اردو ناول کا ارتقاء (pdf)
اردو ادب میں ناول کا ارتقاء
Evolution of the novel in Urdu literature,
مغربی ادب میں ہی ناول کی بنیاد رکھی گئی اور مغرب کی مختلف زبانوں مثلا انگریزی ،فرانسیسی ، روی ، جرمن میں کافی اعلی پائے کے ناول تخلیق کیے گئے ۔ اگر چہ اردوادب میں اعلی اور معیاری ناولوں کی تعداد کافی کم بنتی
ہے پھر بھی یہاں چندا ہم ناول تخلیق کیے گئے ۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح اردوادب میں ناول کے ارتقائی سفر کا آغاز سرسید کے اسلامی تحریک سے ہوا ۔ جب انھوں نے واقعیت پسندی کے بر خان کو فروغ دینا شروع کیا تو اس طرح فرضی ماحول کو پیش کرنے کے نے کے کے بجاۓ ارضی ماحول کو پیش کرنے کا آغاز بھی ہوا۔ اور ان قصوں کے ذریعے زندگی کی مصوری کو اہمیت دی جائے گی اور اس طرح
اردوناول میں ناول کے اولین نمونے نذ یراحمد کے قصوں کی شکل میں منظر عام پر آئے۔ نذیر احمد کی پہلی تصنیف مراۃ العروس‘‘ ۱۸۲۹ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد بنات اعش‘‘ ' تو پتہ الصوح، رویائے صادقہ‘‘ابن الوقت‘‘’ ایالی‘‘ اور فسانہ مبتلا‘‘ وغیرہ شائع ہوئیں ۔ یہ اردو کے چند اولین
نمونے ہیں ۔ جن کے ذریعے ناول کی ابتدائی روایتوں کی تقلیل عمل میں آئی لیکن ڈاکٹر احسن فاروقی ان کتابوں کے تمثیلی پہلو پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں:
ان تصنیفات کے واقعی پہلو پر نظر کرتے ہوئے ان کو ناولیں بھی نہ دیا گیا ہے اور یہ بھی عام ہوگئی ہے کہ مولا تا اردو کے پہلے ناول نگار ہیں ۔ ان کی تصنیفات اس قدر کھلی ہوئی تمثیلیں ہی ہیں کہ ان کو ناول کہنے پرتعجب ہوتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر تمثیلیں ہی ہیں اور ناول سے اسی حد تک ملی ہوئی بھی میں جس حد تک طویل نٹری تشیلوں کو ہونا کیا ہے ۔ ۱) یہ بات درست ہے کہ نذ یراحمد کے ان قصوں کے زیادہ تر کردار منفر واوصاف کے حامل ہیں ۔ اور ان کے اندر
اخلاقی مجسموں‘‘ کی کیفیت اور خصوصیت بھی ہے۔ لیکن اس ایک کمزوری کی وجہ سے نذیر احمد کے ان قصوں کی قدرو قیمت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ قصے اردو ناول کے نمونے بہر حال ہیں ۔ اس بارے میں وقار عظیم کہتے ہیں۔ پینی ہے کہ نذیر احمد کے قصے اس مفہوم میں ناول نہیں ہیں جو ہم نے مغرب سے لیا لیکن اس میں شبہ نہیں کہ ناول کی واضح ذیل
انہی قصوں نے ڈالی ۔ مراۃ العروس " اور " بنات اعش‘‘ میں اس سے بھی زیادہ تو بتہ اصوح‘‘اور ابن الوقت‘‘ اور پھر سب سے بڑھ کر فسانہ بتا‘‘ میں آہستہ آہستہ دو سارے خدوخال دکھائی دیتے ہیں جن سے ناول کے پیکر کی تخلیق و تعمیر ہوتی ہے ۔“ (1)
ڈپٹی نذیر احمد کے ان قصوں میں عام زندگی کی جو کائی ملتی ہے دواس سے پہلے کے قصوں میں نظر نہیں آتی ۔ انہوں نے دہلی کے متوسط طبقے کے مسلم گھرانوں سے مسائل کا ذکر کیا ہے، اس کے علاو و معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز پر بھی گہری نگاہ ڈالی ہے ۔۔۔
