فن تحقيق
ڈاکٹر غلام مصطفے خاں
ہماری بہت سی تاریخی کتابیں ایسی بھی ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر سے شروع کی جاتی تھیں۔ یعنی حمد ونعت کے بعد تمام انبیا علیہم السلام کے مختصر حالات ہوا کرتے تھے ۔ پھر تمام فلمائے اسلام اور مختلف سلاطین کا تذکرہ ہوتا تھا اور جب مورخ اچھی طرح تھک کر چور ہو جاتا تھا تو وہ تم پاشتم اپنے زمانے کے حالات تک پہنچتا تھا ۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ وہ اپنے معاصرین کا سرسری جائزہ ہی لے سکتا تھا اور اس کا قلم پھر ہمیشہ کے لیے رک جا تا تھا ۔ قریب قریب یہی انداز آج کل کے اک تحقیقی مقالات کا ہوتا ہے ۔ جن میں اصل موضوع سے متعلق بہت کم مواد ہوتا ہے مگر ضروری مباحث کے لیے کوئی ایک دو نہیں ، بلکہ متعدد ابواب موا کر تے ہیں اور غیر متعلق انتہامات سے مقالات کا حجم بڑھایا جا تا ہے ۔ بعض تحقیقی مقالات ایسے بھی ہیں کہ ان میں
نثر ونظم کی پوری داستان تو موجود ہے لیکن موضوع سے متعلق صفحات بہت کم ہیں ۔ گویا وہ اپنی وسعت اور پہنائی میں داستان امیر نیز ضرور ہیں لیکن تحقیق اور جانچ پڑتال سے ان کا بہت کم واسطہ ہے ۔ ایی سراسری حقیق" عام ہے ۔ اسی طرح ہماری تنقید بھی سرسری اور ہوائی ہوا کرتی ہے یعنی تنقید کا عام انداز یہ ہوتا ہے کہ پہلے کتاب کے موضوع سے متعلق چند جملے تمہید میں کیے جاتے ہیں ، پھر کتاب کے ابواب کی تفصیل دے دی جاتی ہے اور اگر زیاد و کرم فرما یا تو بھی کر دیا کہ طلال باب زیادہ کمزور ہے ۔ پھر اس کتاب کی چندسوٹی موٹی خو بیا لها یا خامیاں جو اچھا یا زیادہ سرسری مطالیہ ہی سے نظر آ جاتی ہیں ، بیان کردی جاتی ہیں لیکن اکثر یہ ہوتا ہے کہ خوبیوں کا مختصر تذکرہ کر کے خامیوں کے بارے میں فرمایا جا تا ہے کہ امید ہے کہ یہ خامیاں محدو
ایڈیشن میں دور کر دی جائیں گی نیز یہ کہ کتاب بہر حال اچھی ہے اور مصنف کے حسب ذوق کی شاہد ہے۔ ہماری عملی تنقید کا عام انداز میں ہے ۔ اسی طرح بعض تنقید نگار جب کسی فرمائشی تنقید کے لیے مجبور کیے جاتے ہیں تو ان کی ایسی تنقید میں قدیم تفریق کی طرح الفاظ کے گورکھ دھندے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ مثلا انگریزی کے ایک اردو انتا دایک مرتبہ ایک صاحب کے متعلق لکھتے ہیں کہ نظم و نثر دونوں میں کافی ( مینی نا کافی نہیں ) شہرت اور مقبولیت حاصل کر چکے ہیں ۔ ان کا انشا پردازی کی طرف ریحان بہت نمایاں ہے اور ان کے طرز میں ایک انفرادیت ہے جو ان کی دل کش ہستی کی آئینہ دار ہے ۔
انھوں نے شاعری کی طرف انٹر سے زیادہ توجہ دی ہے اور زیادہ تر ان کا شمار ایسے شاعروں میں ہوتا ہے جو قدیم و جدید کی آمیزش سے ایک نیا رنگ جماتے ہیں پرانے اثرات کا وجود ولازمی تھا مگر اثرات سے زیادہ ان کی شاعری میں فطرت نمایاں ہے اور ان کا حساس معراج ان کی شاعری کو خصوص طور پر پر اثر بناتا ہے اردو ادب پر ان کے اہم احسانات میں ہے ۔ ی ایک کہ دمشق لیکن مروت کے ز برمشق نقاد نے ایک ادیب اور پی لیں دونوں کو خوش کرنے کے لیے تقید لکھی ہے ۔ جو شاید پہلے ہی سے لکھی لکھائی یا نھیں چھپائی رکھی ہوئی تھی اور صرف دستخط کی محتاج تھی بہر حال:
ع لذید بود حکایت دراز تو گفتم
ایسی تنقید و تحقیق کے ذکر سے مقصد صرف یہ ہے کہ ہم مجھ تو سکیں کہ ہم کہاں ہیں ۔ تحقیق بظاہر تنقید سے مختلف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں فن ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے اپنی آسانی کے لیے ان دونوں کے در میان حد فاصل قائم کر دی ہے ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے تحقیق وتنقید کے مقامات اتصال کے سلسلے میں بیچ لکھا ہے کہ
" تاریخی تنقید میں کسی ادیب کے ماحول کو تاریخ کی روشنی میں دیکھ کر تاریخ ہی کی طرح بیان کیا جا تا ہے اور یہ انداز سائنسی تنقید کا بھی ہے، کیونکہ ایسی تنقید میں ادب کی پہچان مقل اور تجربے کے معیار سے ہوا کرتی ہے۔
تاثراتی تنقید میں بھی محض ذاتی ذوق اور انفرادی تجر بہ کارفرما نہیں ہوتا بلکہ اس کی راہ میں ایسے ایسے مقامات بھی آ جاتے ہیں جہاں اجتماعی پسند یا ناپسند کا عمل دل ہوتا ہے ۔ بہر حال تنقید کسی طرح کی ہو، اسے تاریخ ،عقلیات اجتماعیات یا نفسیات سے قریب تر ہونا پڑتا ہے اور جب تنقید کے بیدار شتے قائم ہو جاتے ہیں تو پر تحقیق اور تنقید کے درمیان بہت کم رہ جاتی ہے ۔ اس جائزے کے ساتھ میں دیکھنا یہ ہے کہ تم نے کیا کچھ کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے اب کیا کرنا ضروری ہے ۔