جدید اردو غزل کی روایت کا جائزہ
جدید اردو غزل کی روایت کا فنی وفکری تجزیہ کیجئے ۔
جواب: اولی مباحث کا المیہ یہ ہے کہ بعض الفاظ اور اصطلاحات کو بغیر سمجھے ان پر ایسے حکم لگا دیتے ہیں کہ ان کا کردار صرف مسخ شدہ صورت میں انجرتا ہے، روایت کا لفظ بھی انہی بدنصیب الفاظ کی صف میں شامل ہے ۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ الفاظ بالذات ایک مسئلے کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔ جس کے بارے میں اپنی رائے قائم کرنے کا حق یقینا ب شخص کو حاصل ہے لیکن استحقاق سے پہلے ذمہ داری اور استعداد کی شرط عائد ہوتی ہے ۔ اس شرط کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نام روایت کو پہلے سے کوئی حرف ناروا سمجھے بغیر اپنے پانی تحفظات اور رواج کے جبر سے آزاد ہو کر اس کا اچھی
طرح تجزیہ کر میں اور حقیر مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر نتائج کی جستجو اور ان کی قد رو قیمت کے تعین کی طرف قدم اٹھائیں ۔ روایت کی حیثیت فن اور فکر کے ارتقاء میں اساسی ہوتی ہے ۔ اس حقیقیت سے قطع نظر زند واور فعال حقیقتوں سے مملو روایت بیک وقت آئندہ حقیقتوں کے محرک اور ان کے امتحان کی حیثیت بھی رکھتی ہے ۔ وہ ماضی اور حال دو زمانوں میں ایک ساتھ زندہ رہتی ہے ۔ اور وقت سے اس کا رشتی محض ایک تاریخی واقعے یا پس منظر کی شکل میں استوار نہیں ہوتا بلکہ ارتقاء پر سی میلانات کے ساتھ اس کے وجود اور معنویت کا احساس اور زیادہ مستحکم ہو جا تا ہے ۔ جب ہم کسی حقیقت یا تصور کے وجود سے انکار کرتے ہیں تو ہمارے انکار میں میرم بھی شامل ہوتا ہے کہ ہم نے اس کے وجود کو تسلیم کر لیا ہے ۔ اس طرح ادب کی تاریخ میں انہی
بری روایت کے اعتراف وادراک کے بغیر کسی نئے راستے کی تلاش ممکن نہیں ۔ کوئی بھی نظر یہ مکتبہ فکر ،اونی تصور یا تہذیبی ریحان گزرے ہوئے زمانوں سے کلیتا الگ کر کے نہ تو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ماضی انچا ہو یا برا اس کا کوئی نہ کوئی جز وحال کی ذات کا بھی حصہ ہوتا ہے، بھی اس کی قوت بن کر اور کبھی متضالیکن ناگز بر حقیقت کی شکل میں ۔ جو حضرات روایت کے وجود سے یکسر محرف ہوتے ہیں اور بدت یا بدید بیت کو اپنے ذہنی افق پر خلایا آسمان سے حاصل شد وروشنی کا منبع قرار دیتے ہیں ۔ ان کی منطق صرف ایک گڑھا کھود نے کے عمل سے مماثل ہوتی ہے جس میں عمل کا سفر اوپر سے نیچے کی طرف ہوتا ہے ۔ بصورت دیگر مرمل خواہ اپنے پیش رول کا اثبات کر تا ہو یا اسکی نفی ، بہرحال اس کی سطح پر اپنے قدم جما تاہے ۔ مجنوں صاحب کے لفظوں میں
" ماضی کو اپنے سر کا بھوت بنالینا تو یقینا آسیب قسم کی پیاری ہے ۔ لیکن ماضی سے یکسر انکار کردینا ( اس کے وجود سے غافل ہو جانا ) بھی وہ دماغی عارضہ ہے جس کو اصطلاح میں "نسیان‘‘ کہتے ہیں ۔ ہم رجعت کے بغیر ماضی کی قدر کر سکتے ہیں اوران کے صالح عناصر کو مستقبل کی تعمیر میں لگا سکتے ہیں ۔ ادبکا کام یہ ہے کہ وہ اپنی آبائی میراث کو قبول کرے اور اس کو صیح طور پر کام میں لاکر ترقی کے نئے اسباب مہیا کرے اور آنے والی نسلوں کے لیے
پہلے سے بڑی میراث چھوڑے۔ زندگی کے اکتابات کی طرح ادب بھی بیک وقت وارث اور موروث دونوں ہوتا ہے ۔ ( نقوش وافکار ) انسانی تاریخ وتہذیب کے کسی بھی دور میں ہی نہیں ہوا کہ فکر وفن کا کوئی تصورمحض ایک جامد حقیقت بن کر دیروز اور فردا دونوں سے غیر متعلق ہو جاۓ ۔ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب وقت ساکت ہو جاۓ ، ذہن ماؤف اور حرکت تبدیلی یا ترقی کی ہر آرزو اور جبلت عناصر کا ساتھ چھوڑ دے ۔ایک عقیدے کے مٹنے اور نئے
