سب رس کا تہذیبی و ثقافتی مطالعہ
ڈاکٹر صفدر امام قادری
Sub ras.
اردو کی قدیم ادبی کتابوں میں زبان اور نفس مضمون دونوں اعتبار سے "سب رس کو جو امتیاز بخشا گیا ہے، اس کے کئی سو برسوں بعد تک شاید ہی کسی کتاب کے لیے وہ اوصاف متعین کیے گئے ہوں۔ دکنی ادب کی تاریخ میں عہد زریں کے طور پر سترہویں صدی کی پہچان کی جاتی ہے جس کے نصف اول میں ملا وجہی کی دو تصانیف 'قطب مشتری" اور "سب رس کو دکنی نظم و نثر دونوں اصناف کا شہکار تسلیم کیا جاتا ہے۔ بارہ دن میں قطب مشتری جیسی تصنیف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی وجہ سے ملا وجہی کی قادر الکلامی ثابت ہوتی ہے۔
ہر چند قطب مشتری کے بعد بھول بن، گلشن عشق اور علی نامہ جیسے بہترین شعری نمونے اس زمانے سے یاد گار ہیں مگر انھیں قطب مشتری جیبی ادبی قبولیت شاید ہی میسر آئی۔
ملاوجہی نے جب قطب مشتری کی داغ بیل رکھی، اس وقت بھی ان کا ادبی دائرۂ کار کم وسیع نہیں تھا مگر کچھ شاعری کے آداب اور کچھ تھنے کی نام نہاد تعینات ؛ لکھنے والے کے پاس متعدد طرح کی رکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ حالاں کہ قصے کو طبع زاد انداز میں قائم کرنے کی وجہ سے بعض ایسی بھی سہولتیں انھیں میسر آئیں جو کسی ترجمہ یا اخذ شدہ قصے کی تحریر میں ممکن نہیں تھا۔ سب رس لکھتے وقت مصنف کی حیثیت سے ملا وجہی کو کئی علمی و ادبی سہولیات حاصل ہو رہی تھیں۔ بادشاہ کی فرمائش تو ہے لیکن طویل مدت تک راندہ درگاہ ہونے کا زخم بھی اس نے تازہ کر رکھا ہے۔
اس کے علم، فضل اور کمالات کی تقریبا ایک ربع صدی تک جو ان دیکھی ہوئی، ان سب کا اسے حساب چکانا تھا۔ عبد اللہ قطب شاہ کی فرمائش تو بس نظام ملوکیت میں کام کرنے کا ایک طور ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ ملا وجہی کو سب رس کے بہانے ایک ایسا ادبی اجتہاد اور شہکار پیش کرنا تھا جس سے نہ صرف یہ کہ اس کی بھولی بسری شہرت، اہمیت اور درباری وقعت لوٹ آۓ بلکہ یہ بھی ہونا تھا کہ جس طرح قطب مشتری لکھتے وقت وہ دکنی ادب کا سکہ رائج الوقت بن گیا تھا، پھر سے وہی صورت حال لوٹ آۓ۔
سحر البیان کی تخلیق کے مرحلے میں دیڑھ سو برس بعد میر حسن کے ساتھ کچھ یہی کیفیت رہی ہو گی۔ خدا نے دونوں مصنفین کو ان کی کتابوں کے نام کی لاج رکھنے کا موقع عنایت کیا اور ان کی زندگی کے آخری کارنامے کو فناپذیری سے محفوظ رکھا اور ( لازوال بنایا۔( یہ بھی پڑھیں ” باغ و بہار“ کے نسوانی کردار ایک ڈسکورس سڈاکٹر ارشاد شفق
اکثر نقادوں نے سب رس کو اردو کی نثر مرصع کا پہلا مکمل نمونہ قرار دیا ہے۔ فارسی اور عربی روایات سے استفادہ کر کے اردو کی ادبی نثر کا پہلا نمونہ تیار کرنے کی کوشش کو ملا وجہی کے لیے سب سے بڑا طرہ قرار دیا جاتا ہے۔ فارسی ماخذ کی بنیاد پر اردو کا متن تیار کرنے کے مرحلے میں ملاوجہی کے 7/13 بو فارسی کی نثری روایت کے تابع رہے۔
