غزل کی تاریخ
غزل کب وجود میں آئی ، یہ نام اس کو کب ملا ، اس کے متعلق کچھ کہنا موجودہ حالات کی روشنی میں ناممکن نظر آتا ہے۔ تاریخ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے صرف یہ بات پتہ چل سکی ہے کہ آٹھو میں صدی عیسوی سے قبل غزل کا کوئی مستقل وجود نہ تھا۔ اور غالبانو یں صدی کے اواخر تک یا اس سے بھی پہلے ، فارسی غزل گوئی کا آغاز ہو چکا تھا ۔
رودکی جو پہلا صاحب دیوان غزل گو شاعر ہے، دسویں صدی کے نصف اول میں گزرا ہے۔ گیار ہو میں صدی میں جب فارسی کے پہلے سب سے بڑے صوفی شاعر شیخ ابوسعید ابوالخیر وکسی موزوں شعری بیت کی ضرورت پڑی تو انہوں نے غزل کو نہیں چھیڑا بلکہ روباعی کو اختیار کیا۔ غزل میں تصوف کی آمیزش سو برس بعد محمود سنائی کے حصہ میں آئی۔ بار ہو میں اور تیر ہو میں صدی میں سنائی کے علاوہ عطار اور رومی نے غزل کی عاشقانہ بات چیت کو تصوف کے نئے کیف سے آشنا کیا۔ یا ایک بہت ہی بڑا ترقی پسندانہ قدم تھا۔ جس کیلئے رائج الوقت غزل کی زمین تیار تھی ۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ مودستائی کی غزل میں ایک قسم کی غرابت محسوس ہوتی ہے ۔ سناتی کے بعد سعدی کی سلاست نے اس نئی غزل کومقبول عام تک پہنچایا اور حافظ کے سرور والحان نے چار دانگ عالم میں ایک گونج پیدا کر دی۔
دوصدیاں اور گزر میں تو صفوی عہد کے شعراء نے فلسفہ ونفسیات کے مضامین کو بڑی خوبی سے غزل میں بیان کیا۔ستر ہو میں صدی میں بعض خیال بند شعراء نے (جن کے سرخیل مرزا عبد القادر بیدل میں عشق سے روگردانی کر کے علوم عقلیہ کو بڑی شد و مد سے غزل کا موضوع قراردیا۔