آب حیات کا فنی جائزہ
اردو کے عناصر خمسہ میں سے ایک مولانامحمد حسین آزاد ہے ۔ مندسین آزاد ہی وہ شخصیت ہے کہ جس نے خالص انشاء پردازی کی بنیاد ڈالی ۔آزاد سے پہلے انشاء پردازی موجود تھی لیکن اس کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں تھی ۔ آزاد کا توجہ خیال کی وضاحت سے زیادہ زبان کی لطافت پر ہوتی ہے ۔ اس لئے آزاد کی نثر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس سے قاری کے جمالیاتی ذوق کی تسکین ہوتی ہے اور یہی ایک انشاء پرداز کی فن کی پہچان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اردو کے نازک مزاج انشاء پرداز مہدی آفادی نے آزادکو آقائے اردو کے لقب سے یاد کیا ہے ۔ وہ اپنے مضمون’’ ار دولٹر یچر میں عناصر مس‘‘ میں لکھتے ہیں:
سرسید سے معقولات الگ کر دیجئے تو کچھ نہیں رہتے ۔ نذیر احمد بغیر مذہب کے لقمہ بھی نہیں توڑ سکتے ۔ شبلی سے تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے ہی رہ جائیں گے ۔ حالی بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل سکتے ہیں لیکن’’آ قاۓ اردو لینی پروفیسر آزادصرف انشا پرداز میں جن کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے‘‘۔
آزادسب سے بڑے مینا کاراور مرصع نگار ہیں۔ اس وصف میں کوئی دوسرا ان کا شریک نہیں ۔ زبان کی نزاکت ، بیان کی لطافت ، تشبیہ اور استعارے کی رنگینی اور ترکیب کی شکلفتگی جس قد رآزاد کے یہاں قدم قدم پر ملتی ہے وہ کسی اور کے پاس نہیں ۔ وہ اس انداز میں چھوٹے چھوٹے چھپتے ہوۓ فقرے تراشتے ہیں کہ ان کو’’ آز رخن‘‘ کا لقب زیب دیتا ہے ۔ مولانا آزاد کی آزری اور بہت تراشی کے نمونے دیکھنے ہوں تو ’’ آب حیات‘‘ کے صفحات پر یہ نظارہ موجود ہے ۔’’ آب حیات‘‘ مولانامحمد حسین آزاد کی وہ کتاب ہے کہ جو ادب کی دنیا میں ان کے لئے آب حیات ثابت ہوئی ۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۸۸۰ء میں ،دورسرا ایڈیشن ۱۸۸۳ء اور پھر ۱۸۸۷ء میں شائع ہوا۔ اس کے دیباچے میں زبان اردو اور اردو نظم کا تعارف اور پھر کتاب کے پانچ ادوار بنائے گئے ہیں ۔ ان ادوار کے تحت شعراء تقسیم کیا گیا ہے ۔
کی یہ کتاب تذکرہ اور تاریخ کی ادبی کڑی ہے ۔ ادبی تاریخ یہیں سے شروع ہوتی ہے اور تذکرہ یہاں پرختم ہوتا ہے ۔ اس کتاب کی قدیم تذکرہ نگاری اور ادبی تاریخ نگاری کے درمیان تنگھم کی حیثیت ہے ۔ اس کتاب کو اردو شاعری کی پہلی ادبی تاریخ کہا جاسکتا ہے۔ یہ صرف اردو شاعری کی تاریخ نہیں بلکہ ایک توانا حیات سے بھر پوردستاویز ہے ۔ جد ید اردونثر کے کلاسیکی نمونے بھی اس کتاب میں ملتے ہیں ۔ آزاد نے تذکرے کی صورت میں تخلیقی نثر کو سامنے لایا ہے۔ آب حیات‘‘ صرف ادبی تاریخ نہیں بلکہ مسلمانوں کے ادبی دور اور تہذیب وتمدن کی داستان ہے ۔ اس میں ہمیں وہ آزاد نظر آ تا ہے جس کو اپنے آباء و اجداد اور اپنی تہذیب سے عشق ہے ۔ وہ اس نتی ہوئی تہذیب کا ثناء خواں بھی ہے اور مرثیہ گوبھی۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود اس کتاب کی صنف ابھی تک زیر بحث ہے۔ آزاد کی تخلیق کو ام الاصناف‘‘ بھی کہا جا تا ہے ۔ اس کے اندر خاکہ مضمون ،انشائیہ، تاریخ ترکیب اور تذکرہ شامل ہیں ، اس لئے اس کے ساتھ ایک سابقہ لگا کر اسے نیم سوائی نیم تنقیدی اور نیم تاریخی کتاب کہہ سکتے ہیں ۔
