تحقیق و تنقید
ڈاکٹر سید عبداللہ
پھر سے سے ہمارے تنقیدی ادب میں کچھ غلط سا پیدا ہورہا ہے ۔ بعض اہل علم کی تحریروں سے ہی مترشح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک تحقیق وتنقید گویا دوا ایسے نقطے ہیں جو سی خط کی دو متضادستوں پر واقع ہوتے ہیں اور آپس میں بھی مل نہیں سکتے ۔ لہذا حق و نقا بھی دو متضاد مشاغل کے آ دی سمجھے جانے لگے ہیں یعنی محقق وہ جسے تنقید سے کچھ فرض نہ ہو اور نقاد جوتحقیق سے بالکل بے نیاز ہو ۔ غرض تحقیق و تنقید کے درمیان ایک خاص قسم کی مغائرت بلکہ قائم کر دی گئی ہے جس سے عجیب و غریب بھی معنی لے پیدا ہور ہے ہیں ۔
مگر کیا تحقیق و تنقید میں واقعی اتنی دشمنی ہے؟ کیا حق واقعی وہ ہے جو تنقید سے واسطہ نہ رکھتا ہواور نقاد واقعی وہ ہے جو حقیق سے بالکل غافل ہو جائے ۔ کیا ان دونوں کا کوئی ایک بھی مشترک میدان ایسانہیں جہاں یہ دونوں باہم مل بیٹھتے ہوں؟ یہ سب سوال بڑے ہی اہم ہیں اور ان کے صحیح جواب سے ہی بہت ی نظریاتی لحاظ فہمیاں رفع ہوسکتی ہیں ۔ تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت کا اثبات ہے۔ اصطلاح میں یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد سے صیح یا غلط کو بعض مسلمات کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے۔
تاریخی تحقیق میں کسی امر واقعہ کے وقوع کے امکان دانکار کی چھان بین مدنظر ہوتی ہے ۔ اب عام طور سے تاریخی تحقیق کو غلط طور پر تنقید کی ضد سمجھ لیا گیا ہے ۔ تنقید کے معنی میں کھوٹا کھرا پر کہنا ۔ اصطلاح میں کسی موجود مواد کی خوبی یا برائی حسن و قبح اور جمال اور بدصورتی کے متعلق مچھان بین اور اس پر فیصلہ و بنا نقاد کے مدنظر ہوتا ہے ۔ ایک خاص حد تک تنقید تحقیق کے دائرہ ہاۓ عمل الگ الگ ہیں مگر کچھ ایسے دائرے بھی ہیں جن میں یہ دونوں ہم قدم اور نام رکاب ہیں ۔ لیکن یہ بحث اتنی آسان نہیں کہ اس سے اس قدر رجلد پلہ چھڑایا جا سکتا ہو ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تنقید کی وہ جستجو جو موجود مواد کے حسن وفتح کے سلسلے میں ہوتی تحقیق سے بھی بے نیاز ہو سکتی ہے؟
کوئی ادب مطلق اور قائم بالذات نہیں ہو سکتا کہ اس کو اس کے مصنف کی ذات و شخصیت سے کا ملا منقطع کر کے دیکھا جا سکتا ہوا اور ظاہر ہے کہ مصنف کی ذات و شخصیت کے مسائل ان گوناگوں واقعات سے وابستہ ہیں جن سے کسی مصنف یا شاعر کی زندگی عبارت ہے اور یہبھی ظاہر ہے کہ کسی مصنف یا شاعر کی حیات بھی کوئی ایسی شے نہیں جو خلا میں معلق ہو یہ شاعر بھی تو دوسرے انسانوں کی طرح اس دنیا ۓ آب وگل کا مکیں ہوتا ہے ۔ وہ بھی تو کسی اجتماع کسی معاشرہ کا فرد ہوتا ہے ۔ وہ بھی تو تہذیبی اور اجتماعی اثرات سے اثر پذیر ہوتا ہے ۔۔ اس کو بھی تو کچھ ادبی روایات ورثے میں ملتی ہیں ۔
اس کو بھی تو کسی اجتماع سے مخاطب ہوتا ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ آدم اول کی طرح سرا پا اجنبی یا اکیلا تو ہے نہیں کہ اس کی گفتگو صرف پہاڑوں اور خاموش وادیوں سے ہوتی ہو اور انسانوں کا کوئی گر وہ اس کا مخاطب ہی نہ ہو ۔ اس کے انسان ہونے سے ہی یہ لازم آتا ہے کہ وہ چاند متعلقات سے وابستہ ہے جن سے اس کافن متاثر ہوتا ہے ۔ پاس ایسے حالات میں شاعر اور مصنف اپنے ماحول اور گرد و پیش کے
