اقبال کی فارسی نظم نگاری
تیموریوں کے دور میں کشمیر فارسی شاعری کا ایک بڑا مرکز بن گیا تھا۔ تیموری سلاطین میں اکبر جہانگیر اور شاہجہان سیر وتفریح کے لئے اکثر کشمیر جایا کرتے تھے اور ان کے ساتھ پاۓ تخت کے مشہور شعراء بھی ہوتے تھے جن کی وجہ سے کشمیر میں فارسی شاعری کا خاص ذوق پیدا ہو گیا تھا اور فارسی غزل گوئی کی ایک خاص طرز مثالیہ پیدا ہو گئی تھی جس کو کلیم مرزا صائب اور غنی کشمیری نے خاص طور پر ترقی دی تھی اور اس کی وجہ مولانا شبلی نعمانی مرحوم نے شعر انجم جلد سوم ( ص 219 ) میں سیاسی ہے:
یہ تینوں شاعر کشمیر میں مدت تک ساتھ ہمدم و ہم قلم رہے تھے اور باہم مشاعرے کرتے رہتے تھے۔ اس لئے قیاس یہ ہے کہ ہم محبتی کے اثر نے اس طرز کو مشترک جولانگاہ بنا دیا۔ علی قلی سلیم بھی مثالیہ میں کمال رکھتا ہے اور اس کی بھی وجہ شاید یہی ہو کہ سلیم بھی یہیں ( کشمیر میں مدفون ہے ۔ اس بناء پر کشمیریوں میں قدرتی طور پر فارسی زبان کے ساتھ مناسبت کا پیدا ہونا ضرور تھا۔ اس قدرتی مناسبت کے علاوہ ڈاکٹر صاحب نے جس زمانے میں تعلیم و تربیت حاصل کی اس میں قدیم مکتبی نظام تعلیم جس کا لازمی جزو فارسی زبان تھی' قائم تھا اور ڈاکٹر صاحب نے اس طریقہ تعلیم سے کافی فائدہ اٹھایا تھا اور اسکول کے اوقات کے بعد مساجد و مکا تب میں مختلف مولیوں کی خدمت میں حاضر ہو کر فاری پڑھا کرتے تھے ۔ وہ خودفرماتے ہیں:
لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اقبال کو فارسی کیونکر آ گئی جبکہ اس نے اسکول یا کالج میں یہ زبان نہیں پڑھی۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ میں نے فارسی زبان کی تحصیل کے لئے اسکول ہی کے زمانے میں کس قدر محنت اٹھائی اور کتنے اساتذہ سے استفادہ کیا۔
مولوی سید میر حسن صاحب کے فیض صحبت نے اس ذوق کو اور بھی جلا دی اور لوگوں کا خیال ہے کہ قیام یورپ کے زمانے میں ڈاکٹر نکلسن اور براؤن کے فیض صحبت نے ان کو اور بھی چیکا دیا بہر حال ڈاکٹر صاحب کو فارسی زبان اور فارسی شاعری سے ابتداء ہی سے دہی اور سبی دونوں قسم کی مناسبت پیدا ہو گئی تھی اور وہ آہستہ آہستہ فارسی شعر کہنے لگے تھے چناں چہ 1902ء میں منشی سراج الدین نے کشمیر سے ان کی خدمت میں چار انگشتر یاں تحفہ بھیجی تھیں ۔ ان کے شکریہ میں انہوں نے ایک طویل نظم لکھی ہے جس کا پہلا بند اردو میں اور دوسرا بند فارسی میں ہے۔ یا ظلم ان کے مطبوعہ کلام میں شامل نہیں ہے لیکن اقبال نامہ صفحہ 16 17 18 19 میں پوری درج ہے۔ اس کے بعد 1904ء میں ڈاکٹر آرنلڈ لاہور سے قطع تعلق کر کے یورپ گئے تو انہوں نے نالہ فراق کے عنوان سے ان کے متعلق جو الوداعی نظم لکھی وہ ان کی شاعری کے دور اول میں شامل ہے لیکن اس کی ٹیپ کے متعدد اشعار فارسی زبان میں ہیں:
ناز آغوش و دانش داغ حیرت چیده است
چو شمع کشت در چشم نگه خوابیده است
