دورِ اورنگ زیب
کبیر کے احسان کو اردو ادب کی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ کبیر نے ایک ایسے زمانے میں ، جب یہ گری پڑی زبان کی مذہبی قراری کے سہارے اٹھنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہی تھی ، اس کی وسعت و اہمیت کو هوس کر کے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور یہ آواز بلند اعلان کیا ۔
سنسکرت ہے کرب جل بادا بنا لیر
بہ عوام کے لئے شعور کی آواز تھی اور مستقبل کا سورج اسی طرف طلوع ہو رہا تھا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ تاریخ کا کوئی عمل ، کوئی واقعہ یا کوئی دادند بلاسيب ابانک وجود میں نہیں آ جاتا ۔ اردو زبان اور اپنی جدید شکل میں اچانک وجود میں نہیں آ گئی ۔ صدیوں کے معاشرتی ، تہذیبی ، سیاسی ، معاشی اور انسان حالات و عوامل نے اس زبان کو سہارا دیا اور ضرورت کے مسلمانوں کے طویل اقتدار کے ساتھ اسے ہندوستان کے ایک گوشے سے دوسرے کونے تک پہنچا دیا ۔
اگر مقطون کے زوال کے ساتھ اردو زبان فارسی کی جگہ لینے لگی اور اس میں باقاعدہ ادب تخلیق ہونے لگا تو اس کے معنی پر تھے کہ وہ مروجہ تہذیبی اور سامی سالیا ، جو فارسی زبان کے لیے ایک دیوار مدالعت بنا ہوا تھا ، اب کمزور پڑ کر جواب دے رہا ہے ۔ جب تک مغلوں کا نظام فکر و عمل مضبوط اور ترقی پذیر رہا اور اس میں معاشرے کی مختلف قوتوں اور عناصر کو یکجا کر کے ہی آہنگی و توازن پیدا کرنے کی سلامیت باقی رہی ، فارسی زبان اس کی پیٹھ پر چڑھی اور آنکھوں میں بیٹهی دل و دماغ پر حکمرانی کرتی رہی ۔
اکبر کا بنایا ہوا تہذیبی اور سماجی ڈھانیا کاہجہان کے دور میں اپنے عروج کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ کر تاج عمل ، لال الله ، شایی اور نظیری ، سالب و کلام کی شاعری میں ظاہر ہو کر بہ عوام کے لئے شعور کی آواز تھی اور مستقبل کا سورج اسی طرف طلوع ہو رہا تھا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ تاریخ کا کوئی عمل ، کوئی واقعہ یا کوئی دادند بلاسيب ابانک وجود میں نہیں آ جاتا ۔ اردو زبان اور اپنی جدید شکل میں اچانک وجود میں نہیں آ گئی ۔
صدیوں کے معاشرتی ، تہذیبی ، سیاسی ، معاشی اور انسان حالات و عوامل نے اس زبان کو سہارا دیا اور ضرورت کے مسلمانوں کے طویل اقتدار کے ساتھ اسے ہندوستان کے ایک گوشے سے دوسرے کونے تک پہنچا دیا ۔ اگر مقطون کے زوال کے ساتھ اردو زبان فارسی کی جگہ لینے لگی اور اس میں باقاعدہ ادب تخلیق ہونے لگا تو اس کے معنی پر تھے کہ وہ مروجہ تہذیبی اور سامی سالیا ، جو فارسی زبان کے لیے ایک دیوار مدالعت بنا ہوا تھا ، اب کمزور پڑ کر جواب دے رہا ہے ۔ جب تک مغلوں کا نظام فکر و عمل مضبوط اور ترقی پذیر رہا اور اس میں معاشرے کی مختلف قوتوں اور عناصر کو یکجا کر کے ہی آہنگی و توازن پیدا کرنے کی سلامیت باقی رہی ،
