افسانہ نئی بیوی
افسانہ " نئی بیوی " از منشی پریم چند کا فکری تجزیہ
پریم چند نے اس افسانے میں چار حوالوں کو بنیاد بنا کر بہترین تجزیہ پیش کیا ہے، جن میں ایک قانونِ فطرت، ازدواجی مسائل، بے جوڑ کی شادی اور جوان عورت کی نفسیاتی اور جسمانی ضروریات شامل ہیں۔۔۔قانونِ فطرت کے حوالے سے اُنہوں نے پیغام دیا ہے کہ ہر چیز عروج کے بعد زوال پذیر ہونے لگتا ہے، جیسے جوانی کے بعد بڑھاپے کا آنا فطری قانون ہے، جس کو تسلیم کرلینا چاہیئے۔
ازدواجی مسائل پر بحث کرتے ہوئے وہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ بہت سے لوگ بوڑھا ہونے کے باوجود خود کو جوان ثابت کرنا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ دوسری شادی بھی کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے ان کو گھناؤنے مسائل اور نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔وہ یہ بھی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ زوجہ کے حقوق کے معاملے میں عدل و انصاف سے کام لینا چاہیئے۔
جہاں تک بے جوڑ شادی کی بات ہے تو پریم چند نے اس کے خلاف آواز بلند کی ہے۔اس لیے کہ اس سے نہ صرف جوان عورت کا استحصال ہوتا ہے بل کہ دوسرے گھناؤنے نتائج بھی برآمد ہوتے ہیں۔اس کی مثال ڈنگا مل کی دوسری بیوی آشا اور جگل کا تعلق ہے۔
جو جوان عورت کی نفسیاتی اور جسمانی ضروریات کی بات ہے تو اس حوالے سے افسانہ نگار نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ جوان عورت محض زیورات، کپڑوں اور دولت کی ریل پیل سے خوش نہیں رہ سکتی بل کہ وہ اپنے شایانِ شان شوہر کی موجودگی میں خوش اور مطمئن رہ سکتی ہے۔مثال کے طور پر لالہ ڈنگا مل جس کے پاس دولت اور آسائشوں کی بہتات تو ہے لیکن بوڑھا ہونے کی وجہ سے آشا کا غریب نوجوان جگل طرف میلان اس بات کا مظہر ہے کہ صرف دولت کی ریل پیل اور آسائشوں کی دستیابی سے جوان عورت خوش اور مطمئن نہیں رہ سکتی بل کہ کچھ اور بھی تقاضے ہیں جن کی تکمیل فطری بات ہے۔۔۔