تاریخ اردو ادب پارٹ ون
Tarikh e urdu adab
اٹھارویں صدی : سیاسی منظر ، طرز فکر ، ، تہذیبی و معاشرتی رویے
اٹھارویں صدی عیسوی کی پہلی صبح کا سورج طلوع ہوا تو بر عظیم میں رقبے ، آبادی اور دولت کے اعتبار سے ایک ایسی عظیم سلطنت قائم تھی جس کے حدود کابل و کشمیر اور کوہ ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں سے لے کر کم و بیش راس کاری تک پھیلے ہوئے تھے ۔ اسی سالہ اورنگ زیب عالمگیر اس عظیم الشان سلطنت کا شہنشاہ تھا اس اس سے پہلے برعظیم کی تاریخ میں اس سے پہلے ایسی عظیم سلطنت وجود میں نہیں آئی تھی ۔
مغلوں نے براعظم کو نہ صرف سیاسی اتحاد سے روشناس کرکے ایک نیا قومی تصور دیا تھا بلکہ ایک وسیع تہذیبی ہم آہنگی پیدا کر کے ایسا سیاسی و تہذیبی ڈھانچا بھی نیار کا تھا جس میں معاشرے کی تخلیقی و فکری صلاحيتين بهل بھول سکس ، سترہویں صدی اس تہذیب کا نقطہ عروج ہے اور اٹھارویں صدی اس عظیم سلطنت کے زوال کی داستان ہے ۔ وہ نظام خیال جس نے اس عظیم سلطنت کو جنم دیا تھا اب قوت عمل اور آگے بڑھنے ، پھیلنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکا تھا اور اسی لیے تاج محل والی تہذیب کی دیوہیکل عمارت کے ستون ایک ایک کر کے کرنے لگے تھے ۔
اورنگ زیب عالمگیر کی وفات (۱۱۱۸ھ ۱۰۰ع) اس صدی کا پہلا اور سب سے اہم واقعہ ہے جس کے بعد ، پیاس سال کے عرصے میں ، نااہل جانشینوں کی بے طاقتی ، خانہ جنگی ، عیش پرست امرا کی باہمی آویزش ، عسکری قوت کی کمزوری اور سلطنت کے وسیع تر مفاد میں الحاد کے جذبے کے فقدان نے اس وسیع و عریض سلطنت کو داره پاره کر دیا ۔
جیسے ہی اورنگ زیب کی آنکھ بند ہوئی جانشینی کی جنگ شروع ہو گئی اور بڑا بیٹا معظم کامیاب ہو کر بہادر شاہ کے لقب سے تخت سلطنت کر بیٹھ گیا ۔ چار سال گزرے تھے کہ ۱۲/۵۱۱۲۴، ۱ع میں وہ وفات پا گیا ۔ بہادر شاہ کے مرنے ہی اس کے بیٹوں میں جانشینی کی جنگ شروع ہوگئی اور باپ کی لاش بغیر دفنائے ایک مہینے تک رکھی رہی گئی تھی۔
اس جنگ کے نتیجے میں جہاں دار شاه تخت سلطنت پر متمکن ہوا ۔ وہ شراب نوشی کا عادی اور انتہائی شراب کا رسیا تھا ۔ اس کے عادات و اطوار میں نہ شاہانہ وناز یا اور نہ وہ توازن و حوصلہ جو اب تک مغل بادشاہوں کا خاصہ رہا تھا ۔ وہ دن رات لال کنور کے ساتھ داد عیش دیتا اور شراب و شائستگی کے سارے حدود موڑ کر مبتذل جنسی اطوار میں ملوث رہتا ۔ رنڈی بھڑوے اسے گھیرے رہتے ۔ امرا و عائدین کی لنگڑیاں اچھلنیں مخفلیں جماتے ۔ انتظام سلطنت چند ہی ماہ میں بکھر کر تباہ و برباد ہونے لگا ۔
بادشاہ کے ان طور طریقوں ے سارے معاشرے کو متاثر کیا ۔ ابتذال نے شائستگی کی جگہ لے لی ۔ اخلاقی قدریں بے وقعت ہو کر امال ہونے لگیں ۔ گیارہ مہینے کی حکومت میں خزاله خالی ہوگیا اور مغل بادشاہ کے جلال و جبروت کا تصور ہوا ہو گیا ۔ ۱۱۲۶ھ ۱۴، ۱ع میں جہاں دار شاہ قتل کر دیا گیا اور سادات بارہہ کی مدد سے فرخ سیر خت سلطنت پر بیٹھا ۔ فرخ -مر غير مستقل مزاج ، کمزور طبیعت کا انسان تھا ۔ وہ انتظامی صلاحیت سے عاری اور امراء کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی تھا ۔