عقیدے کے حصول کا درمیانی وقفہ زمانی اعتبار سے مختصر ہوتے ہوئے بھی فکر واحساس کے زاوی نظر سے لاحاصلی ، آزمائش اور جستجو کا بے حد طویل زما نہ ہوسکتا ہے ۔ اس عبوری دور میں اندھیرے اور اجالے کی کشمکش چند مہینوں یا چند برسوں کی بات ہو کر بھی ماضی اور مستقبل کے صحرا میں طویل مسافتیں طے کرتی ہے اور اس کے بعد ہی کسی نئی منزل کا سراغ ملتا ہے ۔ اس نئی منزل تک پہنچنے میں جوقو تیں مد و معاون ہوتی ہیں ان میں لازمی طور پر ماضی کی قوتوں کا بھی کوئی نہ کوئی حصہ شامل ہوتا ہے ۔اس لیے جب اس نئی منزل کی بنیاد پر آگے کا
سفر شروع ہوتا ہے تو ماضی بعید کے نقوش کی جگہ ماضی قریب کے نقوش لے لیتے ہیں ۔ سفر زیادہ تیز ہو تو اس جگہ پہنچ جانا غیر فطری نہیں جہاں سے ماضی بعید کے خال و خط بعض اعتبار ات سے بالکل بگڑے ہوۓ دھند لے یا معدوم نظر آئیں لیکن سفر کی مکمل رو دادمرتب کرنی ہوتو دور افتادہ ماضی کے وجود کا اثبات ضروری ہے ۔ مظفر علی سید نے اپنے
ایک مضمون’’ غالب کی بغاوت‘‘ ( مطبوع فنون ، لاہور ) میں لکھا ہے : ” اردوادب کی جدید تحر یک جس کا آغاز ہی غالب سے ہوتا ہے ۔ اب اپنی فکری نتیج اورفنی اظہار کے سانچوں کے سلسلے میں غالب سے بہت دور جا چکی ہے ۔ پھر بھی غالب کی رہبری کو تسلیم کرنا ضروری ہے تا کہ ہم نت نئے تجربوں کی دھن میں اپنی تہذیب اور اس کے کمالات سے بالکل ہیا تعلق ہو کر ہوا میں معلق نہ ہو جائیں۔ بغاوت کے لیے بھی مضبوط فکری بنیاد کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ ہماری سب شوریدگی ہوا میں ہی تحلیل ہو کر نہ رہ
جاۓ ۔“ یہاں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا بھی ضروری ہے کہ بغاوت کے لیے مضبو طافکری اور تہذیبی بنیاد میں قائم کرتے وقت ماضی کے بعض عناصر کوخام مواد کی حیثیت سے کام میں لا نا صرف اختیاری مسئلہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کے جبر کی حیثیت بھی رکھتا ہے ۔اس سے روگردانی شاید کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ۔ غالب ہی نے یہ بات بھی کہی تھی :
پیش این آئیں که دارو روزگار
گشت آئین دگر تقویم پار
یعنی آئین روزگار کے سامنے انہیں پچھلے تمام آئین فرسودہ اور مجہول نظر آۓ ۔ لیکن ان کے شعری احساسات اور عملی زندگی کے تمام زاویے اپنے ماضی سے لاتعلق نہ ہو سکے ۔ وہ اپنے عہد کے ساتھ خارجی طور پر سمجھوتہ کرنے کے باوجود اپنے ماضی میں بھی سانس لیتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ یتی ہوئی قدروں اور نئے تہذیبی تصورات کے مابین جو کشمکش جاری تھی اس کی رزم گاہ خود غالب کا شعور بھی بتا ۔
کشمکش کا یہ احساس اردوغزل کے تاریخی ارتقاء میں ہراس منزل پر زیادہ شدت کے ساتھ ابھرا ہے جہاں تہذیبی اور فکری دباؤ کے باعث پرانی منزلوں کی حیثیت کے از سر نوتعین اور نئے راستوں کو اختیار کر نے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے ۔ جب بھی نئے راستے کو اختیار کیا جا تا ہے تو اس کی قیمت اپنے وجود ( اس کے کسی جزو ) کی مسلسل قربانیوں کے
ذریعے ادا کرنی پڑتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اپنی شخصیت کے جن اجزاء سے رفتہ رفتہ کنارہ کش ہوتے جاتے ہیں ، ان کی جگہ نو دریافت حقیقتیں اور قوتیں لے جاتی ہیں اور اس طرح ہر مخروی اپنا صلہ پاتی ہے اور خلیقی استعداد کا جو ہر برقرار رہتا ہے ۔ اس موقع پر کھونے اور پانے کے درمیان توازن کی ضرورت کے علاوہ انتخاب ، امتیاز اور انفرادی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہوتا ہے ۔ اگر نو دریافت اور تازہ کار عناصر کیفیت اور مقدار کے اعتبار سے کم رہے تو ماضی کی روایت ان پر غالب آ جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر فراق کے چند شعر د یکھئے۔