ابر رحمت دامن از گلزار من بر چیده رفت
اند کے بر غنچہ ہاۓ آرزو تاپید و رفت "
شور میلی کو؟ که باز آرایش سودا کند
خاک مجنون را غبار خاطر صحرا کند
اسی دور کی ایک نظم بلال‘ ہے اور اس میں بھی فارسی اشعار کی آمیزش ہے:
لیکن اب تک انہوں نے فارسی زبان میں کوئی مستقل غزل یا مسلسل نظم نہیں لکھی تھی ۔ شیخ عبدالقادر صاحب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ( یورپ میں ) وہ ایک دوست کے ہاں مدعو تھے جہاں ان سے فارسی اشعار سنانے کی فرمائش ہوئی اور پوچھا گیا کہ وہ فاری شعر کہتے ہیں یا نہیں؟ انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ انہوں نے سواۓ ایک آدھ شعر کہنے کے فارسی لکھنے کی کوشش نہیں کی مگر کچھ ایسا وقت تھا اور اس فرمائش نے ایسی تحریک ان کے دل میں پیدا کی کہ دعوت سے واپس آ کر بستر پر لیٹے ہوۓ باقی وقت وہ شاید فارسی شعر کہتے رہے اور صبح اٹھتے ہی مجھ سے ملے تو دو تازہ غزلیں فارسی زبان میں تیارتھیں جو انہوں نے مجھے زبانی سنائیں لیکن اس کے بعد اُنہوں نے یورپ میں کوئی فارسی نظم نہیں لکھی اور ہندوستان میں واپس آنے کے بعد بھی چار پانچ برس تک ان کی کوئی فارسی نظم منظر عام پر نہیں آئی اور غالباََ اس زمانے میں وہ اپنے آپ کو فاری زبان میں شعر کہنے کے لئے تیار کرتے رہے ہیں۔ ان کے کتب خانے میں اکثر فارسی زبان میں شعر کہنے کے لئے تیار کر تے رہے۔ ان کے کتب خانے میں اکثر فارسی شعراء کے دواوین موجود تھے اور انہوں نے اپنے کلام میں جو سمینہیں کی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ایسی شاطو ملا عرشی، فیضی ریحتی ملک، صائب غنی بیدل اور خاقانی وغیرہ کے کلام کا مطالعہ کیا تھا اور یہ مطالعہ غالباََ اسی غرض سے کیا گیا تھا کہ ان کی آئندہ فارسی شاعری مشہور فارسی شعراء کے زبان اور طرز بیان سے منحرف اور بیگانہ نہ ہونے پاۓ لیکن میں پتہ نہیں چلتا کہ انہوں نے کن اسباب سے فارسی شاعری کی طرف توجہ کی۔ لوگوں نے قیاسی و جنہیں بہت کی بیان کی ہیں۔
شیخ عبدالقادر صاحب نے مقدمہ بانگ درا میں لکھا ہے کہ انہوں نے یورپ میں حالات تصوف یعنی الہیات ایران پر کتاب لکھنے کے لئے جو کتب بینی کی اس نے ان کو اس طرف مائل کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یورپ میں جو دو غزلیں کہیں ان سے بھی ان کو اپنی فارسی گوئی کی قوت کا حال معلوم ہوا جس کا انہوں نے پہلے اس طرح امتحان نہیں کیا تھا۔ ۔ اسٹڈی ڈاٹ کام ) پروفیسر عبد القادر سروری کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا پیغام ہندوستان سے باہر دوسرے اسلامی ممالک میں بھی پہنچانا چاہتے تھے لیکن اردو زبان صرف ہندوستان تک محدود ہے اس لئے انہوں نے فارسی زبان کو اپنی شاعری کا ذریعہ بنالیا تا کہ مسلمانوں کا زیادہ حصہ اس کو پڑھ سکے اور ڈاکٹر صاحب کے متعدد اشعار سے بھی اشارہ اس کی تائید ہوتی ہے۔