دکن میں اردو ادب کا آغاز و ارتقاء[pdf]
The Beginning and Evolution of Urdu Literature in the Deccan [pdf],
دکن میں اردو کا آغاز وارتقاء، اردو بولی اور اس کے نواح کے علاقے میں پیدا ہوئی اور علاؤ الدین خلجی ، ملک کا فور اور محمد تغلق کے حملوں کی وجہ سے دکن پہونچی۔ جہاں اس کو مختلف نام دیے گئے
مثلا، ہندی، ہندوی، گوجری، گجری، دکنی ، مسلمانی، تر کامانا، زبان اہل ہند، زبان دہلی ، زبان ہندوستان و غیر و۔ دکنی اسی اردو کا وہ قدیم روپ ہے جو تیرہویں صدی عیسوی سے سترہویں صدی عیسوی تک دکن اور گجرات میں پروان چڑھتا رہا۔
۱۷۰۰ء میں جب دہلی میں ریختہ " کے نام سے اردو شاعری کا احیا ہوا تو دہلی کی زبان دکنی سے بہ اعتبار صوتیات و صرف و نحو وغیر و کسی قدر مختلف ہو گئی اور معیاری اردو کہلائی اور اس کی وہ شکل جو دکن میں تھی اسے دکنی کہا جانے لگا۔
دکن کے اولین مراکز گجرات اور دولت آباد تھے۔ چنانچہ دکنی زبان "گوجری" اور "جری" بھی کہلائی۔ ڈاکٹر چٹر جی گجری کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے لکھتے ہیں : دکنی کا نام گجری اس کی اصلیت اور مشاہبت کا آئینہ دار ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب کے گوجر جنہوں نے پنجاب کے شہروں کو گجرات اور گوجرانوالہ کا نام د یا شمالی ہند کی فوجوں کے ساتھ ہجرت کر کے دکن گئے تو انہوں نے اپنے نام اور بولی کو کچھ دن کے لئے زندہ رکھا۔
شوکت سبزواری کے خیال میں دکنی، گجری، گجراتی در اصل وہی زبان ہے جو دلی سے ان علاقوں میں پہونچی البتہ ان میں مقامی الفاظ اور ترکیبیں شامل ہو گئیں دکن کا علاقہ دکنی dacani اور گجراتی کے اس اختلاط کی وجہ یہ ہے کہ "
دکنی کا اسانی خطہ جنوب کی مختلف ریاستوں یعنی گجرات ، مہاراشٹر ، آندھرا، میسور ، تامل ناڈو کے موجودہ علاقوں پر مشتمل تھا جہاں اردو زبان کا یہ روپ دکنی کی شکل میں ترقی کرتا رہا۔
جو بہ اعتبار صوتیات صرف و نحو، لغت و عروض معیار کی اردو سے مختلف تھا۔ اس کی وجہ سے بعض علما دکنی کو اردو سے علیحدہ زبان تسلیم کرنے لگے ۔
ڈاکٹر محی الدین قادری زور ، جنہوں نے کئی کی بازیافت میں نمایاں حصہ لیا اور محمود شیرانی، جنہوں نے اردو کے آغاز کے بارے میں سب سے پہلے قلم اٹھایا دکنی اور پنجابی, کی جزوی مماثلتوں کی بنا پر دکنی کا ماخذ پنجابی قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر زور ہند وستانی صوتیات میں معیاری اردو کو کھڑی بولی سے مشتق اور "و کئی " کو " پنجابی” سے مشتق بتاتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر چٹر ہی ، ڈاکٹر ٹرول بلاک اور ڈاکٹر مسعود حسین خاں کی تحقیقات کی رو سے : ۔ کئی’’،