کسی کا پی کے وہ لینا چمن میں انگڑائی
رنگ دیکھ کر غنچوں کا مسکرا دینا
ستم سے لطف بھی خالی نہیں ترا ظالم
بنا بنا کہ وہ مجھ کو تیرا رلا دینا
فراق شعر وہ پڑھنا اثر میں ڈوبے ہوئے
که یاد میر کے انداز تم دلا دینا
کیوں نہ خراب ہوں وہ جو مارے ہوئے ہیں اے جنوں نرگس مست بار کے گردش روزگار کے
پوچھ نہ رات بزم میں دیکھے گئے جو انقلاب
دیکھنے والے اے فراق گردش چشم یار کے
ان اشعار میں غزل کے کسی بدلے ہوۓ رنگ کی بات تو دور رای خود فراق کے حقیقی شعری رویوں کا نشان نہیں مانتا، انہیں پڑھتے وقت اس بشارت کی تلاش بھی بے سود ہے جو اعلی ادبی تخلیقات کو حال کے ساتھ مستقبل کی چیز بھی بنادیتی ہے ۔اس شعر میں فراق نے میر کا انداز یاد دلانے کی بات کہی ہے لیکن خورفراق نے اپنے نقطہ ارتفاع تک پہنچنے کے بعد میر کے لیے ، احساس اور مزاج کو جذب کرتے ہوۓ جواشعار ( بعض اوقات پوری پوری غزلیں ) کہے ہیں
ان میں اور متذکر و اشعار میں کوئی ربط ، کوئی مشتر کہ قدر نظر میں آتی لیکن فراق کی یہ خوبی ہے کہ وہ اس رنگ پر قانع نہیں ہوتے مسلسل کوشش ، جذبے کی تہذیب اور شعری احساس کی تربیت نے بہت جلد انہیں اس درجے تک پہنچادیا جہاں خودان کا مانی ان کے لیے اجنبی بن جا تا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب فراق کے حقیقی کارناموں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ان کے متذکرہ اشعار اوران کی شعری صلاحیتوں کی کمزوری اور تھکن کے بعد ظہور میں آنے والی پچھلے دس بارہ سال کی غزلوں کو بنیاد نہیں بنایا جاسکتا
اور جب فراق کا نام غزل کے مجتہدین کے ساتھ لیا جا تا ہے تو ان کے معمولی اشعار پیش نظر نہیں ہوتے ۔ایسے لوگ جوغزل کی پوری روایت ، مذاق عامہ ،مشاعروں کی مقبولیت اور عام پسندیدگی کے رجحانات سے اچھی طرح واقفیت نہیں رکھتے ۔ فراق کیا میر اور غالب کی غزلوں میں بھی ایسے اشعار دیکھ کر تھیر ہوں گے جو زمانہ کے عام اور فرسودہ شاعری کی سطح سے او پراٹھتے نظر نہیں آتے لیکن ہر تجر پیسی نہ کسی حد تک نام صرف اس لیے ہوتا ہے کہ اپنی روایت کے پس منظر میں اس کے خال و خطا بھر پاتے ۔ ہر تجر بہ پہلے خود اپنی روایت کے غلاف میں چھپا ہوا ہوتا ہے اور اس اعلی تخلیقی استعداد کا منتظر جو نہ صرف یہ کہ اسے غلاف سے
باہر نکالے بلکہ اس کی خارجی اور داخلی ہیتوں میں نئے رنگوں کی آمیزش کرنے کے بعد اسے ایک نئے وجود سے ہمکنار کر سکے ۔ غزل کی صنف اردو کی شاعری کی دوسری تمام صنفوں کے مقابلے میں زیادہ پختہ کار رہی ہے ۔ اور بیسویں صدی سے پہلے ولی میر سودا قائم درد، حتی آتش، تاریخ، غالب، مومن اور حالی کے وسیلے سے اس نے اچھی شاعری کا جو معیار قائم کیا ہے اس کی مثال کسی دوسری صنف سے نہیں دی جاسکتی ۔ جو معیار غزل کی قوت اور کمزوری دونوں کا مظہر بن گیا۔ ایک طرف اس معیار نے ہر عہد میں
غزل کی شاعری کو خاص سطح تک پہنچنا تو دوسری طرف اس کے پاؤں کی زنجیر بھی بنا رہا اورکسی بھی عہد کی غزل گوئی اپنے روشعر کے اثر سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکی ۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے ساتھ میر، حالی کے ساتھ غالب ،حسرت کے ساتھ مومن اور فراق وفیض کے ساتھ ان کے پیش روا یک صنف اور فطری تسلسل کی لکیر میں شامل دکھائی دیتے ہیں لیکن ان میں کوئی بھی ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی نہیں ہوتا ۔ غزل کی روایت زینہ بہ زینہ ان سب کو ایک ہی داستان کے مختلف ابواب کی شکل میں مرتب کرتی جاتی ہے اور ارتقاۓ مسلسل کی زنجیر انیسویں صدی کی تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ اصلاحی شاعری کے غلغلے ، اس کے بعد جوش اور عظمت اللہ خاں کے اعتراضات اور ترقی پسند تحریک سے متاثر اور کبھی بھی مضروب ہونے کے باوجودٹوتی نہیں ۔ ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے قیام کے ساتھ اردو شاعری واضح طور پر ایک ساتھ