فرخ سیر سادات بارہہ سے جان چھڑانے کے لیے جب ان کے خلاف سازش کی تو نتیجے میں وہ قید ہوا ، اندھا کیا گیا اور ذلت و رسوائی کے ساتھ ۱۱۳۱ھ/۱۷۱۹ع میں قتل کر دیا گیا ۔ اس کے دور حکومت میں سلطنت کا توازن اور بگڑ گیا ۔ دبی ہوئی منفی قوتیں سر اٹھانے انگیں اور انتشار کے بادل معاشرے پر چھانے لگے ۔ فرخ سیر کے دور سلطنت میں ایک ایسا اہم واقعہ پیش آیا جس نے آگے چل کر بر عظیم کی تاریخ کا راستہ بدل دیا - ۱،۱۵/۵۱۱۲۸ع میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے تجارتی مراعات حاصل کرنے کے لیے فرخ سیر کے دربار میں اپنی سفارت بھیجی جس میں وہم ہیملٹن بھی شامل تھا ۔ بادشاہ بہار تھا ، ہیمائن نے اس کا علاج کیا اور وہ صحت یاب ہو گیا ۔
بادشاہ نے خوش ہوکر ایسٹ انڈیا کمپنی کو ساری مطلوبہ تجارتی مراعات دے دیں ۔ ان مراعات کی رو سے ، بغیر محصول ادا انهي بنگال میں تجارت کے حقوق مل گئے ۔ تاکہ کے اطراف میں مزید زمين مل گئی ۔ ۔ ۔درآباد کے صوبے میں بغیر محصول ادا کیے تجارت کے حقوق بحال کر دے گئے ۔ مدراس میں معمولی کرایہ اور سورت میں دس ہزار روپے سالانہ ادا کر کے ہر قسم کے محصول سے معانی مل گئی ۔ ساتھ ہی ساتھ کمپنی کے سکتے کو ساری مغل سلطنت میں چلانے کی اجازت بھی مل گئی ۔ فرخ سیر کے بعد سادات بارہہ نے رفیع الدرجات کو تخت طاؤس - بنھایا ۔ بیس سالہ رفیع الدرجات تپ دق کا مریض تھا ۔ بیاری کی وجہ سے ناکارہ ہو چکا تھا ۔
دو ماہ بعد اس کے بڑے بھائی رفیع الدولہ کو ، شاہ جہان ثانی کے خطاب کے ساتھ ، تخت پر بٹھایا ۔ یہ بھی افیم شراب نوشی کا عادی اور بیار کا تھا ۔ تین ماہ بعد اللہ کو پیارا ہو گیا ۔ اس کے بعد ۱۱۳۱ھ/۱۹،اغ میں بہادر شاہ کے ہوتے اور جہاں شاہ کے بیٹے ، روشن اخیر کو پد شاہ کے خطاب سے تخت سلطنت پر متمکن کیا ۔ اورنگ زیب کی وفات کے بارہ سال کے اندر اندر بہ چھٹا بادشاہ تھا جو مسند حکومت پر بیٹھا تھا اس دور میں جو عرف عام میں محمد شاہ رنگیلا کے نام سے معروف ہے ، ١١٦١ھ/۱۸۴۸ع تک تخت سلطنت پر متمکن رہا ۔ اس کے دور حکومت میں ایوان سلطنت کے ستون ایک ایک کر کے کرتے رہے اور وہ اس زوال کو محض تماشائی بنا ’’غرق سے ثاب‘‘ کرتا رہا ۔ تقریباً تیس سال کے عرصے میں ، سارے برعظیم میں پھیلی ہوئی مغلیہ سلطنت ، بکھر گئی ، اسی لیے اسے "خاتم السلاطين بابریہ‘‘کہا جاتا ہے ۔