آزاد کے انشاء پردازی کے جو ہر دراصل وہاں کھلتے ہیں کہ جب مختلف کی ادبی خصوصیات بیان کرتی ہیں ۔ چنانچہ جب وہ ’’ آب حیات‘ کا پہلا دور قائم کرتے ہیں تو اس کو حاظم اردو کا پہلا نو روز کہتے ہیں ۔ یہی وہ دور تھا کہنسنا طفہ ینی شاعری وجود میں آئی ۔ یہ بچوں کی نیند پڑی ہوئی تھی ۔ ولی نے آ کر ایسی بیٹھی آواز سے غزل نوائی کی کہ اس بچے نے ایک انگڑائی لے کر کروٹ لی ۔
اس کے بعد وہ دوسرے دور کو ایک فصل سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس فصل میں زبان کے حسن قد رتی کے لئے موسم بہار لکھتے ہیں ۔ وہ دوسرے دور کی شاعری میں تصنع ہتکلف اور بناوٹ کو دخل انداز نہیں دیکھتے۔ اس دور میں حاتم ، خان آرزو اور فغاں نے نہایت سادہ اور صاف ستھرے شعر لکھے ہیں ۔ آزاد تیسرے دور کو مشاعرہ تصور کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں اس مشاعرہ میں ان صاحب کمالوں کی آمد آمد ہیں جن کے پا انداز میں فصاحت آنکھیں بچاتی ہے اور بلاغت قدموں میں لوٹی جاتی ہے ۔‘‘ آزاد نے اس دور کے شعراء کو مرصع نگار اور مینا کار کہاں ہیں ۔ جنھوں نے اردوزبان کے کچے سونے کو اس قابل بنادیا جس سے ’’ حسینوں کے زیور‘ بلکہ بادشاہوں کے تاج دافسر تیار ہوتے ہیں ۔ اس دور میں مرزا جان جاناں ، میر عبدالئی سودا ، ضاحک ، درد ،سوز اور میر کی مینا کاری سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ آزاد نے چوتھے دور کو بھی ایک مشاعرہ کہاں ہے لیکن اس مشاعرے میں قہقہوں کی گونج ہے ۔ اس کے شعراء’’زندہ دل‘‘اور’’ شوخ طبع‘‘ ہیں ۔ یہ شعراء ہنسائیں گے بہت لیکن ترقی کی بجاۓ انہیں کوٹھوں پرکود تے پچاند تے پھر میں گے ۔ان میں جرات، انشاء، مصحفی اور رنگین شامل ہیں۔
اس کے بعد وہ آخری دور کو ایک سنجیدہ مشاعرہ کہتے ہے جس کے شروع ہونے سے ظلمت دور ہوئی اور لاشین جگمگانے لگیں‘‘۔ اس مشاعرے میں وہ بزرگ شریک ہیں جن کے دیدار کو آزاد آنکھوں کا سرمہ کہتے ہیں ۔ ان بزرگوں میں ناسخ ،آتش ،مومن غالب دبیر اور انیس شامل ہیں ۔ آزاد نے ادوار کے قائم کرنے کے سلسلے میں مختلف استعارات کا استعمال کیا ہے ۔ ان استعارات کو سرسری طور پر پڑھ کر ثال نہیں جاسکتا کیوں کہ ان استعارات کے پردے میں ہر دور کی خصوصیت جھلک رہی ہے ۔ آزاد کی انشاء پردازی کا یہی کمال ہے ۔وہ یہی کمال مختلف شعراء کے کلام کی خصوصیت کو بیان کرتے وقت بھی دکھاتے ہیں ۔ میر کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ان کی غزلیں ہر بحر میں شربت اور کہیں شیر وشکر ہیں مگر مچھوٹی بحروں میں فقط آب حیات بھی بہائی ہیں‘‘۔
آتش کے بارے میں یوں شعلہ فشانی کرتے ہیں: ’’ان کی آتش بیانی نے استاد کے نام کوروشن کیا بلکہ کلام کی گرمی اور چمک دمک نے استاد شاگرد کے کلام میں اندھیرے اجالے کا امتیاز دکھایا‘‘۔ ذوق جب چارو پی ماہوار پر ولی عہد کی غزل بنانے کے لئے مقرر ہوۓ تو آزاد نے اس واقعہ کو یوں لکھا: "ادھر قسمت نے آواز دی کہ چار رو پسینہ بجھنا، یہ ملک الشعرائی کے چارستوں قائم ہوۓ ہیں‘‘۔
