مرزا اسد اللہ خان غالب کی اردو نثر
Mirza asad ullah khan ghalib,
Mirza ghalib prose,
مرزا اسد اللہ خاں غالب نے اپنی جدت پسند طبیعت اور نکتہ رس ذہن کی بدولت اردو نثر کے قالب میں زندگی کی جونئی روح پھونکی۔
اس کی قدرو قیمت کا صحیح انداز بھی ممکن ہے جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ غالب سے قبل اردونثر ارتقا کی رکن منزلوں کو طے کر چکی تھی اور اسالیب بیان کے اعتبار سے کس مقام تک پہنچ چکی تھی۔
لہذا غالب کی اردو نثر urdu prose کا جائزہ لینے سے پہلے ہم اجمال کے ساتھ غالب سے پہلے کی نثر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اردونثر کا با قاعدہ آغاز اگر چہ دکن میں بہمنی عہد سے ہوا
مذید اردو سے معلومات ملاحظہ فرمائیں۔
حلقہ اربابِ ذوق
اور قطب شاہی عہد میں اردو نثر کا ایک عظیم او بی
کارنامہ ”سب رس‘‘ (از ملا وجہی تخلیق ہوا لیکن اردونثر کے ان دکھنی نمونوں سے شمالی ہند والے تقریبا انیسویں صدی کے آخر تک بے خبر تھے۔
اس لیے اگر ’’ کربل کتھا‘‘ کو اس کے مؤلف کے دعوے کی روشنی میں ایک عرصے تک اردو کی پہلی نثری تالیف کہا جاتا رہا تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ۔ابتداۓ عہد محمد شاہی میں شمال والے دکھن کی شعری روایت سے تو کسی حد تک باخبر تھے
اور ولی دکھنی کے پر تاثیر کلام کے زیر اثر انہوں نے اردو میں تخلیق شعری کو ایک تحریک کی صورت بھی دی لیکن نثر کے معاملے میں اس قسم کے اثرات کی کوئی نشاند ہی ہمیں نہیں ملتی۔
اس لیے غالب تک اردو نثر کا جو ارتقائی سلسلہ شمالی ہند میں ملتا ہے اس کی ابتدا’’ کر بل کتھا‘‘ ہی سے ہوئی جس کے مؤلف کا یہ دعوئی اس اعتبار سے قابل لحاظ ہے: پیش از میں کوئی اس صنعت کا نہیں ہوا مخترع اور اب تک ترجمه فارسی به عبارت ہندی نہیں ہوۓ ستمع ‘‘کربل کتھا جن حالات اور تقاضوں کے تحت لکھی گئی
ان کا ذکرفضلی نے اپنے دیباچے میں کیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ کربل کتھا کی تالیف کسی ادبی یا علمی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ عوامی تقاضے کے تحت ہوئی۔ یہ عوامی تقاضا تاریخی لحاظ سے قابل ذکر ہے
کر بل کتھا کی تالیف ۱۱۴۵ھ میں اور اس پر نظر ثانی ۱۱۶۱ھ میں ہوئی سید شاہی دور تھا۔ اس دور میں اردو بڑی تیزی سے فارسی کی جگہ لے رہی تھی ۔ اردو شاعری کا چرچا عام ہو چکا تھا۔
اردونثر، کی طرف بھی توجہ نہیں کی گئی تھی۔ علمی اور مجلسی اظہار کی زبان فارسی تھی۔ اس ماحول میں محرم کی مجالس میں کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ عوام خصوصاً عورتوں ) کی طرف سے یہ تقاضا’’ کہ صد حیف و نزار افسوس جو ہم کم نصیب عبارت فارسی نہیں سمجھتے اور رونے کے ثواب سے محروم رہتے
ایسا کوئی صاحب شعور ہو دے کہ کسی طرح من وعن نہیں سمجھاوے اور ہم سے بے سمجھوں کو سمجھا کر رولاوے۔ (دیباچہ کربل کتھا ) کر بل کتھا کی زبان اور نثری اسلوب کا مطالعہ کرتے ہوۓ ہمیں اس دور کی اس لسانی تحریک کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے جو ولی دکنی کے دیوان کے شمالی ہند میں پہنچنے کے بعد شروع ہوئی ۔
