اداس نسلیں فکری نقطہ نظر سے
ناول نگار عبداللہ حسین
اردو ادب کا بہترین ناول"اداس نسلیں"
The best novel of Urdu literature "udaas naslein"
Novelist "Abdullah Hussain"
عبداللہ حسین کا ناول’’اداس نسلیں‘‘udaas naslein بیک وقت سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، نفسیاتی، اور تاریخی ناول ہے۔ ناول نگار نے اس ناول میں انتہائی فکر انگیز خیالات کا اظہار کیا ہے۔ جن میں معاشرتی اور سماجی حقائق کے ساتھ معاشرے اور سماج میں رہنے والے لوگوں کی نفسیات اور جذبات بھی موجود ہیں ۔ ناول میں بہت سے نا گفتہ حالات و واقعات پیش کیے گئے ہیں ۔ وہیں یہ حالات و واقعات جن لوگوں کو در پیش آۓ ہیں ۔
ان کے دھڑ کتے دل ، ان کی سوچیں ، آتی جاتی اور
ٹوٹتی سانسیں ، خدشات ، تجر بات اپنے اپنے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ انتہائی موثر طریقے سے پیش کر دیئے گئے ہیں ۔ یہ ایک سچا اورحقیقی ناول ہے جو اپنے عہد کے معاشرے کی مکمل
تصویر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناول میں عبداللہ حسین نے اپنی نسل کی مایوسیوں اور محرومیوں کو بجھنے کی کوشش کی ہے ۔ کہ یہ وہ نسل ہے جس نے ایک ملک کو ٹوٹتے ہوئے اور ایک معاشرے کو کھرتے ہوۓ دیکھا ہے ۔ جہاں تمام انسانی قدر میں مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی تھیں ۔انسانوں نے انسانوں کے
خون سے ہولی کھیلی ۔ لاکھوں لوگوں کی عزتیں خاک میں مل گئیں ہو اور لاکھوں اس میں مارے گئے ۔ اس تمام افراتفری کے پیچھے ایک برح طرح الجھی ہوئی سیاسی ، معاشرتی اور نظریاتی صورتحال تھی جس کو راوی نے گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے ۔ اس ناول میں تاریخ کے مختلف ادوار کو تہ بہ تہ کھولا گیا ہے ۔ اس ناول میں پس منظر کے طور پر ۱۸۵۷ء کی
جنگ آزادی کو پیش کیا گیا ہے۔
جنگ آزادی کے بعد کی صورت حال کا تجزیہ کیا گیا ہے کہ کس طرح بعد میں انگریزوں اور ہندوستانیوں کے درمیان تصادم کی فضا پیدا ہوگئی اور ہندوستان مختلف طبقوں میں منقسم ہو گیا۔ ان طبقات کے مختلف کردار عبداللہ حسین نے متعین کیے ہیں ۔ ان میں بعض روشن علی خان جیسے لوگ اپنے مفادات کی
خاطر انگریزوں کی جان بچا کر ان سے جا گیر میں حاصل کر رہے ہیں ۔ایسے لوگ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں اقوام میں موجود تھے۔ جنہوں نے اپنی قوم سے
غداری کر کے انگریزوں کا ساتھ دیا اور انگریزوں سے انعام کے طور پر زمینیں اور جاگیر میں حاصل کیں اور اس طرح عام کلرک سے جا گیر دار بن گئے ۔لیکن اس کے ساتھ ان لوگوں کے گھروں میں کچھ ایسے ملک پرست اور وطن پر قربان ہونے والے بھی موجود تھے۔
ہندوستان میں اس دور میں بسنے والے مختلف طبقات کے افراداورمختلف نظریات رکھنے والے افراداس ناول میں نظر آتے ہیں ۔ بعض مفاد پرست تو بعض وطن پرست ۔ اسی طرح انہی طبقات نے جن دوطبقوں کو جنم دیا ہے یعنی غریب اور امیر، جاگیردار اور کسان ،
