریخ(پیدائش: 27 دسمبر 1797ء) اور تاریخ
(وفات: 15 فروری 1869ء) ہے۔
تعارف(بحثیت نثر نگار)
مرزا اسد اللہ خان غالب شاعر، ہی بہتر تھے اور جس زمانے میں مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور مشرقی تہذیب کا آفتاب غروب ہونے کو تھا اس وقت شعروادب کی دنیا میں چند ایسی شمعیں روشن ہوئیں جنھوں نے آنکھوں کو خیرہ کردیا۔ مرزاسد اللّٰہ غالب خاں اسی عہد کے نامور شاعر ہیں جن کے دم سے اردو شاعری میں خاص کر مرزا اسد اللہ خان غالب کی شاعری،کی وجہ سے نثرنگاری میں انقلاب برپا ہو گیا۔ اردو خطوط نویسی میں غالب کو اجتہاد کا درجہ حاصل ہںے۔ ان کی خطوط نویسی، سے اردو زبان کے پوشیدہ امکانات روشن ہوۓ اور اردو زبان و ادب کی کم مائیگی کا احساس ختم ہوا۔ انھوں نے ایسا اسلوب ایجاد کیا جو انھی کے ساتھ مخصوص ہںے جو ان سے شروع ہو کر ان پر ختم ہو گیا۔ مرزا غالب کی اردو نثر، ان خطوط کی شکل میں ہںے جو انھوں نے مختلف اوقات میں اپنے دوستوں اور بےتکلف شاگردوں کو تحریر کیے جو سادگی اور سلاست کا عمدہ نمونہ ہںے۔
بقول الطاف حسین حالی
"مرزا کی شہرت جس قدر ان کی اردو نثر (خطوط) کی اشاعت سے ہوئی ویسی اردو شاعری سے نہیں ہوئی۔"
حالی نےلکھا ہے کہ مرزا 1850ءتک ہمیشہ فارسی میں خط وکتابت کرتے تھے مگر جب قعلہ معلی کی طرف سے جب ان کو تاریخ تیموری لکھنے پر مامور کیا گیا تو قلت وقت کے باعث ان کو فارسی کے بجاۓ اردو میں خطوط نویسی، کرنا پڑی کیوں کہ حالی کے مطابق وہ فارسی نثر اور خطوط نہایت کاوش سے لکھتے تھے کیونکہ اس زمانے تک فارسی خطوط نویسی کا یہی انداز تھا کی مکتوب الیہ پر لکھنے والے کے علم و فضل کا رعب پڑ جاۓ۔
مرزا غالب کی اردو رقعہ نویسی کی اصل بہار دلی کی تباہی کے بعد آئی ۔ غالب کی شاعری بادشاہی دور کے ساتھ ختم اور اردو نثر کا عروج شروع ہوا۔
ایک خط میں لکھتے ہیں۔
"فارسی کیا لکھوں یہاں
ترکی تمام ہںے۔ اخوان و
احباب یا مقتول یا مفقود
الخیر ، ہزار ہا آدمی کا
ماتم دار ہوں، آپ غم زدہ
اور غم گسار ہوں."
