ابن انشا کے سفر ناموں کا تنقیدی جائزہ
اردو ادب میں سفرنامے کی روایت کا آغاز 1837ء میں محمد یوسف خان کمبل پوش کی ’’ عجائبات فرنگ‘‘ سے ہوا۔ اس کتاب میں انگلستان کے سفر کے دلچسپ حالات تحریر کیے گئے ہیں ۔ اس کے بعد سرسید احمد خان نے مسافر ان لندن اور علامہ شبلی نعمانی نے رنامه عصر روم و شام تحریر کیا جنہیں
اردو کے ابتدائی سفرناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بہت سے سفرنامے لکھے گئے لیکن ان انشا کے سفر ناموں کا انداز سب سے منفرد ہے۔ وہ منفرد شاعر ، ادیب، مترجم، مزاح نگار، کالم نگار، سفر نامہ نگار اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے نظم اور نثر دونوں میدانوں میں اپنی انفرادیت اور کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ابن انشاء ان ادیبوں میں سے ہے اور یہ مخصوصا کالم نگاری اور سفر نامہ نگاری میں نئے اسلوب کے بانی تھے۔
متاز نقاد ڈاکٹر انور سدید کا کہنا ہے کہ چلتے ہوتو چین کو چلیے، دنیا گول ہے ، ابن بطوطہ کے تعاقب میں اور آوارہ گرد کی ڈائری میں ابن انشا ایک ایسے نہارے کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو گردو پیش مسائل پر بہترین طریقہ سے نظر ڈالتا ہے لیکن درحقیقت اس کی آنکھ اشیا کے باطن کو ٹکٹی ہے اور ہمیں ان کے ماضی اور حال سے آشنا کرتی چلی جاتی ہے۔ ابن انشا کی شخصیت میں سرشار کے سیلانی اور میرامن کے درویش، دونوں کی خصوصیات جمع ہو گئی تھیں ۔
چناں چہ ان کے شوق کی کمی بھی نہیں تھی ۔ اور وحشت کا لوڑا بھی نہیں تھا۔ فتا سبب کی حاجت ہوتی تھی ۔ ابن انشا کے بیشتر اسفار سرکاری نوعیت کی کانفرنسوں کی بدولت ہی ظہور میں آئے اور سطروں کا حال انتہاری ضرورتوں کے لیے لکھا گیا۔ چناں چہ اگر یہ کہا جائے کہ ابن انشا کے سفر نامے درحقیقت اخباری کالم میں جن کے لیے مواد تجربات
سفر سے حاصل کیا گیا ہے تو یہ درست ہوگا ۔ صحافتی ضرورت نے باشیہ تاثر کوفوری طور پر ض ہر تحریر میں لانے کی کھیل پیدا کی لیکن شیخ محمد ملک کا یہ خیال درست ہے کہ ابن انشا کے ہاں صحافی انداز نظر کے بجاۓ فکری تازگی اور ادبی رکھ رکھا ا بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ابن
انشا کا گہرے تالے طرز کا حامل شافتہ و شاداب انداز بیان اور انسان ذوق کا رچا ہوا شعور اس پر مستزاد ہے۔ ابن انشاء جن کا اصل نام شیر محمد خان تھا، ۱۵ جون ۱۹۴۷ ء کو جالندھر کی تحصیل چلو کے چھوٹے سے گاؤں تھا۔ آباد میں پیدا ہوئے لیکن جب لندن کے ایک اسپتال میں تقریبا اکیاون (۵۱) سال کی عمر میں
ہمیشہ کے لیے آنا میں بند کیں تو وہ کرہ ارض کے تقریبا بھی قابل دید نگر اور معروف ہستیاں گھوم چکے تھے اور اردو میں افسانہ نگاری کے ایک ایسے انداز کی داغ بیل ڈال چکے تھے جو انہی سے خاص تھا۔ اپنے صلاحیت، سیاست ناموں طنز ومزاح کے اور