دوستوں میں جاتی ہوئی دکھائی دی ۔ ترقی پسند تحر یک اپنے دور آغاز میں قدیم ادبی تصورات کے پیش نظر ویسی ہی جدت اور غلط رو نجھی گئی اور اسے ویسے ہی شک وشبہ کی نظر سے دیکھا اور اس کے خلاف وہی رویہ اختیار کیا گیا جو آج پرانے حلقوں کی طرف سے نئی شاعری کے سلسلے میں اختیار کیا جا تا ہے ۔ اس وقت بیت اور موضوع کی ہر وہ شکل جوروایتی شاعری کے سانچوں میں سانہیں سکتی تھی ،ترقی پسند شاعری سے تعبیر کی گئی اس سلسلے میں غلط فہمیاں اس حد تک عام ہوئیں کہ حلقہ ارباب ذوق سے تعلق رکھنے والے اور ترقی پسند قائدین کی نظروں میں معتوب شعراء بھی محض اپنے نئے پن کی وجہ سے ترقی پسند سمجھے گئے ۔
ترقی پسند تحریک بنیادی طور پر ارضی حقیقتوں اور مجر دحیثیت رکھنے والے تہذیبی مقاصد کی شاعری تھی چونکہ اس کا منشور فرانس سے ہندوستان لا یا گیا تھا اس لیے ہندوستان کی تہذیبی روایتوں اور اس منشور کے درمیان ایشیا اور یورپ کے امتیازات کے علاو البیعی ، جغرافی اور عمرانی امتیازات کی دیوار بھی حائل رہی ۔ اس وقت تک ادب سے دیہی رکھنے والے حلقوں میں ایک بین الاقوامی تہذیبی مزاج اور
سائنس کی ترقیوں کے باعث رونما ہونے والی وسعت فکر و نظر کا احساس عام نہیں ہو سکا تھا۔ یہ صورت حال ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں سب سے زیادہ اردوکو در پیش تھی کیونکہ اردو نے ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد انگریزی حکومت کے قیام ،انیسویں صدی کی تمام اصلاحی تحریکات اور فن وفکر کے تمام شعبوں میں تہذیب نشاۃ ثانیہ کے فروغ کے باوجود جاگیردارانہ مزاج کے اثرات سے اپنے آپ کو رہا نہیں کیا تھا ۔ وہ لوگ جن کے ذہن روشن تھے زندگی کے تمام معاملات میں نئی تہذیب کی روشنیوں کو قبول کرنے کے باوجود خاص طور سے اردو شاعری کے معاملے میں خاصے کٹر اور قدامت پسند تھے ۔ مشاعروں اور نشستوں کی روایت ، ادب کے تفریحی تصور اور ادب کو اپنے پسند ید ہ مذاق کی آسودگی کا ذریعہ
سمجھنے کے ربحان نے انہیں شاعری کے معاملے میں بالعموم اپنے عہد سے پیچھے رکھا۔ حلقہ ارباب ذوق کی شاعری نفسیاتی حسی اور اعصابی الجھنوں نیز ایک گہری پر پیچ اور کبھی بھی نا قابل فہم داخلیت کی شاعری ہونے کے باعث جس پہنی ریاضت اور تربیت کی متقاضی تھی اس کا باراٹھا نا شاعری سے عام دوکپی رکھنے والوں کے لیے آسان نہیں تھا۔ دوسری طرف ترقی پسند تحر یک جس او بی تصور کو عام کرنا چاہتی تھی وہ اخبار اور پریس کی موجودگی میں ثقہ طبعیتوں کو غیر ضروری معلوم " قی پسند شاعری کی خارجی اپیل ہے اس محسوس ہوتی تھی ۔ غزل کے لیے متوازی خطوط پر چلنے والے یہ دونوں راخانات 5/10 قابل قبول نہیں ہو سکتے تھے ۔ حلقہ ارباب ذوق کے شعراء کی توجہ بیت الم کی طرف رہی ۔ ترقی پسندوں نے غزلیں بھی کہیں اور اس میں شک نہیں کہ فیش مخدوم مجروح اور اس کے ساتھ ساتھ ہند کی اور مزاج کی کوششوں سے غزل اپنے حدود میں رہ کر بھی نئی معنویت سے روشناس ہوئی ۔ شعری امتناعات کے سلسلے میں کسی بڑی جسارت کا ثبوت ان میں سے کسی نے نہ دی اور ان کی