مرزا مظہر جان جاں اور خان آرزواس تحریک کے سر پرست تھے۔اردوزبان urdu zuban کومرکز سلطنت کے ادبی مذاق کی روشنی میں صاف دشتہ بنانے کا کام اس عہد میں شروع ہوا۔ دتی کے روزمرے اور محاورے کو ترجیح دی جانے لگی اور دوسرے علاقوں (وکن ، برج اور پنجاب کے اثرات کو ختم کیا جانے لگا۔
اصلاح زبان کا میل جوه ۱۱۵ھ کے لگ بھگ شروع ہوا مختلف مرحلوں سے گزرتا ہوا ، تاریخ تک پہنچا جن کی اولی یا لسانی تحریک سے غالب بھی متاثر تھے۔ کر بل کتھا سے لے کر فورٹ ولیم کالج کی نثری کا وشوں تک اسالیب بیان کے اعتبار سے ہمیں دوطرز ملتے ہیں ۔ایک طر ز تو فارسی کے تتبع میں پر تکلف نثر کا ہے جس کے اہم نمائندے عطا حسین تحسین مرقع رقم (مؤلف نوطرز مرصع ) تھے ۔
دوسرا نو طرز مرصع، ایک بہترین سادہ نثر کا ہے جس میں اداۓ مطلب کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے ۔’’ کر بل کتھا اسی زمرے میں آتی ہے۔
اس کے مؤلف نے جس عوامی ضرورت کے تحت روضۃ الشہدا کے قاری خلاصے سے یہ کتاب ترجمہ کی ، اس کا تقاضا یہی تھا کہ اسے عام فہم بنایا جائے ۔
اس لیے اس کتاب کا اسلوب( دیباچے کو چھوڑ کر سادہ ہے۔ لیکن اس سادگی میں وہ صفائی اور شنگی ابھی پیدا نہیں ہوئی جو پچاس برس بعد کی تصانیف میں نظر آتی ہے۔ شاعری کے مقابلے میں اردو نثر کا اسلوب ذرا آہستگی سے آگے بڑھ رہا تھا۔
اس ارتقائی عمل میں اصلاح زبان کی کوششوں کو بھی مد نظر رکھا جاۓ تو جس سادہ وسلیس نثر کے نمونے فورٹ ولیم کالج Fort William College کی نگارشات میں نظر آتے ہیں ، وہ دفعنا پیدا نہیں ہو گئے ۔
بلکہ کر بل کتھا کے بعد پر تکلف نثر کے ساتھ ساتھ سادہ نثر بھی لکھی جارہی تھی۔ شاہ عبدالقادر کا ترجمہ قرآن مجید اور شاہ عالم ثانی کی عجائب القصص سادگی اور عام نہی کی اس روش کے نمونے ہیں۔
تاہم فورٹ ولیم کالج کی نثری نگارشات کی بہ تاریخی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس کالج کے منتظمین نے دیسی منشیوں سے اپنی خاص ضرورت کے تحت سادہ سلیس اور بول چال کے قریب زبان لکھوا کر اردو کے نثری اسلوب کو تعین کرنے کی بلیغ کوشش کی ۔
فورٹ ولیم کالج میں اردو نثر کا جو کام ہوا، وہ ایک سیاسی تقاضے کے تحت تھا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے مقبوضات کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہورہا تھا۔ تاریخ کا فیصلہ واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔انتقال اقتدار سے قبل جن دستوری مرحلوں کو طے کرنا ضروری تھا
ان میں زبان کا مسئلہ بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔ مغلوں کی دفتری زبان فارسی تھی ۔ نئے دفتری نظام کے لیے زبان کی تبد یلی سیاسی لحاظ سے از بس ضروری تھی ۔
فارسی کی جگہ فی الفور انگریزی نہیں لے سکتی تھی انتظامی لحاظ سے بھی اور نفسیاتی اعتبار سے بھی اس موقع پر انگریزی کولا نا محضر تھا۔
اندر میں حالات اردو ہی ایک ایسی زبان تھی جس کو ملک میں لینگوا فرینکا کا درجہ حاصل تھا اور اس وقت کی تبدیلی کے لیے یہی زبان موزوں ترتھی۔