یہ بھی ملحوظ رہا ہو گا کہ قصے کی تان تصوف پر بار بار ٹوٹتی ہے، اس لیے مذہبی در علمی ار ۔۔۔ عر عربی کے چراغوں سے روشنی حاصل کی جائے مگر ملاوجہی کی تخلیقی شخصیت نے انھی دو دائروں میں رہ کر سب رس کی تخلیق کا منصوبہ بنایا ہوتا تو سب رس آج ہماری زبان میں لافانی کردار کے طور پر مسلم نہ ہوتی۔ دکن کی ادبی روایت نے اور بالخصوص محمد قلی قطب شاہ کی قربت میں ملاوجہی کی ایک ایسی تہذیبی اور ثقافتی تربیت ہوئی تھی جہاں مختلف زبانوں اور تہذیبوں کے افراد سے براہ راست استفادہ کرنے کی گنجائش موجود تھی۔
اپنے وطن کے راگ سے وہ کچھ یوں آراستہ ہوا تھا جیسے اس سرخی ئے کے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ جیسے جیسے وجہی کی عمر پختگی کی طرف بڑھتی ہے، اس کے تہذیبی شعور اور وسعت قلبی میں استحکام کے ثبوت ملنے لگتے ہیں۔ اس لیے سب رس کے مطالعے کی ایک جہت زبان کے ایک ہندوی ذائقے کی تلاش سے بھی عبارت ہے۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر آج سے تقریبا چار سو برس پہلے اردو نثر جب ادب کے دروازے پر دستک دے رہی تھی، اس وقت اگر وجہی نے اسے فارسی اور عربی روایتوں اور تہذیب و ثقافت کے گھروندوں میں قید کر دیا ہوتا تو ہماری زبان کے ان نٹری ایوانوں کا کیا ہوتا جن کی روشنی اور چمک سے گذشتہ دو صدیوں سے زیادہ عرصے میں ہمارا نثری نگار خانہ روشن ہوا ہے۔
اردو کی ادبی تاریخ میں دکن کا یہ اولین امتیاز ہے کہ وہاں ادبی روایت کے طور پر اہالیان دہلی کی طرح فارسی اور عربی تہذیبی و لسانی ابواب کو ہی واحد ذریعہ نہیں سمجھا گیا ہے بلکہ اس کے مقابل مقامی اور دیسی روایات اور ادبی پس منظر کی شمولیت کا ایک باضابطہ خاکہ تیار کیا گیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وکن کے مصنفین نے اگر ایران عرب کی فضاکوں کو اپنے ادب میں ہو بہ ہو منتقل کرنے کا لائحہ عمل گڑھا ہوتا تو یہ سوال بھی پیدا ہوا ہوتا کہ فارسی گوئی سے انحراف کی کوئی صورت کیوں کر نکالی جائے۔
کدم رائو پدم راؤ کے آس پاس جن بہت سارے صوفیاے کرام کا تذکرہ ملتا ہے جنھوں نے رشد و ہدایت اور تبلیغ کے لیے مقامی زبانوں کی طرف رجوع کیا۔ یہ بات درست کہ صوفیاے کرام یا شعرا ادبا کی علمی تربیت کی زبان عربی و فارسی ہی تھی مگر انھیں جن لوگوں سے مخاطبت اختیار کرنی تھی، وہ مقامی زبان و تہذیب کے چشم و چراغ تھے۔ اس لیے اس وقت عربی اور فارسی دائرہ علم سے نکلنے اور مقامی اسالیب بیان کی چھاؤں میں بسر کرنے کی حکمت عملی بے شک کارگر ثابت ہوئی تھی۔
سب رس کے ماخذ در ماخذ پر گفتگو کا یہ موقع نہیں مگر یہ بات یقین کے درجے تک پہنچتی ہے کہ قصہ حسن و دل کے فارسی نثری و شعری متن سے ملا وجہی کا ضرور معاملہ رہا ہو گا۔ حالاں کہ وہ اپنی کتاب میں ہزار ضمنی باتیں پیش کرتا ہے مگر اپنے ماخذ کے ذکر سے غالباً بالارادہ اجتناب برتا ہے۔ فارسی قصہ بھی حقیقت میں کرشن مشر کی پر بودھ چند رودے سے مستعار ہے یعنی سب رس ترجمہ در ترجمہ کی مثال کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے۔