شاعری کا بیشتر حصہ غزل کے معروف علائم اور شعری پیکروں سے آراستہ رہا، پر بھی فرض کسی نہ کسی حد تک تہد میں ضرور ہوئی ۔ ان شعراء میں صرف فیض نے اپنے بعد کی غزل گوئی پر کچھ اثر ڈالا۔ مخدوم کے لیے کی غنائیت گہری اور دور رس تھی لیکن اس کی اپیل سماعت کی حدوں سے زیادہ آگے نہ جاسکی ۔ مجروح ،جذبی اور مجاز کے یہاں احساس اور فکر کی محدودیت کے باعث دوسروں کو اس حد تک متاثر کرنا کہ اس کا رنگ سخن کوئی نیا معیار بن جائے ممکن نہ ہوسکا۔ میرا جی نے بہت وجد آفر میں غزلیں کہیں اور اس میں شک نہیں کہ ان کے ہر شعر پران کے مزاج کی انفرادیت کا نشان ثبت ہے لیکن ان کے غزل گوئی روایت نہ بن سکی ۔ اس کا سبب شائد یہی تھا کہ میرا جی بجاۓ خودا یک نئے او بی مزاج یا طرزفکر کا اسلامیہ تھے جس کی تقسیم شاعری کی مختلف صنفوں کی صورت میں ممکن بھی ۔ بیسویں صدی کے کسی دوسرے شاعر نے مقصد
اور نظریے کے اشتراک سے بغیر ایسی زبردست خلا قانہ قوت ، گہری ، وسیع معنی اور بحر آفر میں بصیرت اور پانی زرخیزی کا ثبوت نہ دیا جس کی مثال میرا جی تھے ۔ وہ بیک وقت قدیم بھی تھے اور جدید بھی اور ان کا شعری احساس اور شعور وقت کے تسلسل اور کائنات کے مختلف النوع مظاہر پر قادر ہونے کے باوجود صرف ان کی ذات کا حصہ محسوس ہوتا تھا ۔ ان کی شاعری ارضی صداقتوں اور افادی و
اسلامی مقاصد کے رول کی شکل میں انجری اور بہت جلد اس نے بجاۓ خود ایک ایسے عمل کی حیثیت اختیار کر لی جس کی رسائی ایشیا اور موجودات کی اوپری سطح سے گز رگراند رون تک ہوسکتی تھی ۔ مجموعی طور پر میرا جی کے اشعار کا سکونت نئی شاعری کی آواز بن گیا اور نی شاعری نے تمام صفوں میں بھی براہ راست اور بد وتر بالواسطہ طور پر میرا جی کے شعری رویے سے بہت گہرا اثر قبول کیا۔
فراق، یگانہ اور شاد عارفی کی آواز میں تین مختلف سمتوں اور سطحوں کا پتہ دیتی ہیں ۔ فراق نے ذاتی تجربوں کی رمز بیت میں گہرے اور وسیع معنی تلاش کیے۔ میر کا سادہ ، دلآویز اور غیر رکی لہجہ اختیار کیا اور پھر اس لیے کے شیڈس سے اپنی آواز کو سنوارا ۔ یگانہ کہ حیثیت تصنع اور تکلف سے آراستہ شعری ماحول میں ایک ناراض ، اکھٹر اور حوصلہ مند بوڑھنے کی تھی ۔ شاد عارفی ذاتی محرومیوں کے باعث خسته و پریشان حال فرد بن کر اپنے معاشرے کو طنز تضحیک اور سرزنش کا سزاوار سمجھتے تھے ۔ان تینوں شعراء کے یہاں اپنی ذات سے والہانہ عقیدت
اپنے احساس اور شعور کی شدید بصیرت اور انفرادیت کی قوت کا احساس ملتا ہے ۔ شاد عارفی کی فکر کا دائرہ اور علم کی حد میں نسبتا محدود تھیں اس لیے ان کی شاعری بیک وقت مینی بازی اور فقرے بازی دونوں کی مثال بن گئی ۔خودت تھی اور خود تزئینی کی سطح سے بلند ہو کر جہاں کہیں انہوں نے اپنی نظر کو آزاد کیا ہے ۔ لفظ اور معنی کے خاصے تابناک اور نو کیلے پیکر ان کی گرفت میں آۓ ہیں ۔ بیگانہ کے یہاں ذاتی زندگی میں عزت نفس کے تحفظ کا احساس بہت گہرا تھا۔ اس احساس نے ان کے شعری مزاج میں ایک تند و تیز اور سرکش جذبے کی صورت اختیار کر لی تھی جس نے انہیں اس حد تک پہنچا دیا کہ وہ
اردو شاعری کے دو غالب ترین ریحانات یا سر چشموں ، غالب اور اقبال کی عظمت کے منکر ہو گئے ۔ یہ انکار دراصل غالب اور اقبال کے شعری کمالات کے اثبات کا خار بی روڈمل تھا چنانچہ ایگانہ کے یہاں ان دونوں کی آوازوں کا سراغ ملتا ہے ۔ فراق نے نظم ونثر کے ذریعے جا بجا میر کے تاثرات کا خور اعتراف کیا ہے ۔ میرے قطع نظر ان کی ابتدائی شاعری میں داغ اور میر اور بعد کے کلام پر قائم ہستی اور آتش کے اثرات بھی بہت واضع ہیں ۔ ان تینوں شعراء کی اہمیت کا سبب ان کی انفراد بہت ہے جو ان کے منتخبہ روایت کے دائروں میں رہ کر بھی اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے اور تخلیقی عمل کے خوش نصیب بھوں میں ایک نئی روایت کی تقلیل کا سامان بھی مہیا کرتی ہے ۔ یہاں فطری طور پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر غالب سے لے کر فراق وفیض تک مختلف ادوار میں غزل نے