آزاد کودوسرے سنگ میل کا درجہ حاصل ہے۔’فسانہ آزاد اردواخبار اودھ پنچ میں بالاقساط شائع ہوتا رہا۔ ان کی دیگر تصانیف میں ’’سیر کہسار‘’’جام سرشار‘’ کامن‘اور’خدائی فوجدار‘‘اہم ناول ہیں لیکن ان سب میں ’’فسانہ آزاد کومقبولیت حاصل ہوئی اور اس وجہ سے سرشار کا نام اردوادب میں زندہ ہے ۔سرشار نے’فسانہ آزاد میں خاص امعاشرت اور لکھنؤ کی تہذیبی زندگی کانکس دکھایا ہے ۔ ٹلیلی دور کے تیسرے
اہم ناول نگار عبدالعلیم شرر ہیں۔ ان کو تاریخ ناولوں کا بانی کہا جاسکتا ہے۔ تاریخی ناول اور تاریخ میں اہم فرق یہ ہے کہ تاریخ میں واقعات اور کردار دونوں حقیقی ہوتے ہیں ۔جبکہ تاریخی ناول میں نام چاہے حقیقی ہوں ، واقعات ، معاملات ،مناظر سب ناول نگار کے تخیل کی پیداوار ہوتے ہیں ۔ (۱) یورپی ممالک کی سیاحت کے دوران شرر نے اسکارٹ کے تاریخی ناول’’طلسمان‘‘ کا مطالعہ کیا تو ان پر گہرا اثر پڑا۔
ان کا تاثر یہ تھا کہ اس میں اسلام کا مذاق اڑایا گیا ہے چنانچہ شرر نے رومل کے طور پر ناول لکھنے شروع کیے ۔ ان کا پہلا ناول’ملک العزیز در جینا‘‘ تھا۔ ان کے ناولوں کا مقصد اسلام کی عظمت اور سر بلندی دکھا کر امت مسلمہ کو بیدار کرنا تھا۔ ان کا نقطہ نظر اصلاحی تھا۔ شرر کے تاریخی ناولوں میں’فردوس بریں‘‘ کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کے ناولوں میں’’ منصور
موہنا‘‘’ عزیز مصر‘’ فلورا فلورنڈا‘‘ ’’ فتح اندلس‘‘’ زوال بغداد’’ایام عرب‘‘ وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے معاشرتی ناول بھی لکھے ہیں ۔ جن میں’’بدرالنساء کی مصیبت‘اور’’ آغا صادق کی شادی‘‘ قابل ذکر ہیں تیشکیلی دور کے ان اولین ناول نگاروں کی تخلیق کا بیاثر ہوا کہ ناول کے قارئین کی تعداد بڑھتی گئی اور ناول نگاروں میں بھی اضافہ ہوا۔ منشی سجاد حسین محمدعلی طبیب ، قاری سرفراز عربی اور دوسرے کئی ناول نگاروں نے اس جدید صنف کو ترقی دینے کی کوشش کی ۔
ان ناول نگاروں کے بعد اہم ترین نام مرزا ہادی رسوا کا ہے ۔ انہوں نے تقریبا پانچ ناول لکھے ۔’’افشائے راز‘‘’اختری بیگم‘‘’ ذات شریف‘’ شریف ذادہ‘‘اور’’امراؤ جان ادا‘‘۔ ان تمام ناولوں میں فنی طور پر بہترین تخلیق ’’امراؤ جان ادا‘‘ ہے۔ بظاہر تو یہ ایک طوائف کی داستان ہے۔ مگر حقیقتا اس میں لکھنو کی انحطاط پذیر تہذیب و معاشرت کا جیتا جاگتا نقشہ پیش کیا گیا ہے ۔ رسوانے اس ناول کے ذریعے فن وفکر کے بہترین امتزاج کو پیش کیا ہے۔
اور ناول کے صنفی معیار کوئی روایتوں سے آشنا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مرزا رسوا کا یہ ناول اردو ناول کے کلاسیکی سرماۓ میں امتیازی درجہ رکھتا ہے ۔
دور میں مولانا راشد الخیری کے ناول بھی منظر عام پر آۓ ۔ انہوں نے بھی عورت کے مسائل کو اپنا یا۔ان کے ناولوں کی تعداداچھی خاصی ہے ۔ اہم ناولوں میں ’’حیات صالح : بنت الوقت‘‘ ' شام زندگی‘‘ شب زندگی‘‘’’ آمنہ کالال‘‘ قابل ذکر ہیں۔