فکاہیہ کالموں کی بدولت اور ریاست اردو کا ایک وقیع اور معتبر نام انھوں نے اردو ادب کو کئی خوب صورت منظر نامے بھی عطا کیے جن میں آوارہ گرد کی ڈائری ، دنیا گول ہے، ابن بطوطہ کے تعاقب قرار پاچکے تھے۔
میں، چلتے ہو تو چین کو چلے اور نگری نگری پھیرا مسافر شامل ہیں۔
ان کے تمام سفرنامے بے حد مقبول ہوئے ‘‘ خاص طور پر دنیا گول ہے ، اس کے بارے میں ابن انشارقمطراز ہیں: نظرنامہ آوارہ گرد کی ڈائری ہماری اپنی ذات کے برکس خاصی مقبول ثابت ہوئی پانچ مہینے میں پہلا ایڈیشن نکل گیا اس کا اثر ان لوگوں پر مختلف ہوا انھوں نے اسے پڑھتے ہی رخت سفر باندھا ٹکٹ کٹایا
بیوی بچوں کی بلائیں لیں اور آنسو پی کر یورپ روانہ ہو گئے کہ ادوائن کی رہی سے کھیلنے والے ہوٹلوں اور ان کے تمام بادوگر نسل خانوں کی زیارت کر میں بعضوں نے کہ تھوڑے دل والے تھے اور ہم آزمائی کا حوصلہ نہیں رکھتے تھے اپنا لوٹا ہوا استر کھول دیا کہ اگر پردیس میں ہی ہاتھ ہوتا ہے تو ہم سیاحت سے بھر پائے تھی کہ بعض ٹریول ایجنسیوں کے کاروبار پر زوبھی پڑی اور انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس کتاب پر پابندی لگائی جائے بیرونی ممالک میں جن ہوٹلوں اور
شہروں کا ازالہ حیثیت عرفی ہمارے قلم سے ہوا انھوں نے بھی احتجاج کیا اور مطالبہ کیا کہ مصنف کو کوئی اور سزائیں دی جاسکتی تو کم از کم اتنا کہا جائے کہ اس کتاب کا کسی مہذب لینی یورپ کی زبان میں ترجمہ ہوئے ان کا یہ سفرنامہ فلپائن، انڈونیشیا، سنگاپور، ملائیشیا، سنگاپور، تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، افغانستان، ایران، ترکی ، جاپان، کوریا، امریکا، برطانیہ اور فرانس کے اسفار پر مشتمل ہے۔ انڈونیشیا کے سفر کے حوالے سے لکھتے ہیں: انڈونیشیا جانے کے دو روز پہلے اسٹیٹ بنک میں دیکم میر حسن سے ملاقات
ہوئی فرمانے لگیں ضرور کہیں کا عزم ہے، کہاں کا ہے؟
آپ نے تو حد کر دی ہم نے ملنے ملنے کونظر انداز کرتے ہوئے بتایا کہ اب چکارتہ جار ہے ہیں ، اس چند روز کے لیے ۔ فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کروڑ پتی ہیں ۔ ہم نے کہا میں تو اب بھی معلوم نہیں واللہ پتا ہے کہ کہاں ہے ہماری دوات ۔ بولیں کہ اس کا انداز میں نے اس امر سے کیا کہ آپ نہ صرف انڈونیشیا جانے کا بلکہ وہاں چند روز قیام کا ارادہ کیا رکھتے ہیں اس
خاکسارہ نے ایک روز بکارت کے ایک ریستوران میں نیچے کیا تو میرا بارہ لاکھ روپے کا بل لایا۔ وہ سمجھا ہوگا کہ آپ ریستوران خرید رہی ہیں ۔ یہ بات نہیں ۔ آپ پر اسے سر آ نا مرحوم کا دھوکہ ہوا ہوگا۔ یہ بات نہیں، کیا میری شکل سر آغا خان سے ملتی ہے؟ پھر آپ نے ہیرے جواہرات کھاۓ ہوں گے، ہند و تو دال روٹی کھاتا ہے ۔ فرمانے لگیں ہم نے بھی دال روٹی بلکہ وال بھات ہی کھائی تھی۔ میں تفصیل کی حاجت نہیں ،