اور جس کے باعث ایک طبقاتی کشمکش شروع ہو چکی ہے ۔ اس طبقاتی کشمکش کو بھی ناول نگار نے ابھارا ہے۔ کہ ایک طرف تو غریب کسان ساری زندگی محنت کرتا ہے ۔ نہ اس کو دن میں سکون کے لئے میسر آتے ہیں اور نہ رات کو ۔ وہ سال بھر فصلوں کے پکنے کا انتظار کرتا رہتا ہے ۔ اسے پل پل ڈر لگا رہتا ہے کہ
کہیں بارش نہ ہو جائے اور اس کی ساری محنت غارت نہ ہو جائے ۔ یہ کسان کیونکہ غریب ہوتے ہیں اس لیے ہر کوئی انہیں بے عزت کر سکتا ہے ۔ ان لوگوں پر ہر کسی کا بس چلتا ہے ۔ اگر سیاست دان ہوں تو وہ انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت سادہ لوح ہوتے ہیں ۔اسی طرح
حکومت ان غریب کسانوں سے جبراً کو بھی کام کر واسکتی ہے۔ جس طرح ناول میں دکھایا گیا ہے کہ روشن پور کے غریب کسانوں کو جبرا انگریز فوج میں بھرتی کر لیا جا تا ہے۔ ناول میں روشن پور کے نوجوانوں کی صورت میں تمام ہندوستان کے نوجوانوں کا ذکر ہے ۔ جن کی فصلیں تیار کھڑی تھیں لیکن انگریز چونکہ ان کے مالک بن بیٹھے تھے اس لیے
انہیں زبردستی جنگ پر بھیج دیتے ہیں ۔ یہ لوگ انکار کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کا انکار کرنے کا خمیازہ ان کے تمام گھر والوں کو بھگتنا پڑتا تھا۔ اس ناول میں نعیم اور مہندرسنگھ جیسے لاکھوں نو جوان ز بردتی سپاہی بنائے گئے اور نامعلوم دشمن سے لڑنے کے لیے جانوروں کی طرح باندھ کر یورپ اور اور افریقہ کے محاذوں پر جرمن فائٹوں کے پاس بھیجے گئے ۔ جن میں بہت سے نوجوان وہی پر مارے گئے ۔ کچھ پانچ ہونے پر ملک واپس بھیج دیئے گئے ۔
اور جو زندہ رہے ان میں بہت سے نوجوان نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو گئے ۔عبداللہ حسین نے اس ناول میں بڑی چابکدستی سے ان کیفیات کو بیان کیا ہے ۔ ناول میں ایک جگہ مہندرسنگھ کے الفاظ سے ان کیفیات کا بغور مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ و تمہیں پتہ ہے ہم کیوں لڑ رہے ہیں؟ انا تک مہندرسنگھ نے پوچھا۔ ’’جرمنوں نے حملہ کیا ہے۔ کہاں؟ روشن پور پر؟
یہاں‘‘
پر ہم یہاں کیوں ہیں‘‘ ہم کس لیے آۓ ہیں؟‘‘
’’جرمن انگریز کے دشمن ہیں اور انگریز ہمارے مالک ہیں بس ۔ ’’ ہمارے ما لک روشن آغا ہیں ۔ میں اتنا جانتا ہوں ‘‘ انگریز روشن آغا کے مالک ہیں ۔‘‘’ چنانچہ کل کتنے مالک ہیں ۔ایک دفعہ بتاؤ“ وہ چڑ کر بولا ۔ نعیم کے گلے میں کوئی چیز اٹک گئی ۔‘‘ یعنی ہندوستانیوں کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیوں لڑ رہے ہیں اور ان کا
اصل مالک کون ہے ، ناول نگار نے بہت خوبصورت اور دلکش انداز میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ گاؤں کے سادہ لوح لوگ جن کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتیں ہیں ان سے جب سی خوشیاں چھین لی جاتیں ہیں تو وہ ذہنی طور پر الجھ جاتے ہیں ۔ اس ناول میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ایک طرف تو ملک میں جنگ و جدل کی صورتحال تھی اور دوسری طرف ملک کے جاگیردار اسی طرح دعوتوں اور خوشیوں کی محفلوں میں مصروف تھے ۔