اپنی روایت کے عناصر کو جہنذ ب کر تے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا تو نئی غزل کے امتیازات کا تعین کس طرح ہو سکے گا۔ فن اور فکر کی بعض دائمی قدر میں ہر عہد کی اچھی شاعری کا خاصہ ہوتی ہیں لیکن چونکہ اچھی شاعری اور نئی شاعری ہم معنی الفاظ نہیں ہیں اس لیے نئی غزل کے فنی اور فکری امتیازات کیا ہوں گے جو اس کے اور اچھی غزا یہ شاعری کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر سکیں ؟ نئی شاعری ترقی پسند تحریک کے رول کا پتہ دیتی ہے ۔ متعدد ایسے شعراء جو ترقی پسند تحریک کی پیش رواد بی روایت سے
الگ ہو کر اس تحریک میں صرف اس لیے شامل ہوۓ تھے کہ یہاں انہیں فکر واحساس کی تازہ کاری کے لیے بہتر ین فضا ملنے کی توقع تھی ۔ رفتہ رفتہ اس تحریک کے سابی اور اجتماعی مقاصد اور بڑی حد تک غیر ادبی طریقہ کار سے دل برداشتہ ہو کر اس سے الگ ہو گئے ۔ اس طرح نئی شاعری کی روایت کا آغاز با غیانہ اقدام کی حد تک کم و بیش انہیں خطوط پر ہوا جو ترقی پسند تحریک نے اختیار کیے تھے۔ جو بات ان مخطو لا کو ایک دوسرے سے مختلف اور آزاد حیثیت عطا کرتی ہے وہ سمتوں کا اختلاف ہے ۔
نئی غزل کا نقش اول ناصر کاظمی کی غزلیں ہیں۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ برگ نے‘‘ کی اشاعت غزل کے ایک نئے طور کا تعارف ہے ۔ ہندستان میں نئی غزل کا آغاز خلیل الرحمن اعظمی کے ساتھ ہوتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کی تربیت جس شعری فضا میں ہوئی اس پر روایت اور ترقی پسندی دونوں کے اثرات خاصے روشن تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسندی سے وابستگی کے زمانے میں بھی ان کی شاعری ماضی بعید کے ان شعراء سے قطع تعلق نہ کر سکی جو اپنی انتہار سے
ترقی پسند سے غیر ہم آہنگ ہونے کے باوجود خودنگری کے اس رخان کی نمائندگی کرتے تھے جسے کسی بھی عہد کی اچھی شاعری میں اہمیت حاصل رہے گی ۔ میری مراد میر ، آتش اور فراق سے ہے جن کا ادبی مزاج غزل کی عام روایت سے ہم رشتہ ہوکر بھی وجودی اور انفرادی تجربوں کے اظہار کو اولیت دیتا ہے ۔ میر کی دروں بنی اور خود گری،آتش کی سرشاری اوراب ولہجہ کی مردانگی اورفراق مدنام اور پرسوز اور کھر درالیکن مہذب احساس ، اس تثلیث کی مرکزی معنویت ، ذات اور اس کے تناظر میں کائنات اسرار و رموز کا احاطہ کرتی ہے ۔ ان تینوں شعراء کے یہاں داخلیت کی آنچ اتنی تیز ہے کہ ہر جذ بہ سیال ہو کر
پورے وجود پر پھیل جا تا ہے ۔لیکن جس طرح میر ،آتش اور فراق کے حقیقی مزاج کو مجھنے کے لیے ان کی شاعری کے مجموعی تاثر میں ان کے انفرادی لینے کی در یافت ضروری ہے اسی طرح خلیل الرحمن اعظمی کی غزلیہ شاعری میں بھی نئی غزل کے عناصر اپنے ابتدائی دور میں میر اور آتش کے علاوہ غزل کی مروجہ روایت سے بھی متاثر تھی ۔ غالب اور فراق کی ابتدائی شاعری میں بھی ان کے انفرادی احساس اور وجدان کا رنگ نہ ہونے کے برابر تھا لیکن جس طرح محض سنگ بنیاد کی روشنی میں اس پر قائم ہونے والی دیوار کی قامت کا انداز نہیں لگایا جا سکتا اسی طرح ان کی شاعری کے ابتدائی دور میں نمو پر پیر قانات سے ان کے مکمل ادبی کردار کا تعین ممکن نہیں ۔غزل کے فارم کی حد بندیاں علائم اور لفظیات کے محدود دائرے اور اشارے و کناۓ کی زبان کے
حدود سی بھی نئے غزل کو کی خلا قاشہ جسارت پر کئی اقتسابات عائد کرتے ہیں ۔ شعری عمل کی پہلی منزل پرموزی طبع کا امتحان در پیش ہوتا ہے ۔ جب یہ موزی مزاج کا جز و بن جاتی ہے تو اس کی اہمیت کا احساس بھی زائل ہو جا تا ہے لیکن خوداعتمادی کے اس مقام پر پہنچنے کے لیے فکری وفنی ریاضت کی ایک مدت ضرور درکار ہوتی ہے ۔ بیر یاضت ایک خارجی ، بیروبی اور منطقی عمل ہے جس کا شعر کے باطن اور اس کی داخلی منطلق سے صرف اتنا علاقہ ہے کہ یہ غیر مرئی حسی تجربوں کو مشہود یامحسوس پیکر عطا کرتی ہے ۔ گز شی صفحات میں