چناچہ جو تجر بہ فورٹ ولیم کالج میں ہوا، اس کے نتائج کچھ عرصہ بعد دفتری زبان کی تبد مٹی کی صورت میں ظاہر ہوۓ ۔۱۸۳۲ع میں دفتری زبان اردو ہوگئی ۔
اس زمانے میں اردو اخبار بھی نکلنے لگے۔ مذہبی تبلیغ کے لیے بھی اردو سے کام لیا جانے لگا ۔ اگر چیستقبل کے دفتری تقاضوں کے لیے ۱۸۳۵ع میں انگریزی زبان ذریعہ تعلیم بنا دی گئی
تا ہم دہلی کالج، میں اردو ہی ذریعہ تعلیم رہی اور اس کالج کی تعلیمی و نصابی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی قائم ہوئی اردونثر کے فروغ کا مینقطہ ارتقا غالب کی نگاہوں کے سامنے اتا ہے۔
فورٹ ولیم کالج سے دہلی کالج تک اردو نثر کے اس فروغ وترقی کے ماحول میں ادبی نقطۂ نظر سے جہاں فورٹ ولیم کالج کی روش پر سادہ وسلیس نثر میں داستانی ادب تالیف و ترجمہ ہوا۔
وہاں کے داستانوں قدیمی رنگ نظر آ تا ہے۔اس رجحان کے نمائندے رجب علی بیگ سرور (مؤلف فسانہ عجائب ) تھے جن کی ایک تصنیف پر غالب نے تقریظ لکھی ہے۔
سادگی اور تکلف کے یہ دونوں سلسلے مرزا غالب کی نثر نگاری تک اپنے اپنے حلقوں میں قبول عام کا درجہ رکھتے تھے۔ خصوصاً داستانوں کا رجحان عام ہو رہا تھا۔ داستانیں لکھی بھی جاتی تھیں ۔
ان کو پڑھا بھی جاتا تھا اور سنایا بھی جاتا تھا۔ مشاعرے کی طرح واستان گوئی ایک تہذیبی ادارے کا درجہ حاصل کر چکی تھی ۔ غالب کو بھی داستانوں سے بڑی دلچسپی تھی ۔
شراب کی بوتلیں اور ضخیم داستانیں ان کا دل پسند مشفا تھیں ۔فروغ اردو کے اس ماحول میں غالب بھی بعض ضرورتوں اور مجبوریوں کے تحت اردو نثر ( خطوط نگاری ) کی طرف مائل ہوۓ اور پھر یہی ضرورت یا مجبوری کچھ عرصہ بعد ایک عادت بن کر ان کے لیے راحت و دلچسپی کا ذریعہ بن گئی۔
اس طرح تاریخ نے اردونثر کو ایک ایسا صاحب طرز ادیب دیا جس نے اپنے انداز خاص میں اردونٹر کے قالب میں نئی روح پھونکی ۔
جہاں تک اسلوب کے خار جی محاسن کا تعلق ہے غالب کے زمانے تک اردونتر تجربات کی مختلف منزلوں سے گزر چکی تھی ۔ اس میں مغلق اور رنگین اسلوب تھا تو سادہ وسلیس اسلوب بھی تھا۔
اس میں لکھنؤ کی پر تکلف صنعت گرمی تھی تو دہلی کا روز مرہ اور محاورہ بھی موجود تھا۔ لیکن ان مختلف اسالیب بیان کے اندر جہاں تک کسی شخصیت کی جھلک کا تعلق ہے
وہ اس وقت تک مفقود تھی شخصی اسلوب ، جس میں کسی شخصیت کے دل کی دھڑکنیں فکر و احساس کی لہر میں اور جذب و شوق کے سلسلے ساۓ ہوۓ ہوتے ہیں
آسانی سے پیدا نہیں ہو جا تا۔ یہ نہ ریاض کا ثمر ہے نہ اتفاق کی بات ۔ یہ تو ایک عطیۂ قدرت ہے، جسے میل جاۓ۔ زبان اپنے ذخیرۂ لفظی سمیت موجود ہوتی ہے۔ صرف ونحو کے قواعد بھی متعین ہو جاتے ہیں ۔
لیکن انہی لفظوں اور قاعدوں کے بے ساختہ استعمال میں جب کوئی اہل قلم اپنی شخصیت کو بھی سمودیتا ہے تو شخصی اسلوب ظہور میں آتا ہے ۔
یہ مرحلہ اردونثر میں غالب کی نثر کے ساتھ آیا۔ یہاں سے اردو نثر میں تخلیقی ادب کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور مختلف اصناف ادب کے لیے اسلوب کی بنیاد مہیا ہوتی ہے۔