اس کی مثال عبداللہ حسین نے روشن محل کی صورت میں دی ہے۔ جہاں انگریز آقاؤں کی اسی طرح خوشامد کی جارہی تھی ۔ زوال پذیر معاشرے کی عکاسی راوی نے روشن مجل‘‘ کے افراد کی صورت میں کی ہے ۔ جو کہ اب بھی انگریزوں کے انعامات اور
خطابات کونسل در نسل منتقل کرنے کے لیے حفلیں منعقد کر رہے تھے اور یہی جاگیر دار اصل میں کسانوں کا استحصال کر رہے تھے ۔خودتو آرام سے بیٹھے تھے اور غریب کسانوں پر طرح طرح کے ٹیکس لگا رہے تھے۔ کیونکہ انہیں اپنے عیش وعشرت کا سامان تو ضرور کرنا تھا۔ اوراسی لیے روشن آغا اپنے گاؤں کے
غریب کسانوں پر موٹرانہ کے نام سے ٹیکس لگاتے ہیں ، تا کہ ان لوگوں کے عیش وعشرت میں کمی نہ ہو سکے۔ اس ناول میں روشن آغا کے روپ میں تمام جاگیرداروں کو طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ ان لوگوں کو اپنے ملک سے کوئی لگاؤ نہیں ، بلکہ انھیں انگریزوں سے اپنے مفادات کا حصول پیارا ہے اور اس حصول کے لیے ان کا انگریزوں کے ساتھ وفادار بنا بہت ضروری ہے ۔
اس ناول میں جنگ عظیم اول کے حوالے سے دکھایا گیا ہے کہ گاؤں کے نوجوان جنگ میں زبردستی بھیجے جاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو جب انعامات دیئے جاتے ہیں تو وہ خوشی خوشی ان انعامات کو قبول کر لیتے ہیں ۔ ناول کے کردار نیم‘‘ کو جب انگریزوں کی طرف سے جائیدا ملتی ہے تو نہ صرف اس کے گھر والے اس
سے بہت خوش ہوتے ہیں بلکہ تمام گاؤں والے اس کی پہلے سے بڑھ کر عزت کرنے لگتے ہیں اور نیم گاؤں والوں کے لیے ایک ہیرو کا درجہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اس ناول میں فکری طور پر یہاں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بیالوگ بظاہر تو انگریزوں کے ظلم وستم سے تنگ ہیں اور ان سے نفرت بھی کرتے ہیں ۔ لیکن ان کے دیئے ہوۓ انعامات کو واپس کرنے کے بجاۓ سینہ سے لگاتے ہیں ۔
اس ناول میں فکری طور پر اس نقطہ نظر پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ دہشت پسند یا انتہا پسند کس طرح جنم لیتے ہیں ۔ اس ناول میں دہشت پسندوں کے جنم لینے کی اصل وجہ بھی معاشرتی بے انصافی ، جاگیردار بظلم اور طبقاتی تقسیم ہی بتائی گئی ہے ۔
اس کے علاوہ اس ناول میں اس دور کے ہندوستان میں رہنے والے اچھوتوں کے مسئلے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار نعیم ایک زمانے میں دہشت پسندوں کے گروہ سے وابستہ ہو جا تا ہے ۔اس گروہ میں اس کی ملاقات انچوت طبقے سے تعلق رکھنے والے’’مدن‘‘ اور اس کی بہن ’شیلا‘ سے ہوتی ہے ۔ مدن اس کو بتا تا ہے کہ کس طرح وہ اچھوت طبقے
سے متعلق ہونے کیوجہ سے زمینداروں کے مظالم سے تنگ آ کر گاؤں چھوڑ کر در بدر بھٹکنے پر مجبور ہوا تھا۔ اس کی عمر اس وقت پچیس برس تھی ۔لیکن اس نے کبھی پیٹ بھر کر کھا نانہیں کھایا۔ اس سماج اور نظام فکر میں احساس جرم جیسی کوئی شے باقی نہیں بچی ہے اور وہ جس بے رتم سماج کے استحصال کا شکار ہوا ہے ۔ اس سے وہ انتقام لینا چاہتا ہے اور انتقام لینے کا واحد راستہ اس کے پاس تشدد ہے۔
