شعری اور ادبی اسلوب
Poetry and literary style,
صحافت میں شعر وادب کی زبان کا چلن عرصے سے ہے۔ قدیم صحافت پر ادبیت کی تھاپ نظر آتی ہے ۔ اسلوب میں زبان کو اس کے ہر پہلو سے استعمال کیا جا تا ہے ،لفظ کے ہر معنی کو سامنے لایا جاتا ہے تشہبہ ، استعارہ مجاز اور علامت میں بات کو بیان کرنا ابلاغ کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔صنائع بدائع مترادفات ، روزمرہ محاورہ اور ضرب الامثال کا استعمال تحریر کی جان خیال کیا جاتا ہے۔ تخیل کو جذبے تاثر اور احساسات و کیفیات کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اولی کردار واقعات اور ماحول فرضی بنیادوں پر بھی استوار ہو سکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ادب تحریر میں فرد کے ذاتی اسلوب کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ ادبی تحریر میں رنگینی اور چاشنی لیے ہوتی ہیں ۔ عبارات آرائی ، زمین اور تین کو بھی ٹوظ رکھا جاتا ہے۔ ادبی تحریر میں سلامت اور روانی بھی ہو سکتی ہے لیکن بنیادی شرط جذبے اور احساسات کے تاثر کی ہے۔
اگر صحافتی زبان کی مندرجہ بالاخصوصیات کو مدنظر رکھا جائے تو ادبی زبان صحافت کے لیے ایک بے کارزبان ہے ۔ ادبی تحریر موضوعی اور داخلی کیفیات کا اظہار ہے اگر چہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے خیالات کا بہترین ابلاغ کیا جا سکتا ہے ۔ بلکہ ادب میں لفظ صحیح ترین مفہوم میں استعمال ہوتا ہے لیکن صحافت کو صیح ترین ابلاغ در کار ہوتا ہے جومعرونی خارجی نقطہ نظر ہی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔الفاظ تو محض علامتیں ہیں اور ہرادیب اپنے نقطہ مشاہدے، تجربے،
اسلوب کے لحاظ سے علامتوں کو استعمال کرتا ہے تا ہم ضروری نہیں کہ قاری اسی نقطہ نظر اور تجربے کی ویسی ہی شدت سے ان علامتوں کا مفہوم سمجھے ۔ رہی یہ بات کہ ادب قارئین میں مقبول کیوں ہوتا تو یہ بھی مشکوک ہے ادب چاہنے والوں کی تعداد ہمیشہ سے مختصری رتا ہے اور پھر ادب کا صحیح استحسان اور پرکھ کرنے والے تو انگلیوں سے گنے جاتے ہیں جبکہ صحافت کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے اس کے قارئین تعداد ان گنت ہوتی ہے اس میں سطح کے لوگ شامل ہوتے ہیں وہ بھی جو سی تجر بے یا مشاہدے سے نہیں گزرتے وہ بھی جو گہری غور وفکر کے مالک ہوتے ہیں چنانچہ ایسا اسلوب درکار ہوتا ہے جوان تمام قارئین کی تشفی کر سکے۔
ایسا ادبی اسلوب میں مکن نہیں اس لیے تشبیہیں ، استعارے ہمجازی معانی ،مترادفات اور روزمرے دمحاورے وغیرہ میں سے صرف انہی کو استعمال کیا جا تا ہے جنہیں عام قاری بھی جانتا ہو۔ معروضیت ، واقعیت اور اختصار کی خاطر انہیں ردبھی کیا جاسکتا ہے تکرار لفظی سے تو عموما پرہیز کیا جاتا ہے۔
ادب موضوعات کو دیکھتا ہے جبکہ صحافت ہنگامی نوعیت کے واقعات کو ہنگامی طور پرپی کرتی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ایک ہنگامی واقعہ فوری ذہنی ردعمل کے طور پر کچھ اور حیثیت رکھتا ہو لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس پر غور وفکر اور احساسات اور جذبوں کے ساتھ اس کی نوعیت بدل جاۓ ۔ادب چونکہ ایک داخلی اخبار کا نام اس لیے اس کی بنیادوما مستقل اقدار پر ہوتی ہے۔ حادثات ، جرائم اور واقعات کی خبر میں ایک ادیب کو روح عصر نینی زمانے کی نبض پچانے میں تو مدد دے سکتے ہیں مگر ضروری نہیں کہ کسی ادب پارے کی تخلیق کے لیے فوری طور پر ایک بنیاد کا کام دے ادیب کسی نہ کی فلسفہ زندگی کی نمائندگی کرتا ہےوہ قبلے کوانے ہتھیار کے طور پراستعمال کرتا ہے لیکن صحافت میں گہرے اور دقیق فورا کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ البتہ اخبار کی پالیس اور نقطہ نظر کو روا رکھا جاتا ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ زبان کے لحاظ سے ادب اور صحافت دو مختلف اسالیب کا نام ہے۔