بابر شاہ کے زمانے میں امراء نے ، جن میں حسین علی خان ، عبدالله خان ، ذوالفقار خان اور سعادت خاں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، اقتدار کی ہوس میں سلطنت کو سازشوں اور خانہ جنگیوں میں ملوث کر کے انتشار کی ان طاقتوں کو ابھارا جو اب تک سر چھپاۓ بیٹھی تھیں ۔ نتیجے میں معاشرہ اندر سے کمزور اور اس کے اتحاد پارہ پارہ ہو گیا ۔ آپس کی ذاتی تفرتوں نے فرد کو اندھا کر دیا ۔ معاشی مسائل شدید اور بے روزگاری عام ہو گئی ۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بیرونی حملہ آوروں کے لیے راستہ صاف ہو جاتا ہے - ۱،۳۹/۶۱۱۵۱ع میں نادر شاہ کا حملہ اسی صورت حال کا منطقی نتیجہ تھا ۔
امرا کی ریشہ دوانیوں ، خود غرضیوں ، سازشوں اور غداریوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آصف جاه نظام الملک نے نادر شاہ سے معاہدہ کر کے یہ طے کر لیا کہ نادر شاه ، مد شاہ کو بحال رکھے گا اور د شاه دو کروڑ روپے اسے پیش کرے گا ، تو ہرہان الملک سعادت خاں نے یہ دیکھ کر کہ خان دوران کی وفات کے بعد اب امير الامرا کا عہدہ نظام الملک کو مل جاۓ گا ، نادر شاہ سے کہا کہ بابر شاہ کے لشکر میں سواۓ آصف جاہ کوئی دوسرا شخص حکم صادر نہیں کر سکتا اور مبلغ دو کروڑ روپے کیا حیثیت رکھتے ہیں کہ ہندوستان کی اپنی سی دولت پر قناعت کر لی جاۓ ۔ دو کروڑ روپے کا تو تنہا یہ غلام اپنے ے دینے کا عہد کرتا ہے اور بے شمار دولت بادشاه ، امراء ، مہاجنوں اور تاجروں کے گھر سے عائد سرکار کی جا سکتی ہے بشرطیکہ شاہجہاں آباد تک کہ تیس چالیس کوس سے زیادہ مسافت پر نہیں ہے ، آپ تشریف لے چین ۔ نادر شاه به خبر سن کر خوش ہوا ۔‘‘۲
اگر برہان الملک سعادت خاں یہ غداری نہ کرنا اور نادر شاہ کو دہلی آے کی دعوت نہ دیتا تو دہلی کی تباہی و بربادی کا وہ ساغہ پیش نہ آتا جس نے مغلیہ سلطنت کی کمر توڑ کر رکھ دی اور جس میں بیس ہزار اور بقول فریزر" ایک لاکھ بیس ہزار سے لے کر ڈیڑھ لاکھ مرد عورت ہندو مسلمان تہ تیغ ہوۓ ۔ تجارت ، معاشی سرگرمیاں ، مال و دولت ، گھر بار ، عزت و ناموس سب خاک میں مل گئے ۔ انند. رام مخلص نے لکھا ہے کہ ” تقدیر کی زیرنگی سے (دلی) اس درجہ زخمی ہو چکی ہے کہ اب اس دارالعشق کو بھر سے اصلی حالت میں آنے کے لیے ایک طویل عمر چاہیے ۔‘‘۵ نادر شاہ واپس ہوا تو صوبہ" کامل اور دریاۓ سندھ کے مغرب کا سارا علاف، انی سلطنت میں شامل کر کے بر عظیم کی دولت اپنے ساتھ سمیٹ کر لے گیا ۔۶ ۱۷۳۸/۵۱۱۶۱ع میں پد شاہ کی وفات پر کم و بیش سارا ہندوستان مختلف صوبوں اور علاقوں میں تقسیم ہو چکا تھا جن میں خود مختار دعوے دار حکمرانی کر رہے تھے اور مرکزی حکومت کا اقتدار دوآبہ گنگ و جمن کے صرف ایک حصے پر قائم تھا ۔۔ سودا نے اپنے شہر آشوب‘‘ میں اسی صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے :
ساہی رکھنے کے نوکر امیر ، دولت مند
آمد ان کی تو جاگیر سے بور ہے ہند
کیا ہے ملک کو مدت سے سر دشوں نے سند
جو ایک شینی ہے بائیس وب د خاوند