مادی عوامل اور متعلقات سے کیونکر بے نیاز رہ سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ سب متعلقات وہ ہیں جن میں حسن وفتح ‘‘ کا سوال کم اور تاریخی واقعیت اور واقعہ کی حقیقت‘‘ زیادہ مد نظر ہوتی ہے ۔۔ پیج ہے کہ تاثراتی تنقید فی الفور پکار اٹھے گی مختسب رارون خانہ چہ کار یعنی کسی نقاد کو اس بحث میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے کہ شاعر اور مصنف کون تھا۔ کہاں پیدا ہوا تھا ۔ کس کا بیٹا تھا ۔ اس کے مشاغل کیا کیا تھے ، اس نے کس کس سے محبت کی تھی؟ اس کی عاشقانہ نا کامیوں کے اسباب کیا تھے؟
اوران ناکامیوں کے سبب بقول میر۔
ع مجھے رکتے رکتے جنوں ہو گیا
ارے صاحب حب جنوں ہو گیا تب کیا ہوا؟
یا مثلا
ع اکبر آباد سے جس گھڑی
اجی اکبر آباد سے چلا تو کیا ہوا اور نہ چلتا تو کیا ہوتا ۔ ہمیں تو غرض ان اشعار سے ہے جو اس نے کہے ، ان تصانیف سے ہے جو اس نے پیش کیں ۔ ہمیں تو ادب پارے کے جمالیاتی وتاثراتی حسن وقیح سے بحث ہے اور بس ۔ باقی باتیں جانے کی نقاد کوضرورت ہی کیا ہے؟ مگر تاثراتی نظاروں کی یہ بات دیر تک پہلے کی نہیں ۔ اس طرح تو وہ بھی جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے کہ کوئی شاعرکس صدی کا آدمی ہے، کس ملک سے تعلق رکھتا ہے ، کیا زبان بولتا ہے، اس سے فن سے ارتقائی مدارج کیا تھے؟ اس کی شاعری میں مدارج عمر نے کہاں تک تصرف کیا ؟ یہ سب باتیں بھی تو تاریخ اور امر واقعہ سے متعلق ہیں ۔ آخر ان سے کوئی مکمل تحقیدی ضابطہ کس طرح گر یز کر سکتا ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ تاثراتی تنقید میں یہ انتہا پسندی جیسا کہ Rickert نے اپنی کتاب New Method of Study of Literature میں احتجاج کیا ہے ۔ اس سبب سے پیدا ہوئی کہ تاریخی تنقید کے علمبرداروں نے بھی تنقید کی مٹی پلید کر رکھی تھی ۔ ان کی تنقیدوں میں امر واقعہ ہی سب کچھ ہوتا تھا ۔ جمال حسن وفتح کی اہمیت ذرا بھی تھی ۔ وہ مصنف کی زندگی ، اس کی تصانیف کی تاریخی کہانی اور اس کے ماحول سے ہی بحث کرنے لگے تھے ۔ اس کی تصانیف کی ادبی اہمیت تقریبا نظر انداز ہو گئی تھی ۔ اسی لیے کچھ نقادوں کی باتیں درست اور ضروری سہی مگر تنقید اس کے علاوہ بھی تو بہت کچھ ہے ۔
تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے تو تنقید کی اصل فرض ہی فوت ہوئی جاتی ہے، کیونکہ مصنف کے متعلق امر واقعہ کی مچھان بین سے بھی تو یہی فرض ہوتی ہے کہ اس کی مدد سے ادب کے حسن کے لکھنے میں مددل سکے۔ لیکن یہاں تو ہر چیز موجود ہے مگر ادب کے جمال کی بات موجود ہیں ۔ یہاں تو ادب میں حسن کی بہنجو ہی غائب ہورہی ہے ابداری تنقید نہیں کی تاریخ ہے ۔
ارود میں ادب کے اولین نقاد بیشتر وہ بزرگ تھے جو ادب کے مورخ تھے مولانا آزار مورخ پہلے تھے نقاد بعد میں تھے بلی کی شعر انجم تاریخ کی کتاب پہلے ہے تنقید کی کتاب بعد میں ہے ۔ مالی مقدمہ شعر و شاعری میں تو صرف ناقد کے روپ میں جلوہ گر ہوۓ ہیں مگر حیات سعدی یادگار غالب اور حیات جاوید میں ان کی ناقدانہ حیثیت مھنی ہے ۔
