افسانہ کہانی ڈراما اور ناول میں فرق
لکھنے کا طریقہ
اردو ادب میں افسانہ نگاری، کہانی نگاری، ڈرامہ نگاری، ناول نگاری، فلم نگاری اور ساتھ فیچر نگاری وغیرہ سب میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ ان میں کردار، ڈائیلاگ، مکالمہ، منظر کشی اور کہانی سب میں مشترکہ طور پر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر افسانہ اور کہانی میں فرق یہ ہے کہ کہانی میں اصل واقعہ اور واقعیت ہوتی ہے، جب کہ افسانے میں اصل تخیل اور خیالات ہوتے ہیں۔ پلاٹ، کردار اور مکالمہ وغیرہ دونوں میں ہی ہوتا ہے۔ ناول میں کرداروں، مکالموں، منظروں، تخیلات کا اضافہ ہوجاتا ہے۔
ناول میں کئی کردار ہوتے ہیں۔ کئی مناظر ہوتے ہیں، کئی قسم کے مکالمے ہوتے ہیں۔ ایک خاص پلاٹ کو لے کر چلا جاتا ہے۔ کسی آئیڈیے پر لکھا جاتا ہے۔ ڈرامے میں بھی کردار سازی ہوتی ہے، منظر کشی ہوتی ہے، مکالمے ہوتے ہیں، منظرنگاری ہوتی ہے۔ تخیلات ہوتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کئی واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔ ”فلم“ کہانی کے لمبے اور طویل پراسیس، ڈرامہ نگاری ہویا فلم رائٹنگ کا نام ہے۔ کہانی لکھنا ہو یا افسانہ نگاری، ڈاکومینٹری کا اسکرپٹ لکھنا ہو یا کسی پروگرام کا خاکہ.... ان سب میں تھوڑا تھوڑا فرق ہوتا ہے۔ ان سب کی بنیاد کہانی ہوتی ہے۔ قدرمشترک سب میں کہانی ہوتی ہے، تو آئیے! کہانی لکھنے کا طریقہ جانتے ہیں۔ کہانی چونکہ گزرے ہوئے زمانے کا واقعہ ہوتا ہے۔ اس لیے اسے ہمیشہ ماضی کے صیغے میں بیان کیا جاتا ہے۔ کہانی کسی خاکے اور پلاٹ پر لکھی جاتی ہے اور آخر میں سبق دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر آپ ”والدین کی نافرمانی“ پر کہانی لکھنا چاہتے ہیں۔ اب اس کہانی کا پلاٹ اور خاکہ یہ ہے کہ ایک بچہ اپنے والدین کی نافرمانی کرتے ہوئے کوئی کام کرتا ہے۔ نتیجے کے طور پر اسے بھاری مالی و جانی نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ جس کہانی کا پلاٹ اور خاکہ جتنا مضبوط اور اچھا ہوگا، وہ کہانی اسی قدر عمدہ شمار ہوگی۔ دیکھیں! مکان تو ہمیشہ پلاٹ پر ہی تعمیر ہوتا ہے۔ اگر آپ کا پلاٹ ڈیفنس میں ہے، محل وقوع اچھا ہے تو مکان بھی عمدہ تعمیر ہوگا، لیکن اگر آپ کا پلاٹ بھی بے کار جگہ پر ہے، محل وقوع بھی صحیح نہیں ہے، تو مکان بھی خواہ آپ اس پر جتنی بھی محنت کرلیں، اچھا نہیں بنے گا۔
کہانی میں معلومات، تناظر، اسلوب، منظر کشی، ڈائیلاگ، مکالمہ سب ہی کچھ ہوتا ہے۔ کہانی میں تکرار کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ الفاظ کے تکرار سے بچنے کے لیے مترادف کا استعمال کریں۔ اسم ظاہر کو دوسری مرتبہ لانا ہو تو نام دوبارہ لانے کے بجائے ضمیر دوبارہ لائیں۔ مثال کے طور پر جب آپ کہنا چاہیں: ”سمندر کے بہت سے فوائد ہیں۔ اس کی آبی حیات خشکی میں رہنے والوں کے لیے بہترین غذا ہے۔“ تو یوں نہ کہیں ”سمندر کی آبی حیات....“ سمندر کے لفظ کی جگہ اسم ضمیر ”اس“ لے آئیے۔
