اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ کا جائزہ pdf
اردونثر کے فروغ میں فورٹ ولیم کالج کا کردار
فورٹ ولیم کالج، صرف ایک ادارہ ہی نہ تھا ، بلکہ اردونثر کے فروغ کی ایک تحریک تھی جسے لالہ خو در وقرار دیا جا سکتا ہے ۔ اردونثر کے آغاز وارتقاء کے طویل سفر کا جائزہ لیں تو دکن میں آٹھویں صدی ہجری میں چند مذہبی رسائل اور شمالی ہند میں تراجم قرآن کی روایت سامنے آتی ہے ۔
دلی اور لکھنو شعر و شاعری کے بڑے مراکز تھے، مغلیہ سلطنت کے دور عروج میں فارسی کا طوطی بول رہا تھا، چنانچہ مقامی زبانیں جوعربی ، فارسی اور تر کی دغیرہ کے امتزاج سے اردو کا روپ دھار چکی تھیں ، اپنی تمام تر داخلی توانائی کے باوجود فاری کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھیں۔ چنانچہ کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا قیام اردونثر کے فروغ میں پہلا اور روشن تر سنگ میل ثابت ہوا۔ فورٹ ولیم کالج کے محرکات خالصتا ادبی یاعلمی نہ تھے اور یہ کالج بدیسیوں کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر قائم کیا گیا تھا، اس لیے ان تصنیفات میں مقامی تہذیب و معاشرت کی عکاسی تو ملتی ہے مگران کا مقصد عوامی شعور کی بیداری ہرگز نہ تھا۔
دوسری اہم بات یہ کہ کالج کے حکام نے تراجم پر زور دیا اور سنجیدہ علمی موضوعات پر کتابیں نہیں لکھوائیں ، اس کے پس پردہ بھی انگریزوں کے سیاسی اور استعماری عزائم کارفرما تھے، چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ اس کالج کے قیام کا بنیادی مقصد انگریز حکام کو اردو سکھانے اور مقامی تہذیب و تمدن سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی رعایا کے دلوں پر برطانوی حکومت کی شان وشوکت ، فیاضی علم دوستی اور رعایا پروری کا تاثر اجاگر کرتا دوسرے الفاظ میں انہیں خوئے غلامی کا اسیر کرنا تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے مقاصد تو سیاسی تھے مگر اس کے باعث بالواسطہ طور پر اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب ہوئے خاصی طور پر اردونثر کو ایک مؤثر تحر یک کی صورت ملی ۔
فورٹ ولیم کالج نے تخلیقی ادب کے حوالے سے کوئی تیسرا کارنامہ سرانجام نہیں دیا اور زیادہ تر قدیم داستانوں کو آسان اردو کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی مگر اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اردو کا پہلا با قاعد ہ نثری ادب گلکرسٹ کی کاوشوں کا ثمر ہے ۔ فورٹ ولیم کالج نے فاری کے زیراثر مرصع و سجع اردو کو سادگی اور سلاست عطا کر کے اظہار و بیان کے نئے اسلوب سے روشناس کرایا۔ چنانچہ میر امن کی ’’باغ و بہار‘‘ حیدر بخش حیدری کی ’’تو تا کہانی‘‘ اور نہال چند لاہوری کی ’’منذ ہب عشق‘‘ میں نشر کی سادگی ، روانی اور سلاست نے اردونٹر کو بے تکلف ابلاغ کی راہ دکھائی اور اردو کو پہلی مرتب کھلی فضاؤں میں سانس لینے کا موقع ملا۔
فورٹ ولیم کالج نے عوامی دلچسپی کے پیش نظر فاری اور سنسکرت کے معروف قصوں کو اردو میں ڈھال کر اردونثر کے ساتھ ساتھ داستان گوئی کے فروغ میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کے استحکام کے لیے جو حکام ہندوستان آئے ان میں وارن ہیں مگر اس حوالے سے قابل ذکر ہے کہ اس نے سرکار برطانیہ اور عوام کے درمیان مفاہمت اور ہم آہنگی کو اقتدار کے تسلسل کی بنیادقرار دیا ۔ وارن میں فنگر کی تحریک پر گورنر جنرل کی کونسل نے فورٹ ولیم کالج کے آئین وضوا بار کا مسودہ وار جولائی ۱۸۰۰ء کو منظور کیا گیا مگر وارن میں فنگر کے بعد آنے والے لا رڈ ولزلی نے اس دستاویز کے متن میں اضافے کرتے ہوۓ اس پر رئی ۱۸۰۰ء کی تاریخ کر دی اور اس طرح اس ادارے کو میسور دارالسلطنت سرنگا پٹم میں برطانوی افواج کی فیصلہ کن پہلی سالگرہ سے موسوم کر دیا۔