اس ناول میں فکری طور پر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس معاشرتی بے انصافی اور بے رحمی کے باعث کتنے نو جوان اپنے مستقبل تباہ کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں ۔ اس ناول میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان حالات کو بہتر بنانے کا واحد طریقہ ساجی انصاف ہے،اگر معاشرے میں عدل وانصاف ہوگا اور کسی طبقے کا استحصال نہ ہوگا تو اس طرح کے حالات بھی پیدانہیں ہوں گے ۔
اس ناول میں عورت کے تین روپ نظر آتے ہیں ۔طوائف ، باغی گور پیلا اور تابعدار بیوی ۔ لیکن طوائف کا کر دار زیادہ نمایاں ہے اس ناول میں بانو کے کردار کے ذریعے نیک دل اور ایثار پسند طوائف کو دکھایا گیا ہے جو علی‘‘ کو مسجد شہید گنج کے ہنگامہ سے بچاتی ہے۔ یہ دراصل وہ شیلا ( بانو ) ہے جو پہلے دہشت گردوں کے گروہ میں شامل تھی ۔ یہ بھی طوائف کی
طرح معاشرے کے ٹھکرائی ہوئی عورت ہے ۔ جو بارہ برس کی عمر سے ہی لوگوں کی ہوں اور ظلم کا نشانہ بنتی رہی جوا چھوتی تھی ، عیسائی تھی اور پھر ہندواور آخر میں مسلمان ہوگئی ۔ وہ حالات سے مجبور ہوکر دہشت پسندوں کے گروہ میں شامل رہی ۔ جن کا کام ریلوے لائنوں کو بموں سے اڑانا تھا۔ دوسری عورت بھی یہی بانو ہے جو ملک کے آزادی کے لیے مختلف تحریکوں میں شامل ہوتی ہے۔ تیسری عورت کا کردار عذرا کے روپ میں سامنے آتا ہے اور یہ کردار با قاعدہ طور پر ایک افسانوی کردار ہے ۔ اس عورت میں مشرقی عورت کی وفانظر آتی ہے ۔ وہ اپنے شوہر کے لیے قربانی دیتی ہے ۔ اس کا شوہر نعیم کئی بار اس کو چھوڑ کر چلا جا تا ہے مگر پھر بھی جب وہ اس کی
بیماری کی خبرسنتی ہے تواپی تمام رنجشوں اور انا کے بت کو پاش پاش کر کے اپنے شوہر کے پاس گاؤں پہنچ جاتی ہے اور اسے بہتر علاج کی خاطر روش محل لے آتی ہے اور اپنے شوہر کے علاج میں کسی قسم کی غفلت نہیں برتی اور آخر تک شوہر سے وفادار رہتی ہے ۔ ناول کی فضا میں تحریک خلافت اور رولٹ ایکٹ کی ترجمانی بھی ہوتی ہے ۔ نعیم رولٹ ایکٹ کے خلاف مظاہرے میں شرکت کرتا ہے تو دوسری طرف
سول نافرمانی تحریک کا اعلان ہوتا ہے ۔ اس تحریک میں غلام ہندوستان کے تمام چھوٹے بڑے افراد شرکت کرتے ہیں ۔ ناول نگار نے یہاں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اب غلامی کی زنجیر میں ہندوستانیوں کے لیے نا قابل برداشت ہو چکی تھیں ۔ لگتا تھا کہ اب وہ ذوق یقین کے ذریعے غلامی کی زنجیر کو پاش پاش کر دینا چاہتے ہیں ۔ آزادی کی دیوی حاصل کرنے کی خاطر تحریک آزادی کے مجاہدوں نے جو مشکلات ، تکالیف
اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ نعیم کا کردار اس کی مثال ہے ۔ اس تحریک میں اس کی وکٹوریہ کراس کی زمین ضبط کر لی جاتی ہے اور اسے گرفتار کر لیا جا تا ہے ۔ اس ناول میں دکھایا گیا ہے کہ جولوگ طوق غلامی اتارکر آزادی کی طلب میں اپنا تن من دھن قربان کر دینے پر تلے ہوئے تھے ۔ ان کی زندگیاں جیلوں میں کٹ جاتی ہیں ۔ بے شمار ایسے افراداس ناول میں دکھائے گئے ہیں جن کی اموات جیلوں میں ہوئیں ۔ آزادی کا نام لینے کے جرم میں وہ اپنی
سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیئے گئے اور ایسے لوگ دوبارہ جیتے جی اپنے پیاروں سے ندل سکے۔ اس ناول میں ناول نگار نے ایک مچھلی فروش کے ذریعے جلیانوالہ باغ کے کر بناک اور خوف ناک واقعہ کو پیش کیا ہے ۔ جن میں انگریزوں نے ہندوستانیوں کا انتہائی بے دردی سے قتل عام کیا ۔ لوگوں کو سانپوں کی طرح رینگتے ہوۓ دکھایا گیا ہے ۔ ناول نگار نے اس سانحے کو خوبصورت مچھلیوں کی وباء سے تشبیہ دی ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح کسی وباء میں مچھلیاں تڑپ
تڑپ کر مرتی ہیں ۔ یہی حال جالیا نوالہ باغ کے سانحے میں ہندوستانیوں کا ہوا۔ ان کی لاشوں سے نالیاں ،گلیاں اور میدان بھر گئے ۔ یہ سزا آزادی کی دی گئی تا کہ اس کے بعد کوئی آزادی کا نام نہ لے سکے۔ لیکن انگریزوں کے اس ظلم کے باوجود آزادی کی شمع اسی طرح جلتی رہی ۔ اس ناول میں جہاں آزادی کی تحریکوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ وہاں اس میں فرد کے معاشرتی مسائل کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس ناول میں
کارخانوں کی زندگی بنعتی دنیا کے مسائل ،مزدوروں کی مشکلات ، ہڑتالیں ، ناکہ بندی کوعلی کے کردار کے ذریعے دکھایا گیا ہے۔ اس حصے میں ہندوستان میں صنعتی نظام فکر کی ابتداء اور ٹریڈ یونین تحر یک کی شروعات کا ذکر نہایت حقیقی انداز میں کیا گیا ہے ۔ کہ کس طرح نئے سرمایہ دار گاؤں سے آ کر بھرتی
ہونے والے مزدوروں سے جانوروں کی طرح کام لیتے تھے ۔ اور اس کے بدلے انھیں قلیل اجرت دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ گاؤں کے کھلنڈرے خوش مزاج اور زندہ دل کسان ، فیکٹریوں سے مریش، چڑ چڑے اور سنگدل بن کر نکلتے تھے۔
یمز دور سارا دن کام کرتے تھے ۔ مکانوں کے لیے سیمنٹ بتاتے تھے۔ کپڑا بناتے تھے۔ بجلی پیدا کر تے تھے۔ لیکن ان مزدوروں کے گھر کچے اور بند ڈبے ہوتے تھے۔ ان کے مکان تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ان کی زندگی بھوک ، افلاس اور محرومی میں گزرتی تھی اور اگر
اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ، ہڑتال کر تے ، تو نھیں پولیس اور غنڈوں سے زدوکوب کیا جا تا ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جا تا ۔ ہڑتالوں کی صورت میں ان مزدوروں کو وہ تھوڑی اجرت بھی بند ہوجاتی ۔ جس کا نتیجہ ان مزدروں اور ان کے خاندان کے بیمار ہونے اور مرنے پر نکلتا ہے ۔
