اُردو شاعری کا عہدِزرِیں
سُنہرا دوَر
اب اگر اس دور کے نمایاں شعرا کا ذکر ہوجائے تو ان میں میر تقی میر، مرزارفیع سودا، خواجہ میر درد، میرحسن، میرسوز اور میر اثر درخشاں ستارے ہیں۔ان میں سےہرایک اپنے اپنے میدان کا شہسوار ہے۔ہر ایک نے اردو شاعری میں کمال ترقیاں کیں، جن کا بعد کے استاد شعرا نے اعتراف کیا ہے۔مثلاََ کہتے ہیں:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یارو نے بہت زور غزل میں مارا
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بہ قول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
میر نے غزل کو معراج پر پہنچایا تو مثنوی نگاری میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہیں۔ سودا قصیدہ اور ہجو کا بادشاہ بن گیا، تو میرحسن کی مثنوی ''سحرالبیان'' بھی اس عہد کا شاہ کار ثابت ہوئی۔اس مثنوی نے آنے والے مثنوی نگاروں کے لئے راہیں متعین کیں ،خواجہ میردرد نہ صرف تصوف کا شہنشاہ قرار پائے بلکہ انہوں نے غزل میں عشقِ حقیقی کے رنگ کو آنے والوں کے لئے قابلِ تقلید بھی بنادیا۔ بہ قول رام بابو سکسینہ:
''یہ زمانہ اُردو شاعری کی سب سےبڑی
ترقی کا زمانہ ہے۔'' (تاریخ ادب اردو)
شاعری کی ترقی کے اس دور میں میر اور سودا نے حافظ و سعدی سے استفادہ کیا تو دیگر نے جلال ، اسیر ،کلیم، طالب آملی ، شفائی اور بیدل کی روِش اختیار کی۔عہدِزرِیں کے چمکتے ستاروں ,میر اور سودا نے نہ صرف نئے الفاظ،
محاورں، تشبیہات،استعارات،تلمیحات ،صنائع و بدائع اور نئی ترکیبوں سے اُردو زبان کو مالامال کیا ،بل کہ ان کا فن کارانہ استعمال کرکے آنے والوں کے لئے یہ ایک مشعل راہ ثابت ہوئی۔بہ قول حکیم قدرت اللہ خان بقا:
'' مرزا سودا ایک بے کنار سمندر اور میر
ایک عظیم الشان دریا ہیں۔''
شاعری کے اس عہدِزرِیں میں نئے نئے اصناف اُردو شاعری میں داخل ہوگئے۔خصوصاََ میر تقی میر نے واسوخت، مثلث اور مربع کا اختراع کیا ،علاوہ ازیں اس دور میں مخمس، ہجو، اور مستزاد وغیرہ بھی اصنافِ شاعری میں شامل ہوگئے۔صنعتِ ایہام کا غلبہ اُتر گیا ۔ متعدد تذکیرے لکھے گئے،جن میں تنقید کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں۔ان تذکروں میں اس عہد کی بھرپور عکاسی بھی ملتی ہے۔
اس عہد میں اُردو زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں بھی اس قدر اضافہ ہوا کہ اس زبان میں قوت، وسعت ، لچک اور بے پناہ خوب صورتی پیدا ہوئی اور اسی وسعت اور ترقی ہی کی بدولت اُردو زبان و ادب کے لئے ترقی کا ایک روشن دروازہ کھل گیا۔بہ قول رام بابوسکسینہ:
''یہ میر وسودا کا زمانہ ہے جو اُردو
شاعری کے رکن رکین اور استاد اعظم
مانے جاتے ہیں۔''(تاریخ ادب اُردو)