رہی کہ اس کے تصرف میں فوج داری کول مد شاہ کی وفات سے تقریباً بن مہینے پہلے ۱۱۶۱ جنوری ۴۸ ۴۱۷ میں احمد شاہ ابدالی کے حملوں کا سلسلہ شروع ہو گا ۔ پہلے حملے میں احمد شاه ابدالی شکست کھا کر واپس چلا گیا لیکن اس کے بعد اس کے حملوں کا ایک نیا سلسلہ قائم ہوگیا اور کشمیر ، پنجاب ، ملتان امر کے مہینے میں آ گئے ۔ اس کے بعد کی داستان علاتی سازشوں ، خواجہ سراؤں اور امرا کی ریشہ دوانیوں ، غدارہوں کی داستان سنائی۔
اور خود غرضیوں کی داستان ہے ۔ ١١٦٦ ھ م دےاغ میں عادالملک غازی الدین خان اور صفدر جنگ کے درمیان چھ ماہ تک خانہ جنگی ہوتی رہی ۔ ادھر مریئے ، سکه ، روہیلے اور جات النی شورشوں سے سلطنت کے در و دیوار ہلاتے رہے ۔ ۱۱۶ھ/۱۰۵۳ع مين عادالملک اور ہولکر نے احمد شاه بادشاہ کو معزول کر کے اسے اور اس کی ماں دونوں کو اندھا کردیا اور جہاں دار شاہ کے بڑے بیٹے ، عزیز الدین کو عالمگیر ثانی کے خطاب کے ساتھ تخت - بھا دیا ۔ ۱۱۶۰ ، اع کی
جنگ پلاسی میں ہنگل کے نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر انگریزوں نے بنڈل میں انا اقتدار قائم کر لیا ۔ ۱۱۷۳ ۵۹، اع میں عادالملک نے عالمگیر ثانی کو کسی فقیر باکرامت سے ملاقات کے بہانے فیروز شاہ کے کوئلے میں لے جا کر قتل کرادیا اور تنگی اس کو دریاۓ جمنا کے کنارے پھنکوا دیا ۔ عالی گہر نے ، جو اس وقت چار میں تھا ، وہیں اپنی بادشاہت کا اعلان کیا اور ادھر عادالملک نے کام بخش کے ہوئے محی الملت کو شاہ جہاں ثالث کے خطاب کے ساتھ تخت پر بٹھا دیا ، لیکن ۱۷۶۱/۱۱۷۶ع میں ، تیسری جنگ پانی پت میں فتح یاب ہوکر ، احمد شاہ ابدالی نے شاہ عالم ثانی کو بادشاہ ہند تسلیم کر لیا ۔ شاہ عالم ثان أمر وقت دہلی سے دور اپنے مقدر سے لڑ رہا تھا ۔ ١،٦۴/۵۱۱۰۸ع میں
شجاع الدولہ نے بادشاہ کی اجازت سے انگریزوں پر حملہ کیا اور اس جنگ میں ، جو 'جنگ بکسر کے نام سے تاریخ میں موسوم ہے ۔ انگریزوں نے شاہی افواج کو شکست دے کر شاہ عالم ثانی کو اپنی حفاظت میں لے لیا اور ۱۱۷۹ھ/١،٦٥ع میں بنگال ، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی کی سند اس سے حاصل کر لی ۔ شاہ عالم ثانی کو الہ آباد میں قیام کے لیے کہا گیا اور جنرل استہ کو بادشاہ کی نگرانی کے لیے وہاں چھوڑ دیا گیا ۔ بادشاہ شہر میں رہتا تھا اور جنرل اسمتھ قلعے میں قیام کرتا تھا ۔ کچھ عرصے بعد انگریزوں نے پچاس لاکھ روپے کے بدلے اودھ شجاع الدولہ کو دے دیا ۔ ۱۷۷۴/۰۱۱۸۸ع میں شجاع الدولہ نے انگریزوں کی مدد سے روہیلہ سردار حافظ رحمت خان کو شکست دی ۔