فراق کے حوالے سے جو اشعار درج کیے گئے ہیں ان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شعر گوئی کے ابتدائی زمانہ میں ان کا کلام چندایسے جذبات کے منظوم اظہار سے مختلف نہ تھا جو غزل کی شریعت میں ان دنوں لازے کی حیثیت رکھتے تھے۔ آج جب ہم ان اشعار پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کا تاثر ہمارے احساس یا شعور کے لیے کوئی اپیل نہیں رکھتا۔ ان کے زمانی پس منظر میں یہی اشعار بے رنگ اور بے جان ہونے کے باوجود ایک عمومیت زدہ وجود رکھتے ہیں ۔ انحراف سے پہلے اکتساب کی منزل آتی ہے ۔ اکتساب بہر
صورت ایک خارجی عمل ہے اور جب تک انفرادی مزاج کے جز ولازم کی حیثیت سے اس میں مدغم نہ ہو جاۓ اس کی ہیئت اور معنویت معنوی نیز حسی شدت اور وفور سے عاری حقیقت کی ہوتی ہے خلیل الرحمن اعظمی کی ابتدائی شاعری میں ایسی مثالوں کامل جانا فطری ہے جن میں ان کی انفرادیت کے خال و خط نمایاں نہیں بلکہ ان کی روایت میں اس طرح پیوست ہیں کہ ان کوا لگ کر نا بھی محال ہے ۔ پھر ان کی نظر فراق ، یگانہ اور شاد عارفی کے Rejections میرا ہی اور حلقہ ارباب ذوق کی دروں بیٹی اور ترقی پسند تحریک کے شور اور شکست پر پڑی۔ دراصل شعری روایت کی یہی منزل بڑی روایتی شاعری مترقی پسند
شاعری اور نئی شاعری کے امتیازی اوصاف کی نشاندہی کا پہلا نقش ثبت کرتی ہے ۔ شعور ، اجتماعی لاشعور، وراثت، بیرونی جبر اور تلیقی عمل کی داخلی پیچیدگیاں ،مقصد اور زندگی کی لایعنیت کا تصادم ، قدامت پسند معاشرے اور سائنسی اور صنعتی تہذیب کے باہمی تنازعات ان تمام مسائل پر یہیں سے با قاعد ہ غور وفکر کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ۱۹۴۷ء کے فسادات کی شب گزیدہ کر نے کئی اوہام کے اصنام خیالی کو ریزہ ریزہ دیکھا۔ پاکستان میں ناصر کاظمی نے ہجرت کے الیے، وطن میں بے پنی کے تجربے، ایک ٹتی ہوئی دل آویز تہذیب کے ماتم اور خوف ویرانی اور پرشور سنانے سے گراں بارفضا کوملا جلا کر اس دنیا کی تشکیل کی جوان کے احساس میں موجوداور آنکھوں سے اوجھل تھی ۔اجتماعی جرائم میں ایک حساس
اجنبی کا جبر بی اشتراک اور دل کی شکل میں ابھرنے والی ذاتی محرومی ، نا کامی اور لا حاصلی کا دردانہیں میر صاحب کے درد سے مماثل نظر آیا جنہوں نے شہاں کی آنکھوں میں بھرتی ہوئی سلائیوں کی اذیت اور اور گردو پیش کی خوں آشام فضاء سے مغائرت کے باوجوداس کا کرب ذاتی الینے کی حیثیت سے قبول کیا تھا ۔ آفاق کی کار گہ شیشہ گری کی نزاکت ، دونوں ہاتھوں میں سنجالی ہوئی دستار کی بے حرمتی کے اندیشے، یورپ کے ساکنوں میں ایک عظیم المرتبت تہذیبی مرکز کے مشہور اور مغرور اجنبی کی تنہائی کی احساس نے میر کوجس لازوال اور بیکراں سکوت سے آشنا کیا وہی ان کی آواز کا نشمیر ہے ۔ ناصر کاظمی کی آواز کے حیاتی محرکات بھی اسی شہیر کے ہم آہنگ ہیں ۔ اسی لیے ان کی آواز میں میر کی ہم صغیری کے باوجود وہ فراق بھی دکھائی دیتا ہے جو ایک ہی ایسے سے دوچار دو افراد کے درمیان ذات اور ذات کے مابین فرق سے
پیدا ہوتا ہے ۔ ہندوستان کی اردو شاعری میں اسی موڑ پر مختلف الہنیا دعناصر کی آمیزش ہوئی ۔ خلیل الرحمن کی شاعری ایک کلچر اور اس کی قدروں کے زوال کے بعد کسی نوزائیدہ تہذیبی قدر کی ترجمانی یا اجڑے ہوئے کلچر کا نوحہ یا محرومی کے احساس کو زائل کرنے کے لیے کسی سیسی اور تہذیبی انقلاب کا نقیب بنے کی بجائے ایک بے لچر معاشرے میں ایک فرد کی آواز بن گئی ۔