معیاری اردو کا قدیم روپ ہے جس کا ہیولی ، نواح دہلی کی بولیوں ، کھڑی، ہریانی اور میواتی سے تیار ہوا۔ و کن کا علاقہ ایک آریائی زبان مراٹھی سے بھی گھرا ہوا ہے اس لیے "د کنی نے مراٹھی اور اس سے قبل مہاراشٹری پراکرت کا خاصار قبول کیا۔
اس کے علاوہ دراوڑی خاندان کی زبانوں ، تامل، تلفی ، ملیالم ، کنڈی سے گھری ہونے کی وجہ سے تلنگی ، کنڑی اور سال کے بعض الفاظ بھی وکئی میں شامل ہو گئے ۔ لیکن ان زبانوں کے اثرات سے اردو قواعد محفوظ رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ دکنی به استثناۓ چند الفاظ اور اختلافات تلفظ ، سلاطین دہلی کے عہد کی اردوۓ قدیم کے سوا اور کچھ نہیں۔
دکنی کی فرہنگ اور خصوصیات صرف و نحو کی توجیہ نواح دہلی کی بولیوں ، بالخصوص ہریانی اور کھٹری سے مکمل طور پر کی جا سکتی ہے۔ " کنی" نہ تو برج بھاشا سے نکلی نہ پنجابی سے۔ اس کا مولد و منبع نواح دہلی کی بولیاں ہیں۔
دکنی "صوتی تغیر" کے زیر اثر معیاری اردو بنی۔ کئی یا اردوۓ قدیم کی لسانیات کی مندرجہ ذیل خصوصیات ایسی ہیں جو بعد کے مرحلہ میں نہیں ملتیں۔ مثلا: صوتی خصوصیات مصوتوں کی سطح پر اردوۓ قدیم یاد کنی کی سب سے بڑی خصوصیت تخفیف صوت ہے یعنی : ۔ (۱) اسان بجاۓ آسمان (۲) ہاۓ ہوز کی تخفیف جیسے یہاں کے بجاۓ یاں ( ۳)اور کئی میں بعض اوقات "
" زائد کر دی جاتی ہے جیسے مٹی کے بجائے مٹھی۔ (۴) "ق" اور "کھ " کی جگہ "ع" کی آواز جیسے "صندوغ" بجاۓ "صندوق" "راخ" بجاۓ "راکھ"۔ (۵) "" کی جگہ "ع" کی آواز مثلا ’’انال دان بجاۓ اگال دان "۔ (۲) " دکنی کا میلان تشدید حرف کی طرف ہے جیسے چونا کے بجاۓ چنا۔ پھیکا کے بجاۓ پھ گا۔
صر فی خصوصیات جمع بنانے کے لئے "اں" کا استعمال جیسے "کھیت ’’ کی جمع " کھیتاں"۔ صرفی سطح پر دکنی زبان کی ایک خاص کلید "ریچ" تاکید کا استعمال ہے ۔ پا تا کیدی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مراٹھی سے مستعار لی گئی ہے ۔
دکنی کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ دکنی لکھنے والوں نے عربی فارسی الفاظ کی بھی "تارید" کی نیز اپنارشتہ کھڑی بولی اور شور سینی اپ بھرنش سے استوار رکھا۔ جس کے توسط سے وہ سنسکرت کے بھی قریب رہی چنانچہ دکنی لفظیات پر سنسکرت کے ت سم " الفاظ کا چلن رہا تد جو الفاظ دکنی نے قبول کئے ۔ جیسے صنم کے بجاۓ "پو" یا " پیا محبت کے لئے پریم۔
دکنی کی ایک اور خصوصیت کار حروف کی متخفیف بھی ہے جیسے سدھی بجاۓ سعدی۔ باندھنا کے بجائے باند نا۔ دکنی میں ٹیم مصوتے عام ہیں جیسے پٹا۔ ڈپا وغیرہ۔ دکنی میں جملوں کی ساخت میں فعل کو فاعل کے مطابق لا یا جاتا ہے مثال کے طور پر لڑکی لڈو کھائی۔ لڑکیاں کاماں کر تیاں۔ دکنی نے اپنی ہمسایہ زبانوں تلنگی ، کنڑی سے بھی الفاظ مستعار لئے جیسے کنری کا بچا بہ معنی دیوانہ ۔