سوانح نگارانہ حیثیت اصولی ہے۔ چنانچہ ان کتابوں میں امر واقعہ کی تحقیق ہی مقصود بالذات ہے ۔ ان وجوہ سے کم وبیش پچاس سال تک تنقید اور تاریخ نگاری تقر یہا باہم یک جان ہیں اور امر واقعہ کی تحقیق کا رجحان ہماری تنقید میں اس درجہ غالب رہا کہ اردو کے پہلے نقا محقق ہی کہلا ئے ۔ پھر اعظم گڑھ کے مصطین اور پروفیسر شیرانی وغیرہ نے تو ادبی مباحث سے متعلق مورخانہ تو کو اس درجہ اپنی توجہ کا مرکز ومحور بنا لیا کہ ہمارے ملک میں مورخانہ چھان بین ہی تحقیق کی بہترین اور مکمل ترین صورت قرار پائی ۔
ان حالات میں جب عہد ید تنقید نے جنم لیا تو نقادوں کو محسوس ہوا کہ مروجہ تنقید سے تنقید کا عنصر تقریبا مفقود ہو گیا ہے ۔ اس لیے انھوں نے سہولت کے لیے پرانے انداز تنقید کا نام ہی تحقیق رکھ دیا۔ یوں ان کے نزدیک تحقیق و تنقید دو بالکل الگ الگ شعبہ ہاۓ عمل قرار پاۓ۔ تنقید تحقیق میں اتنا فاصلہ ہے اور کیا ان دونوں شعبوں کے در میان اتنی کڑی حد فاصل قائم کی جاسکتی ہے؟ اب تو زمانہ وہ آ گیا ہے جب خود سائنس اور ادب کے درمیان کوئی حد فاصل کھیپ نہیں جاسکتا۔ میولر نے اپنی کتاب میں کیا مزے دار بات لکھی ہے کہ جدید فزکس خصوصا آئن سٹائن کے نظریات نے لفظ ( یا حرف ( The ) کو ا پی قلم رو سے بالکل خارج کر دیا ہے
اور اس کی جگہ حرف "a" کو علم کی مستقل حرف صفت قرار دے دیا ہے ۔ مراداس ست یہ ہے کہ جہاں پہلے سائنس کو Truth تک پینے کا دعوی تھا اب و قلی قطعیت سکے اس دعوی سے دست بردار ہورہی ہے اور سائنس کی دریافت شد و سچائیوں کو کھلی ایک پائی A Truth ہی قرار دیتی ہے ۔ کیونکہ اس ایک دریافت شد Truth کے علاوہ بھی تو ( Truth) کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں۔ یہاں تک کہ ادبی تنقید کی نا قابل بیان ذوتی در یافتوں کو بھی غیر سائنسی نہیں کہا جا سکتا ۔ پھر سائنس کی بڑھم خود قلعی سچائیوں کو بھی اتاقلعی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ادب کی نقیض قرار پائیں اور بھی تو اب تسلیم کیا جا چکا ہے کہ تنقید بھی ایک سائنس ہی ہے ۔
سبھی سائنس کی طرح ایک سچائی کی جو بند و یا بندہ ہے اور یہ پائی حسن کی تلاش اور اس کی نسبتوں اور مقدار وں کے تعین سے متعلق ہے اور اس کے بھی کچھ تلی اصول ہیں ۔ اس میں تاثر کی جابرانہ حکومت ہی قلم فرما نہیں جس کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ اس مجھے تو یونہی محسوس ہوا ہے ۔ تنقید میں تاڑ کا فیصلہ اگر چہ بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں ۔ تاثرات کے فیصلوں میں بھی ایک اندرونی عقلی تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ قارئین کے کسی گروہ کو مطمئن کرنے کے لیے عقلی مسلمات کی ضرورت ہوگی ۔
جن کا علم مصنف ، نقاد اور معاشرے کی مشترک جائداد ہوگی اور یہی عقلی مسلمات جب تنقید کی بنیاد قرار پا جاتے ہیں تو تنقید کامل ایک سائنسی عمل بن جاتا ہے اور جونہی کہ تنقید ایک سائنس کی حیثیت سے مہلووگر ہو جاتی ہے اس میں تحقیق و تجربہ کے انداز خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ تنقید ادب میں موضوعیت (Subjectively) بڑی ضروری چیز ہے مگر معروضیت (Objectively) کے بغیر صیح محقید ادب ناممکن ہے اور اس سے تنقید سائنس کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے ۔ اور تو تنقید کو سائنسی حقیقتوں سے اس درجہ وابستہ کر دیا تھا کہ سن سائنس ہی کا ایک گوشہ بن کر رہ گیا تھا ۔ ابھی ایک طرح کی انتہا پسندی تھی مگر تنقید کو سائنس سے بالکل الگ ہونا بھی تو سخت غلطی بہر حال می تو واضح ہے کہ ادبی تنقید کو کسی نہ کسی صورت میں سائنسی ضرور ہوتا ہے اور جہاں یہ سائنسی ہوئی ۔ وہاں تحقیق کا قدم آیا۔