معانی اور مفاہیم کے تکرار سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ عناصر اور اشارات کی عقلی منطقی مربوط ترتیب کے مطابق مضمون کو لے کر چلیے۔ اشارات چون کہ ان میں مرتب اور غیرمکرر ہوتے ہیں، اس لیے ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں۔ کہانی میں کوئی ایسی ترکیب، کوئی ایسا محاورہ یا مقولہ، کوئی ایسا شعر اور مصرع ہر گز استعمال نہ کریں جس کا مفہوم اور مطلب آپ خود نہیں سمجھتے۔ کہانی نہ تو اتنی لمبی ہو کہ پوری کتاب بن جائے اور نہ ہی اتنی مختصر ہو کہ ایک پیراگراف لگے اور بات ہی مکمل نہ ہو۔ جاندار اور اچھی کہانی کے لیے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
نمبر ایک: جذبات کی صحیح صحیح ترجمانی۔ نمبر دو: منظر کشی اور منظر نگاری۔ نمبر تین: مکالمہ اور ڈائیلاگ۔ نمبر چار: کہانی کا اچھا پلاٹ اور عمدہ خاکہ۔ جب کسی کہانی میں کسی منظر یا پس منظر کا ذکر آئے تو اس کو حقیقی اور واقعاتی مناظر سے قریب ترین کرکے ایسے بیان کریں کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو اسی جگہ محسوس کرے۔ کسی جگہ کی ایسی منظرنگاری کریں کہ جب پڑھنے والا کبھی اس جگہ جائے تو وہ محسوس کرے کہ یہی وہ جگہ ہے جس کو میں نے کہانی میں پڑھا تھا۔
اسی طرح آپ کہانی کے کسی کردار سے بلوائیں تو وہ ایسے بولے جیسے اصل میں بات کررہا ہو، یعنی جذبات، دلی کیفیات اور احساسات کے موقع پر انسانی احساسات، قلبی واردات برمحل اور برجستہ بات کریں۔ اسی طرح آپ دو یا دو سے زائد افرا دکے مابین مکالمہ کروائیں تو مکالموں کی بندش بالکل حقیقی گفتگو کی طرح ہو۔ نقل مطابقِ اصل معلوم ہورہی ہو۔ بعض اوقات ایک کہانی کی تہہ میں اور پس منظر میں ایک اور کہانی چل رہی ہوتی ہے۔ اگر ایسا موقع ہو تو ان دونوں میں ربط، تسلسل اور روانی برقرار رہنی چاہیے۔ تسلسل اور ربط ٹوٹنا نہ چاہیے۔
لکھنے کے ابتدا میں چھوٹے چھوٹے سماجی مسائل اور عمدہ اخلاقی موضوعات پر کہانیاں لکھنے کی کوشش کریں۔ پھر رفتہ رفتہ ہر موضوع پر لکھتے چلے جائیں۔ یہ بات درست ہے کہ شروع شروع میں ازخود طبع زاد کہانی لکھنا اور کہانی کا تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے، اس لیے خاکے کی مدد سے کہانی لکھنے کی مشق کریں۔ مطالعے، محنت، مستقل مزاجی سے لکھیں او رکسی استاذ سے اصلاح لیتے رہیں۔ جب کہ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی مشق ہوجائے، جب الفاظ کا درست استعمال آجائے۔ ان میں ضرب الامثال اور بہترین محاورات سے مزین جملے بنانے آجائیں۔ اس میں منظر کشی اور بہترین جذبات نگاری میں قلم رواں ہوجائے تو پھر طبع زاد کہانیاں لکھنے کا آغاز کریں۔