کمپنی کے انگریز ملازمین ، جن میں ہیڈلے بگلکرسٹ اور ہیریسن وغیرہ نے لغت اور قواعد زبان پڑنی کتب کی تالیف کا سلسلہ شروع کیا ۔ خاص طور پر ڈاکٹر گلکرسٹ کی انگریزی ، ہندوستانی لغت‘‘ ( مطبوعہ ۱۷۹۰ء ) اور ہندوستانی زبان کے قواعد ( مطبوعہ ۱۷۹۲) کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی گلکرسٹ نے نہ صرف باصلاحیت ادیوں کو فورٹ ولیم کالج میں یکجا کیا بلکہ چھاپے خانے کے قیام سے کتابوں کی اشاعت کومر بوط اور منظم بنانے کا آغاز کیا۔ فورٹ ولیم کالج میں اردونثر کے تین رؤیے بیک وقت کارفرما تھے، جن میں پہلا مفرس اور معرب انداز کا حامل تھا۔
دوسرا خالص ہندی مزاج اور تیسرا عربی ، فارسی ، ہندی اور مقامی زبانوں کے امتزاج سے سادہ ہل اور رواں انداز کا حامل تھا۔ یہی انداز بعدازاں مقبول ہوا اور فورٹ ولیم کالج کاشمرقراردیا گیا۔اس رو کے نمائندوں میں میر بہادر علی سینی جو میرنشی تھے، کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے ۔انہوں نے میر حسن کی مثنوی ”سحرالبیان‘‘ کو نثر بینظیر‘‘ میں ڈھالا ۔ اس کے علاوہ ’اخلاق ہندی‘‘اور’’ تاریخ آسام‘‘ان کے اہم کارنامے ہیں چنانچہ ان کی نٹر کوفورٹ ولیم کالج کے رواں اور بولتے چالتے اسلوب کی نمائندہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔
فورٹ ولیم کالج سے میر امن کو شہرت عام اور بقائے دوام میسر ہوئی ، انہوں نے ’’باغ و بہار اور گنج خوبی‘‘ کی بدولت اردونثر کونی زندگی عطا کی ۔خاص طور پر ’باغ و بہار‘ جو قصہ چہار درویش کا ترجمہ تھا اور میرامن نے عطاحسین خاں بخش کی ’’نوطرز مرصع‘‘ کو پیش نظر رکھتے ہوئے’’ باغ و بہار‘‘ کو دتی کے مخصوص محاورے میں قلم بند کیا تھا، اردو نثر کی تاریخ میں زندہ جاوید کتاب قرار پائی۔ سید وقار عظیم کے بقول: ”میرامن اردوزبان کے مزاج دان اور اس کی نزاکتوں کے رمز شناس ہیں، اس لیے بہت کم ایسا ہوا ہے کہ ان کی عبارت کا کوئی ٹکڑا پڑھنے والے کے ذہن پر گراں گزرے یا اس میں انبساط انتگی نہ پیدا کر سکے ۔‘‘
سبطِ حسن کے خیال میں فورٹ ولیم کالج کے قیام کا بنیادی مقصد ، فاری کی حاکمیت کو کم کر کے مسلمانوں کو اپنے ثقافتی حور سے ہٹانا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ہندی ، اردو اور بنگالی کو ابھارنے اور محدود جغرافیائی خطوں میں پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر زبان کے رسم الخط کو آلہ کار بنایا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اس کے نتیجے میں اردو، مسلمانوں کے تشخص کی نئی علامت قرار پائی ، ہندی پر ہندوؤں کی ملکیت قائم کی گئی اور اس طرح مذہب اور ذات پات کی تفریق کے عمل میں زبان کے اختلاف کی تیسری جہت بھی شامل کر دی اور اپنی آزمودہ Divide and Rule والی حکمت عملی کو ایک بار پھر کامیابی سے استعمال کیا۔مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فورٹ ولیم کالج کے سیاسی مقاصد سے قطع نظر اردو نثر کو امکانات کی ایک نئی دنیامیس آئی ، خاص طور پر اظہار کی سادگی وسلاست اور بے تکلفی نے مستقبل کی اردونٹر کی راہیں متعین کیں ۔ سید وقار عظیم ،اردونثر کی تاریخ کے ارتقاء میں فورٹ ولیم کالج کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوۓ لکھتے ہیں:
’’اردو نثر کی تاریخ میں دوسری زبانوں سے ترجمہ کرنے کی جتنی تحریکیں ،انیسویں اور بیسویں صدی میں شروع کی گئیں اور چلائی گئیں ان سب کی زندگی میں فورٹ ولیم کالج کی اس روایت کی دھڑکن سنائی دیتی ہے جوتر جمے کو ایک مستقل حیثیت دے کر شروع کی دے گئی ہے۔