مثلا ان دو معمولی سے سوالوں ہی کو لے لیے ۔ ایک یہ کہ کسی فن یا شاعری کے ادبی در سبے کے تین میں فن کار اور شاعر کی حیات کوئی حصہ لیتی ہے یا نہیں؟ دوسرا یہ کہ اگر شاعر کا انداز بیان شاعری شخصیت ہی کا پرتو ہے تو اس کے انداز بیان کے صحیح تجزیے کے لیے اس کی شخصیت ( کے خارجی عناصر کو بھی زیر بحث لا نا ضروری ہے یانہیں؟ اگر اد لی قدرو قیمت کی تعین میں حیات کا کوئی حصہ ہے جیسا کہ اب ثابت ہے کہ ہے ، تو حیات کا کسی مصنف کی ادبی تخلیقات سے رابطہ قائم کرنے کے لیے مورخین کی تحقیق ایک بنیادی ضرورت بن جاتی ہے ۔ اسی طرح اسلوب بیان کے لب ولہجہ کی شناخت میں شاعر یا مصنف کی شخصیت کا سوال بھی ایسا ہی اصولی اور بنیادی سوال بن جا تا ہے جس طرح خود حیات کی مورخانہ جستجو ایک اہم جستجو ہوتی ہے ۔
اردو تنقید میں تحقیق و تنقید کی مغائرت کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بعض اوقات شعرا اور مختلف اصناف ادب کے سلسلے میں ایسی غیر ذمے دارانہ باتیں بیان ہو جاتی ہیں جن پر امر واقعہ کونسی آتی ہے ۔ مجھے یاد ہے ایک زمانے میں اردو کے ایک معروف نقاد نے میدفر ما دیا تھا کہ غزل ایک در باری صنف ہے۔ اس میں مقطع بادشاہ کے قائم مقام ہے ۔ باقی اشعار غزل گو یا امرائے در بار ہیں کہ ہر وقت جوڑ توڑ میں گئے ہیں اگر چہ ان کے دل آپس میں پیٹے ہوئے ہیں ۔ مقطع میں شاعر گویا ار بار کی آخری صف میں سنگ دربار کی طرح بیٹھا ہے ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
غرض اس طرح غزل اور دربار کو ایک شے قرار دیا گیا ۔ بظاہر اس نظریے کے واضع نے ذہانت اور طباعی کی بڑی چیک دکھائی ہے۔ مگر سیاسی اور اجتما کی تاریخ کی شہادتیں اس عجیب و غریب نظر سیلے کا ساتھ نہیں دیتیں ۔ اس لیے کہ بہت سے غزل گو شعرا نے غزل کے علاوہ دوسری اصناف سخن کی بھی سر پرستی کی ہے۔ مثلا میر تقی میر نے غزل کے علاوہ عمدہ مثنوی نگاری بھی کی ہے ۔ مرز ارفیع سودا نے غزل کے علاوہ قصائد امرائی جو بات بھی لکھی ہیں ۔ میر اور درد نے باقی اصناف کی طرف سے تقر رہا ہے تو جہی برتی اور و وصرف غزل گوہی تھے مگر دو در باری نہ تھے ۔ کارفاری غزل کو لے لیجے ۔ فاری غزل گوؤں میں سعدی نے کچھ در بارداری کی مگر سعدی سگ در بار بھی نہیں ہے ۔ یہی حال حافظ کا ہے اور شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جوشعر ایچ پیچ
سنگ در پار سے ان سے تو کبھی انہی غزل بن ہی نہیں آئی وہ لوگ تو قصیدہ نگاری کے مردمیدان تھے اس میں انھوں نے واپسخنوری دی ۔ ان باتوں کے ہوتے ہوئے غزل کو در باری اثرات کی پیداوار قرار دینا کیسے درست ہوسکتا ہے ۔ پھر یہ دیکھیے کہ غزل کا تو مزاج ہی جلوت پسند ہیں وہ تو خلوت دوست صنف ہے اور جن شاعروں نے اس کو بلوتوں کا ترجمان بنایا بھی ہے ،انھوں نے کچھ زبردستی ہی کی ہے اور میز برودتی لکھنو میں زیادہ ہوئی ۔شعرائے دہلی نے غزل کی خلوت پسندی اور تنہائی پسندی کا خاص خیال رکھا۔ اسی لیے جوتغول شعرائے دہلی کی غزل میں ہے ، لکھنو کی غزل میں نہیں ۔ ان وجوہ سے غزل کے متعلق مندرجہ بالا نظریے کی کچھ حقیقت نہیں رہ جاتی ۔ محض اس وجہ سے ہوا کہ اس نظریے کے واضع نے تحقیق کرنے کی تکلیف گوارا نہ فرمائی ۔