آپ جار ہے ہیں خود دیکھ لیں گے ۔ صبیحہ بیگم کا مقابلہ تو ہم شد کر سکے لیکن بارہ سو روپے کا کھانا ہم نے تو ایک وقت میں کھایا۔ آج کل ایک امریکی ڈالر کا بھاؤ انڈونیشیا میں سوروپے ہے مارکیٹ اور بلیک مارکیٹ میں اس سے زیادہ ایک سو تیس روپے تک مجھئے لیکن میرے حسن جس زمانے میں گئیں اس سے ہزار گنا زیادہ تھا یعنی ایک امریکی ڈالر برابر تھا، ایک لاکھ انڈونیشی روپیا کے جس کو سبزی خریدنی ہوتی روپوں سے بھرا ہوا سوٹ کیس لے کر چلتا تو اس میں ہزار روپے تو شیش میں اٹھ جاتے تھے۔ ایران کے سفر کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
سنو کہ ایران میں ملاوٹ نہیں ہوتی لوگوں کو موبل آئل یا بھٹنے کی اینٹیں یا لکڑی کا برادہ نہیں کھلا یا جاتا ۔ دودھ، دہی اور مکھن سب خالص ۔ ترکی میں بھی ملاوٹ کا تصور نہیں، اتحاد ثلاثہ میں یہ نفر بس ہمیں کو حاصل ہے۔ صفائی کا حال بھی ان کے ہمارے لوگوں نے حکومت کے خوف سے چند دنوں دکانوں پر جالیاں لگائیں، جب دیکھا کہ کوئی نہیں دیکھتا تو اتار پھینکیں ۔ تہران میں کسی شخص کو گوشت کی دکان
کھولنے کی اجازت نہیں ملتی جب تک اس کے پاس ریفریجریٹر، ڈیپ فریزر نہ ہو۔ یہیں انقرہ میں دیکھا، قصبات میں جہاں فریج نہیں وہاں بھی سنائی اور حالی کا انتظام ضرور ہے۔ خپلو کہاب تو غیر ایرانیوں کی مشہور ڈش ہے اہلے چاول اس میں مکھن کی کلیہ ملا ہے ایک انڈا کیا توڑ کر ڈال کئے اور کہاب چپا چپلی کباب کا سا۔ ساتھ پیاز اور بہت ا سلاد۔ لیکن عام
خوراک کمہاب اور روٹی کہہ سکتے ہیں اور روٹی یہاں کئی بھانت کی ہوتی ہے نرم اور مولی کی لے کر پہلی کانڈی کی تک۔ ی روان اب صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہے کہ میاں کو گرم گرم روٹی چاہیے آدھی رات کو بھی آۓ تو بی بی چوہے کے پاس کھڑے ہوکر چھلکے اتارے گی ۔ ایران ، افغانستان یا عرب میں کہیں ہی رواج نہیں ۔ سالن گھر میں پکا لیکن روٹی نان بائی کے ہاں سے لاؤ۔
ان انشا ۱۹۹۸ میں ترکی گئے، پہلے ایک روز لبنان کے دارالحکومت بیروت میں قیام کیا۔ وہاں شام کو تفریح کے لیے نکلے تو راستے میں ایک ٹیکسی روکی ، لکھتے ہیں : ایک ٹیکسی والے کو آواز دی، ڈرائیور انگریزی واں تھا۔ بولا جناب میں لیے چلتا ہوں آپ کو پلس ہوٹل اور بھی ٹور کرادوں گا ، میرا نام جوزف ہے ۔ فقط تیس پونڈ لبنانی عطا فرمائیں تو آپ کو ایسا تماشا
دکھاؤں گا کہ آپ عمر بھر یاد رکھیں گے۔ بات کے مالی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم نے پوچھا کہ کون سا تماشا کیا تماشا ؟ فرمایا کہ کا سینو لیہان لے چلوں گا ۔ پریوں کے پرے جوروں کے جمگھٹ اور ہاں اگر وہ تماشا دکھاتے دکھاتے ایک کے بعد ایک اپنے کپڑے اتار پھینکلیں تو کچھ تیران نے ہو جائے گا کیوں کہ موسم گرمی کا ہے ۔ لیکن یہ گرمی تو عالمگیر ہے اس کا تعلق موسم سے کم جسم سے زیادہ ہے ہم نے اپنی نظم دیوار گریہ میں دوسرے بھی لکھے تھے: