علامہ محمد اقبال کی مشہور مثنویاں
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال doctor allama Muhammad Iqbal کی شاعری (poatry)بے مثل ہے آپ کی شاعری فلسفیانہ تصورات سے مالامال ہے۔ اردو ادب میں بہت سے شعراء سرفہرست ہیں لیکن ان سب شعرا میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ کا کلام لاجواب ہے۔
اگر اردو ادب urdu adab میں ہم مثنوی کے میدان کا جائزہ لیں تو بہت سے مثنویاں لکھی گئی ہے جو اپنے زمانے میں کافی مقبولیت حاصل کر چکی ہے جو آج کتابوں کی زینت بن چکی ہے لاتعداد ہے۔ لیکن ان سب مثنویاں میں اور مثنوی نگاروں میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ کی مثنویاں وہ نام کما چکے ہیں جو آج ہر لب کی زینت ہے۔ آج اس پوسٹ میں ہم ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ کی تین مثنویوں کی محتصر جائزہ لیں گے۔
اسرار ورموز
اسرار ورموز مثنوی اسرار خودی‘‘اور’مثنوی رموز بے خودی‘‘ کا مجموعہ ہے ۔ پہلا مجموعہ 1915ء میں اور دوسرا 1918ء میں پہلی بارشائع ہوا تھا۔ بعد میں 1923ء سے اقبال نے دونوں کو یکجا کر دیا اور اسرار ورموز‘‘ سے موسوم فرمایا۔
مثنوی اسرار خودی
اسرار خودی یعنی خودی کے راز اور بھید ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اس پہلی فارسی farsi مثنوی کے نام کے سلسلے میں کئی دوستوں سے مشورے کیے ۔آخر کار غالبا خواجہ حسن نظامی دہلوی ( وفات 1955ء) کا تجویز کردہ نام اسرار خودی پسند کر کے اپنالیا۔ کتاب کی پہلی اشاعت پراردو میں ایک مقدمہ تھا۔ دوسری اشاعت میں اسے حذف کر کے ایک دوسرا مختصر مقد مہ لکھا گیا مگر تیسری اشاعت سے دونوں مقد مے حذف کر دیئے گئے ۔خواجہ حافظ شیرازی کے خلاف جواشعار پہلی اشاعت میں شامل تھے انہیں بھی بعد میں حذف کر دیا گیا اور ان کی جگہ ادب براۓ زندگی کے موضوع پر نئے اشعارر کھے گئے ۔
خودی ، کا لفظ خود سے بنا ہے ۔اس اصطلاح کے معانی اپنے آپ کو پہچاننا اور اپنی صلاحیت اور قوتوں سے آگاہ ہونا ہے ۔اقبال کا مخصوص فلسفہ یہی ہے اور انہوں نے ساری عمر اس کی تلقین کی ہے ۔ اقبال کی یہ دلآویز مثنوی اتنی مقبول ہوئی کہ 1920ء میں مشہور مستشرق آر۔اے نکلسن (وفات 1944ء) نے اس کا انگریزی ترجمہ انگلستان سے شائع کروایا اور اس طرح دنیا فلسفہ خودی سے جلد ہی روشناس ہونے لگی۔ میثنوی بلکہ اقبال کی تمام فاری کتابیں اردو اور پاکستان کی کئی علاقائی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں ۔
مثنوی رموز بیخودی
اقبال کی پہلی مثنوی کا نام’’اسرار خودی‘‘تھا اسی مناسبت سے دوسری مثنوی کا نام اقبال نے رموز بیخودی رکھا لینی بیخودی یا قومی خودی کے راز اور بھید ۔ خودی اور بے خودی کو اقبال نے خاص اصطلاحات بنایا ورندان کے معانی فارسی میں نہ پہلے مستحسن تھے نداب ہیں ۔ جہاں خودی غرور و تکبر کے لیے بولا جا تا تھا وہاں بیخودی ، انفعالیت اور بے عملی کے لیے ۔ بلکہ اس لفظ کے معنی بے ہوئی اور خود فراموشی کے بھی ہو سکتے ہیں ۔ خودی کے بغیر ہونا ، یا اپنی خودی کو قوم وملت کی خدمت کے لیے وقف کر نا ہوا۔ جب انسان نے اپنا صاحب خودی ہونا ثابت کر لیا تو اب اسے صاحب بیخودی ہو جانے کا ثبوت فراہم کر نا چاہیے ۔’’ با نگ درا‘‘ کی نظم پیام عشق کے ایک شعر سے پتہ چلتا ہے کہ بیخودی کے موضوع پر اقبال قیام یورپ کے زمانے ( 1905-1908ء) میں بھی کس قد رسوچ رہے تھے ۔