گیت کی تعریف
گیت ہندی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب راگ نغمہ یا گائی جانے والی چیز ہے۔ یہ کسی بھی زبان میں سب سے پرانی صنف سخن ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک حوا کے آدم سے ابتدائی تعارف ہی سے گیت وجود میں آ گیا۔ دل کی گہرائیوں سے آپ ہی آپ انجر نے والے میٹھے رسیلے ہول کا نام گیت ہے ۔ گیت کسی بھی زبان کے ایسے پھول ہوتے ہیں، جو ھی نہیں مرجھاتے کسی بھی ملک کا سچا اور کھرا ادب گیت ہوتے ہیں ۔ ان میں مقبولیت کا عنصر ب سے زیادہ ہوتا ہے ۔ گیت کا سب سے بڑا وصف یہی ہے کہ یہ نہیں فطری زندگی سے قریب کر دیتے ہیں، محبت و خلوص کا درس دیتے ہیں، بھائی چارے کی فضا ہموار کرتے ہیں گویا مختلف تہذیبوں میں ہارٹی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔ انسانی امنگوں ، راحتوں ،غموں اور حسرتوں کے سب سے بڑے تر جمان ہوتے ہیں ۔ ہندی میں مصنف عورت کے مرد سے اظہار محبت کے لیے وقف رہی ہے۔ کہا جا تا ہے کہ عورت کا سارا جمال اور اس کی ساری نسوانیت گیت کے پیکر میں ڈھل جاتی ہے ۔ ڈاکٹرئیس اقبال کے نزد ٹیک: غزل اور گیت میں فرق یہ ہے کہ جب عورت مرد سے اظہار محبت کرتی ہے تو گیت بنتے ہیں اور جب مردعورت کے سامنے اپنے جذبات آشکار کرتا ہے تو غزل بنتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول: گیت اس وقت جنم لیتا ہے جب عورت کا دل محبت کے بیج کو قبول کر لیتا ہے ۔ اور ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے میں : جذ بہ جب ریس میں تبدیل ہو جاۓ تو گیت جنم لیتا ہے، جسم کی پکار جب کو ملتا کا رنگ پکڑے تو گیت کے بولوں میں ڈھلتی ہے ۔حسن پر ہا کی آگ
میں ملے تو گیت نئے کے پیکر میں ڈھلتا ہے ۔ ابتدا میں کسی بھی معاشرے کے لوک گیت بنتے ہیں ۔ گیت کی زبان ہمیشہ عام فہم ہوتی ہے۔ باقی اصناف میں تکلف یا زبان کی آرائش کی گنجائش نکل آتی ہے، لیکن گیت ، لسانی طمطراق با تراکیب کے کز وفر کا متحمل نہیں ہوتا۔ یہ تو کسی چرواہے کسی کسان کسی پر ہن کسی کھاری کسی کنواری کسی سہاگن کسی متوالے کے دل کی امنگ ہوتی ہے جو ہونٹوں پر آ جاۓ تو میت سے بن جاتی ہے ۔ گیت انسانی جذبات کے اظہار ا موثرترین راہ ہوتے ہیں ان میں کا ذریعہ کسی فلسفے ، نظر یے، نعرے یا مقصدیت کی آمیزش کی گنجائش نہیں ہوتی ، بلکہ یہ خالص تفریح ، ترنگ اور موج مستی کے نمایندہ ہوتے ہیں ۔ البتہ موسیقی اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتی ہے۔ مختلف معاشروں میں گیت کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں ۔ بر صغیر میں موسموں کے تہواروں ( عید شبرات، ہولی، دیوالی، بہار، بسنت وغیرہ ) سابی رسوم ( گانا، مہندی ، رستی وغیرہ ) علاقائی تہذ یہوں ( پنجابی ، سندھی ، براہوی ، پشتو ،کشمیری، گجراتی راجستانی وغیرہ ) کے میلوں ٹھلیوں، صوفیہ کے کلام کوٹا کلچر امراور ڈسا کے ہاں منعقد ہونے والی رقص وسرور کی محافل نے اس صنف کو پروان چڑھانے میں خاصا کردار ادا کیا ہے ۔ ان سب کے ساتھ ساتھ یہ بچوں کو دی جانے والی لوریوں کی شکلوں میں بھی موجود ہیں ۔موجودہ دور میں اس کی سب سے معروف صورت فلمی گیت ہیں ۔
اردو گیت کا آغاز وارتقا
میراجی گیت کے ارتقا کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچے ہیں :” سب سے پہلے آواز بنی ، آواز کے اتار چڑھاؤ سے نر بنے ،نمروں کے نجوگ سے بول نے جنم لیا اور پھر راگ ڈوری میں بندھ کر بول گیت بن گئے۔ ہمارے ہاں گیت کی بنیا دلوک گیت ، ماہیے، نے اور ڈھولے وغیرہ ہیں ۔اردو میں کو فروغ دینے میں ابتدا امیر خسرو کا بہت ہاتھ ہے ۔ جنھوں نے بے شار راگ راگنیاں اختراع کیں ۔ گیت کے ارتقا میں اس کے بعد نمایاں نام خواجہ بندہ نواز گیسو عادل شاہ ثانی نے اس صنف میں خاص طور پر دلچسپی لی ۔ شمالی ہند میں میر،انشاء مصحفی ، جرات دراز کا ہے ۔ دکنی دور میں قلی قطب شاہ ، وجہی ، ابراہیم عادل شاہ، عبداللہ قطب شاہ اور علی اور نظیر اکبر آبادی کے ہاں بھی اس کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ امانت لکھنوی کے۱۸۵۴ء میں تخلیق ہونے والے’’ اندرسجا‘‘ نے تو نہ صرف گیت اور ڈرامے کو لازم وملزوم کر دیا بلکہ ان دونوں اصناف کو ہندوستانی عوام وخواص کے دلوں کی دھڑکن بنا دیا۔ ہندوستان میں اس زمانے میں متعارف ہونے والی تھیٹریکل کمپنیوں نے تو اسے گلے کا ہار سمجھ لیا۔ پورے ہندوستان میں بیج ہونے والے ڈراموں کے لیے رونق بناری ، طالب بناری ، احسن بے تاب اور آغا حشر