رحمت خان میدان جنگ میں مارے گئے اور اسی کے ساتھ روہیلوں کا زور بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ گیا ۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی جنگ اقتدار میں کرناٹک کی تیسری جنگ کے بعد فرانسیسیوں کی طاقت بھی ختم ہوگئی ۔ ۷۹۹/۰۱۲۱۳اع میں انگریزوں نے ٹہو سلطان کو شکست دے کر اپنے اس زبردست حریف کو بھی راستے سے ہٹا دیا ۔ ۱۸۰۰/۰۱۲۱۴ع کو نانا فرلوبس بھی وفات پاگئے اور اسی کے ساتھ مرہٹہ قوت بھی بکھر گئی ۔ اب صرف انگریز بر عظیم کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھر آۓ ہے ۔ ۱۸۰۳٫۵۱۲۱۸ میں جب جنرل لیک کی فوجیں دہلی میں داخل ہوئیں تو اندھا بادشاہ شاہ عالم ثانی ، جسے ۱۳۰۲-۱۷۸۸ع میں غلام قادر روہیا، نے آنکھوں سے محروم کر دیا تھا ، بے بسی کے عالم میں پھٹے ہوئے شامیانے کے نیچے اس کے استقبال کے لیے موجود تھا ۔ انگریزوں نے بادشاہ کو اپنی حفاظت میں لے کر اس کا وظیفہ مقرر کر دیا اور اسی کے ساتھ بر عظیم کا اقتدار اعلی انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا ۔
ان واقعات کا ذکر اس لیے ضروری تھا کہ یہی وہ واقعات ہیں جنھوں نے اس صدی کے معاشرے اور اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو مجروح و متاثر کرکے اٹھارویں صدی کے رویوں اور میلانات کی تشکیل کی ۔ آئے دیکھیں کہ اس دور کا معاشرہ کن رویوں کا اظہار کر رہا ہے اور یہ روے ادب میں کس صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں ۔
اٹھارویں صدی کے ان حالات و عوامل کا اثر یہ ہوا کہ اس روایتی معاشرے کے فرد کے کردار میں بحران پیدا ہوگیا ۔ کردار کے اس بحران کی وحد سے فرد کی زندگی سے وہ توازن جاتا رہا جو خیر و شر کے درمیان امتیاز مبدا کرتا ہے اور مثبت اصول زندگی اور اخلاقی اقدار ستون کا کام کرتے ہیں جن کے تحفظ کے لیے فرد جہدوجہد کرتا ہے ، منفی قوتوں کا مقابلہ کرتا ہے اور کردار کی بلندی کو معاشرے میں قائم کر کے اسے زندگی میں اہم مقام دیتا ہے ۔
اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ حکمران طبقے کے اندر توت عمل مفلوج ہوگئی ۔ عیش پرستی ، گروه بندی ، خود غرضی اور تنگ نظری نے اس کی جگہ لے لی ۔ ملک و ملت کے اہم اور بنیادی مسائل نظر انداز ہونے لگے ، سیاسی فہم اور بصیرت عنقا ہو گئے ۔ فرد کو اب کسی ایک چیز پر یقین نہیں رہا اور ’’لوبت یہاں پہنچی کہ اورنگ زیب عالمگیر کے بجاۓ ایک پد شاہ دہلی کے تخت پر بیٹھا اور آصف جاه نظام الملک جیسے دانش مند منتظم کے نظم و نسق میں دربار کے مسخرے اور شہدے روڑے اٹکانے لگے ۔
وہ ملت جو سپاہی پیدا کرتی تھی اب بانکے پیدا کرے نگی ۔ پیشہ ور سپہ سالار بھی میدان جنگ کی طرف پالکیوں میں جاۓ لگے ۔ مذہب کی جگہ اوہام پرستی نے لے لی ۔ ملی اور مذہبی وفاداریاں خود غرضی کا شکار ہو گئیں ۔ صرف ایک سلطنت ہی کو زوال نہیں آیا تھا بلکہ ایک ملت اپنے بلند اخلاقی مقام سے پستی کے گڑھے میں گر گئی تھی اور اس نے وہ سب کچھ خاک میں ملا دیا تھا جو اس کی عظمت و قوت کا باعث تھا ۔‘‘8 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارا معاشرہ اندھا ، ۔ رہ اور گونگا ہو گیا ہے ۔ نہ دیکھتا ہے ، نہ سنتا ہے اور نہ سچ ہواتا ہے ۔ اس زیر ناف کارہائے نمایاں انجام دینے میں معروف ہے.