تلسی کے الفاظ بوستا، دھپڑا، گھڑ سی، راوٹی ، بنڈی۔ واو عطف جو شمالی ہند کی اردو میں صرف فارسی عربی الفاظ کے درمیان لا یا جاتا ہے ۔ دکنی میں ہند آریائی اور عربی فارسی الفاظ کے درمیان بھی مروج ہے جیسے : گھر و دولت ۔
دولت ( فارسی) + گھر (ہندی) اس اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ دکن و گجرات کی اردو نے پنجابی کے علاوہ راجستھانی، گجراتی ، برج زبانوں کے اثرات بھی قبول کئے تھے۔ مثلا ہمنا، تمنا، راجستھان زبانوں کے مضمائر د کئی والوں نے اپنائے ۔ اس وجہ سے " کئی" اور " معیاری اردو دو الگ الگ دھارے بن گئے
تیرہویں صدی سے ستر ہو میں صدی تک دکنی ادب کے کئی اہم کارنامے منظر عام پر آئے ۔ وکئی میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ ۱۸۶۷ء تک برقرار رہا چنانچہ ۱۸۶۷ء میں حید رآ باد کے ایک صوفی فقیر اللہ شاہ حیدر نے نہال چند لاہوری کی تصنیف " بکاولی کے مقابل میں اپنی تصنیف " تناولی پیش کی۔
باقر آگاہ اپنی مثنوی "گلزار عشق" کے دیباچے میں جو ۷۹۲ار میں لکھی گئی " کی پر کئے ہوئے اعتراضات کا جواب دیتے ہوۓ لکھتے ہیں :۔ " مقصود اس تمہید سے یہ ہے کہ اکثر جاہلان و سرز و سریاں زبان دکنی پر اعتراض اور "گلشن عشق" و "علی نامہ کے پڑھنے سے احتراز کرتے ہیں اور جہل مرکب سے نہیں جانتے کہ جب تک ریاست سلاطین دکن کی قائم تھی زبان ان کی در میان ان کے خوب رائج تھی
اور طعن شاتت سے سالم تھی اکثر شعرا وہاں کے ابن نشاطی ، فراقی، شوقی، خوشنود، خواسی را یاغی، ہاشمی ، شغلی ، بحری، نصرتی مہتاب غیرہ ہم نے اپنی زبان میں بے حساب قصائد ، غزلیات ، مثنویات اور قطعات رقم کئے اور داد سخنوری کا دئے ’’۔
دکنی کے ادوار دکنی کی ترقی کا اندازہ لگانے کے لئے دکنی ادب کی تاریخ کو ان چار ادوار میں منقسم کیا جاتا ہے ۔ پہلا دور :۔ گجرات میں دکنی یا قدیم اردو کا چلن۔ دوسرا دور :۔ ۱۳۲۴ء سے ۱۲۸۲، تک علاء الدین خلجی اور محمد بن تغلق کے حملوں کے بعد ہمینہ سلطنت کے قیام اور کمینہ سلطنت کے سقوط کے بعد گولکنڈہ، بیجا پور اور احمد نگر کے شمالی ہند میں انضمام تک۔ تیسرے دور : ۔ اور نگ زیب کے عہد میں دکنی کا اہم مرکز اور نگ آ باد تھا۔
چو تھا دور ۔ دور آصفی۔ مرکز گجرات گجرات میں اس زبان کی سرپرستی حضرت عین الدین گنج العلم ، شاه علی جیو گام و منی ، بهلاء الدین با جن ، شیخ خوب محمد چشتی جیسے علماو صوفیانے کی۔ شاہ علی نیو گام دھنی نے اپنی یادگار ایک اردو دیوان "جواہر اسرار اللہ " چوڑا شیخ خوب محمد نے اپنے مرشد بہاء الدین با جن کے کلام کی شرح خوب ترنگ" کے نام سے لکھی۔ مابعد کے زمانے میں محمد امین گجراتی کی تصنیف "یوسف زلینا” قدیم اردو کی اہم تصنیف ہے۔