اس لحاظ سے دیکھا جاۓ تو اس ناول میں مزدوروں اور مالکان کے مابین تضادات کو نشانہ بنایا گیا ہے ۔ کہ ایک طرف تو مزدوروں کی زندگی میں بد حالی اور سہولیات کا فقدان ہے تو دوسری طرف خدمت کاروں اورمل مالکان کی زندگی میں ہر طرح کی سہولیات ہیں ۔ ان کے لیے ہر طرح کی تفریح کے ذرائع موجود ہیں ۔عیش وعشرت اور سکون و آرام سے ان کی
زندگیاں بھر پور ہیں۔ بظاہر مہذب اور شائستہ نظر آنے والے یہ سر ما بیدار ،مزدوروں کا خون چوس کر ان کو ملازمت سے نکال پھینک دیتے ہیں ۔ اور تازہ دم وتوانا بیروز گار بھرتی کر لیتے ہیں ۔اسی طرح یہ فیکٹریاں اورملیں انسان اور انسانیت کی مقتل گاہیں بنی ہوئی ہیں ۔ جہاں منافع کی ہوں ، طاقتور اور صحت مند نو جوانوں کو موت کی طرف کیلتی رہتی ہے۔
ناول میں گھٹن کی فضاء سے قاری کو باہر نکالنے کے لیے ناول نگار نے اس میں ایک چھوٹا سا شادی بیاہ اور پٹھانوں کی مہمان نوازی کا تذکرہ کیا ہے۔ نعیم اپنے دوست امیر خان سے ملنے پشاور کے کسی نواحی گاؤں جاتا ہے ۔ جو قبائلی علاقے میں واقع ہے ۔۔ ناول نگار نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ ان سخت پہاڑوں میں
رہنے والے لوگوں کے دل اپنے دوستوں اور مہمانوں کی محبت سے بھرے ہوۓ ہیں ۔ شادی بیاہ کے ذکر سے ناول نگار نے قبائل کے رسم ورواج کی عکاسی بھی کر دی ہے ۔ وزیر خان کی شادی کے موقعے پر حجرے میں
گانے بجانے کی محفل ، دلہے کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنا، بارات کے ساتھ مشعلوں کا جلوس اور خشک رقص ایسے واقعات ہیں جو مشرقی تہذیب کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ناول نگار نے قبائلیوں کے رسم رواج کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ایک مخصوص تہذیب کی
عکاسی بڑے بھر پورانداز میں کی گئی ہے ۔ عبداللہ حسین اردو کے ناول نگار ہیں جنہوں نے یورپ کی فکری تحریکات اور خاص کر فلسفہ وجود بیت کے گہرے اثرات قبول کیے ہیں ۔’’اداس نسلیں‘‘ کی فکر میں نظر یہ وجودیت مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔اس لیے اس ناول کے اس اہم رخ پر بات کرنے سے پہلے فلسفہ
وجودیت پر تھوڑی سی بات کرنی ضروری ہے ۔ وجود بیت کسی بندھے ٹکے فلسفیانہ اصول یا فارمولے کا نام نہیں ۔ جس کا حرف بہ حرف اطلاق ایک وجودی ناول کی تخلیق کے لیے ضروری ہے ۔ ی یہ ایک ذہنی وفکری رویہ ہے ۔ جسے مختلف وجودی مصطفین اور مفکرین
اپنی منفر دسوچ اور طرز احساس کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔ سجاد حارث پال شیخ (Paul Thlich) کے فلسفہ وجودیت کے الفاظ اپنی کتاب میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
’’ وجودی تصور ہر ایک عظیم مصنف کی تحریر میں دیکھا جاسکتا ہے ۔ جوزندگی اور انسانی تقدیر کے مسائل کو زیر بحث لاتا ہے ۔‘‘ ۱) اگر چہ اس نظریے پر لعض لوگوں نے بڑی لے دے کی ہے ۔ اور وجودی مصنفین پر وہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ مصنفین ہرنظیم مصنف اور فلسفی کو کسی نہ کسی مفہوم میں خواہ