علمی اور فکری اسلوب
علمی یا فکری تحریر میں محض بیانات ،تعریفات اور تشریحات کا رنگ لیے ہوتی ہیں ۔ ہرعلم کونش - الفاظ میں بیان کیا جا تا ہے جن کے معانی مخصوص اور متعین کیے جاتے ہیں ۔ انہیں اصطلاح کہا جاتا ہے۔ ایک علم وفن کی اصطلاحات بعض اوقات دوسرے علم وفنون کو جاننے کے لیے اجنبی ہوتی ہیں ۔ جدید دنیا میں علم میں اتنی وسعت ہو چکی ہے کہ بعض اوقات ایک علم کی شاخیں دوسری شاخوں سے امتیازی حیثیت حاصل کر لیتی ہیں اور اصطلاحات کو اپنے مخصوص معانی پہنا دیتی ہیں ایک لفظ ایک علم میں ایک معانی دیتا ہے تو دوسرے علم میں اس کے معافی دوسرے ہو جاتے ہیں تعلیم ایک لفظ ہے جوند ریس اور تربیت کے مراحل کو کہتے ہیں لیکن تصوف میں اسے مرشد کی توجہ کہا جا تا ہے
اخلاقیات میں نصیحت کوتعلیم کہتے ہیں خود علم تعلیم میں اسے ایک مضمون کا نام دیا جا تا ہے جس میں مدرسے کی تمام سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں علمی و فکری اسلوب گہرے غور وفکر کا حامل ہوتا ہے اس میں منطق اور استدلال کو استعمال کیا جا تا ہے ۔ فلسفیانہ مراحل طے کیے جاتے ہیں ایک فلسفی کا نقطہ نظر ذاتی طور پر بھی ہوسکتا ہے اور کسی منطقی سوچ کا نتیجہ بھی ۔اس میں اسباب اور وجوہات پر بحث ہوتی ہے۔ بعض اوقات یہ بحث مھش تجریدی انداز میں ہوتی ہے علمی اسلوب میں تشریحات اور تعریفات کو بھی دخل حاصل ہوتا ہے کوئی بات بار بار مختلف مثالوں سے بھی سمجھانا پڑتی ہے اس میں سلامت کو بھی دخل ہوسکتا ہے ۔
صحافت میں گہرا علمی اسلوب کام نہیں آ سکتا۔ صحافت صرف انہی الفاظ اور اصطلاحات کو استعمال کر سکتی جو عام قاری کی سطح کو چھوتی ہوں ۔ جن کا مفہوم واضح ہو اور عام ہو۔ کسی مخصوص علم کے معافی اوران کی مخصوص تعریفوں کو کھول کر بیان کرنا پڑتا ہے۔ اگر معاشیات اور سائنس کے مضامین بھی بیان ہو رہے ہیں تو انہیں عام فہم بنانے کے لیے اکثر اوقات اصطلاحات سے گریز کرنا پڑتا۔الفاظ اور اصطلاحوں و صرف انہیں معنوں میں پیش کیا جاتا ہے جو قبول عام کا درجہ رکھتے ہوں۔
صفحات کا اسلوب مہرے خوردار منطقی تیموں کا حال نہیں ہوتا بلکہ فوری ریل اور مجموعی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ خواہ وہ چکری اور منطقی لحاظ سے درست نہ بھی ہو۔ اس میں اسباب اور وجوہات کا بیان بھی ہوتا ہے۔ کسی لائینی اور تجریدی انداز میں نہیں بلکہ ٹھوں واقعات اور شہادتوں کی بناء پر خصوص طریقے سے بیان کیے جاتے ہیں ۔ اس میں انتصار کے پیش نظر باتوں کو مثالوں اور مترادفات کے ذریعے پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ایک صحافی کو چونکہ ہر موضوع اور مضمون پر تحریر پیش کرنا ہوتی ہے ۔ اس لیے اسے گہرائی سے زیادہ مضمون کی افادیت پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ علمی انداز اور صحافتی اسلوب سے انتہائی مختلف ہے اوراسے صحافتی زبان میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
ذہبی اور اساطیری اسلوب
