فارسی شاعرات
فارسی شاعری کی ابتداء حنظلہ بادغیسی سے ہوتی ہے ۔لیکن رودکی سمرقندی کو پہلا صاحب دیوان شاعر ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ فارسی شعراء کے تذکروں میں شاعرات غائب ہیں ۔ جس طرح عربی کے ابن رشیق قیروانی نے اپنی کتاب العمد ہ میں شاعرات کا تذکرہ نہیں کیا۔ بالکل اسی طرح محمد عوفی اور دولت شاہ سمرقندی نے اپنے تذکروں ’لباب الباب اور ” تذکرۃ الشعراء میں بھی شاعرات کا ذکر نہیں کیا اور بعد کے محققین میں علامہ ٹیلی ، براؤن اور رضازاد شفق نے بھی انہیں نظر انداز کر دیا۔ وہ شعر انجم ، ہسٹری آف پرسیا، اور تاریخ ادبیات ایران‘ سے غائب ہیں ۔ اس طرح فارسی ادب میں شاعرات موجود تو قدیم زمانے سے تھیں لیکن ان کے احوال و آثاراب باقی نہیں ہیں جس سے ان کا کارنامہ پس پردہ رہ گیا ہے۔
فارسی شاعرات میں سب سے مشہور معتبر اور مستند نام ایران کے نامور عالم ملا محمد صالح قزوینی کی بیٹی قرۃ العین طاہرہ کا ہے جن کی علمی واقفیت بلند خیالی اور نکتہ دانی کا یہ عالم تھا کہ اقبال جیسا مشہور شاعران کے فلسفہ زندگی اور شاعری کا صرف معترف ہی نہیں معتقد بھی ہے۔ اقبال نے اپنی مشہور تصنیف جاوید نامہ میں انہیں مشعل راہ اور موجد حرارت و حرکت قرار دیا ہے ۔
علامہ اقبال اپنے مرشد روی کے ہمراہ جب فلک مشتری پر پہنچتے ہیں تو انہیں وہاں تین پاک باز روحیں دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کے جسم پر لالہ گوں لباس ہیں اور ان کے چہرے سوز دروں سے تمتمار ہے ہیں۔ رومی اقبال سے کہتے ہیں اگر تو نے شوق بے پروا کونہیں دیکھا ہے تو ان کا نظارہ کر اور ان کی آتش نوائی سے زندگی حاصل کر ۔ یہ تینوں رومیں غالب ، منصور اور قرۃالعین طاہرہ کی تھیں جنہوں نے بہشت میں جانے سے انکار کر دیا تھا اور بہشت پر گردش دوراں کو تر جیح دی تھی ۔ طاہرہ کا عقیدہ تھا کہ جنوں کا گناہ نئی دنیاؤں کی تخلیق کرتا ہے۔ شوق بے حد پردوں کو چاک کر دیتا ہے اور لذت تازہ کاری سے طرز کہن کا خاتمہ ہوتا ہے ۔ طاہرہ اقبال سے اپنے کلام کے ذریعہ مخاطب ہوتی ہے ۔سوز دستی اور ذوق وشوق میں ڈوبی ہوئی ایک غزل سناتی ہے جس کے چند اشعار اسطرح ہیں ۔
گر بتو افتد نظر چہرہ به چہرہ رو برو
شرح دهم عم تر ا نکته به نکته مو به مو
از بے دیدن رخت ہمچو صبا فتاده ام
خانہ بخانہ در بدرکوچہ کوچہ کوبکو
در دل خویش طاہرہ گشت و ندید جز ترا
صفحه به صفحه لا به لا پردہ بہ پردہ تو بہ تو
بی سوز و گداز ، شورمستی ،قوت جبروت اور یقین محکم ان کی شاعری کا خمیرہ ہے اور یہی وہ چیز میں ہیں جو کسی بھی فنکارہ کے افکار میں طوفان بر پا کر دیتی ہیں اور انسان طوفان کا رخ موڑ دیتا ہے ۔ یہی وہ شور ہے جو اقبال کی پوری شاعری میں سنائی دیتا ہے اور یہی وہ خوبیاں ہیں جو طاہرہ کو دیگر شاعرات سے بلند کرتی ہیں۔