ان کے خطوط کا پہلا مجموعہ
عود ہندی، کے نام سے 27 اکتوبر1868ءکو غالب کی زندگی میں شائع ہوا۔ ان کے خطوط کا دوسرا مجموعہ اردو معلی، کے نام سے دو قسطوں میں طبع ہوا۔ مکاتیب غالب کے نام سے 1937ء اور دوسرا نادرات غالب، کے نام سے 1949ء میں زیورات طباعت سے آراستہ ہوا۔
مرزا کے خطوط کی خصوصیات
خاندانی حالات
ذاتی حالات
مرزا کے خطوط میں اظہار شخصیت
خطوط غالب اور عصری تاریخ
مکاتیب غالب اور جدید نثر نگاری
مکاتیب غالب اور ادبی مزاج و مذاق
انداز مکالمات
منظر کشی
شوخی اور مزاح
قوافی کا استعمال خطوط غالب، اردو نثر کے بہت اچھے نمونے پیش کرتے ہیں ۔اس نثر میں سادگی و سلاست، پرکاری، بانکپن اور تخیل کی بلند پروازی، نثر میں ایک شاعرانہ انداز پیدا کر دیتی ہںے۔ وہ اپنی رنگینی اور رعنائی کے باعث دلوں میں اتر جاتے ہیں اور ان کے خطوط میں فطری بہاؤ کا احساس ہوتا ہںے۔ ان کے خطوط سے ان کے ماحول اور زندگی کا نقشہ مرتب کیا جا سکتا ہںے گویا اپنے خطوط میں غالب ہمیں سانس لیتے، چلتے پھرتے، بولتے چالتے اور ہنستے کھیلتے نظرآتے ہیں۔
خاندانی حالات ملاحظہ فرمائیں۔
بعض نقادوں کی راۓ میں اگر غالب کے خطوط نہ ہوتے تو حیات غالب کے اکثر گوشے بے نقاب نہ ہو سکتے۔ مرزا کا تعلق ترک ایبک قوم سے تھا اور ان کا سلسلہ نسب توران ابن فریدون، سے ملتا ہںے۔منشی حبیب اللّٰہ خان ذکا، کو خط میں لکھتے ہیں۔
"میں قوم کا ترک سلجوقی ہوں۔ دادا میرا ماداالنہر سے شاہ عالم کے وقت ہندوستان آیا۔ سلطنت ضعیف ہو گئی تھی صرف پچاس گھوڑے اور نقارہ و نشان سے شاہ عالم کا نوکر ہوا "
اسداللہ خان غالب کی ذاتی حالات
مرزا کی ابتدائی تعلیم و تربیت کے بارے میں طے ہںے کہ یہ کسی کے شاگرد نہ تھے۔ اس کے علاوہ انھوں نے شادی کے بندھن کو خوش دلی سے قبول نہ کیا ۔حقیقت یہ ہںے کہ جو شخص بیوی کو پاؤں کی بیڑی خیال کرے اور کسی کی وفات پر خوشی کا اظہار کرے ایسا شخص ازدواجی زندگی سے خوش نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ غالب اپنے خطوط میں خوبیوں اور خامیوں سمیت نظر آتے ہیں ۔
مرزا اسد اللہ خان غالب کی اظہار شخصیت
غالب کی زندگی پوری طور پر ان کےخطوط میں جھلکتی ہے ۔انگریزی میں جو کہا جاتا ہے style is the man himself،یہ مقولہ غالب کے خطوط اور شاعری پر پوری طرح صادق آتا ہںے۔ مرزا اخلاق و اعتبار سے صلح جوع، قلندری و درویشی، ایثار و کرم کے مالک تھے۔ مصائب و آلام کے ہجوم میں تھے مگر دوستوں کو اپنے خاندان میں اس طرح پالتے رہںے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں۔
"اب خاص اب دکھ روتا ہوں ایک بیوی ،دو بچے،تین چار آدمی گھر کے ایک پیسہ کی آمدنی بیس آدمی روٹی کھانے والے"
مرزا کی شخصیت کا ہر رنگ ان کے خطوط میں اجاگر نظر آتا ہںے۔ وہ روایات کا باغی اور عام معاشرتی رسوم و رواج پر نالاں ہںے، شراب نوشی کرتا ہںے تو دھرے سے۔ ساری عمر مسائل رزق کے ہاتھوں پریشان رہا مگر حوصلہ نہ ہارا اور قہقے بکھیرتا رہا۔
بقول الطاف حسین حالی
مرزا کی طبعیت میں شوخی ایسی بھری ہوئی تھی جیسے ستار کے تار میں سر بھرے ہوتے تھے۔
مکاتیب غالب اور جدید نثر نگاری