ایمان کی بات تو یہ ہے کہ ترجمے کے لیے آج بھی بہت سارے اصول و ضوابط نہیں بنے مگر جب سب رس لکھی جارہی تھی، اس وقت تو اور بھی کسی علمی تر بجے کا واضح تصور نہیں تھا۔ اخذ و استفادہ، تلخیص، حسب استطاعت عبارتوں کا ترجمہ اور پھر مترجم کا طبع زاد تصنیف کے بہ طور متن میں مداخلت اور بالآخر وعوا یہی رواج علمی سب رس سے لے کر باغ و بہار اور نیرنگ خیال تک قائم ہے۔ کمال یہ ہے کہ اردو کی ادبی تاریخ گمنام مصنفین کو بھلا چکی ہے مگر ان کے مترجمین اپنی زبان اور بیان کی قوت کی وجہ سے صاحب طرز نثر نگار کے طور پر مقام افتخار پانے کے حق دار قرار دیے گئے۔
سب رس اور اس کے ماخذ اصلی کے بارے میں محققین نے اسلوبیاتی تناظر میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ فتای کے فلسفیانہ انداز سے وجہی نے گریز کرتے ہوۓ ایک خطیبانہ اور حسب ضرورت مبلغانہ اسلوب اختیار کیا ہے۔ موضوعات میں حکیمانہ عناصر بھرے پڑے ہیں مگر گفتگو تجربات اور مشاہدات کے دائرے میں رہتے ہوئے تبلیغ تک پہنچتی ہے۔ اصل متن سے اس گریز کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ملا وجہی نے فارسی روایت سے گریز کا ایک رویہ فکر وخیال کی سطح پر بھی قائم کرنے کی کوشش کی۔
اس گریز میں اردو کی لسانی تاریخ کے وہ بنیادی راز پنہاں ہیں جن سے گذشتہ ن چار صدیوں کی ادبی نثر کی ترقی ممکن ہو سکی۔ ملا وجہی کی شیعیت مسلم ہے مگر اس نے آغاز کتاب میں حضرت علی کے ساتھ اس اہتمام سے حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی کو یاد کیا۔ یہ محض تذکرہ نہیں بلکہ ملا وجہی کے ذہنی سانچے کی وسیع المشربی کا اعلامیہ بھی ہے ۔ اسی طرح حمد کے دوران عشق و عاشقی کے امور کی پیش کش کا انداز بھی کچھ عمومی باتوں کے لیے مخصوص نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے وجہی کا ثقافتی شعور واضح ہوتا ہے۔
اللہ کی بڑائی کچھ اس انداز میں پیش کی گئی ہے جیسا اس عہد تک کسی دوسری داستان میں شاید مل سکے ۔ قلی قطب شاہ کی شاعری میں البتہ اس کے نمونے جگہ جگہ نظر آتے ہیں مگر بادشاہ وقت کو ہر مضمون کے لیے اپنے آپ آزادی ملی ہوتی ہے۔ اس کے بر خلاف ونہی کا : انداز ملاحظہ کیجیے کہ وہ کس طرح خدا کی قدرت کا بیان کرتا ہے
عاشق کوں عشق، معشوق کوں حسن دیا، ان دونوں میں اپنا نجید پرگٹ کیا۔ ایکس کوں کیا پرس، ایکس کوں کیا ناری، ایکس کوں کیا پیارا، ایکس کوں کیا " پیاری۔ نہ ہو اسے دیکھیا نہ ہوا سے جانے، ایکس کوں دیکھ ایک ہوتے دیوانے۔ دو دل ایک دل ہو تیں جھٹ تے، عمراں تے گزرتے جیواں پر اٹھ تے ۔ : سر جیا یوں کچھ سر جنہار، گریم رحیم مهروان گر تار۔ بیت
یو خاصیت ہے عشق کی یاں کوئی کیا کرے
“بیگانے کوں یو عشق بلا آشنا کرے