خواہ اپنی صنف میں لاکھڑا کر تے ہیں ۔ اس کے برعکس وجودی مصنفین یہ دعوی کرتے ہیں کہ وجودی نقطہ نظر اور اس نقطہ نظر کا ادراک اور اس کی بصیرت مختلف مقامات پر ادب، فلسفہ، اور مذہبیات، میں با آسانی دیکھی جاسکتی ہے ۔ بیسویں
صدی میں وجودی رویے اور نظریے نے با قاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی اور اس تحریک نے فن وادب پر گہرا اثر ڈالا ۔ وجود بیت کی تحریک پر تین افرادلینی آندرے زند ہسگمنڈ فرائڈ ،اور سارتر کا گہرا اثر ہے ۔ وجودی مفکرین اجتماعی زندگی کے مقابلے میں ’’ فر‘‘ کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں ۔ان کے فکر
وفلسفے میں محض انسان کا انفرادی وجودا ہمیت رکھتا ہے ۔ ان کے نزد یک طبقات یا گروہ’’فرو‘‘ کی حیثیت اور آزادی کے دشمن ہوتے ہیں ۔ کیونکہ بی طبقات اور گر وہ اسے ہر طرح کی ذمہ داری سے آزاد کر دیتے ہیں ۔اس کے برعکس وجودی مفکرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہرفر دآزاد ہے اور اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے ۔ انتخاب کی اس آزادی اور ذمہ داری ہی سے ہرفردینی اضطراب کا شکار ہو جا تا ہے اور اس پر
مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں ۔ اس آزادی انتخاب کے باوجود بی فرداپنے انجام کو نہیں جانتا۔ اس کا عمل زمان و مکان کے دائرے میں محدود ومقید ہوتا ہے ۔ چنانچہ بعض اوقات اپنے عمل کے نتیجے میں اسے تباہی اور موت کا سامنا بھی کرنا پڑ تا ہے ۔ ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ انتخاب کرتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ ہمارا فیصلہ صحیح ہے یا غلط ۔
سب ہی وجودی مفکرین موت کی المناکی کو بحث کا خاص موضوع بناتے ہیں ۔ ہائی ڈیگر کے نزدیک موت کی مستقل آ گہی سے اصل زندگی ترتیب پاتی ہے ۔ موت جس آسانی سے زندگی اور وجود کا خاتمہ کرتی ہے ۔ اس سے زندگی کی لایعنیت اور کھوکھلا پن ظاہر ہو جا تا ہے ۔ سارتر زندگی پر تبصرہ کرتے ہوۓ ایک جگہ لکھتا ہے: ” ہمارا وجود بغیر کسی سبب ومعقولیت
اور ضرورت کے تحت دنیا میں نظر آ تا ہے۔ تمام زندہ افراد بغیر کسی وجہ کے دنیا میں آتے ہیں۔ مجبوریوں اور کمزوریوں کا بوجھ اٹھائے زندہ رہتے ہیں ۔ وہ ایک دن حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ ۱) اس ضمن میں بعض وجودی مفکرین انسان کی تنہائی پر خصوصی توجہ دیتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ خواہ کیسا ہی معاشرتی اور سیاسی نظام قائم ہو جاۓ ۔ انسان کی تنہائی اپنی جگہ برقرار ہے گی ۔ ان کے نزدیک انسان
تنہا اور نامعقول واقع ہوا ہے ۔ اور زندگی کی نامعقولیت کو کسی نظام سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وجودی تصورات ہماری فکری قوتوں کو مہمیز دیتے ہیں ۔ انسانی وجود کے مسائل پر غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں ۔ انسانی ذہن اور خیال کے ارتقائیں ہماری رہنمائی کی سعی کرتے ہیں ۔ تاہم یہ تمام تر تصورات وسیع تر مفہوم میں منفی تصورات ہی کہے جاسکتے ہیں ۔ سارتر نے اگر چہ منطق کا سہارا لے کر غیر حقیقی تصورات کا دفاع کیا ہے۔
