عہد مرثیہ گوئی
اردومرثیہ گوئی کوقد ماء نے نظر استحسان ( داد وتحسین سے نہیں دیکھا۔ مگر بعد میں سید میر خلیق اور ان کے لائق فرزند میر بریلی انیس اورا نین کے معاصر مرزا سلامت علی دبیر کے زمانہ میں از سرنو مرثیہ نگاری کا کام شروع ہوا ان کے بعد تو مرثیہ گوئی کے لاتعدادشعراء پیدا ہو گئے ۔ مرثیہ ایک قدیم صنف شاعری ہے یہ عربوں کے زمانے سے رائج تھی خودآئمہ معصومین علیہم السلام کے زمانہ مبارک میں شہداء کر بلا کی مرثیہ خوانی عام تھی ۔ کہتے ہیں کہ کر بلا میں امام عالی مقام کی شہادت کے بعد ہندوستان کے دت ہندوؤں کے ایک تجارتی قافلے کا عراق ( کربلا سے گزر ہوا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سرمیدان چند لاشیں بے گوروکفن پڑی ہیں تو انہوں نے ان کے متعلق اہلیان بنی اسد سے دریافت کیا ۔ اور جب وہ قافلہ واپس ہندوستان آیا تو انہوں نے اپنی زبان میں شہداۓ کر بلا کے مرھیے پڑھ کر واقعہ کر بلا سنایا۔ بعد کے ہندو شعراء میں دیوی روپ کماری کی شاعری میں بھی مریے کے نادر نمونے موجود ہیں ۔ عربی کے بعد فارسی میں مرثیہ شروع ہوا اور اس کے بعد اردو کی باری آئی۔
قدیم شعراء دکن نے بھی اردو مرثیے کہے ییں مگر ان کی زبان پھی اور ابتدائی حالت میں تھی ۔ مرثیہ گوئی کی اصل ترقی لکھنو میں ہوئی جہاں اس میں ایک نئی روح پھونکی گئی ۔ لکھنو کے اکثر امراء و رؤسا شیعہ مسلک رکھتے تھے جو اعتقادا شہدائے کربلا پر گر یہ کرنا لازم وملزوم سمجھتے تھے ۔ زمانہ عزاداری اب بجاۓ دس دن ( عشرہ محرم کے چالیس دن ( اربعین چہلم ) ہو گیا تھا اور ان ایام میں پورا لکھنو رنج وغم اور حسرت و ماتم کی ایک زندہ تصویر بن جا تا تھا۔ اس غم والم اور پر سہ شہداء کا بہترین ذریعہ شعراء کے پرسوز کلام کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا۔ اس دور ( انیس و دبیر کے دور میں مرثیہ نے جوترقی کی وہ کسی اور دور میں اس رفتار سے نہ ہوئی ۔ خود بادشاہ بھی مرثیہ کہتے تھے اور مجالس میں اپنا پر اثر اور رفت خیز کلام سناتے تھے ۔فلک مرثیہ گوئی کے درخشاں ستارے انیس و دبیر تھے جن کا کلام نہایت مؤثر اور قدرتی شاعری کا پرتو ( عکس ) ہے ۔ان دونوں بزرگوں کا کلام اردوشاعری کے سر کا تاج ہے ۔اس کی چند خصوصیات یہ ہیں۔
کلام میں اخلاقی تعلیم کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ۔
کلام لکھنو شاعر ناسخ اور اس کے زمانہ کی بداخلاقیوں سے پاک ہے۔
شاہی قصائد کی ہی بیکا لفاظی اور دور از کار مبالغے اس دور میں مطلق نہیں ہیں۔
مناظر قدرت ( جسے سماں باندھنا کہتے ہیں اور جذبات قلبی کی سچی تصویر میں الفاظ میں کھینچی گئی ہیں ۔
پہلی بار شاعری میں مناظر اس طرح بیان ہوۓ جیسے واقعات ابھی ابھی رونماء ہوۓ ہوں ۔