سی بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ جہاں ہندوستان عربی شاعرات سے پوری طرح خالی ہے وہیں فاری شاعرات سے پر۔ مغلیہ عہد میں ہمیں ایسی بہت ہی شہزادیاں نظر آتی ہیں جو نہ صرف شعر کہنے پر قادر تھیں بلکہ صاحب دیوان بھی ہیں اور اس زمانے میں ہندوستان کو علمی وادبی لحاظ سے ایران پر فوقیت حاصل ہے ۔ ان شاعرات میں سب سے پہلا نام آتا ہے بابر کی بیٹی گل بدن کا جو صاحب کتاب بھی ہیں۔
گل بدن بیگم
مغل شہزادیوں کی علمی بزم میں سب سے پہلا نام گلبدن بیگم کا آ تا ہے ۔ یہ بابر کی بیٹی تھیں ۔ شعر و شاعری کا ذوق میراث میں ملا تھا۔ اعلی تعلیم وتربیت کی بدولت تر کی اور فاری زبان کی قابل قدر انشا پرداز اور شاعری ہوئیں ۔ انکی تصنیف ہمایوں نامہ بہت ہی مشہور ہے۔ جس میں ہمایوں کے عہد کی تہذیبی ، معاشرتی اور تاریخی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ اس کتاب کی انشا پردازی کے متعلق علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں۔
’فارسی زبان میں سادہ اور صاف واقعہ نگاری کا عمدہ سے عمدہ تر نمونہ تزک جہانگیری اور رقعارت عالمگیری ہے ۔لیکن انصاف یہ ہے کہ ہمایوں نام کچھ ان سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے ۔ اس کے چھوٹے چھوٹے فقرے سادہ اور بے تکلف الفاظ روز مرہ کی عام بول چال طرز ادا کی بے ساختگی دل کو بے اختیار کر دیتی ہے ۔“ ریاض الشعراء، مخزن الغرائب اور میر مہدی شیرازی کے تذکرہ’ تذکرۃ الخواتین‘ میں ان کا نام شاعرات کی فہرست میں شامل ہے اور ان کا بیشعر مثال کے طور پر تینوں تذکروں میں پایا جا تا ہے ۔
ہر پری روے کہ او با عاشق خود یار نیست
تو یقیں می داں کہ پیچ از عمر برخورد دار نیست
گل رخ بیگم/ گلرخ بیگم
بادشاہ بابر کی یہ بیٹی تھی اور صالح سلطان بیگم کے بطم سے تھی۔ گل رخ بیگم شہزادی ہونے کے ساتھ ساتھ شعرو شاعری میں مہارت رکھتی تھی اور فاری وتر کی زبان میں شعر کہتی تھی لیکن بحیثیت شاعر مشہور بھی ۔ صبح گلشن کے مولف نواب علی حسن خان صاحب ان کی شاعری کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔ ملاحظہ ہو!
"پہ گلرخی وشگفتہ روئی وسلیقه شاعری سرآمد ز مرۂ نسواں غنچه و بانش بینی اشعار لطیف می شگفت"
تمام تذکرہ نگاران کے شاعرہ ہونے کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کی خوبیوں میں چار چاند لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ریاض الشعراء، مخزن الغرائب اور صبح گلش میں بی شعر بھی انہیں کی طرف منسوب ہے۔
شعر ملاحظہ ہو۔
بیچ کہ آں شوخ گل رخسارے بے اغیار نیست
راست بوداست آنکه در عالم گل بے خارنیست
سلیمہ سلطان بیگم
یہ بابر کی نواسی اور گل رخ گلرخ کی بیٹی تھی پہلے بیرم خان سے شادی ہوئی تھی اور اس کے انتقال کے بعد اکبر کے حبالہ عقد میں آئی ۔ شاعری کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت بھی رکھتی تھی ۔ جہانگیر اس کی قابلیت وصلاحیت کا معتقد تھا ان کے انتقال پر تزک جہانگیری صفحہ ۱۱۴ میں لکھتا ہے۔ ی جمیع صفات حسنه آراستگی داشتند ، در زمان این مقدار ہنر و قابلیت کم جمع میں شود (۱۲) آئین اکبری ، اقبال نامہ جہانگیری اور تاثر الامراء نے اس کا تخلص مخفی لکھا ہے لیکن مخزن الغرائب نے اس کا تخلص مخلص لکھا ہے اس یہ شعر بھی تذکروں میں پایا جا تا ہے۔
