طنز ومزاح (Satire & Humour)
قادر مطلق نے اپنی مخلوق میں سے ہر جاندار کوزیادہ سے زیادہ پانچ جتوں سے نوازا ہے مگر انسان کو تین مزیدتیں چھٹی جس Common Sense) ، جمال (Aesthetic Sense) اور حس مزاح (Sense of Humour) عطا کر کے اسے تمام جانداروں سے ممنیز ومشرف کر دیا ہے ۔ اس وقت ہمارا روئے سخن ، موضوع کے تحت ، صرف حس مزاح کی طرف ہے۔
ہنسنا ہنسانا انسانی فطرت ہے اور طبعی طور پر سی صلاحیت کم یا زیادہ ہرشخص میں پائی جاتی ہے۔ جس طرح انسان جب مظاہر فطرت کے خوب صورت نظاروں کو دیکھتا ہے تو سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ،اسی طرح وہ اپنے معاشرے کے مضحک پہلوؤں پر اپنے آپ کو ہنسنے پر مجبور پاتا ہے۔ مولانا حالی نے مرزا غالب کو’’ حیوان ظریف‘‘ لکھا ہے تو محض اس بنا پر کہ مرزا غالب کی فطرت میں بذلہ سنجی بشوخ چشمی طنز و مزاح اور لطیفہ گوئی کی جس غیر معمولی طور پر موجود تھی اور ان کی کوئی بات بھی لطف وظرافت سے خالی نہ ہوتی تھی ۔سر سید احمد خاں ، علامہ اقبال، آغاحشر کاشمیری وغیرہم کا بھی یہی حال تھا اور ان کی تمام زندگی ساغر ظرافت سے لبریز رہی لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ کچھ بھی لوگوں پر موقوف نہیں بلکہ شوخی و ظرافت کی معیاری مواد موجود ہوتی ہے اور انسان اپنے گردو پیش کے حالات کے تقاضوں کے تحت اسے بروۓ کار لاتا ہے لیکن چوں کہ شاعر یا ادیب اپنے معاشرے کے حساس ترین افراد ہوتے ہیں ، اس لیے یہ صلاحیت تمام لوگوں کی نسبت ان میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
طنز اور مزاح زبان وادب کے دورنگ ہیں جو نظم و نثر دونوں میں پاۓ جاتے ہیں ۔ یہ دونوں لفظ بھی ساتھ ساتھ بولے جاتے ہیں اور کبھی الگ الگ ۔ ان دونوں لفظوں میں معنوں کے اعتبار سے بھی فرق ہے ۔ ہمارے دوست ڈاکٹر اشفاق احمد ورک طنز اور مزاح میں فرق واضح کرتے ہوۓ ایک جگہ لکھتے ہیں:
”طنز اور مزاح ایک ساتھ یعنی بیک وقت دو بنیادی مختلف چیزیں بھی ہیں اور ساتھ ساتھ لازم وملزوم بھی کے یہ صنف انگریزی ادب میں تو یہ دونوں اپنی اپنی خصوصیات، مزاج اور تاثیر کے اعتبار سے اور بہترین صنف کی اعتبار سے نمایاں طور پر الگ الگ پہچانی جاتی ہیں جب کہ اردو ادب میں ان دونوں میں اتنا بنیادی تعلق اور کردار ہے کہ انھیں جدا کرنا کار دشوار ہے ۔ جب کہ مزاح طنز کا لازمہ مزاح کا مقصد محض ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے جب کہ طنز کا مقصد سوچنے کی دعوت دینا اور اصلاح کی طرف راغب کرنا ہوتا ہے ۔
اس اعتبار سے دیکھا جاۓ تو طنز و مزاح ادب کی مشکل صنف ہے اور اس میں لکھنے والے کو بہت محتاط ہو کر لکھنا پڑتا ہے۔
اردوادب میں طنز و مزاح کی صحت مند اور خوش گوار روایت کا آغاز مرزا غالب سے ہوتا ہے ۔مرزا غالب کے بعد’’اودھ پنچ‘‘اور’’اودھ اخبار‘‘ نے بھی اسے فروغ دیا ۔اس کے بعد کے مزاح نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ ، رشید احمد صدیقی اور پطرس بخاری شامل ہیں ۔ ان لوگوں کو اردو مزاح نگاری میں سند کا درجہ حاصل ہے ۔ ان تینوں مزاح نگاروں کے مضامین کے مجمو سے بالترتیب ’’مضامین فرحت‘‘’’ مضامین رشید‘‘ اور ’’پطرس کے مضامین‘‘ کے ناموں سے شائع ہو کر قبول عام کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔
دور حاضر میں طنز و مزاح نے بہت ترقی کی ہے اور بے شمار ادیب اس صنف ادب میں مستند حیثیت رکھتے ہیں ، جن میں ابن انشاء مشتاق احمد یوسفی شفیق الرحمن ، کرنل محمد خاں ، ابراہیم جلیس ،سید ضمیر جعفری محمد خالد اختر ،عطاءالحق قاسمی اور ڈاکٹر اشفاق احمد ورک شامل ہیں۔
جب تک انسان زندہ ہے ،اس کی یہ فطرت بھی زندہ ہے ۔سید ضمیر جعفری نے کیا خوب کہا ہے :
غم نے کب آدمی کو چھوڑا ہے
خوب ہنس لو کہ وقت تھوڑا ہے
امید ہے کہ آنے والے دور میں یہ صنف اور بھی مقبول ہوگی کیوں کہ لوٹ غرض سے مردہ جذبات کو تر و تازہ
کرنے کے لیے انسان کے پاس اس سے زیادہ مؤثر ذریہ شاید کوئی اور نہ ہوگا۔