سید علی جیو گام دھنی کے کلام کو ان کے ایک شاگرد نے ترتیب دیا اس میں ان کی شاعری کے متعلق لکھتا ہے ۔ " در بیان توحید و اسرار با الفاظ گجری بطریق فرموده به نام گجری اور گوجری دکنی کے لیے اس دور میں خاصہ مقبول رہا۔ چنانچہ بچا پور کے مشہور صوفی شاہ برہان الدین جانم اپنی تصانیف "کلمته الحقائق" اور "حجۃالبقاء " میں دکنی کو گجری کے ہی نام سے یاد کرتے ہیں ۔
گجرات کے ساتھ دکنی کی سرپرستی دکن کی جن سلطنتوں نے کی ان میں سلطنت بہمینہ اور اس کے انفراش کے بعد عادل شاہی ، قطب شاہی نظام شاہی عماد شاہی ، بر ید شاہی و غیر مشہور ہیں۔ ہمینی سلطنت کے زمانے میں دکنی کی ترقی علاء الدین خلجی ملک کافور نے ۱۳۱۰ء تک دکن کا کچھ حصہ فتح کر لیا تھا ۱۳۴۴، میں محمد تغلق نے دیو گڑھی دولت آباد کو ہندوستان کا پایہ تخت بنانا اور دہلی سے کثیر پیانے پر آبادی کا انتقال عمل میں آیا۔
اس طرح "د کئی" ( قدیم اردو) خاص طور سے مہاراشٹر ( دولت آباد) کے اطراف کے علاقہ میں تیزی سے پھیلنے لگی۔ کیونکہ دکن میں مراٹھی ، کنڑی، علمی اور تامل زبانیں بولی جاتیں تھیں۔ اس لئے اردو یاد کنی ہی مشترک زبان کے طور پر حاکم و محکوم کے مابین ارتباط کا ذریعہ بنی،
دکنی کی اشاعت و تر و تیج دو محاذوں سے ہوئی " خانقاہ" اور " در بار خانقاہوں میں صوفیا نے عقائد و مذہب کی تبلیغ کا ذرایہ اس مشترک زبان کو بتا یا جو دکن میں مقبولیت حاصل کر رہی تھی۔
اس لیے جب محمد بن تغلق کے خلاف دکنی امرا نے علم بغاوت بلند کر کے علاء الدین حسن بمینی کو اپنا فرماں روا تسلیم کیا تو دربار میں بھی اس زبان کی سر پرستی کی گئی۔ ہمینی خاندان کے حکمرانوں نے جہاں مقامی زبانوں کی سر پرستی کی وہیں عربی ، فارسی ، اردو (وکنی ) کو بھی فروغ دیا۔ بہمینی دور کے اکثر فرماں روا علم دوست اور ادب پر ور تھے۔
احمد شاہ بمینی کے زمانے میں حضرت سید بندہ نواز گیسو دراز دن تشریف لاۓ آپ نے عربی فارسی کی تصانیف کے علاوہ چند رسائل وکئی میں تصنیف فرماۓ ، اور بعض رسائل کو غلط طور پر آپ سے منسوب کر دیا گیا۔ بہر حال یہ امر مسلم ہے کہ اس زمانے تک دکنی زبان میں اتنی سکت آ گئی تھی کہ وواظہار خیال کا ذرایہ بن سکے۔ خواجہ بندہ نواز کے خلفاء اور تلامذہ میں بھی کئی نے اس زبان میں تصنیف و تالیف کا کام کیا۔ ہمینی دور کے مشہور شعرا اور او با جن کے کارنامے منظر عام پر آ چکے ہیں مندرجہ ذیل ہیں: ا۔ حضرت عین الدین گنج العلم ( گجرات سے دکن تشریف لاۓ ) ۔
سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز
حضرت اکبر حسینی
حضرت عبد اللہ حسینی
نظامی ۔ مصنف کدم راو پدم راؤ