مجموعی طور پر وجودی تصورات انسان میں مایوی ، ناامیدی ، بے دل اور منفی رجحانات پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں ۔ لیکن وجود بیت کے مسائل پر غور وفکر کر نا ذہنی آزمائش کا کھیل تو ہوسکتا ہے لیکن اپنے مضمرات کے لحاظ سے اسے بے ضرر نہیں قرار دیا جا سکتا۔
ایک زمانہ تھا۔ جب یورپ کے علمی حلقوں میں وجود بیت اور وجودی تصورات کی بحث نے مستقل موضوع کا مختلف موقعوں پر کرتے ہیں ۔ اس سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ناول جوں جوں نقطہ عروج کی طرف بڑھنے لگتا ہے تو زندگی ،موت ،انسان اور اس کی از لی اور ابدی تنہائی ، آرٹ اور ادب ، مذہب اور صداقت ، انصاف اور محبت کے بارے میں کردار بڑی
شدت سے بحث اور تقاریر کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں ۔اب کہانی میں حرکت وعمل کا عنصر کم ہوتا جا تا ہے ۔ اور اس کی جگہ طو میں طویل باتیں اور فلسفیانہ مباحث لے لیتے ہیں ۔ ان تقاریر میں بالعموم جو موضوعات زیر بحث آتے ہیں ۔ ان کا تعلق بالواسطہ یا بلا واسط طور پر وجودی تصورات سے قائم نظر آ تا ہے ۔ ناول کے مرکزی کردار مثا نعیم کو ہی لیں وہ
زندگی کے آخری لمحات میں ذہنی اختلاط کا شکار ہو جا تا ہے اور مسلسل زندگی اور کائنات کی حقیقتوں پر تبصرہ کرتا ہے اور ماضی کی پناہ گاہوں میں بھی بھٹکتا پھرتا رہتا ہے ۔ نعیم کی خود کلامی سے قاری جلد ہی انداز ہ لگا سکتا ہے کہ نعیم فکر واحساس کے
پنجرے میں مکمل طور پر بند ہے ۔ اور ناول کا بیان اور المیہ اور اس کے کردار جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ جا تا ہے ۔ فرد یقینا اپنے جو ہر کا انتخاب خود کرتا ہے اور جب کوئی فردا پنی داخلی اور خارجی حقیقتوں سے رشتہ منقطع کر دیتا ہے تو اس صورت میں اپنی موت کا خودانتخاب کرتا ہے اس صورت میں زندگی کی ہر سانس موت کا سایہ بن جاتی ہے اور فرداحساس کے مجسس میں زندہ درگور ہوتا ہے۔ نعیم بنیادی طور پر کسان کا بیٹا تھا جب وہ عذرا کی اونچی چھتوں والی
دنیا میں چور دروازے سے داخل ہوتا ہے تو اس کا رشتہ زمین اور فصل سے کٹ جا تا ہے اور بقول علی وہ جاگیر دار کی لڑکی سے شادی کر لیتا ہے اور یہی سے اس کی زندگی کا المیہ شروع ہوتا ہے، کسان ذہن ، کسان فلسفے اور جاگیردارانہ ذ ہن اور طرز معاشرت میں کھینچا تانی شروع ہو جاتی ہے اور پیشکش اس کی زندگی کے
آخری لمحات تک جاری رہتی ہے ۔ اگر چہ اس کی جسمانی معذوری اور پیاری بظاہر اس کی زندگی اور سوچ کے نئے دھاروں کو نئی سمت دینے کی ذمہ دار دکھائی دیتی ہے ،لیکن یہ عوامل اس کی زندگی کے خارجی پس منظر کے مقابلے میں بیچ ہیں ۔ جنھوں نے اس کے ذہن اور سوچ کو مسلسل شکنجے میں جکڑا ہوا ہے ۔ نعیم کی یہ نفسیاتی کیفیت ان الفاظ میں پیش کی گئی ہے:
” جسمانی معذوری اور دل کی غمخواری کے باعث اس کے پاس زندگی کا راضی با رضا نظریہ تھا۔