اس انداز میں حمد خدا کے فوائد پر غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہی نے خدائی کا ایک ارضی تصور پیش کیا ہے۔ بعد میں دکنی ادب کا بی انداز نامہ گیا۔ یہ سجھنا مشکل نہیں کہ اس کی ارضیت و ایران کے ادبی پیانوں ۔ انداز شناخت نامہ بن گیا۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس کی یہ ارمنیت اسے عرب و ایران کے ادبی پیانوں سے دور رکھنے کا ایک معقول سہارا بھی ہے۔ اسے
سب رس کے آغاز میں جب کبیر داس کا دوہا ایک مختصر لفظی ترمیم سے نہیں نظر آتا ہے تو یہ بات از خود سامنے آجاتی ہے کہ ملا وجہی اکتساب علم میں نے خانہ شمال سے گریز کی خو نہیں اپناتا۔ اکبر اعظم کا عہد گزر چکا ہے اور برج کے علاقے کی اہمیت ابھی بھی قائم ہے اس لیے وجہی نے حمد میں مخاطبت کے لیے فارسی کے دانش منداں “ کے ساتھ گوالیر کے چاتراں کو بڑے وقار کے ساتھ درج کیا ہے ۔
اور زینت سخن و در نام کتاب گوید" باب میں بھی گوالیر کے فہیم کی شمولیت سے یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ وہی کا مطالعہ کائنات محدود نہیں اور رسی پیانوں کے ساتھ غیر رسمی ایوانوں تک بھی دہ پہنچتا ہے۔ گوالیر کے چاتراں اور فہیم کا تذکرہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دربار اکبری یا مغلیہ سلطنت کے رتنوں سے واقف ہے اور ان کے علم و فضل کا اس کے ذہن پر سکہ بیٹھا ہوا ہے۔ یہاں یہ یاد رہنا چاہیے کہ سب رس کو نثری تعلی کی یادگار کے طور پر نقادوں نے پیش کیا ہے۔ ملا وجہی اپنی ہمہ دانی کے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتا مگر اس کو ایرانیوں کے ساتھ ساتھ اگر مغل دربار کے دینی ماہرین علم و فن کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے تو اس کا یہ وہی ہندوی شعور ہے جس کی وجہ سے فارسیت کے علاوہ بھی اسے دوسرے علمی مینارۂ نور نظر آتے ہیں۔
وجہی نے سب رس کی تصنیف و تالیف کے مقاصد بیان کرتے ہوۓ جو پہلا اصول بیان کیا اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ دو ہندیت کا پیروکار ہے اور اپنے لیے ایک نئی دنیا کی تلاش میں سب رس کی تالیف کے دوران نکلا ہوا ہے۔ وہ اپنے کاموں کا اصول کچھ اس انداز سے پیش کرتا ہے
جیتے چوساراں، جیتے فہم داراں، جیتے گن کاراں ہوۓ، من آج لگن، کوئی اس جہان میں ہندوستان میں، ہندی زبان سوں، اس لطافت اس چنداں ” سوں، نظم ہور نثر ملا کر ، گلا کر یوں میں بولیا۔
شان تعلی اگرچہ فن شعر سے اکتساب کا عمل ہے اور قافیہ بندی بعض اوقات روایف سازی کے اصولوں کی پاسداری کی وجہ سے فارسیت سے روشنی اخذ کرنے کا ایک طور بھی ہے مگر ہندستان میں اور ہندی زبان کی لطافت اور چندوں کے معقول زیر ویم کے استعمال سے نئی زبان کی جو شیرازہ بندی کرنے کا ملا وجہی کے دل میں جو خواب ہے وہ عرب و ایران کے انشا پردازانہ وسائل سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس کے لیے اسے اپنے عہد اور ملک و قوم کی طرف متوجہ ہونے کی لازمیت سے خود کو بہرہ مند کرنا تھا۔ سب رس اس لیے ایک طلسم ہے کیوں کہ یہاں آزمائے ہوئے جادو کے نسخے پھر سے استعمال میں نہیں لیے گئے ہیں بلکہ نئے حربوں سے نئے جادو قائم کرنے کی کوششوں نے اس کتاب کو نگار خانہ حیرت میں تبدیل کر دیا