بنیادی طور پر اسلوب تخلیق ، خالق اور مخلوق کے علامتی بیان کا نام ہے، تشبیہ استعارہ اور علامت کا مخصوص استعمال ہوتا ہے قدیم دیو مالائی ادب میں تخلیق کائنات کی کہانی ادبی رنگ میں بیان ہوئی ہے۔ تصوف میں بعض فکری موضوعات اور اصطلاحات کا مفہوم بعض اوقات ہر صوفی کے نزدیک اس کا نام مفہوم ہے ۔ اس کی اقدار اپنی ہیں، مذہبی اسلوب میں خوف اودامید کے دعناصر بہت شدت کے ساتھ کارفرما ہوتے ہیں ، داستان گوئی اور جذبات آفرینی اس کا طرہ امتیاز ہوتے ہیں عموما یہ اسلوب کام نہیں دے سکتا صحافت میں یہ مسائل زیر بحث تو آ سکتے ہیں لیکن معلومات فراہم کرنے اور ان پر تبصرہ کرنے کی حد تک آتے ہیں ۔
ادبی اور علامتی بیان تو کسی طرح ممکن نہیں ۔ اصطلاحی استعمال کی صورت حال بھی یہی ہے صحافت کا بنیادی مقصد نبر کا ابلاغ ہے چہ مذہب بھی ایک طرح سے خبری کے ابلاغ کا نام ہے لیکن وہاں پر بات خالق کے حوالے سے ہوتی ہے ۔ صحافت میں دنیا کے بکھیرے بیان ہوتے ہیں۔ صحافتی انداز قارئین کو ڈرانا دھمکانا اور کسی بات کی امید دلانا نہیں ہوتا۔ یہ معاملات پرا پیگینڈو او تعلقات عامہ کی حدود میں آتے ہیں صفحات کا اسلوب امید وہم کی بجاۓ دیپی اور واقعیت تک مو ہے۔ صحافتی اسلوب میں داستان طرازی اور جذبات آفرینی سے کام نہیں چلتا۔ یہ اسلوب تقرری کی بجائے تحریری ہوتا ہےاور ناصحانہ کی بجائے دوستانہ ہوسکتا ہے۔
دفتری اور قانونی اسلوب
زبان کا دفتری اور قانونی انداز نکات کے بیان اور واقعے کی صحت اور عدم قطعیت ، مبالغے سے پر ہیز اورشہادتوں کے بیانات پرنی ہوتا ہے۔ اس میں معروضیت کا عصر اس قدر غالب ہوتا ہے کہ عام قاری کے لیے بیا یک خنک اسلوب بن کر رہ جاتا ہے۔ صحافتی انداز میں ہر کتے کا بیان ضروری نہیں۔ می واقعات کے بیان پڑھنی ہوتا ہے۔
اس کی وجہ اس کی ہنگامیت ہے۔ دفتری اور قانونی انداز کی قلعیت کی خاصیت تو صحافتی زبان میں بھی درکار ہوتی ہے لیکن یہ قاری کو دلچسپی سے محروم نہیں رکھتا۔ شہادتیں اور بیانات اس میں بھی لیے جاتے ہیں لیکن صحافی مصنف کے فرائض سرانجام نہیں دیتا وہ تمام تر شہادتوں سے پیدا ہونے والی مجموعی رائے کو پیش کرتا ہے، لیکن قول فیصل دینے سے قاصر ہوتا ہے۔
عامیان اور روزمرہ انداز
بازار اور روز مرولین ، مین کی زبان عموما دو نہیں ہوتی جو تحریروں میں پیش کی جاتی ہے۔ پھر بھی ادبیات میں افسانے ، ناول اور ڈرامے میں بعض اوقات کرداروں اور ماحول کے حوالے سے اس زبان کو بھی استعمال کیا جا تا ہے۔ صحافت میں میزبان استعمال نہیں ہوسکتی۔ خصوصا نخش الفاظ اور جملے جو روزمرہ کا معمول ہوتے ہیں حتی کہ کسی مقررکی گالی گلوچ بھی انہی الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی۔
ایک واقعہ مختلف اسالیب
ذیل میں ہم ایک واقعے کومختلف اسالیب میں بیان کرتے ہیں، ہر ایک کا انداز اورتاثر جداہوگا۔
واقعہ
آج کم مارچ 1986 صبح گیارہ بجے مال روڈ پر ریگل سینما کے احسن برادرز نامی بینکوں کی وکان پر ایک شخص آیا اس نے چھینکیں خریدیں اور ایک سوروپے کا نوٹ دیا جب دکاندار سے ریزگاری واپس کرنے لگا تو اس نے پستول دکھا کر اس کی ساری رقم جو تین ہزار روپے فی تھی ،لوٹ لی ، وہ تیزی کے ساتھ دکان سے باہرنکلا موٹر سائیکل پر بیٹھ کر رفو چکر ہو گیا۔ سامنے ہی چوک میں پولیس والے کھڑے تھے جو لوگوں کے شور مچانے پر متوجہ ہوئے لیکن انہیں پیچھا کرنے میں دیر ہوگئی۔ دکاندار نے قریبی تھانے میں رپورٹ درج کرادی ہے۔ پولیس نے اس واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