کا کلت را من زمستی رشته جان گفتم ام
مست بودم ز میں مسبب حرف پر پیشاں گفته ام
مذید معلومات ملاحظہ فرمائیں ۔
جانان بیگم
جانان بیگم بیرم خان کی عبد الرحیم خان کی بہن اور کر کے کے شہزادہ دانیال کی بیوی تھی ۔ بہت ہی حسین وجمیل عا قا تعلیم یافتہ اور دوراندیش خاتون تھیں ۔ زیارت حرمین شریفین سے بھی مشرف ہوئی اور کلام مجید کی تفسیر بھی لکھی۔ ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھی شاعر بھی تھی لیکن
اسلامی مشغولیات اور مذہبی مصروفیات نے اس فن کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا۔ان کی علمی شخصیت نے شعری حسیت کا گلا گھونٹ دیا۔ ان کا کلام ان کی شعری صلاحیت کی شہادت پیش کرتے ہیں ۔ چند شعر نمونہ کے لیے پیش خدمت ہے۔
خیز تا ر ه بر ه گزارکنیم
خویش را چشم انتظا ر کنیم
ز راه امن وسلامت کسی باد برسد
غیار تا نشود خاک پا با دنرسد
نور جہاں بیگم
نور جہاں صرف جہانگیر کی بیوی ہی نہیں حرم اور حکومت کے لیے باعث رونق و زینت بھی تھی ۔ اس نے شاہی محل میں داخل ہوتے ہی اپنے شوق اور ذوق سے سارا مذاق ہی بدل دیا۔ تمام چیزوں میں جدت آگئی ۔ وہ چونکہ ایک علم پرور باپ کی بیٹی تھی اور ایک حکمراں کی ہی نہیں بلکہ ایک اعلی ادب اس کے خون میں سرایت کر گیا تھا۔ اس کی استعدادعلمی اورخن سنجی کا اعتراف ہر اہل علم و دانش کر تے ہیں ۔ مراۃ
الخیال کے مؤلف کا بیان ہے ۔
در بذلہ سنجی وخن گوئی وشعر نمی و حاضر
جوابی از نساۓ زمن ممتاز بود “
"ید بیضا اس طرح اس کی خوبیاں بیان کرتا ہے ۔ در وادی شعر بسیار خوش سلیقه است"
نور جہاں کی بدیہہ گوئی اور حاضر جوابی کی بہت سی مثالیں ہیں جس کی تصدیق منتخب الباب اور تاثر الامراء سے بھی ہوتی ہے۔ چند دلچسپ مثالیں پیش کی جاتی ہیں جس سے اس کے شاعرہ ہونے کی بھی
تصدیق ہوتی ہے۔ ایک روز جہانگیر کپر ابدل رہا تھا اس کا بٹن لعل بے بہا کا تھا نور جہاں نے اس کو دیکھتے ہی بیشعر پڑھا۔
ترانه تکمیلعل است برقباۓ جرید
شده است قطره خون منت گر یہاں گز
ایک مرتبہ جہانگیر نے عید کا چاند دیکھ کر یہ مصرع پڑھا
”ہلال عید بر اوج فلک ہویدا شد
نور جہاں نے فی البد یہ دوسرا مصرع پڑھا
کلید میکده گم گشته بود پیدا شد
ایک مرتبہ جہانگیر اور نور جہاں کی ملاقات کئی دنوں کے بعد ہوئی۔ ملاقات کی خوشی میں نور جہاں کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے ۔ جہانگیر نے اس کیفیت کو دیکھ کر یہ مصرع پڑھا۔
گو ہر ز اشک چشم تو غلطید و می رود
تو نور جہاں نے دوسرا مصرع فی البدیہہ کہا
” آبی کہ بے تو خورده ام از دیده می روم
ماہ محرم ۱۰۲۸ھ میں آسمان میں ایک دم دارستارہ نظر آیا نور جہاں نے اس کو دیکھ کر بیشعر موزوں کیا ۔
"ستاره نیست بد میں طول سر برآورده
فلک بنا طر ی شه کمر بر آورده
نور جہاں نہ صرف شاعر بھی بلکہ شاعرات کی سر پرستی بھی کرتی تھی جسکی وجہ سے بہت سی شاعر و اس وقت موجودتھیں جس میں سب سے مشہور نام مہری ہروی کا ہے جس کا ذکر بیشتر تذ کرہ نگاروں نے کیا ہے ۔