ہے۔
نسب رس کی تہذیبی فضاپر غور کر میں تو جو چیز میں از خود روشن ہونے لگتی ہیں انھیں ذیل کی چند مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے
پر
الف ) ملا وجہی نے ہندستانی تہذیب و فضا کو مقدم جانا اور عرب و عجم کی روایات کے تفوق سے ممکن حد تک گریز کی راہ اختیار کی۔) ب) ملا وجہی نے عربی اور فارسی کی لسانی فیض رسانی اور قرآن و احادیث سے براہ راست فیض حاصل کرنے کے باوجود ہندستانی فضا اور مقامی آداب )
معاشرت کو ہر موقعے سے اہم جاتا ہے۔
ج) اسلوب بیان میں کلیدی الفاظ صرف عربی فارسی کے نہیں ہیں بلکہ ہندستانی لفظوں میں معنوی تہہ داری کے لیے توجہ کرنے کی مہم بھی اسی ) کتاب سے شروع ہوتی ہے۔
) عبد اللہ قطب شاہ کی فرمائش سے اس کے عہد میں یہ کتاب تصنیف پاتی ہے جس کا ملک الشعرا غواصی اپنی مثنوی کا نام عربی روشن دانوں کی ) خاک حجاڑتے ہوۓ سیف الملوک و بدیع الجمال قائم کرتا ہے مگر وہیں ملا وجہی اپنی وہ کتاب جس میں زبان و انشا اور بلاغت کے ستارے ٹائے ہوئے ہونے کی سب فضیلت واضح کرتے ہیں اس کا نام ٹھیٹھ ہندوی میں سب رس مقرر کرتا ہے۔ کوئی اضافت نہیں اور نہ مکفوف کی گنجائیش پیدا ہوتی ہے۔
بعد میں یہ انداز کچھ اس قدر مقبول ہوا کہ پھول بن اور من لگن جیسی مثنویاں عالم وجود میں آئیں اور سب رس کے سو برس بعد شمالی ہندستان کی کربل گتھا کو بھی ناموں کے اس سلسلے کی کڑی سمجھنا چاہیے۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی کا یہ وہ زمانہ جب شمال سے جنوب تک فارسی اور اسی حوالے سے عربی کو علمی روایت اور معیار کا ضامن سمجھا جاتا تھا مگر اس کے متوازی ملا وجہی نے ہندوی نام کرن سنسکار کا ایک قابل تقلید پیانہ وضع کر کے اپنی اولیت ثابت کیا۔
سب رس کو مردو سوسائٹی کی طرح سے ملا وجہی نے نہیں پیش کیا۔ اکثر داستانوں میں گزری ہوئی بادشاہت اور لئے ہوۓ مقدر کی کہانیاں ہوتی ہیں ۔ اسی بہانے جبر مشیت اور سوز نہانی کے امور داستان گو کے سامنے زیر بحث ہوتے ہیں۔ پڑھنے والا عبرت حاصل کرتا ہے اور ادبی کا یا کہانی کہنے کا مقصد ثواب حاصل کرنا ہو جاتا ہے۔ داستانوں کے یہ آداب انیسویں صدی تک تقریبا ایک ہی انداز میں دکھائی دیتے ہیں۔
ملا وجہی نے سب رس میں مردہ سماج اور گزرے ہوئے وقت کی داستان کو ایک محدود دائرے میں رکھتے ہوئے اپنے اختراعی انداز سے اسے زندگی بداماں بنانے کی کوشش کی۔ تصوف اور بادشاہت کے معاملات بیان کرتے ہوئے اس نے عام انسانی زندگی کے کرداروں کو کچھ اس انداز سے پیش کیا جیسے وہ داستانی روایت کی جانی ہوئی ہے رس دنیا میں ایک سوچی سمجھی مداخلت کر رہا ہے۔ اگر اس نے یہ مداخلت نہ کی ہوتی تو شاید ہی آج ملا وجہی کو اردو داستانوں کا توانا دستخط اور بنیاد گزار سمجھا جاتا۔