لعل خيمہ جو ہے سپہر اساس
بالیں ہیں رنڈیوں کی اس کے پاس
ہے زنا و شراب بے وسواس
رعب کر لیے یہیں سے قیاس
قصہ کوتاه رئیس ہے عیاش
اگر اس معاشرے کو مجموعی حیثیت سے دیکھا جاۓ تو محسوس ہوتا ہے که احساس اقدار ختم ہوگیا ہے ۔ فرد کے طرز عمل میں فرض شناسی کے بجاۓ خود غرضی آگئی ہے ۔ اوہام پرستی اور ضعیف الاعتقادی نے حقیقی مذہب کی جگہ لے لی ہے ۔ عمل کی جگہ ، جس پر ہر معاشرے کی ترقی کا دارومدار ہے ، خواب ، تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک نے لے لی ہے ۔ عدم تحفظ کے احساس ہے ،
جو مسلسل انتشار کا لازمی نتیجہ ہے ، بے یقینی کو فرد کے مزاج کا حصہ بنا دیا ہے ۔ آنے والے کل پر یقین نہیں ہے اسی لیے وہ اپنے لیے سب کچھ آج ہی کر لینا چاہتا ہے ۔ سارا معاشرہ عدم توازن کی پیاری میں مبتلا ہے ۔ اسی لیے ۔ جیسا کہ شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے ، پیداوار اور صرف کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں رہا ۔ جن گروہوں کو معاشرے کی فلاح و بہبود کا محافظ ہونا چاہیے تھا وہ اس کا خون چوسنے لگے ۔ جو کچھ وہ صرف کرتے اس کے معاوضے میں کوئی خدمت انجام دینے کے بجائے انہوں نے اپنی حالت اس قدر تباہ کر لی کہ غارت گراند استحصال یا محض بیکاری کو اپنا وغیرہ بنا لیا ۔“ اس بیاری میں جو طبقہ مبتلا تھا وہ حکمران طبقہ تھا جس میں درباری ، امراء ، وزراء ، عائدین اور عال شامل تھے ، جن کے پاس طاقت بھی تھی اور دولت بھی ۔ اسی لیے وہ جو کچھ کرتے تھے اس کا اثر معاشرے پر ، عوام پر پڑنا لازمی تھا ۔ سارا معاشرہ ان سے متاثر ہو رہا تھا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مارا معاشرہ بھی ویسا ہی ہو گیا جیسے وہ خود تھے ۔۱۰ اس پوری صدی میں سترھویں صدی کا بوڑھا نام خیال دم توڑتا ہوا نظر ہے ۔ اس میں ہر سطح پر وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیلی کی ضرورت تھی لیکن کوئی ایسا بادشاه با رابنا سامنے نہیں آیا جو اس ضرورت کو نورا کر سکتا ۔ لام خيال کے منجمد ہو جانے کی وجہ سے سارا نظام ناکارہ ہو گیا ۔