اسلامی طرز تحقیق
قرون اولی کے مسلمانوں نے علم حدیث کے بارے میں روایت اور درایت کے لیے جو اصول منضبط کیے ہیں ان پر جس قدر فر کیا جائے کم ہے۔ روایت کے بارے میں ان کے عزم واحتیاط کا عالم یہ تھا کہ میر ومطازی تو بہت بڑی چیز ہے اور عام علماء اور سلاطین کے حالات اس وقت تک بیان نہیں کرتے جب تک کہ ان کے پاس آ خری راوی سے لے کر پیشم دید گواہ تلک تسلسل کے ساتھ روایت موجود نہ ہو۔
یعنی جو واقھایا جائے دو اس شخص کی زبانی ہو جو خودشر ایک واقعہ رہا ہو اور اگر وہ خود شر یک واقعہ نہیں تھا تو اس واقعے تک تمام درمیانی راویوں کے نام ترتیب کے ساتھ بیان کیے جائیں اور ساتھ ہی یہ ھی تحقیق کی جائے کہ وہ لوگ کون تھے؟ کیسے تھے؟ ان کے مشاغل کیا تھے؟ ان کا کردار کیسا تھا؟ ان کی سمجھ کیسی تھی نہ کہاں تک تھے سلمی الذہن تھے یا کلتوری تھے؟ عالم تھے یا حال تمام جزئی باتوں کا پتا لگاتا ہے بعد دشوار تھا لیکن ہزاروں محدثین نے اس کام کے لیے اپنی عمر میں وقف کر دو میں اور ان تحقیقات سے اسما والرجال کا ایک سے شل فن ایجاد کیا کہ جس کی بدواست کم از کم ایک لاکھ
شخصیتوں کے بیچ حالات معلوم ہو سکتے ہیں ۔ اگر کسی راوی پر کذب ہمت افضلت انا بہت کی مخالفت یا حافظے کی کمزوری وغیرہ کا الزام ہے تو محدثین نے باتلف اس کو مجروح اور اس کی روایت کو مردود ۔ بدعت قرار دیا ہے ۔ مرفوع بموقوف اقولی فعلی ونفر میری نیز آ عاد ومتواتر مشهور و عز مع ولفریب های طرح صحیح حسن اور مقبول و مردود و غیر کتنی اقسام حدیث میں جن کی تقسیم خودا پنی جگہ اس امر کی شاہد ہے کہ ملائے اسلام کی نظر کس قدر گہری تھی اور ان کا معیار تحقیق کس قدر بلند تھا۔ فن روایت کے بعد درایت کا نمبر آ تا ہے ۔ یعنی ایک حدیث کے تمام راوی ( شروع سے آخر تک ) تند اور مستند تو ضرور ہیں لیکن ممکن ہے کہ عقلا اس روایت میں کوئی خامی موجود ہو۔
چنانچہ ایسی روایت بھی غیر معتبر قراردی جائے گی ۔ محدثین نے درایت مینی عقلی حیثیت سے روایتوں کو پرکھنے کے لیے یہ اصول قائم واقعہ مذکورہ کیا اصول عادت کی رو سے ممکن ہے یا نہیں؟ اس زمانے میں لوگوں کا عام میلان کیا واقعے کے مخالف تھا یا موافق ؟ اگر واقعہ کسی حد تک غیر معمولی ہے تو اسی نسبت سے ثبوت کی شہادت زیادہ قوی ہے یا نہیں؟
اس امر کی تفتیش ضروری ہے کہ واقعے کے متعلق راوی کے قیاس اور رائے کو کہاں تک ڈل حاصل ہے؟ راوی نے واقعے کو جس صورت میں ظاہر کیا ہے وہ واقعے کی پوری تصویر ہے یا اس امر کا احتمال ہے کہ راوی اس واقعے کے ہر پہلو پر نظر نہیں ڈال سکا اور اس کی تمام خصوصیات کا جائز نہیں لے گا۔ اس امر کا اندازہ لگانا بھی ضروری ہے کہ زمانے کے امتداد اور مختلف زاویوں کے طریقہ ادا نے واقعے میں کیا گیا اور کس کس قسم کے تعمیرات پیدا کرد ہے درایت یعنی عقلی حیثیت سے واقعات کو جانچنے کے یہ اصول اس قد رقوی ہیں کہ راویوں کی صداقت اور دیانت کا پورا پورا انداز ہ ہو جا تا ہے اور ساتھ ہی منافقین کی افترا پردازی کی قلعی بھی کھل جاتی ہے ۔ شمع رسالت کے ایک لاکھ چوبیس ہزار پروانوں میں سے ساڑھے سات ہزار ایسے ہیں جن کی روایات کتب احادیث میں منقول ہیں اور سب کی سب مستند معتبر ہیں ۔
چنانچہ محدثین نے بے خوف ہو کر پڑے سے بڑے راوی اور روایت کو پرکھا ہے اور حزم واحتیاط کے معاملے میں کسی روبابیت کوجگہ نہیں دی ۔ امام وکیل کا مشہور واقعہ ہے کہ دوا سپنے والد سے جب روایت کرتے ہیں تو ان کی تائید میں کسی دوسرے راوی کو ضرور ملا لیتے ہیں کیوں کہ ان کے والد سر کاری کا بھی تھے ۔ اسی طرح محد ث مسعودی کا واقعہ ہے کہ ۴ ۵ ھ میں امام معاذ بن معاذ نے جب ان کے نسیان کا انداز ہ کیا تو فورا ان کے حافظے سے متعلق اپی ہے انتہاری ظاہر کردی لیکن یہ حالات دیر تک ایک آہنگ پر قائم نہ ہو سکے اور خیر القرون قرنی ثم الدین میونم ثم الذین میونسم کے مصداق معاشرے سے صدقی حال و مقال میں فرق آ گیا ۔
چنانچہ جب علامہ ابن خلدون ( ۸۰۸ھ) نے فلسفہ تاریخ پر بحث کرنی پائی تو انھیں یہ اعتراف کرنا پڑا کہ واقعات کی تصویر کشی میں غلطیوں کا رجحان پایا جا تا ہے، کیونکہ انسان اپنی رائے سے مطابقت رکھنے والی چیزوں کو بغیر چھان بین کے بھی قبول کر لیتا ہے اور خبر پہنچانے والوں کی روایات کو حالات کے تقاضے کے متعلق جانچنے کی کوشش نہیں کرتا کہ فلاں حالات کے تحت ایسا واقعہ رونما ہو بھی سکتا تھا ، انہیں ۔ اصول عادت قوانہ سیاست طبیعت تمدن اور اجتماع انسانی کے حالات پر نظر رکھنی بہر حال ضروری ہے۔ کیونکہ انسان کے زمان و مکان کا واسطہ نھی چیزوں سے ہوتا ہے اور ان کے بغیر کوئی تاریخ تاریخ نہیں ہوسکتی ۔