آزاداس کتاب میں شعراء پرتنقید بھی کرتے ہیں ۔ ان کی تنقید مشرقی میں ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص لب و لہجے کی بھی وہ اخلاق خاص اور لہجہ خاص کو اپنے منصب کا سے ضابلہ بجھتے ہیں ۔ آزاد نے تنقید انشاء پردازی کے درمیان لازم وملز وم کا رشتہ قائم کیا اورتنقید کو خالص مشرقی مزاج عطا کیا۔ بات سے بات پیدا کرنے کافن آزادکو خوب آ تا تھا جب مضامین کی بادو | خام آزاد کی شیشہ ہاں میں اترتی ہے تو بادہ پختہ بن جاتی ہے اور ایک گلنار پری کا روپ لے کر شیشے کے اندر سے بلکتی رہتی ہے ۔آزاد کی کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس میں تحریر قاری کو پڑھنے پر مجبور کرتی ہے مفہوم سے قاری کو اسلوب کے سحر میں گرفتار کرتا ہےاور یہ خوبی ہرکسی کے پاس نہیں ہوتی ۔ آزاد کی نثر میں بے ساختگی ہے جس سے تحریر میں لذت ہے ۔ آزاد وہ آدمی ہے کہ جس کا تخیل شاعر کا ہے اور قلم نثر نگر کا۔ رام بابوسکسینہ آزادنٹر میں شاعری کرتے ہیں اور شاعری میں نثر لکھتے ہیں‘‘۔ ان کی نثراس قدر دلچسپ اور شاعرانہ تخیل رکھتی ہے کہ کسی طرح شعر سے کم نہیں ۔ آزاد کی نثر قاری پڑھتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے ۔ ان کی تحریروں میں خطیبانہ انداز موجود ہے ۔ وہ باتیں کرتے ہوۓ اس قد رقریب آ جاتے ہیں کہ گویا قاری کو ہم کلامی کا شرف بخشر | رہے ہوں ۔ ان کا زہن اختراعی زہن تھا یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اعلی پایہ کا شاہ کا تخلیق کیا۔ وہ قوت متخیلہ کی صلاحیت سے مالا مال کے اور یہی اسے زندہ و جاوید بنا تا ۔ آزاد کے پاس دراصل تخلیقی نثر ہے اور تخلیقی نثر سوانح اور تاریخ کے ساتھ ساتھ تنقید کو بھی قبول نہیں کر | لیکن آزاد نے ان تینوں کو یکجا کر کے’’ آب حیات‘ بنایا ہے ۔ آزاد بنیادی طور پر انشاء پرداز میں انہوں نے انشاء پردازی کے رنگ میں تاریخ ،تنقید اور تحقیق کے اوراق کوڈ و بود یا میں اور موضوع کو شوخ وشنگ بنایا ہیں ۔ اسی بنا پر حامد حسن نے انھیں ’’طراحدا راد یب‘‘ کہا ہے اور یہی مولانا آزاد کی حیات ابدی کی ضامن ہے۔ اردو کے حلقوں میں جب بھی بھی انشاء پردازی اور شگفتہ نگاری کا ذکر چٹر جاۓ اس وقت بات آزاد کی جوانی تک ضرور پہونچے گا۔ آزاد کے متعلق احسن فاروقی کہتے ہیں کہ:
انھیں اگر نٹر کا میرا نہیں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا‘‘۔
خامیاں اعتراضات: اس کتاب پر اعتراض جا تا ہے کہ نے تنقید کو تنقید کے طور پر نہیں لیا بلکہ جانبداری مظاہرہ کیا ہے تاریخ اور تنقید خلط کیا ۔ آزاد کا موضوع اگر چہ تاریخ ہے لیکن ان کی تحریر یں قصہ گوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ آزاد حسین کاذکر حاشیے میں کیا ہے جو کہ اس کی ادبی حیثیت کے منافی ہے ۔انھوں نے جانبداری کرتے ہوۓ ذوق کو غالب پر فوقیت دی ہے ۔ اس کتاب میں عظیم آباد اور گولکنڈہ کے دبستانوں کا ذکر نہیں ۔ آزاد نے ولی کو پہلا شاعر کہاں ہے جب کہ قلی قطب شاہ اس سے پہلے ۔ | شاعر ہے۔ کتاب میں بنیادی ماخذات کا صحیح حوالہ نہیں ۔ آزاد نے مرزاد بیر کا جونسب نام تحریر کیا ہے اس پر ان کے ایک شاگرد نے اعترا کیا اور ایک رسالہ شائع کر کے مفت تقسیم کیا جس میں شاعر کے شجرہ نسب اور قدیم شاہی دستاویزات سے مستند ثبوت فراہم کر کے آزادر تردید کی گئی۔ عبدالکی شر کو شکایت تھی کہ اس میں شعرائے لکھنو کا صیح حق ادا نہیں کیا گیا۔