فلاسفر لونجائنس
ارسطو سے ایلیٹ تک
ارسطو کے بعد تنقیدی، فکر میں جو یونانی نام اہم ہے وہ لونجائنس ( پہلی صدی عیسوی؟ ) کا ہے ۔لونجائنس کے بارے میں ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھا۔ کب تھا۔ لیکن قرائن اور داخلی شواہد سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ یونان کا باشندہ تھا اور پہلی صدی عیسوی میں اس نے اپنا مقالہ ’’علویت کے بارے میں‘‘ تصنیف کیا تھا۔۱۵۵۴ء میں یہ مقالہ پہلی بار دریافت ہوا اور اس کی شہرت اس وقت پھیلی جب فرانسیسی شاعر و نقاد’بول‘‘ نے اس کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا ۔ اس کے بعد انگریزی زبان میں بھی اس کے کئی ترجمے ہوۓ ۔ کلاسیکی دور میں اس مقالے کو ارسطو کی بوطیقا کا ضمیمہ قرار دیا گیا اور اس کے اس حصے پر توجہ دی گئی جو ارسطو سے متعلق تھا ۔ اس تصنیف کی مزید اہمیت اس وقت سامنے آئی جب رومانی تحریک نے اس میں اپنے خیالات کے نقوش تلاش کیے ۔ اس میں اصولوں کے بجاۓ شوق و جذ بہ پر زور دیا گیا تھا۔’’سبائم‘‘ انگریزی زبان میں یونانی لفظ Ilypso کا ترجمہ ہے لیکن یہ لفظ اس بات کا پورے طور پر احاطہ نہیں کرتا جو یونانی لفظ سے ظاہر ہوتی ہے ۔ لونجائنس اس لفظ میں ان تمام صفات کا احاطہ کر لیتا ہے جو جوش و جذبہ سے پیدا ہوتی ہیں، جو نظم و نثر میں ہماری اعلی تعریف کی مستحق ٹھہرتی ہیں ۔ ارسطو نے منطقی تنقید اور خشک اصولوں کی بنیاد ڈال کر ان سے ادب کو جانچا پرکھا تھا ۔ لونجائنس ان اصولوں میں جوش وجذبہ بہ‘‘ کا اضافہ کرتا ہے ۔ ادبی تنقید میں یہ بات پہلی بار واضح کی گئی کہ ادب کا مقصد لطف ہے اور یہ لطف ایک علوی چیز ہے۔ ارسطو نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ادب کچھ اصولوں سے وجود میں آتا ہے اور اچھے اور میرے ادب میں امتیاز پیدا کرنے کے لیے یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ اصول کہاں تک کامیابی سے برتے گئے ہیں ۔ لونجائنس اس بات پر زور دیتا ہے کہ ادب میں ایک خاص علومیت ، ایک خاص عظمت اور رفعت اظہار ہوتی ہے جو اصولوں سے بالاتر ہے ۔ اس علومیت کو محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن محسوس کرنے کے لیے ضروری ہے کہ
محسوس کرنے والے کا ذہن ارتقا کے ایک خاص درجے پر پہنچ چکا ہو۔ لونجائنٹس کے سامنے یونانی ادب بھی تھا اور لاطینی وعبرانی ادب بھی ۔ وہ ایک ایسے دور میں زندہ تھا جب یونان اپنی سیاسی قوت سے سبکدوش ہو چکا تھا۔ اس لیے اسے سیاسیات و اخلاقیات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ جیسے ارسطو پہلا کلاسیکی نقاد ہے اسی طرح لونسائنس کو پہلا رومانی نقاد کہا جا سکتا ہے ۔ وہ ان معنی میں جد ید نقاد ہے کہ وہ ادب کو اس نظر سے دیکھ رہا ہے جس نظر سے ہم آج ادب کو دیکھتے ہیں ۔ وہ ادب میں’’لطف اندوزی‘‘ پر زور دیتا ہے ۔ اور اس سلسلے میں متعدد مثالیں پیش کر کے ان کی وضاحت کرتا ہے ۔ اسے ارسطو کی طرح ادب کی تاریخ ، ٹریجیڈی یا ایپک وغیرہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اسے تو شاعری اور نثر کے ہر اس ٹکڑے سے دلچسپی ہے جو اس کے اندر آگ لگا دے۔ فارم کا مسئلہ بھی اسے پریشان نہیں کرتا۔ وہ چھوٹی بڑی نظموں کے مخصوص حصے لیتا ہے اور عہد ید نقاد یا معلم ادب کی طرح ان پر اظہار رائے کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ان حصوں میں کیا خاص بات ہے اور وہ ان سے کیوں متاثر ہے؟ ۔ وہ اس خصوصیت کے لیے Hypsos کا لفظ استعمال کرتا ہے جس کے معنی ہیں بلند ، پر از جلال ، عظیم، جوش و جذ بہ سے پر ، ادب کی وہ صفت جو ہمیں عالم وجد میں لے آئے۔ یہاں کیف ہے، اثر آفرینی ہے، الہام ہے، پراسرار عالم ہے اور ان سب کے مجموعی اثر سے دو اثر پیدا ہوتا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ لے اڑ تا ہے ۔