سب رس کے تہذیبی شعور پر غور کرنے کے لیے ان مختصر نوشتہ جات کا بالاستیعاب تجزیہ لازم ہے جو یوں تو داستان کا لازمی حصہ ہیں مگر بعض ماہرین نے انھیں انشائیہ قرار دیا ہے۔ مختصر اور مختصر تر ادبی اجزا اشارات کا بدل کیے جا سکتے ہیں
جنھیں بیان کی رو میں ملا وجہی اپنی جہاں دیدنی کے مظاہرے پیش کرتا گیا ہے۔ یہاں فلسفہ ، تصوف، تجربہ ، مشاہدات، تبلیغ اور ہدایات کے نہ جانے کتنے پہلو سموۓ گئے ہیں ۔ بیان کا ایسا نپا تلا انداز ہے کہ فلسفہ طرازی میں ظرافت کی سامی بھی ممکن ہو سکی ہے۔ انشایئے کی جدید تعریفات اور ان مخصوص نمونوں کو سامنے رکھیں تو ان تحریروں کو انشایئے کے بجائے انشائیہ نما کہہ سکتے ہیں۔ مگر میں یہ ملا وجہی کی انشاپردازانہ صلاحیت کے اظہار کے کھلے ثبوت۔
جاوید وشعت نے تو سب اس سے ان تحریروں کو علاحدہ کر کے او انشائیوں یا انشا نما تحریروں کو یکجا کر کے موضوعاتی خانہ بندی کرنے کی کوشش بھی کی ہے جس کی وجہ سے ملا وجہی کی اس کام کے بعض نئے گوشے ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ یہ انشائے حقیقت میں انسانی زندگی کی تحلیل نفسی کے نتیجے کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان انشائیوں سے چند ملی نبلی مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن سے ان کے نفس مضمون اور پیشکش کے مقاصد پر روشنی پڑ سکتی ہے.
توں اگر اپنا دوست ہے تو دشمن کوں پہچان، گمان کیا خاطر رکھنا میانے میان
مشہور ہے کہ جدھر ہنڈی ڈوئی ، ادھر سب کوئی“۔
دوسرا اگر دشمن ہوا تو سہل ہے ، ولے اپنا دشمن اپ ہونا جہل ہے“۔
جہاں ساہی تیری ہے ، جہاں وعدہ ہے ، کتاب ہے، وہاں ڈرے زرے کا حساب ہے“۔
عاقل آگلے پیج جانتا، نادان نہیں کی پہچانتا“۔
" عورت عجب ہے شکر ، ولے اس شکر میں تمام بھرے ہیں مکر ۔ بولے میں شر شیطان تی، مکر زنان تی۔ خدا اپنی پناہ میں رکھے، یو دونوں بلایاں ہیں،
اس بلایاں کون کون جیت سکے“۔
سوکن کوں دیکھنے کی کسے تاب، جس گھر میں سوکن آئی وہ گھر خراب“۔
عاشق جو کچھ مے خانے میں پایا، سو کعبہ میں زاہد کے بات نہیں آیا۔۔۔ عاشقی مصاحبت ہور یاری، عبات بندگی اور خدمت گاری“۔ اگر اسان تی آگ برسے گا ابر، وہاں بھی کام کرے گا شکر ہور صبر شکر ہور صبر ہر ایک درد کا دارو ہے ،
جیوں شراب کا اثر تیوں بادشاہ کا پیار، ایسے پیار کوں کیا انتہار قتل میں اترے تل میں چڑھے ، ایسی جاگا ہوشیار کیے ہیں بڑے جو آگ پر بارا پاتا تو
شو کا ہور گیلا مل جاتا مست ہتی ، بادشاہ ہور باگ، یوتیوں لی ایک جنس کی آگ
" " جوں کھانے میں نمک، جوں دیوے میں جھمک، جوں محبوب میں ٹھک
ان مثالوں سے بہت ساری باتیں آشکار ہوتی ہیں ۔ ہندستان کی اس تہذیبی اور ثقافتی روایت کا عروج دیکھیے جب ملا وجہی خیر وشر کے درجنوں معاملات ایک ساتھ اس طرح سے سامنے لاتا ہے جیسے زندگی اور کائنات کو دیکھنے کا نیا نظریہ ہی وضع کیا گیا ہو۔ یہاں صوفی ، عاشق، سوتن اور بادشاہ سب ملا وجہی کے تعاضرات سے ایک نئی شکل کے ساتھ ہمارے سامے ہوتے ہیں۔
