حلقہ ارباب ذوق اور افسانہ
حلقہ ارباب ذوق، نے اردو افسانے کو بھی متاثر کیا اور زیادہ تر ان جذبوں کی نشان دہی کی جوانمار کی راہ نہیں پاتے ۔ اس حوالے سے حلقے کے افسانہ نگاروں نے نفسیات کے علم سے فائدہ اٹھایا۔
حلقہ ارباب ذوق کے اولین افسانہ نگاروں، میں کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک، راجندر سنگھ بیدی اور شیر محم اختر کا شمار ہوتا ہے ۔
اس کے علاوہ باقی سب انقلابی تصورات کے زیراثر ترقی پسندتحریک سے وابستہ ہو گئے۔ اس لئے حلقے میں ان کی شرکت محض ایک تاریخی واقعہ ہے۔
شیر محمداختر
شیر محمد اختر نفسیات سے فائدہ اٹھانے والے اولین افسانہ نگاروں میں سے تھے اور اس علم سے ہی انھوں نے کرداروں کی داخلی کیفیات آشکار کرنے کا کام لیا۔ ان کو یہ اہمیت حاصل ہے
کہ وہ تادم زندگی حلقے کے ساتھ وابستہ رہے اور انھوں نے افسانے کو ہی اظہار کا ذریعہ بنایا۔
ان کے افسانوں کے مجموعے نگا پاؤں میں نفسیات کی کرشمہ سازیاں کردار کی داخلی گھٹن کا مداوا بن جاتی ہیں ۔
محمد حسن عسکری
محمد حسن عسکری کے افسانے تجرباتی نوعیت کے تھے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں انسان کی نا آسودہ خواہشوں اور تمناؤں کو لاشعور کے پاتال سے کالنے کی کوشش کی ۔
ان کے افسانوں کے دو مجموعے "جزیرے "اور "قیامت ہم رکاب آۓ نہ آۓ" کے کردار بہت کمال کے ہیں ۔ اگر چہ چاۓ کی پیالی پسلن‘‘اور’’ حام جادی‘‘ جیسے افسانے معاشرے کے انتساب کی زد میں آئے،
لیکن ان سے افسانے کی ایک نئی روایت کو فروغ بھی ملا۔
کرشن چندر
کرش چندر طبعتا رومانی تھے لیکن ان کے افسانے گہرے سماجی شعور کے عکاس ہیں ۔ انھوں نے انسانی مسائل کو اہم موضوعات کے طور پر قبول کیا۔
کرشن چدرکل وقتی ادیب تھے ۔ وہ بے حد زریر دماغ افسانہ نگار تھے۔ انھوں نے پلاٹ ، کردار اور فض کے امتزاج سے حقیقت کی حمد و تصور کشی کی کرشن
چندر کو
اپنی زندگی میں کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ بقول ڈاکر مر حسن، ان کے افسانوں میں کے کرداروں کا وجود ہی نہیں ۔"
چندر سنگھ بیدی
رجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں سماجی حقیقت اور انسان کی داخلی واردات کا امتزاج پایا جا تا ہے ۔ بیدی لاہور میں پیدا ہوئے لیکن زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے ۔
عملی زندگی کی ابتداڈاک خانے کی معمولی ملازمت سے کی ، پھر ریڈی اور فلم سے وابستہ ہو گئے جہاں زندگی پہلے ان پر مہربان ہوئی اور پھر ناراض ہوگئی ۔ بیدی نے انسانی دکھوں کی نقاب کشائی اس طرح سے کی کہان کا دکھ ہرانسان کو اپنی داردات نظر آنے لگا۔
مقصدیت ان کے افسانوں پر غالب نہیں آتی اور یہ خوبی انھیں کرشن چندر سے بڑا افسانہ نگر بنارہی ہے۔ عام طور پر بیدی کی غیر ہموار زبان کومور د اعتراض بنایا گیا لیکن اس کا اپنا ایک ذائقہ ہے اور پی افسانے کی داخلی ضرورت کا پورا ساتھ دیتی ہے۔الغرض را چندرسنگھ بیدی کواردوافسانے میں ایک اہم مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔
ممتاز مفتی
ممتازملتی کے افسانوں میں انسانی فطرت کا نفسیاتی مطالعہ پایا جاتا ہے۔
گویا دہ لاشعور میں دبے ہوۓ مخفی جذبوں کی کھوج لگانے والے افسانہ نگار ہیں۔
ان کی گہما گہمی"، "چپ "اور " گڑیا گھر جیسے مجموعوں میں وہ ان دیکھی دنیاؤں کے سٹاک مشاہدہ نگار نظر آتے ہیں۔
ان کا محبوب کردار آپا ان افسانوں میں صورت بدل بدل کر تا ہے اور محرک سے لاشعور کوٹولتا ہے۔
مفتی کے فن نے ہر عہد میں ارتقا کی طرف مثبت قدم اٹھایا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں ایک منفرم کا افسانہ نگارتسلیم کیا گیا ہے۔
انتظار حسین
انتظارحسین کے فن کی ابتدا گلی کوچے" کے افسانوں سے ہوئی تھی۔ کنکری ،شہر افسوس، آخری آدی اور کچھوے سے ہوتے ہوۓ جب وہ خیمے سے دور کے افسانوں تک پہنچے تو وہ فن کے ارتقا کے کئی مراحل طے کر چکے تھے۔
ابتدا میں انھوں نے معاشرتی اور تہذیبی کہانیاں لکھیں ، پھر اخلاقی انسان کی گم شدگی اور زوال آدم خاکی کو اپنا موضوع بنایا۔
آخری دور کے افسانوں میں انھوں نے ملاتی انداز میں افسانہ لکھا۔انتظار حسین علامتوں اور استعارات کو نئے اسلوب اور نئے ڈھنگ سے استعمال کرنے والے افسانہ نگار ہیں۔
کایا کلپ ، وہ جو دیوار چاٹ نہ سکے، زردکتا، آخری آدی بہشتی ، انتظار اور جرۂ نسب ان کے چند معروف اور ممتاز افسانے ہیں ۔انتظار حسین کافن عوامی نہیں ۔ان کے افسانے کا اسرار معلوم کرنے کے لیے وسیع المطالعہ ہونا ضروری ہے ۔
اشفاق احمد
اشفاق احمد زندگی کے اندھیرے سے چھوٹے چھوٹے جگنو چننے اور کامران سے پورے ماحول کو روشن کرنے والے افسانہ نگار ہیں ۔
ایک محبت سو افسانے"، "اچلے پھول اور سفر مینا میں محبت کا بڑا ہی لطیف جذ بہ نمایاں ہے۔اشفاق احمد نے افسانے کو سامی تنقید کا وسیلہ بنانے کے بجائے اس سے مجموعی طور پر نیکی اور بھلائی کی فضا تعمیر کرنے کا کام لیا ہے ۔ ،
عجیب بادشاہ ،شب خون ، اجلے پھول اور ماسٹر روشنی ان کے چند مقبول افسانوں کے عنوان ہیں ۔