راشد الخیری کے ہم عصر مرزامحمد سعید نے بھی بہت سے ناول لکھے جن میں’’خواب ہستی‘‘ اور ’یامین‘ بہت مقبول ہوۓ ۔ اس دور کے دیگر اہم ناولوں میں مدعلی کا’عبرت‘‘حسن سرورکا دیوی یا علی کامیم اور انور محمد صدی تسکین کے ’برف کی دیوی‘‘اور’مستانہ عاشق‘‘، پنڈت کرشن پرشادکول کے’ شاما‘‘اور بیوہ نیاز فتح پوری کے ’’شہاب کی سرگزشت‘‘اور’’ ایک شاعر کا انجام‘‘۔ آغا حشر دہلوی کا ’’ہیرے کی کئی‘ علی عباس حسینی کا’’علیم با نا‘‘ جیسے ناول شامل ہیں ۔لیکن اس دور کے ناول بحیثیت مجموعی کوئی اپنی راہ نہ نکال سکے اور نہ ہی کوئی امتیازی درجہ حاصل کر سکے ۔
بیسویں صدی کے پہلے دہے میں اردو ناول نگاری عہد نو کے فنی وفکری تقاضوں سے آشنا ہوئی ۔ اس دور میں پریم چند اردو ناول کے میدان میں آۓ ۔ ان کے اہم ناولوں میں’اسرار معاہدہ‘ ’’جلوہ ایثار‘‘’بیوہ‘‘’ بازارحسن‘‘ گوشہ عافیت‘ زملا‘ نبی‘‘ ’’چوگان ہستی‘ ’پردہ مجاز‘‘ ’’ میدان عمل ‘‘اور’ گئو دان‘‘ شامل ہیں ۔ ان تمام ناولوں میں انھوں نے ہندوستان کی عوامی اور معاشرتی زندگی کو پیش کیا ۔ ان کے ناولوں کے اہم موضوعات پس ماندہ طبقوں کی محرومیاں زمین دار ، سرمایہ دار ، برطانوی حکام کے مظالم ، بے روزگاروں کے مسائل ، سیاسی جماعتوں کی سازشیں اور فرسودہ
رسم رورواج سے پیدا ہونے والی گمراہیاں ہیں ۔ ناول نگار کی حیثیت سے پریم چند کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے طبقہ شرفاء کے بجاۓ عوامی زندگی کے مسائل کو موضوع بنایا۔ پریم چند کے ناولوں میں معاشرتی زندگی کی بہتر تبدیلیاں تلاش کی جاسکتی ہیں ۔اسی تبدیلی سے اصلاحی شعور کی آئینہ داری ممکن ہوتی ہے ۔ ان کے جذ بہ اصلاح میں سنجیدگی اورٹھہراؤ ہے ۔ ان کا بہترین ناول’گنو دان‘‘ ہے۔
پریم چند کے علاوہ اور بھی کی ترقی پسندوں نے ناول تحریر کیے جن میں قاضی عبدالغفار کے ناول ’’لیلی کے خطوط‘‘’’مجنوں ڈائری‘‘’ سجادظہیر کا ناول’لندن کی ایک رات‘ ’انسار زیدی کے ناول’’وحشی‘‘ ’’گھر ہستی‘‘ ’’ سلمی‘‘ نجم الدین قلیب کا ناول ’’ی دنیا‘‘، کرشن چندر کے ناول’’ شکست‘‘’ جب کھیت جاگے‘’غدار‘‘’طوفان کی کلیاں‘‘ ضیا سرحدی کا ناول’’تسخیر بنگال‘‘ منشی رام پوری کا ناول’شیطان اور آخری فیصلہ اور رئیس احمد جعفری کے ان‘‘اور’’ بازاری‘‘ اور عصمت چغتائی کے ناول’’ میڑھی لکیر‘ ’’معصومہ‘اور’’ سودائی شامل ہیں ۔ بازاری‘‘اور کے مدوستان کی تقسیم کے دوران برطانوی
سامراج کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے اور ہندوستان میں مفاد پرست ٹولے کے فسادات کے باعث ملک میں قتل و غارت کا بازارگم ہو گیا۔ اور اس موقع پر مفاد پرستوں اور نو دولتیوں کا ایک ایسا طبقہ ابھر آیا جس کا نہ ماضی سے تعلق تھا اور جس کے پاس نہ تہذیبی اقدار تھیں ۔ اس دور میں منافقت اور انسانی فطرت کا جومظاہرہ کیا گیا۔ اس کی مثال نہیں ملتی ۔ ہندوستان میں رہنے والوں نے ہندو تہذیب کے نام پر مسلمانوں کا اور پاکستان میں رہنے والوں نے اسلام کے نام پر ہندوؤں کا جی بھر کر خون بہایا۔ان ہنگامہ پرور حالات سے ناول کا فن بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا
اور زیادہ تر ناول نگاروں نے ان حالات و واقعات کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ اس لیے ۱۹۵۰ء ۱۹۴۷ء کے بعد زیادہ تر ناول فسادات کے موضوع پر لکھے گئے ۔ جس میں زیادہ تر ناول جد باقی نوعیت کے تھے جوا بن معیاری تاثر نہ دے سکے ۔ ان ناولوں میں راما نند ساگر کا ناول’’ انسان مر گیا‘‘ رشید اختر کا’’ پندرہ اگست‘‘ ہنیم حجازی کا ’’ خاک وخون‘’ رئیس احمد جعفری کا’مجاہد ، قیس رام پوری کا’’ خون بے آبرو‘‘ اور قدرت اللہ شہاب کا ناول’’ یا خدا‘‘ قابل ذکر ہیں ۔ پاکستان کی آزادی کے بعد کچھ ایسے ناول لکھے گئے ۔ جن کا غالب رجحان اپنی تاریخ کو پیش کرنا تھا۔ اس سلسلے میں نسیم حجازی کا نام نمایاں ہے ۔ ان کے تمام
ناول اس مقصد کے پیش نظر لکھے گئے ۔ ان کے ناولوں میں ’’سو سال بعد‘‘ ’’ داستان مجاہد‘‘ ’’ محمد بن قاسم‘‘’ آخری چٹان‘‘ شاہین‘’ خاک وخون‘‘’ یوسف بن تاشفین‘‘ ’’ آخری معرکہ‘‘اور’’ قیصر وکسری‘‘ اہم ہیں ۔ایم ۔ اسلم کا ’ زوال الحمرا‘‘ کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔ یہ ناول اگر چہ تاریخی ہیں لیکن ان میں عصری زندگی کی سچائیاں نہیں ملتی بلکہ اس کی جگہ کھوکھلی جذ باتیت ملتی ہے ۔ اس لیے سی ناول زیادہ کامیاب نہ ہو سکے۔ آزادی کے بعد جن ناول نگاروں نے نام کمایا اور جنہوں نے اردو ناول کو پہچان دی۔
ان میں قراۃ العین حیدر عزیز احمد اور احسن
فاروقی کے نام سرفہرست ہیں۔ یہ تینوں ناول نگار اپنے ناولوں میں مجموعی طور پر زندگی کو بجھنے کی سعی کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں ۔ اور جو تبد یلیاں آرہی ہیں ان کا بغور مطالعہ پیش کرتے ہیں ۔ ان کے ناولوں میں ہمیں ایک دور کے مٹنے اور تہذیب کے ختم ہونے کا بھر پورا حساس ملتا ہے ۔ ان ناولوں میں فسادات ( جوتقسیم ہند کے نتیجے میں آۓ ) کو براہ راست موضوع نہیں بنایا گیا۔ اگر فسادات کا ذکر آیا بھی ہے تو وہ مجموعی تبدیلی اور زندگی کی رفتار کا ۔ ۔ وہ زندگی کی تبدیلی اور زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔
ان کا تاثر بھی شدید ہے ۔ ان کے ناولوں میں اس جگہ فکر انگیزی ملتی ہے ۔ یہ بدلتے ہوئے ساج کا بے حد سنجیدہ اور منطقی مطالعہ ہے ۔ ان ناولوں میں پیچھے مڑ لرد میٹھنے کاعمل ملتا ہے اور جاتی ہوئی دنیا کو دیکھ کر آگے بڑھنے کا طریقہ کار اور جذ بہ بھی ملتا ہے ۔ قراۃ العین کے ناول’’میرے بھی صنم خانے‘‘ سفینیم دل‘‘ ’’ آگ کا دریا‘‘’’ آخری شب کے ہمسفر‘‘بہت مقبول ہوۓ ۔’’ میرے بھی صنم خانے‘‘میں ہندوستان کی تقسیم کا المیہ ہے ۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا اور ایسے تہذیبی اور ثقافتی ورثہ کو ختم کیا گیا جو صدیوں کے اتحاد اور باہمی رشتے سے پیدا ہوا تھا۔