یہاں اسی ہندستانی تہذیب و ثقافت کے زیر اثروہ دنیا قائم ہوئی ہے اس کا بدل کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ فارسی عربی روایات میں ہر تضاد کے نباہنے کے مراحل اتن آسان نہیں تھے جس قدر ہندستانی ماحول میں گنجائشیں پیدا ہو رہی تھیں اس لیے ملا وجہی نے اپنی کتاب اور خاص طور سے نظر کا ہندستانی ڈھانچہ تیار کیا جس میں جب جب گنجائشیں پیدا ہوئیں اس نے عربی فارسی سے استفادہ کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ، اس کی مذہبی اور علمی تربیت اتنی پختہ تھی کہ اسے کسی نئے ماحول اور نئے موضوع کا انگیز کرنے میں کسی طرح کے عدم توازن کی گنجائش نہیں تھی ملا وجہی کا نثر نگار کی حیثیت سے یہ خاص پہلو ہے ۔
ملا وجہی کی تصنیف سب رس کے تہذیبی اور ثقافتی مطالعے کا ایک تہذیبی مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اردو کی ادبی نثر کے ارتقا کے ان گڑیوں کو پہچان سکیں جن کی بدولت اردو کا غیر مذہبی اور سیکولر کردار سامنے آسکا۔ نثر سے قبل شعرائے کرام نے بھی اپنے رنگ کی کوششیں روا رکھی تھیں مگر یہ یاد ہونا چاہیے کہ اردو شاعری کا آغاز ہی غیر مذہبی روایت کا آئینہ دار ہے۔ امیر خسرو کا غیر مستند کلام ہو یا کدم راؤ پدم راؤ کے اشعاران کی واضح روایت غیر مذہبی ہی ہے۔
مگر اردو نثر کے ابتدائی مراحل مذہبی تعبیر و تشریح کے مقاصد سے لیٹ ہو کر آگے بڑھتی ہے۔ دکن میں قدم قدم پر صوفیائے کرام کے آثار بکھرے ہوئے تھے اور ان کے ملفوضات کی زبان رفتہ رفتہ اردو نثر کو انگیز کر رہی تھی اس ماحول میں سب رس جیسی کتاب کو پیش کرنا جس کے ماخذ تک پہنچتے پہنچتے یہ بات سمجھ میں آنے لگتی ہے کہ یہاں تصوف کا دور دورہ ہے اور اس کے بغیر کوئی مصنف لقمہ نہیں توڑ سکتا اپنے علم کے اعتبار سے بھی وہ مذہبی فکر اور تصوف کا ماہر ہے۔ اس کے نام میں ملا کا نام ہوں ہی شامل نہیں ہے۔
سب رس کے تنے کو پڑھتے ہوئے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ قدم قدم پر اسے اپنے علم کا اظہار بھی کرتا ہے مگر فنکار کی حیثیت سے اس کا نظم وضبط اور فنی توازن کا یہ حیرت انگیز خبوط ہے کہ اس نے تصوف کی بات کہاں پھیلائی ہے اور کہاں نفس انسانی کے سامنے اسے سمیٹ لینا ہے،
اس کا وہ ایسا رمز آشنا ہے میں اہماری ادبی تاریخ میں مٹھی بھر لوگ سامنے آئے ہوں گے ۔ عالمانہ اعتبار کے باوجود ماہر نفسیات کا ادراک اور ایک ان گڑھ زبان میں اپنے مشاہدات پیش کرتے ہوۓ اگر ملا وجہی کامیاب ہوا ہے تو اس کی رہ نمائی اس مقامی تہذیب وثقافت سے ہوئی ہے۔ اپنی مٹی پر یہ اعتبار اور تمام اکتابات کے باوجود شعور ولاشعور کی کشمکش میں کامراں گزر جانا سب رس کے حوالے سے ملا وجہی وہ کارنامہ ہے جس پر چار صدیوں کی باوجود وقت کی کوئی دھول نہیں تھی۔ سب رس میں ملا وجہی نے اپنی جس انداز میں تعریف کی ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ چار سو برس کے بعد اپنے قارئین اور ناقدین سے واقف تھا اور واقعتا اسے دکن کے تمام مصنفین پر فوقیت حاصل ہے۔