ناصر کاظمی کی غزل گوئی کافنی مطالعہ
شاعری صرف خیالات کو شعری قالب میں ڈھالنے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ایسا مشکل فن ہے جس کے اصولوں سے صرف نظر ہ ممکن ہے ۔ شاعری فکر وفن کے حسین امتزاج کا نام ہے۔شاعرا پی فکری بلندی اور وسعت کے ساتھ نی چا بک دوستی اور زبان و بیان کی فنکاری کی مدد سے شاعری میں ایسی ایسی تصویر میں بنا تا ہے جومصورا پنے برش سے نہ بنا پاۓ ۔ اپنے خیالات کو بیان کرنے کے لیے خوبصورت الفاظ کا انتخاب ،عمدہ تراکیب کا استعمال اور صنائع بدائع کی آمیزش شاعر کی فنی عظمت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ نامستر کی شاعری پر دبستان دہلی کا اثر ہے ۔ انھوں نے کلاسیکی شعراء کا مطالعہ کیا تھا اور ان کلاسیکی شعراء کے اثرات واضح طور پر ناصر کے یہاں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ دہلوی شاعری کی طرح نامستر کی شاعری بھی اپنے دامن میں فکر کی تمام تر گہرائیوں کو سمیٹے ہوۓ ہے ۔ داخلیت پسندی اور سیدھے سادے انداز میں اپنے دل کی بات کہ د ینا نا صر کا وصف خاص ہے ۔ نامسر نے بھی و بلوی شعراء کی طرح شاعری میں داخلیت پسندی پر زیادہ توجہ دی ہے اور خارجیت پسندی یا شعر کے ظاہری حسن کو نکھارنے کا خیال ان کے یہاں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔
ناصر کاظمی کی شاعری پر دبستان دہلی کا اثر ہے ۔ انھوں نے کلاسیکی شعراء کا مطالعہ کیا تھا اور ان کلاسیکی شعراء کے اثرات واضح طور پر ناصر کے یہاں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ دہلوی شاعری کی طرح نامستر کی شاعری بھی اپنے دامن میں فکر کی تمام تر گہرائیوں کو سمیٹے ہوۓ ہے ۔ داخلیت پسندی اور سیدھے سادے انداز میں اپنے دل کی بات کہ د ینا نا صر کا وصف خاص ہے ۔ نامسر نے بھی و بلوی شعراء کی طرح شاعری میں داخلیت پسندی پر زیادہ توجہ دی ہے اور خارجیت پسندی یا شعر کے ظاہری حسن کو نکھارنے کا خیال ان کے یہاں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے۔
ناصر کاظمی کی شاعری کا بغور جائزہ لیا جاۓ تو ان کی فنی عظمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر ان کی غزلیں تو فکر وفن کا بہترین نمونہ کہلائی جاسکتی ہیں ۔ ناصر نے زیادہ توجہ خیالات کی بلندی اور وسعت کو دی ہے لیکن ان کی غزلوں کے فی مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ناصر کے یہاں فنی با یک دستی اور زبان و بیان پر قدرت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ علماۓ ادب نے شاعری کے لیے جونی اصول اور ضوابط مرتب کیے ہیں ناصر نے ان سب کو ٹھوظ نظر رکھتے ہوئے اپنی شاعری کی تخلیق کی ہے ۔ علمائے ادب نے شاعری کے فی حسن کے لئے جو لوازمات بیان کیے ہیں ، تاتر کے یہاں ان کی نشاندہی با آسانی کی جاسکتی ہے۔ ناصر نے تمام تر فنی اصولوں کی پابندی کی ہے اورفنی خامیاں ان کے یہاں براۓ نام نظر آتی ہیں ۔ پھر خامی اور غلطی تو بشریت کا تقاضہ ہے ۔ ناصر کے یہاں اگر کوئی فی خامی نظر بھی آتی ہے تو اس کا ان کی عظمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اپنے دور میں ہم تو دیکھتے ہیں کہ ناقدین میر، غالب واقبال کے کلام میں بھی فنی خامیاں تلاش کر کے ان کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔ایک محقق اور طالب علم کی حیثیت سے جب میں نے ناصر کی غزل گوئی کا فنی مطالعہ کیا تو مجھے متعد دفنی خوبیاں نظر آئیں جن میں سے چند ایک پر ہم بات کر یں گے ۔ ناصر کی غزلوں میں متعد وفنی محاسن کی نشاندہی کی جاسکتی ہے جیسے تکرارلفظی ، سادگی و صفائی ، رندی دشونی ، تضحیک زاہد تشبیہات واستعارات کا استعمال ، الفاظ بقع کا حسن استعمال ، واقعات و جذبات نگاری ،تصوف ،سوز و گداز : مصرعوں کا تقابل ، حسن استعمال تعداد الفاظ مهبل متنع وغیرہ۔ تمرار لفظ حسین بھی ہوتی ہے اور تیج بھی ۔ جہاں الفاظ کی تکرار شعر کے حسن میں مزید اضافے کا باعث ہوتی ہے اسے تکرار الفاظ حسین کہا جاتا ہے ۔ الفاظ کی تکرار شعر کے صوتی آمبتک کو بھی متاثر کرتی ہے اور کلام کو پرکشش بناتی ہے۔ ناصر کے یہاں اکثر و بیشتر ایسے اشعار موجود ہیں جن میں لفظوں کی تکرار نے مزیدحسن پیدا کیا ہے اور شعر کی جاذبیت اور کشش میں اضافہ ہوا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
مٹی مٹی کی امید میں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے ہیں بے کار
راتوں اٹھ اٹھ کر روتے ہیں اس نگری کے لوگ
میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منھ نہ لگو تو بہتر ہے
میٹھے تھے جن کے کچل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی مچاؤں وہ دیوار گر گئی