جہاں آرا بیگم
شاہ جہاں اور ممتاز گل کی بیٹی تھیں ۔ سیاسی حیثیت سے ان کا مقام بہت بلند تھا۔ممتازحل کی گودنور جہاں کی صحبت اور شاہجہانی عہد کی علمی وادبی فضاء میں رہ کر علم وفضل کے لحاظ سے بھی ان کی شہرت کافی تھی ۔ ابتدائی تعلیم ستی النساء خانم سے حاصل کی جو ملک الشعراء طالب آملی کی بہن تھیں ۔ جہاں آراء کا تعلیم کا سفر تا حیات جاری رہا۔ انہوں نے اعلی تعلیم پائی۔ جب وہ صرف ۲۶ سال کی تھیں تو انہوں نے مونس ارواح لکھی جس میں حضرت معین چشتی اور ان کے سلسلے کے بارے میں انتہائی عقیدت کے ساتھ لکھا ہے ۔ وہ مصنف بھی تھی اور شاعرہ بھی ، مونس ارواح میں ان کے اشعار کثرت سے ملتے ہیں ۔
نمونہ کے طور پر حد کے اشعار ملاحظہ ہوں ۔
آنجا کہ کمال کبریاۓ تو بود
عالم نمی از بحر عطاۓ تو بود
ما را چه حد حمد و ثنائے تو بود
ہم حمد وثناۓ تو سزاۓ تو بود
جہاں آراء بیگم تمام صنف شاعری میں طبع آزمائی کرتی تھیں ۔ لیکن ان کی شاعری اور شخصیت میں
زیادہ تر در د احمد اور ثنا کے عناصر ہی پاۓ جاتے ہیں جس کی تصدیق مونس الارواح کے الفاظ اور اشعار سے بھی ہوتی ہے ۔انہوں نے اپنے باپ کی وفات پر ایک مرتبہ بھی کہا تھا جس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں ۔
ان کی قبر پر میشعر لکھا ہے۔
بغیر بنده نه پوشد کسی مزار مرا
کہ قبر پوش غریباں ہمیں گیا بس اس
زیب النساء بیگم
اور نگزیب عالمگیر سب سے پہلی اور تھی جو کہ دار ان کا لن تھی ۔ دستور تیموریہ کے مطابق اس کو سب سے پہلے قرآن پڑھایا گیا جس کے لیے ایک در باری کی ماں مریم کو بحیثیت معلم مقرر کیا جو حافظ کلام پاک تھیں ۔ زیب النساء نے بھی حفظ کیا۔ زیب النساء نے حفظ کے بعد عر بی اور فارسی کی اعلی تعلیم حاصل کی ۔ عالمگیر نامہ، ماثر عالمگیری اور مرۃ العالم اس کی تصدیق ان الفاظ میں کرتے ہیں ۔
واز تحصیل علوم عربی و فارسی بہیرہ تمام اندوختہ فقہ، اصول فقہ علم حدیث اور شعر و شاعری کی تعلیم ملاحمد سعید اشرف مازندرانی سے حاصل کی ۔ وہ شاعرہ بھی تھیں اور بہترین کلام موزوں کرتی تھیں ۔ ان کا ایک مجموعۂ کلام دیوان مخفی کے نام سے شائع ہو کر بازاروں میں مقبول ہے مگر ارباب نظر سے زیب النساء کا دیوان نہیں مانتے کیونکہ اس کی تصدیق کسی تذکرہ نگار نے نہیں کیا ہے ۔ مستند تذکرہ نگاروں میں احمد علی بھی مخزن الغرائب میں زیب النساء کے ذکر میں لکھتے ہیں ۔
اما دیوان اشعارش جاۓ بنظر نیامد مگر در تذکره انتخابش به نظر آمد ولیکن اعتبار را نشاید یسیب آنکه اکثر شعراشا تذہ صاحب آں تذکرہ بنام بیگم نوشته بود.
علامہ شبلی نعمانی نے بعض تذکروں کے اسناد پر صرف مندرجہ ذیل رباعی کو زیب النساء کی طرف منسوب کیا ہے۔
بشکند دستی که نم در گردن یاری نشد
کور چشمی که لذت گیر دیداری نشد
صد بہار آ خر شد و بر گل به فرقی جا گرفت
غنچه باغ دل ما زیب دستاری نشد
علامہ شبلی نعمانی بھی ان کے معترف تھے۔ لکھتے ہیں ! کہ
”عالمگیر کی خشک مزاجی سے شاعری اور شعراء کو جو نقصان پہونچا تھا اس کی تلافی زیب النساء کے حسن مذاق سے ہوگئی ۔