فارسی زبان اس کی پیٹھ پر چڑھی اور آنکھوں میں بیٹهی دل و دماغ پر حکمرانی کرتی رہی ۔ اکبر کا بنایا ہوا تہذیبی اور سماجی ڈھانیا کاہجہان کے دور میں اپنے عروج کی انتہائی بلندیوں تک پہنچ کر تاج عمل ، لال الله ، شایی اور نظیری ، سالب و کلام کی شاعری میں ظاہر ہو کر ے مل کر اپنا چال مان رہی ہے ۔ متضاد عناصر کو جوڑنے والا مسالا کمزور پڑ کر ان عناصر کو الگ الگ کر رہا ہے ۔ تہذیبی ماحول کا یہ باطنی عمل تھا جب اورنگ زیب عالمگیر بادشاہ غازی پر عظیم کے نقشے پر ابھرتا ہے اور ۱۶۹۰ع تک سارا بر عظیم ، کابل سے چانگام تک کشمیر سے کاویری تک ، اس کی قلمرو میں شامل ہو جاتا ہے ۔ پچاس سال تک اورنگ زیب عالمگیر نے ایک ایسی عظیم سلطنت پر حکمرانی کی جو رقبے ، آبادی اور دولت کے اعتبار سے اس وقت کی دنیا میں سب پڑی ملکت تھی اور پر عظیم کی تاریخ میں کہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد اتنی عظیم سلطنت کبھی وجود میں آئی تھی ۔
عالمگیر نے اپنی بہادری ، تنظیمی سلامت ، دانش اور حوصلے سے اپنے سارے دشمنوں کو شکست دے کر زیر تو کر لیا لیکن نظام خیال کی بھی آگ نے ان فتوحات میں استقلال پیدا نہیں ہونے دیا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز قوت کے زور سے اپنی جگہ بٹھائی جا رہی ہے لیکن اندر سے وہ پر لے اٹھنے کو تیار بیٹھی ہے ، اوپر سے سطح آب پر سکون ہے لیکن اندر ہی اندر ایک ہولناک طوفان کروٹیں لے رہا ہے ۔ ہر دور کا اظہار اس کے ادب و فن میں ہوتا ہے ۔
اگر نظام خیال صحت مند ہے تو تخلیقی فنکاروں کے پاس زندگی کی ہر سطح پر کہنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے ۔ چونکہ اب نظام خیال صحت مند نہیں ہے اسی لیے اس دور کے ادب و ان میں نہ ہمیں صحیح معنی میں عظمت نظر آتی ہے (ظاہر ہے کہ تکرار عظمت نہیں ہے) اور نہ وہ کشش جو دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے سکے ۔ خطاطی معشوری ، موسیقی ، فن تعمیر ، ادب ، تاریخ ، سائنس ، تعلیم اور دوسرے علوم و فنون ٹھٹھر کر صرف روایت کی لکیر کو پیٹ رہے ہیں ۔
نہ ان میں نئے تجربوں کا پتا چلتا ہے اور نہ فکر کی نئی اور تازہ مہات کا ۔ ایسے میں جب اورنگ زیس نے اس بوڑھے نظام۔ خیال میں ایندھن فراہم کرنے کی کوشش کی تو وہ جذیبی سانها ، جس میں ہر عظیم میں بسنے والی ساری قوموں کے لیے گنجائش موجود تھی ، ان تبدیلیوں کے زور سے لوٹنے لگا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے جہتیں ٹیکنے لگیں ، دیواریں بوسیدہ ہو کر کرنے لگیں اور ساری عمارت کا رنگ روپ اڑے ۔ اور جب بادشاہ دہلی سے دکن چلا گیا تو شر کی قوتیں عفریت بن کر معاشرے کو اچکنے اور نکلنے لگیں ۔ بادشاہ کی توجہ جب اس طرف مبذول کران کئی جو گری دیواروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا ، تو اس نے بھی جواب دیا :
راجا چھوڑے نگری بر ہمارے دو مورے