ارسطو اور ہوریس کی طرح وہ توازن کا بھی حامی ہے کیونکہ اس کے بغیر علویت نمائشی مصنوعی بن کر رہ جاتی ہے ۔ اس کے لیے وہ اصول وضع نہیں کرتا بلکہ بتا تا ہے کہ یہ وہ فلیقی عمل ہے جو سارے اصولوں سے بالا ہے ۔ ساتھ ساتھ وہ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ ملویت تک پہنچنے کے لیے کچھ غلطیوں سے بچنا بھی ضروری ہے مثال وہ ایک فہرست ان صنائع کی دیتا ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ علویت تک پہنچنے کے لیے پانچ صفات ضروری ہیں ۔ پہلی صفت ’’عظمت وشکو د خیال‘‘ ہے یعنی عظیم خیالات و تصورات کو تشکیل دینے کی صلاحیت ۔ اس کی بنیاد مصنف کے کردار اس کی روح کی علویت ، شائستگی داعلی ظرفی پر قائم ہوتی ہے۔ رفیع الشان خیالات ، عظیم طرز اور قدیم نمونوں کی نقل سے ، قوت تخیل اور جاذب توجہ حالات کے انتخاب اور ان کی تنظیم سے وجود میں آتے ہیں ۔ لونجائنس نے ’’سیٹو‘‘ کی اوڈس( Oics ) سے اس صفت کی وضاحت کی ہے۔ دوسری صفت دل میں اتر جانے والا قوی جذ بہ ہے۔ تیسری صفت مخصوص صنائع کا استعمال ہے۔ منائع اس طرح استعمال کیے جائیں کہ پڑھتے وقت قاری کا دھیان اس صنعت کی طرف نہ جاۓ اور صنعت خیال، طرز ولہجہ سے مل کر ایک جان ہو جائے ۔ چوتھی صفت شائستہ، اعلی نفیس تراکیب و بندش اور طرز ادا کا استعمال ہے ۔ پانچویں صفت لفظوں کی موزوں و موثر ترتیب سے پیدا ہونے والا شکوہ ہے جس سے وحدت اثر پیدا ہوتا ہے اور جس سے نظم ونثر جادواثر بن جاتی ہے ۔ ان سب صفات کو ، سواۓ دوسری صفت کے، لونجائنس نے مثالوں سے واضح کیا ہے ۔ اس نے طرز کی خرابیوں کا بھی ذکر کیا ہے اور اپنے دور کے ادب کی پستی کے اسباب بھی بتاۓ ہیں ۔لونجائنس کی توجہ زیادہ تر طرز کی طرف ہے لیکن وہ علم بیان کے ماہر سے آگے بڑھ کر نقاد کی نظر سے اس سارے تخلیقی عمل کو دیکھتا ہے ۔ وہ روایت سے ہٹ کر قدیم تنقیدی طریقے کو ایک نئی زندگی دیتا ہے ۔ وہ اصولوں کے بجاۓ ذوق و شوق و جذ بہ پر زور دیتا ہے ۔ اس طرح ارسطو کی بوطیقا اور لونجائنس کی تصنیف ’’علومیت کے بارے میں‘‘ مل کر تنقید کے دونوں پہلوؤں کو مکمل کر دیتی ہے ۔ جب ہم لونجائنس کو پڑھتے ہیں تو ہمارے سامنے یہ بات آتی ہے کہ وہ تخلیق، وہ نظم علومیت کے دائرے میں آ جاتی ہے جو بیک وقت ہمارے ذہن کو ، ہمارے احساسات اور قوت ارادہ کو متاثر کرتی ہے ۔ دوسری بات یہ سامنے آتی ہے کہ اس کے لیے شاعری نہیں بلکہ شاعر زیادہ اہم ہے ۔ علویت ایک علوی روح کی آواز بازگشت ہے ۔ وہ حضرت موسی کی توریت ، ہومر کی ایلیڈ اور اوڈی سے مثالیں پیش کرتا ہے ۔ ہومر کی دونوں تصانیف کا تقابلی مطالعہ کرتا ہے اور اول الذکر کو زیادہ الہامی بتاتا ہے ۔ وہ اپنے دور کے ادب کی پستی کو بھی کردار کی پستی کا سبب بتا تا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ جو چیز ہماری موجودہ نسل کی روح کو مردہ بنا رہی ہے وہ بے سی ہے ۔ نہ ہم کوئی کام کرتے ہیں اور نہ کسی قسم کی مستعدی دکھاتے ہیں سواۓ اس بات کے، کہ ہماری تعریف ہو یا ہم پیش کر سکیں۔ اس مقالے کا آخری حصہ ضائع ہو گیا اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس بحث کو کہاں تک لے گیا اور اس سے کیا نتائج اخذ کیے۔