امیر الدین شاہ میراں بی شمس العشاق ے۔ فیروز مصنف پرت نامه یا توصیف نامہ میراں محی الدین
اشرف مصنف او سر بار
ان کے علاوہ احمد ، محمود ، آذری، خیالی وغیرہ کے بھی نام ملتے ہیں۔ ۱۵۲۷، مطابق ۹۳ھء میں ہمینی حکومت کمزور ہو گئی اور اس کے پانچ صوبوں ، مینی پیاپور ، گو لنڈ ہ احمد نگر ، پر ار اور بیدر کے صوبہ داروں نے بغاوت کر کے اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ یہا پور میں عادل شاہی ، گولکنڈہ میں قطب شاہی ، احمد نگر میں نظام شاہی،
اور بیدر میں پر شاہی سلطنتوں کی بنیاد پڑی جس میں سے بر یہ شاہی اور نماد شاہی سلطنتیں کمزور ہونے کے باعث عادل شاہی نظام شاہی اور قطب شاہی میں ضم ہو گئیں بیدار کی برید شاہی کو عادل شاہی سلطنت نے برار کی عماد شاہی کو احمد نگر ک کی انتظام شاہی حکومتوں نے ختم کر دیا۔
بقیہ تین سلطنتوں کے حکمرانوں یعنی عادل شاہی ، قطب شاہی اور نظام شاہی سلطنتوں نے نہ صرف شعر وادب کی سر پرستی کی بلکہ خود بھی اس زبان کو ادبی اظہار کا وسیلہ بنایا۔ سلطنت قطب شاہی قطب شاہی خاندان کے پانچویں فرمانر وا محمد قلی قطب شاہی جس نے پاس ہزار کے قریب شعر کہے یہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔
اس خاندان کے دوسرے فرماں رواؤں سلطان محمد، سلطان عبد اللہ اور ابوالحسن تا نا شاہ نے بھی اس زبان میں شاعری کی۔ لیکن ظل اللہ کو زور صاحب نے سلطان محمد قطب شاہ کا تخاصی بتایا ہے و جہی اس عہد کا مشہور شاعر اور نثر نگار ہے جس نے نظم میں " قطب مشتری" لکھنے کے علاوہ نثر میں "سب رس" لکھ کر دکنی نثر کو ادبی رنگ دیا۔
ابھی تک دکنی نثر صرف مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات کے لئے استعمال کی جاتی تھی۔ وجہی پہلا شخص تھا جس نے اس زبان کے لیے کئی" کا لفظ استعمال کیا گر چہ سب رس میں ہی اپنی زبان کو از بان ہندوستان کہتا ہے۔ وجہی کے علاوہ اس عہد کے دوسرے اہم شاعر غواصی اور ابن نشاطی میں غواصی ( مثنوی سیف الملوک و بدایع الجمال ، طوطی نامه ، میناست و نقی ، ابن نشاطی کی مثنوی چھول بن ، جو ایک فارسی مثنوی بساتین کا ترجمہ ہے ، شاعرانہ صنعت گری کا کمال ہے۔
جن میں مصنف نے انتالیس صنعتیں استعمال کی ہیں۔ اس دور کے دوسرے مشہور شاعر اور ادیب حسب ذیل ہیں : ا۔ حسن شوقی ۲۔ جنیدی ( مثنوی ماه پیکر ) ۳۔ قطبی (تحفه النصائح) ۴۔ سلطان (دیوان) ۵۔ سید بلاقی ( معراج نامہ) ۶۔ شاہراجو ، میراں جی خدا نما ( تمهیدات بين القناة) ے۔ طبیعی ( بہرام و گل اندام) ۸۔ سیوک ( مرثیے) ۹۔ خواص ( مرثیے ) ۱۰۔ غلام علی خان لطیف ( ظفر نامہ محمد حنیف) ال۔ غلام علی (مصنف پدماوت) ۱۲۔ احمد (مصنف لیلی مجنوں) ۱۳۔ افضل قصیدہ گو۔ کہتے ہیں کہ
ان مصنفین کی زبان قدیم اردو یاد کنی کے مستند نمونے پیش کرتی ہے یہ اپنی زبان کو " دکنی" کہتے ہیں۔ ابن نشاطی کہتا ہے اسے ہر کسی کے ہے ۔ کے نہیں سمجھا کو توں بول ۔ دکن کی بات سوں سرزیاں کو کہہ کھول۔ ایک گمنام شاعر کہتا ہے :
وکئی میں مجبکوں مہارت ایتی
کہ النصر منظم کہے نصرتی
عادل شاہی بیجاپور کی عادل شاہی سلطنت نے بھی قطب شاہیوں کی طرح دکنی کی سر پرستی کی۔ اس خاندان کے دو فرماں روا برایم عادل شاہ جانی اور علی شاہ ثانی المتخلص بہ شاہی نے دکنی میں شاعری بھی کی۔ ابراہیم عادل شاہ نے نورس میں برج بھاشا کے علاوہ بعض گیت وکئی میں بھی لکھے تھے
اگر چہ ان گیتوں پر برج بھاشا کا اثر زیادہ غالب ہے تا ہم اس کے درباری شاعر عبدل کی مثنوی "ابراہیم نامہ شمالی ہند کی دہلوی اور جنوبی ہند کی و کفی کا بڑا چھا متزاج پیش کرتی ہے۔ اس شاعر نے اپنے آپ کو دہلوی ظاہر کرتے ہوئے وکئی میں لکھنے پر فخر کیا ہے۔ علی عادل شاہ شاہی کا دیوان محمد قلی کے دیوان کی طرح تمام اصناف پر محیط ہے۔
ان بادشاہوں کے علاوہ پیا پور کے صوفیا نے بھی اردو نثر و نظم کو مالامال کیا۔ ان میں شمس العشاق میراں جی ، ان کے بیٹے برہان الدین جانم اور پوتے شاہ امین الدین اعلی و نیزان کے ظالما و تاند و شامل ہیں۔
شاہ میراں بی شمس العشاق کی تصانیف لسانی اہمیت کے حامل ہیں مثنوی شہادت الحقیقت ، خوش نامہ ، خوش آفز ، مغز مر غوب کے مخطوطات مختلف کتاب خانوں میں موجود ہیں۔ شاہ برہان الدین جانم کی تصانیف میں کلمتہ الدقائق (نثر) سکھ ، سهیلا ، مثنوی ارشاد نامه ، مثنوی بشارت الذکر و غیر و دستیاب ہیں
شاد امین الدین اعلی نے بھی کئی مثنویاں لائیں۔ گفتار شاواتین ، محب نامہ اور گنج مخفی و غیر ہ شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ عادل شاہی دور کے جن شعراواد با کے کارنامے دستیاب
ہوئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
مثنوی ابراہیم نامه از عبدل، مثنوی چندر بدن و ماه از مقیمی، مثنوی کشف الوجود مثنوی کشف الانوار از شاه داول، مثنوی بهرام و حسن بانو از امین دولت مثنوی نخ نامه از نظام شاہ، مثنوی میز بانی نامه از حسن شوقی ۔
حسن شوقی کا تعلق دکن کے تینوں درباروں سے رہا۔ مثنوی قصہ بے نظیر اور گلدستہ از صنعتی ، مثنوی نجات نامه از ایافی ، مثنوی جنت سنگار از ملک خوشنود ، مثنوی خاور نامه از رستمی ( ۲۴ ہزار اشعار پر مشتمل رزمیہ مثنوی لکھی جو اردو کی سب سے عظیم مثنوی مانی جاتی ہے۔ ) مثنوی ) علی نامه ، گلشن عشق و تاریخ اسکندری از ملک شعرا پیا اور ملا نصرتی مثنوی یوسف زلیخا از ہاشمی ، دیوان ہاشمی (ریختی) بھی اہم ہیں ۔
اس کے مثنوی قصص الانبیاء از قدرتی، مثنوی اسرار عشق از مومن مثنوی گنج مخفی ، شجر الا تقیا، نظم سی حرفی ، دیوان شاه معظم از معظم ، در وصیت الشهدا از سیداد غیر دو۔ مغل عبد ۱۷۵۰-۱۹۸۲، سترہویں صدی عیسوی میں دکن کی سلطنتوں عادل شاہی ، قطب شاہی اور نظام شاہی کا مغل سلطنت میں انضمام عمل میں آیا۔
اس دور میں مرثیہ گوئی کی کافی ترقی ہوئی۔ ڈاکٹر زور اس کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ اورنگ زیب اور اس کے کارندوں کی سیاست کے ڈر سے دکنی ادیب اور شاعر اپنے جذبات خیالات کو صاف ظاہر نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے مر شے کو
اپنے جذبات کے اظہار کا وسیلہ بنا لیا۔ اس دور میں جن شاعروں اور ادیوں نے وکئی میں اپنے کارنامے چھوڑے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔ قاضی محمود بحری ( من لگن و بنگاب نامہ اور دیوان ) پیر زادہ روحی ہاشم علی ، مرزا، ضعیفی ( ہدایات ہندی ) ، شاہ عنایت ( نور نامه ) ، شاہ عبد الرحمن قادری ( مصنف باغ حسینی ) ، سید محمد خان عشرتی ( مصنف و یک پلنگ و چت لگن) عشرتی کے فرزند سید احمد خان ہنر بھی صاحب تصنیف تھے۔
ان کی مثنوی “بیمہ در پی جو پھول بن کے جواب میں لکھی گئی خاصی اہم ہے۔ یہ مثنوی اس زمانے کی کئی تہذیب کی عکاس ہے۔ ہنر نے اس زمانے کی سجاوٹ اور زیبائش ، کھانوں ، سالنوں ، میٹھوں وغیرہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ شاہ حسین ذوقی کی تصانیف بحر العرفان ، وصال العاشقين ، وفات نامه ،
ماں باپ نامہ ، غوث نامہ مذہبی رنگ کی ہیں۔ اس دور کا ایک اور مشہور شاعر و جنابہ الدین وہدی ہے جس کی تصنیف " پنچھی باچھا ہے۔ یہ منطق الطیر کا تر جمہ ہے اور باغ جاں فنرا اور تحفہ عاشقاں بھی فارسی صوفیانہ مثنویوں کے تراجم ہیں۔ لیکن ولی اور نگ آ بادی اس پورے دور کے سب سے اہم شاعر ہیں ۔
ان کی شاعری کو بجا طور پر عہد آفر میں اور عہد ساز کہا جا سکتا ہے ۔ اور نگ زیب نے پیا پور ، احمد نگر اور حید رآ باد کی رونق تو کم کر دی وہاں کی محفلیں اجڑ گئیں اور چہل پہل ختم ہوئی لیکن اس کی وجہ سے اور نگ آ باد شعر وادب ، علم و فن اور تہذیب و ثقافت کا ایک ایسا مرکز بن گیا جس کی اہمیت اور نگ زیب کی وفات کے تقریبا ایک صدی بعد تک قائم رہی۔ بیجا پور اور حید رآ باد کے باقی ماند و شعراء وہاں جمع ہو گئے ۔
ولی کے علاوہ اس عہد کے دکنی شعرا میں سراج اور عزلت دوسرے اہم شاعر ہیں جنہوں نے دکنی بالخصوص قدیم نزل کو نئی آب و تاب دی۔ لیکن ولی کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ ولی نے دلی کا سفر کیا
اور وہاں کے مشاعروں میں اپنا کلام سنا کر وہاں کے شاعروں کو اردو کی طرف مائل کیا۔ یہ گویا مفتوح کی فاتح پر فتح تھی۔