او پر جواشعار میں نے نقل کیے ہیں وہ سب کے سب ہمارے عہد کی غزلوں سے لیے گئے ہیں ۔ان میں سے بیشتر کی شاعری کے بارے میں دورائیں نہیں ہیں اور عام طور پر انہیں نئی شعری روایت سے منسوب کیا جا تا ہے ۔ طوالت کے خیال سے میں نے مثالیں اور زیادہ جمع نہیں کیں مگر ہمارے عہد کے تقریبا سبھی نئے غزل گولیوں کے یہاں اس رنگ کے دائرے میں آنے والے اشعار بآسانی مل جائیں گے ۔ ظفر اقبال کے’’ آب رواں‘‘ اور ناصر کاظمی کے ’برگ نے‘‘ میں ایسی غزلیں بھی مل جائیں گی جن کا مجموعی تاثر محولہ بالا اشعار کی فضاء سے قریب ہوگا ۔ ان شعروں میں لفظ ،
مرکبات ، علائم ، استعاروں اور کنائیوں سے قطع نظر خیال اور جذبے کی بھی وہی بنیاد میں اور میں ملتی ہیں جوار دونزل کی روایت میں عام ہیں ۔ ان میں کہیں کہیں شاعر کی انفرادیت روایتی آب درنگ پر اس طرح غالب آ گئی ہے کہ اس کا ذاتی احساس لفظوں اور علائم کی فرسودگی کے باوجود پی زمیں میں جذب نہیں ہوسکا ہے لیکن بیشتر اشعار اپنی روایت کی سطح سے بلند ہوتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ تغیر پر سرفکری اور فی میلانات کی فضاء میں سرتا پامختلف آہنگ اور احساس کی تعمیر ممکن بھی نہیں ۔ اوپر جن شعراء کے حوالے دیے گئے ہیں ان میں بیشتر نے آگے چل کر اپنی روایت اور ذاتی تخلیقی عمل کے
درمیان ایک فاصلے کا احساس دلایا اورایسے شعر بھی کہے جو خودان کے ابتدائی شعری مزاج سے بہت زیادہ مطابقت نہیں رکھتے ۔ ایسا ہونا بھی بالکل فطری ہے کیونکہ جیسے جیسے نئے محرکات اور نامانوس حقائق تجربے کا معمول بنتے جاتے ہیں ۔ ان کے انو کھے پن کے رڈل سے ابھرنے والی استعجابی کیفیت کم ہوتی جاتی ہے۔ آج غزل کی خارجی اور داخلی بیت میں ایسی تبدیلیاں آ چکی ہیں کہ ماضی بعید کی روایت کا کوئی سرابھی بھی اس سے وابستہ ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ نسبتا کم عمر شعراء نے
ظفراقبال ،شکیب جلالی یا احمد مشتاق کے جن معیاروں کو اپنے لیے نمونہ بنایا وہ تجربوں کی ایک طویل شاہراہ سے گزرکر ایک توانا اور تمام معیار کی حیثیت اختیار کر سکے تھے۔ خام اور نا پختہ اذہان نے تربیت اور ریاضت کی ایک لازمی حد کو عبور کئے بغیر تقلید کی جس روش کو اختیار کیا ہے اس کے نتائج بظاہر تو دلچسپ ، شگافتہ اور غیر ہی معلوم ہوتے ہیں
لیکن اس موقع پر مارسل پروست کے یہ جملے بھی یادر رکھنے کی چیز ہیں: ”اگر ہمارے بارے میں ہر شخص یہ کہہ رہا ہے کہ ایسے میں لوگ بھی پیدا نہیں ہوئے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ انداز بیان کے پڑھا لیے طرز میں جو متعدی ہیں اور جنہیں ایک صحافی ، جس میں ذرا بھی صلاحیت ہے، چند سال میں سیکھ سکتا ہے، بالکل ایسے جیسے کبھی اپنے پیشے کو سیکھ لیتی ہے ۔ ( نیا دور،کراچی )
ترقی پسند تحریک کے زمانہ عروج میں بھی مقصد سے والہا نہ دل بستگی اور نظم میں ہیئت وفکر کے مختلف النوع تجربوں کی کورانہ تقلید نے غزل کے لفظی پیکر اور معنوی فضاء کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ غزل کی روایت نی ہو یا پرانی مشرقی شاعری کے چند ناگز سرفی تقاضوں سے الگ کر کے قائم نہیں رکھی جاسکتی۔ اس کی ساخت اور اختصار اس کا
عیب بھی ہے اور حسن بھی ۔ میر سے لے کر ظفر اقبال تک نے اسے جب تک اس کی مخصوص اور منفر د بیت ، مزاج اور اس کے ناگز سری مطالبات کے ساتھ اختیار کیا ، یہ ہر عہد میں اس عہد کی تہذیبی رمز اورتخلیقی معنویت کا استعارہ بنتی رہی ۔ گل آفتاب کے ساتھ ظفراقبال نے ’’ارد وستقبل کا جو خواب نامہ‘‘ مرتب کیا ہے وہ اس وقت تک جاۓ خودا یک سوال بنار ہے گا جب تک کہ غزل اس کی تعبیر بن کر بھی اپنی سرخ روئی کو برقرار نہ رکھ سکے ۔