کاشمیری نے اپنے زمانے کے مقبول ترین گیت لکھے۔
اسماعیل میرٹھی نے اگر چہ بچوں کے لیے نظمیں لکھیں لیکن ترنم سے بھر پور ہونے کی بنا پر انھیں بچوں کے گیت بھی کہا جا سکتا ہے۔ دور حاضر میں گیت کو ادبی عظمت عطا کرنے والوں میں عظمت علی خاں کا نام بہت اہم ہے۔ پھر حفیظ جالندھری نے اس میں ہندی رچاؤ اور فارسی سوز و گداز کی آمیزش کر کے اس صنف کو با کمال کر دیا۔ گیت کوئسن اور معنویت عطا کرنے والے دیگر شعرا میں اختر شیرانی محمد دین تاثیر، میراجی ، جوش ملیح آبادی ،صوفی تبسم بختار صدیقی ، ابن انشا، قیوم نظر جمیل الدین عالی ، حبیب جالب منیر نیازی ، حمایت علی شاعر اور طفیل ہوشیار پوری کے نام اہم ہیں لمحہ موجود میں فلمی گیت کا ڈنکا بجتا ہے۔ فلمی گیت کو مقبول و معتبر بنانے میں ساغر نظامی، مجروح سلطانپوری، آرزو لکھنوی ، تشکیل بدایونی، بنبرا لکھنوی ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی ، سیف الدین سیف، تنویر نقوی ،کلیم عثمانی ، ریاض شاہد، فیاض ہاشمی ،مسرور انور شیون رضوی مشیر کالمی ، ریاض الرحمن ساغر تسلیم فاضلی بگلزار، جاوید اختر خواجہ پرویز اور احد عقیل روبی کا نمایاں حصہ ہے ۔ان جملہ عناصر کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن اور ریڈیو نے بھی گیت کی صنف کو فروغ دینے اور مقبول عام بنانے میں استطاعت بھر حصہ لیا ہے ۔
مثال کے طور پر میرا جی کے گیت‘‘ کتاب سے گیت کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے۔
متعارف ہونے والی تھیٹریکل کمپنیوں نے تو اسے گلے کا ہار سمجھ لیا۔ پورے ہندوستان میں بیج ہونے والے ڈراموں کے لیے رونق بناری ، طالب بناری ، احسن بے تاب اور آغا حشر کاشمیری نے اپنے زمانے کے مقبول ترین گیت لکھے۔
بچوں کا شاعر اسماعیل میرٹھی نے اگر چہ بچوں کے لیے نظمیں لکھیں لیکن ترنم سے بھر پور ہونے کی بنا پر انھیں بچوں کے گیت بھی کہا جا سکتا ہے۔ دور حاضر میں گیت کو ادبی عظمت عطا کرنے والوں میں عظمت علی خاں کا نام بہت اہم ہے۔ پھر حفیظ جالندھری نے اس میں ہندی رچاؤ اور فارسی سوز و گداز کی آمیزش کر کے اس صنف کو با کمال کر دیا۔ گیت کوئسن اور معنویت عطا کرنے والے دیگر شعرا میں اختر شیرانی محمد دین تاثیر، میراجی ، جوش ملیح آبادی ،صوفی تبسم بختار صدیقی ، ابن انشا، قیوم نظر جمیل الدین عالی ، حبیب جالب منیر نیازی ، حمایت علی شاعر اور طفیل ہوشیار پوری کے نام اہم ہیں لمحہ موجود میں فلمی گیت کا ڈنکا بجتا ہے۔ فلمی گیت کو مقبول و معتبر بنانے میں ساغر نظامی، مجروح سلطانپوری، آرزو لکھنوی ، تشکیل بدایونی، بنبرا لکھنوی ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی ، سیف الدین سیف، تنویر نقوی ،کلیم عثمانی ، ریاض شاہد، فیاض ہاشمی ،مسرور انور شیون رضوی مشیر کالمی ، ریاض الرحمن ساغر تسلیم فاضلی بگلزار، جاوید اختر خواجہ پرویز اور احد عقیل روبی کا نمایاں حصہ ہے ۔ان جملہ عناصر کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن اور ریڈیو نے بھی گیت کی صنف کو فروغ دینے اور مقبول عام بنانے میں استطاعت بھر حصہ لیا ہے۔
مثال کے طور پر میرا جی کے گیت‘‘ کتاب سے گیت کا ایک نمونہ ملاحظہ کیجیے
پھر اس بندھی ہے من کی
پر جلی جوت جیون کی
لو ! جلی جوت جیون کی
اب دور ہوا اندھیارا
اب روپ نیا ہے سارا
اب چھلمل چھلمل تارے
اب جمگ چاند ہے پیارا
پھر آس بندھی ہے من کی
پھر ملی جوت جیون کی