کیونکہ شمالی ہند کی فوجوں نے دکن پر سیاسی فتح حاصل کی تھی۔ لیکن دکن کے اس شاعر نے پر اولی فتح حاصل کر لی اور اس زبان کا ڈنکا دی کہ مشاعروں اور محفلوں میں اس طرح بھجوایا کہ " کئی وہاں کی محفلوں کی جان بن گئی اور دلی کے شعرا نے اسے ریختہ کا نام دے کر شاعری کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔
چنانچہ شمالی ہند کے شاعروں اور بند کر رہ نگاروں نے ولی ہی کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر سمجھ لیا۔ ولی کے علاوہ جن دکنی شعرا نے دی میں شہرت حاصل کی ان میں فقیر اللہ آزاد اور فراقی مشہور ہیں۔
لیکن دہلی میں کئی نے بہت جلد اپنی ہیئت تبدیل کر لی۔ مرزا مظہر جان جاناں اور حاتم نے "اصلاح زبان کی تحریک شروع کی جس کے تحت دکنی کی لفظیات کو تبدیل گیا۔ دکنی سے مرج، راجستھانی، پنجابی اور کھڑی کی آمیزش ختم کر کے اسے عربی اور فارسی کے قریب کر دیا۔
اس کا ثبوت دیوان زادہ حاتم کا فارسی پیش لفظ ہے جس میں حاتم نے وضاحت کر دی کہ ملک کی زبان اور ہندوی کہ اس کو بھا کا کہتے ہیں موقوف کر کے فقط روز مرہ کہ عام فہم اور خاص پسند تھا اختیار کیا۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ
"اس انتخاب میں قدیم (دکنی) طرز کے اشعار میں نے نہیں درج کئے اگر کوئی ملیں تو مجھے معاف کیجئے اس طرح اٹھارویں صدی کے اوائل تک دکنی ، صوتی تغیرات کے زیر اثر شمال میں اردوئے معلی ' بن گئی۔
لیکن جنوبی ریاستوں جیسے مدراس، کر ناٹک اور حیدرآباد میں ۱۸۲۷ء تک اسی زبان میں تصنیف و تالیف کا کام ہوتا رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جب مدراس میں اپنے قدم جمائے تو انہوں نے فورٹ سینٹ جارج کا لج کے معلمین سے دکنی میں کتابیں لکھوائیں ۔ جس کا نمونہ "انوار سہیلی مصنفہ ، محمد ابراہیم ہے۔
لیکن ستر ہو یں صدی کا اواخر اور اٹھار ہو میں صدی کا اوائل اردو شعر وادب کے لئے بڑا ساز گار رہا۔ کیونکہ اس زمانے میں اردو نے مغل دربار میں بار پایا۔ شاہان اور ھر نے اس کی سر پرستی کی اور پر تلیزی، فرانسیسی اور انگریز نو واردین نے زبان ہندوستان یا ہندوستانی کی ترویج واشاعت کے لئے سینٹ جارج کا لج مدراس، فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور دلی کالج قائم کئے ۔
اس دوران بھی دکنی کا تسلسل قائم رہا۔ گو نظم کا رواج کم ہو گیا لیکن نثر میں یہ روایت برقرار رہی۔ بالآخر سر سید تحریک نے دکنی کے پلان کو بالکل موقوف کر دیا۔
جامعہ الثانیہ کے قیام کے بعد تو یہ داستان پاستاں صرف بولی کے روپ میں رہ گئی۔ اور صرف و نحو و محاورہ و زبان کے اعتبار سے معیاری اردو د کنی سے اس حد تک مختلف ہو گئی کہ " کی" گو اردو کا بگڑا ہوا روپ سمجھا جائے گا۔