دوسرا ناول’’سفین غم دل‘‘ ایک سوانحی ناول ہے ۔ جس میں شعور کی روکی تکنیک استعمال کی گئی ہے ۔لیکن قراۃالعین کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا ناول’’ آگ کا دریا ہے ۔ اس ناول میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ ورق ، ورق پر اپنا سینہ کھولتی ہے ۔اس ناول میں انہوں نے برصغیر کی ڈھائی ہزار کی ثقافت پیش کرنے کے لیے شعور کی روکی تکنیک کو بہترین انداز میں استعمال کیا ہے ۔
عزیز احمد کے ناول’گر ی‘‘ ’’ایسی بلندی ایسی پستی‘‘’شبنم‘‘ ’’اردو ناول کی ارتقاء میں ایک اہم قدم ہیں ۔ ’’ایسی بلندی ایسی پستی میں عزیز احمد کافن بلندیوں کو چھوتا نظر آتا ہے غالبا یہ اردو کا پہلا ناول ہے جس میں کردار نگاری کے مخصوص پامال راہوں سے گریز کر کے مصنف نے نیاراستہ بنانے کی سعی کی ہے ۔‘‘ ۱)
ڈاکٹر احسن فاروقی کے ناولوں میں’’ شام اودھ’’ر و رسم آشنائی‘‘ اور گم کو بہت پذیرائی ملی ۔ خاص کر ان کا اودھ بہت ہی مقبول ہوا۔ جس میں لکھنو کی تہذیب کو مٹتے ہوۓ دکھایا گیا ہے۔ ان ناول نگاروں کے علاوہ بھی چند ناول نگاروں اور ان کے اہم ناولوں کا تذکرہ ضروری ہے ۔ ان میں شوکت صدیقی کا ناول’’خدا کی بستی‘‘ بھی اہم ہے۔ جس میں کراچی کے انڈر ورلڈ کو پیش کیا گیا۔
اس کے علاوہ ان ناول’’ کو کا بیلی‘‘ میں لکھنو کے جاگیرداروں کی تو ہم پرستی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے ۔ ممتازمفتی کا ناول’’ علی پور کا ایلی‘‘ اس دور کے اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے ۔ اس ناول میں مصنف نے ایلی کے پردے میں بہت حد تک اپنی داستان حیات سنائی ہے۔ اس ناول میں نفسیاتی پیچیدگیوں کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس ناول کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس ناول میں گاؤں سے لے کر شہر شہر سے لے کر فلم اورفلم سے لے کر بازار حسن تک کی زندگی کو کش انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔
اسی دور میں خدیجہ مستور کا ناول’’ آنگن‘‘ بھی شامل ہے ۔ جسے بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔ اس ناول میں انہوں نے تقسیم ہند سے پہلے اور بعد کے مسلمان گھرانوں کے حالات کو موضوع بنایا ہے ۔ اس دور کا ایک اہم اور بڑا نام عبداللہ حسین کا ناول’’اداس نسلیں‘‘ ہے۔ اس ناول میں پہلی جنگ عظیم سے لے کر تقسیم ہند کے حالات کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ دور ۱۹۱۳ء سے ۱۹۴۷ء پر محیط ہے ۔ چونکہ یہ ناول ہمارا موضوع ہے اس لیے اس پر مزید بحث اگلے ابواب میں ملاحظہ ہو۔
بہر حال یہ بات قابل اطمینان ہے کہ اس مدت میں اردو ناول نے فن وفکر کے اعتبار سے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں اور اس میں بہر کیف اضافہ ہورہا ہے ۔