مرزا کے خطوط جدید نثر کا نقطہ آغاز ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ تحریک کے اعتبار سے جدیدیت کی بنیاد سرسید کے ہاتھوں سے ہوئی مگر غالب کو اس میدان میں بلاشبہ اولیت کا درجہ حاصل ہںے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب کے بارے میں مولانا شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ
" اردو انشا پردازی کا آج جو انداز ہںے اور جس کے مجدد امام سرسید مرحوم تھے اس کا سنگ بنیاد دراصل مرزا غالب نے ہی رکھا تھا"
غالب کی نثر، نے اردو نثر کو زندہ اور جاوید بنا دیا۔ ان کے بعض خطوط کی ابتدا عجیب ڈرامائی انداز میں ہوئی ۔مرزا یوسف کے خط کی ابتدا یوں ہوتی ہںے:
"کوئی ہںے ذرا مرزا یوسف کو بلائیو، لو واحب وہ آۓ"
غالب کے بارے میں مرزا تفتہ کو لکھتے ہیں۔کہ
"کیوں صاحب روٹھے ہی رہو گئے یا کبھی مانو گے بھی"
غالب کی ادبی مزاج و مذاق
خطوط غالب کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہںے کہ خطوط عام انداز اور عام مذاق سے ہم آہنگ ہیں۔ غالب ایک سچے اور عظیم فنکار تھے۔ وہ اپنے خطوط میں اپنی خامیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں اکثر شراب پیتے ہیں تو اظہار بھی کرتے ہیں۔ایک خط میں لکھتا ہے۔
"ساری عمر فسق و فجور میں گزری نہ نماز پڑھی،نہ روزہ رکھا اور نہ کوئی نیک کام کیا"
شاعری اور خطوط دونوں جگہ غالب کی زندہ دلی اور شوخی و شرارت نظر آتی ہںے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب کی انداز مکالمت
مرزا کے خطوط میں مراسلہ مکالمہ بن گیا ہںے ۔انھوں نے اپنی تحریروں میں بات چیت کا انداز پیدا کر کے خط کو صرف پارہ کاغذ نہیں بنایا بلکہ وہ فن پارہ بن گیا تھا۔ حاتم علی بیگ کے نام لکھتے ہیں:
"مرزا صاحب میں نے وہ انداز تحریر ایجاد کیا ہںے کہ مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہںے۔ ہزار کوس سے بازبان قلم باتیں کیا کرو، ہجر میں وصل کے مزے لیا کرو۔"*
شاعری میں منظر کشی
غالب نے اپنے خطوط میں جس واقعے کو بھی بیان کیا اس کے ماحول اور جزئیات کی ایسی تصویر دکھائی کہ ہمیں سب کچھ نظر آنے لگتا ہںے غالب کے مکان کا حال دی کھیے:
"برسات کا حال نہ پوچھو خدا کا قہر ہںے قاسم جان کی گلی سعادت خان کی نہر ہںے ۔ میں جس مکان میں رہتا ہوں عالم بیگ کے کٹرے کی طرف کا دروازہ گر گیا مسجد کی طرف کے دالان کا جو دروازہ تھا گر گیا۔ سیڑھیاں گرا چاہتی ہیں"
شاعری اور نثر میں شوخی اور مزاح
مرزا بڑے خوش طبع اور زندہ دل تھے ان کے ہاں ضرافت ملتی ہںے خود بھی مسکراتے اور قاری کے لیے مسکرانے کا اہتمام کرتے رہںے۔
"میں تمھارا دادا نہیں دلدادہ ہوں۔"
"پہلے گورے کی قید میں تھا اب کالے کی قید میں ہوں۔"
شاعری اور نثر میں قوافی کا استعمال
مرزا اسداللہ خان غالب نے میر مہدی مجروح کو لکھتے ہیں۔
"سید صاحب نہ تم مجرم نہ میں گنہگار تم مجبور میں لاچار لو اب میری کہانی سنو میری سرگزشت اب میری زبانی سنو"
"بھائی تم اردو کے مرزا قتیل بن گئے ہو اردو بازار میں نہر کے کنارے رہتے رہتے رودھ نیل بن گئے"
مذید مجموعی تجزیہ
مختصرأ ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کے خطوط نثر جدید کے پیش رو ہیں۔ ان کے خطوط نے اردو نثر کو حیات نو بخشی۔ غالب کے بعد اردو میں خط نگاری/ مکتوب نگاری ایک صنف نثر کی حیثیت سے سامنے آئی۔ نثر جدید کے تمام اصناف کے ابتدائی نقوش خطوط غالب میں ملتے ہیں۔ اگر ان خطوط کو بلا تکلف روزنامچہ کہا جاۓ تو بےجا نہ ہو گا۔