اگر یہ واقعہ بھی ابھی بہت پرانا نہیں ہوا۔ جب ایک فاضل نقاد نے غزل کو ہے سوچے سمجھے ایک نیم وحشی صنف ادب قرار دے دیا تھا۔ خیر میتو لیمست ہوا کہ اس خیال کی بہت جلد تر دید ہوگئی اور خوب اچھی طرح تر دید ہوگئی ۔ ور نہ نقید تحقیق سے جدا کر کے دیکھنے کا بہتر یہی تھا کہ فرل میسی مقبول عام صنف سخت غیر مقبول ہو جاتی تنقید میں حالات و واقعات کی تحقیق کو غیر ضروری قرار دینے کا اصل سبب تین آسانی اور سہل نگاری ہے اور یہ بھی کہ ان چیزوں میں ذوق و تاثر کور پہنما بنا لینا کافی سمجھا جاتا ہے ۔
غزل نیم وحشی والا نظر یہ بھی دراصل اسی سہل نگاری کا دین احسان تھا جو ہمارے نقادوں میں ابھی تک پائی جاتی ہے ۔ چنانچہ کسی نظریے کومشتہر کر نے سے پہلے پوری پوری محنت نہیں کی جاتی ۔ بس سرسری مطالعے سے اور اکثر محض اپنے ہی تاثر کی رہنمائی میں ایسے دعوئی کر وسیلے بہاتے ہیں جن کا نتیجہ برا نکلتا ہے اور چونکہ تاریخ کا گہرا مطالعہ شر یک حال نہیں ہوتا اس لیے اکثر و نظریاست مدت سے فتنہ انگیز ثابت ہوتے ہیں۔
اردو ادب اور شاعری کو طبقاتی اور معاشی نظریات میں دیکھنے کا آج کل خاصا رواج ہے اور مجھے اعتراف ہے کہ اس مطالعے سے بعض اچھے نتائج بھی نکلے ہیں مگر اس تحقیق کے نتائج سے بعض اوقات اطمینان نہیں ہوتا اور مجھے تو بعض اوقات ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کچھ نتائج پہلے سے بعض دوسرے عقائد کے زیراثر ) قائم کر لیے جاتے ہیں اور پھر ان کو کافی مور خانہ چھان بین کے بغیر ہی اردو ادب کے مسائل پر چسپاں کر دیا جا تا ہے ۔ اس سلسلے میں مریض صحت مند، غیر صحت مند ناسور ، دکھتی رگیں ، وغیرہ وغیرہ کے چند الفاظ کسی مورخانہ ریاضت وتحقیق کے اخیر ( اور بعض اوقات بڑی نا انصافی سے ) ہر موقع پل پر بے موقع محل استعمال کر لیے جاتے ہیں اور لطف یہ کہ ان نظریات میں تضاد و تناقض بھی پیدا ہو جا تا ہے ۔
مثلاً کسی دور کے ادبی انحطاط کا ذمے دار اس دور کے سیاسی اور سابقی حالات کو ظہرایا جا تا ہے مگر نہیں کیا جا تا کہ اس دور کی پوری سیاسی اور سماجی تاریخ کا بھی پورا مطالعہ کر لیا جائے ۔ اس ادھور ے مطالعہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یکساں اسباب کا نتیجہ ایک جگہ اور ہوتا ہے ، دوسری جگہ اور ۔ مثلا میر کے دور کو تہذہبی انحطاط کا بدترین دور بیان کیا جا تا ہے مگر بہنیں تا یا جاتا کہ آخری زوال کے زمانے میں میر اور درد جیسے جانے شام کیوں کر کے محنت سے بچنے کے لیے ہے کہ اگر میں تیر کر اس کو کیا کہا جاتا ہے یا مون ان کاب کر رہا ہے دو اور سب سے اور ان جا تا ہے ۔ تخلیقی اور تنقید فن میں قران کی تقلید اس میں ہر سو نظر آتی ہے اور دیانت داری سے کہتا ہوں کہ اس ریسرچ میں سب اردو کا تہواروں کے این کار ان کا انتقاء جاتا ہے ، اس کام کی ہی ہے کہ تقی میں حقیق کی ضرور ناموں میں کی پائی ۔